افتخار عارف کی دو خوبصورت غزلیں
قِصّہ ٴاہلِ جنُوں کوئی نہیں لِکّھے گا
جیسے ہم لِکھتے ہیں، یُوں کوئی نہیں لِکّھے گا
وَحشتِ قلبِ تپاں کیسے لکھی جائے گی!
حالتِ سُوزِ دَرُوں، کوئی نہیں لِکّھے گا
کیسے ڈھہ جاتا ہے دل، بُجھتی ہیں آنکھیں کیسے؟؟
سَر نوِشتِ رگِ خُوں، کوئی نہیں لِکّھے گا
کوئی لِکّھے گا نہیں ، کیوں بڑھی، کیسے بڑھی بات؟؟
کیوں ہُوا درد فزُوں؟ کوئی نہیں لِکّھے گا
خلقتِ شہر سَر آنکھوں پہ بِٹھاتی تھی جنہیں
کیوں ہُوئے خوار و زبُوں؟ کوئی نہیں لِکّھے گا
عرضیاں ساری نظر میں ہیں رَجَز خوانوں کی
سب خبر ہے ہمیں، کیُوں کوئی نہیں لِکّھے گا
شہر آشُوب کے لکھنے کو جگر چاہیے ہے
مَیں ہی لِکُّھوں تو لکُھوں، کوئی نہیں لِکّھے گا!
بے اثر ہوتے ہُوئے حرف کے اِس موسِم میں
کیا کہُوں،کس سے کہُوں، کوئی نہیں لِکّھے گا
✿✿✿✿✿✿✿
دل کو دِیوار کریں، صبر سے وحشت کریں ہم
خاک ہو جائیں جو رُسوائی کو شُہرت کریں ہم
اِک قیامت کہ تُلی بیٹھی ہے پامالی پر
یہ گُزرلےتوبیانِ قد وقامت کریں ہم
حرف ِ تردید سے پڑ سکتے ہیں سَو طرح کے پیچ
ایسے سادہ بھی نہیں ہیں کہ وضاحت کریں ہم
دل کے ہمراہ گزارے گئے سب عُمرکے دِن
شام آئی ہے تو کیا ترکِ محُبت کریں ہم
اک ہماری بھی امانت ہے تہ ِ خاک یہاں
کیسے ممکن ہے کہ اس شہر سے ہِجرت کریں ہم
دن نکلنے کو ہے چہروں پہ سجا لیں دُنیا
صُبح سے پہلے ہر اِک خواب کو رُخصت کریں
شوق ِآرائش ِ گل کایہ صلہ ہے کہ صبا
کہتی پھرتی ہے کہ اب اور نہ زحمت کریں ہم
عُمر بھر دل میں سجائے پھرے اوروں کی شبیہ
کبھی ایسا ہو کہ اپنی بھی زیارت کریں ہم
افتخار عارف
ٰImage Credit : Urdu Mehfil |
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں