فرض شناسی


فرض شناسی

اقتباس


ایک بڑھیا بےچاری بڑی مشکل سے ہانپتی کانپتی ٹرین کے ڈبے میں سوار ہوگئی ۔ چھوٹی سی گٹھری اس کے ساتھ تھی ۔ اسے لے کر بامشکل وہ ایک طرف کو تھوڑی سی جگہ بنا کر بیٹھ گئی ۔ یہ دو آدمیوں کا چھوٹا سا فرسٹ کلاس کا ڈبہ تھا لیکن اس کے اندر بیس آدمی ٹھسے ہوئے تھے۔ کوئی کھڑا تھا، کوئی بیٹھا تھا، جو جگہ لوگوں سے بچ گئی تھی اس میں سامان رکھا ہوا تھا۔ حالات کچھ ایسے تھے کہ کوئی کسی سے پوچھ نہ سکتا تھاکہ ۔۔۔۔ بھیا تم کس درجہ کے مسافر ہو؟ یہ فرسٹ کلاس کا ڈبہ ہے اور پہلے سے دو آدمیوں کے لئے ریزرو ہے۔

یہ ان دنوں کی بات ہے جب ملک تقسیم ہوا تھا پاکستان وجود میں آیا ہی تھا، اللہ اور رسول ﷺ کے نام پر۔ اس لئے یہی مسلمانوں کا وطن تھا۔ ہندوستان سے مسلمان سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر جان بچائے کسی نہ کسی طرح پاکستان پہنچ رہے تھے ۔

پاکستان ۔۔۔۔ جو اُن کی تمناؤں کا ثمرِ نورس تھا۔
پاکستان ۔۔۔۔جس کے لئے اُنہوں نے تن من دھن کی قربانی دی تھی۔
پاکستان ۔۔۔۔جسے اسلام کی نشاطِ ثانیہ کا گہوارہ بننا تھا۔ پاکستان ان کے لئے سب کچھ تھا۔ دین بھی دنیا بھی۔ اس کا چپّہ
چپّہ ان کے لئے مقدس تھا۔

اس گلِ تازہ کی خاطر اُنہوں نے خیابان و گلزار سب چھوڑ دئیے تھے۔ ایک لمحے کے لئے بھی یہ نہ سوچا تھا کہ ان کا کیا ہوگا۔ اُنہیں تو بس یہی ایک خوشی تھی کہ دو صدیاں گزرنے کے بعد پھر وہ دن آئے تھے کہ ارضِ ہمالہ کے ایک گوشے میں لا الہ الاللہ کا پرچم لہرا رہا تھا۔ وہ پرچم جو مسلمانوں کی عزت و وقار کا مظہر تھا۔

یہ بے چاری بُڑھیا بھی اپنا سب کچھ لٹا کر نہ جانے کس طرح بچتی بچاتی پاکستان پہنچ گئی تھی۔ اسے اتنا ہوش ہی کہاں تھا کہ یہ تمیز کر سکتی کہ وہ کس درجہ میں آکر بیٹھ گئی۔ اُسے تو بس ایک بات معلوم تھی کہ ۔۔ ۔ یہ ہمارا ملک ہے ، یہ ہماری گاڑی ہے۔ جو دوسرے مسافر تھے ان کا بھی یہی حال تھا۔ ہر ایک کا چہرہ غم و الم کی تصویر تھا۔ کیا کیا کچھ کھویا تھا کہ اس ملک کو پا لیں یہ کون کہتا ؟کیا کہتا ؟ کس سے کہتا؟ مسلسل صدمات برداشت کرتے کرتے دلوں میں ناسور پڑ گئے تھے اور زبانیں گنگ ہوگئی تھیں۔

گاڑی کو پاکستان کی سرحد میں داخل ہوئے کچھ بہت زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ ایک اسٹیشن پر ٹکٹ چیکر ڈبے میں داخل ہوا ۔ اس کے ہاتھ میں ایک کاپی تھی، مشتاق احمد صاحب اپنی آپ بیتی کا روانِ حیات میں لکھتے ہیں۔ "ٹکٹ چیکر کو دیکھ کر معاً مجھے خیال آیا کہ مدتوں میں ریلوے کا افسر رہا ہوں۔ دیکھو ! یہ چیکر کیا کرتا ہے۔

چیکر نے بڑھیا کو دیکھا تو اس سے ٹکٹ کا مطالبہ کیا۔ و ہ اللہ کی بندی کسی قابل ہوتی تو کچھ کہتی۔ بے اختیار اس کی آنکھوں سے آنسو ٹوٹ پڑے ۔ اس کے پاس ٹکٹ نہ تھا۔ کسی درجہ کا بھی ٹکٹ نہ تھا ۔ ملک کے حالات، بڑھیا کی کیفیت ، غم واندوہ کی فضا ایسی تھی کہ عام معمولات کی پابندی بہت مشکل تھی۔ مشتاق صاحب لکھتے ہیں ۔ میں نے بڑٰی حیرت سے دیکھا کہ چیکر نے اپنی نوٹ بک نکالی اور بلا ٹکٹ سفر پر بُڑھیا کا چالان کر دیا۔ اس نے رسید کاٹ دی تو بُڑھیا اُس سے بے اختیار بولی ۔ ۔۔۔ بیٹا! میرے پاس کچھ نہیں تو یہ رسید نہ کاٹ ۔ جواب ملا ۔۔۔ امّاں اگر ہم بلا ٹکٹ سفر کریں تو ہمارے نئے ملک کا کام کیسے چلے گا؟ تمھارا چالان ہوگا پیسے داخل ہوں گے۔ تم بہت دکھیاری ہو ۔ تمھارے لئے میرا دل بھی دکھی ہے۔ یہ جرمانہ تم نہیں دوگی میں اپنی طرف سے دے دوں گا۔

احساسِ فرض، ملک کی محبت اور بے سہاروں کی خدمت کا یہ ایسا انمول واقعہ تھا کہ سب مسافروں کے دلوں پر نقش ہوگیا۔ آج کوئی نہیں جانتا کہ یہ فرض شناس اور ملک دوست ٹکٹ چیکر کون تھا؟ لیکن دل بے اختیار کہتا ہے کہ وہ بہت بڑا آدمی تھا۔


شاہ بلیغ الدین کی کتاب "روشنی " سے اقتباس۔



۔

چیمپئن اور چہیتا


چیمپئن اور چہیتا


جارج برنارڈ شا نے کہا تھا ۔ "میں ڈائنامائٹ کی ایجاد پر الفریڈ نوبل کو تو معاف کرسکتا ہوں لیکن نوبل پرائز کی ایجاد کا کام ایک شیطان ہی کرسکتا ہے۔ "

I can forgive Alfred Nobel for inventing dynamite, but only a fiend in human form could have invented the Nobel Prize.

جارج برناڈ شا کو لٹریچر کے نوبل پرائز سے نوازا گیا اُس نے اپنی اہلیہ کے اصرار پر نوبل پرائز تو قبول کرلیا لیکن انعام میں ملنے والی رقم لینے سے انکار کردیا تھا اور مذکورہ بالا تاریخی جملہ ادا کیا۔ یہ ہے وہ رویّہ جو غلط کو ہر حال میں غلط کہتا ہے چاہے اُس میں اپنا ہی نقصان کیوں نہ ہو۔ لیکن ایسے لوگ شاذ ہی ملتے ہیں جبکہ دنیا میں دُہرے معیار ات کی مثالوں کی کمی نہیں ہے۔

ہیرو شیما اور ناگا ساکی پر نیوکلیئر بم گرانے والا امریکہ آج ایران کے نیوکلیئر طاقت کے حصول کی کوششوں کو پوری قوت سے روک رہا ہے اور ہر ہر محاذ پر اس کے آگے بند باندھ رہا ہے۔ یہی امن کا چیمپئن جنوبی کوریا اور شام سے تو شدید خائف ہے لیکن اپنے چہیتے اسرائیل کے لئے سب کچھ حاضر ہے ، سب کچھ جائز ہے ۔ کیوں ؟ وہی ڈبل سٹینڈرڈ۔

ایک ہی بات کوئی اور کرے تو امنِ عالم کے لئے خطرہ اور وہی بات اپنے لئے اور اپنے حواریوں کے لئے جائز! عراق اور افغانستان پر غاصبانہ قبضہ کرنے اور لاکھوں لوگوں کو ہلاک و برباد کرنے والوں کے لئے امن کا نوبل انعام اور اپنے حق اور حب الوطنی کے لئے لڑنے والے دہشت گرد۔ ٹیرارسٹ!کیوں ؟ وہی ڈبل سٹینڈرڈ۔

آج اسرائیل فلسطین کے خلاف کھلی دہشت گردی پر اُترا ہوا ہے لیکن صاحب بہادر کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی ہے آخر کیوں؟ اگر امریکہ جیسا موڈریٹ، امن پسنداور انسانی حقوق کا علمبردار ملک اپنی پالیسیوں میں اس قدر تنگ نظری برت رہا ہے تو پھر وہ لوگ جو کہلاتے ہی دہشت گرد ہیں اُن سے کوئی کیا اُمید رکھ سکتا ہے۔


حوالہ جات: ۱ ۲ ۳

انکار یا فرار ۔۔۔ ایک خیال


انکار یا فرار ۔۔۔ ایک خیال



عنیقہ ناز کی فکر انگیز تحریر "انکار یا فرار" کے تبصرے میں خاکسار نے یہ تحریر درج کی ہے۔ آپ سب کی توجہ اور آرا کے لئے یہاں بھی پیش کر رہا ہوں۔

بہت اچھی اور سچی تحریر ہے۔ نوجوانوں کے موجودہ رویّے میں آپ کی بتائی ہوئی تینوں چیزیں ہی کسی نہ کسی حد تک پائی جاتی ہیں۔ یعنی احساس محرومی، احساس ذمہ داری اور مقابلے کی فضا میں فرار ۔

اس کے علاوہ اُن کی تعلیم و تربیت اور اندازِ تعلیم و تربیت اس معاملے میں بے حد اہم ہے۔ ہماری اکثریت چونکہ معاشی طور پر مستحکم نہیں ہے اس لئے ہم اپنے بچوں کو تیار ہی اس طرح کرتے ہیں کہ وہ بڑے ہوتے ہی معاشی بدحالی کے خلاف جنگ میں ہمارے ساتھ شریک ہوجائیں ۔ یہاں تعلیم کا مطلب نوکری کا حصول ہے اور ڈگریوں کا مطلب محض فارمیلیٹی، کہ نوکری کے لئے ڈگری کا ہونا ضروری ہے۔

پھر ہم لوگوں کی تنگ اور متعصبانہ سوچ بھی ان بچوں کو ورثہ میں ملتی ہے ، وہ اسے ساری زندگی اپنے ساتھ لگا کر رکھتے ہیں اور آنے والی نسل کو منتقل کر دیتے ہیں اور اس طرح ہمیں اس بات کا موقع مل جاتا ہے کہ ہم اپنی ناکامیوں کو کسی نہ کسی کے سر منڈ دیں ۔ ہم اگر مسلمان ہیں تو ہماری ناکامیوں کی وجہ یہود و نصاریٰ ہیں۔ اگر ہم اردو بولنے والے ہیں تو پنجاب اور اسٹیبلشمینٹ اس کام کے لئے حاضر ہیں۔ اگر ہم پنجابی ہیں تو سندھ اور کراچی والے حاضر ہیں غرض یہ کہ ہم سب نے کسی نہ کسی کو ظالم ٹہھرا لیا اور خودکو مظلوم ثابت کرکے ہر قسم کے احتساب سے بری کر لیا۔

اگر ہم سب اپنے آپ کو پاکستانی سمجھنے لگیں تو پھر ہمیں اپنے لئے اور پاکستان کے لئے کام کرنا پڑے گا اور اپنی ناکامیوں پر اپنی ہی طرف دیکھنا پڑے گا شاید اسی لئے ہم لوگ چھوٹے چھوٹے حصوں میں بٹ کر اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنا کربیٹھے ہیں اور بے حد مطمئن ہیں۔

کیا ہی اچھا ہو اگر ہم اپنے نوجوانوں کی نظر میں پاکستان کا امیج بہتر کریں اور جس طرح "آئی اون کراچی" کی تھیم کراچی میں لائی گئی ہے اسی طرح "آئی اون پاکستان" کی تھیم لائی جائے تاکہ ہمارے نوجوان اپنے ملک پاکستان کو اپنا سمجھیں پاکستان سے محبت کریں ۔ مجھے اُمید ہے کہ یہاں سے ہمارے نوجوان کو وہ اسپائریشن ملے گی کہ وہ کچھ نہ کچھ کرنے کی کوشش ضرور کرے گا۔

میں نے کہا کچھ اور ہے، سوچا کچھ اور تھا


غزل



جز رشتۂ خلوص یہ رشتہ کچھ اور تھا
تم میرے اور کچھ، میں تمھارا کچھ اور تھا

جو خواب تم نے مجھ کو سنایا، تھا اور کچھ
تعبیر کہہ رہی ہے کہ سپنا کچھ اور تھا

ہمراہیوں کو جشن منانے سےتھی غرض
منزل ہنوز دور تھی، رستہ کچھ اور تھا

اُمید و بیم، عِشرت و عُسرت کے درمیاں
اک کشمکش کچھ اور تھی، کچھ تھا، کچھ اور تھا

ہم بھی تھے یوں تو محوِ تماشائے دہر پر
دل میں کھٹک سی تھی کہ تماشا کچھ اور تھا

جو بات تم نے جیسی سنی ٹھیک ہے وہی
میں کیا کہوں کہ یار یہ قصّہ کچھ اور تھا

احمدؔ غزل کی اپنی روش اپنے طَور ہیں
میں نے کہا کچھ اور ہے، سوچا کچھ اور تھا

محمد احمدؔ


جہانگیر کا ہندوستان ۔ ۳


جہانگیر کا ہندوستان ۔ ۳



گذشتہ [۱] [۲] سے پیوستہ




پیداوار

ہندوستان کی زمین پیداوار کے لحاظ سے انتہائی زرخیز ہے لیکن یہاں‌پر کسانوں کی حالت انتہائی ابتر ہے۔ اگر کبھی کوئی گاؤں پیداوار کی کمی کی وجہ سے پورا لگان ادا نہ کر پائے تو جاگیردار یا گورنر اسے اس قدر مجبور کرتا ہے کہ اسے ادائیگی کے لئے اپنے بیوی، بچوں کو بیچنا پڑتا ہے ورنہ اسے بغاوت کے جرم میں‌سزا دی جاتی ہے۔ کچھ کسان اس ظلم و ستم سے گھبرا کر ان زمینداروں اور راجاؤں کے پاس پناہ لیتے ہیں کہ جو پہلے ہی سے باغی ہوتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ کسانوں کی چھوڑی ہوئی زمینیں خالی اور بنجر ہو جاتی ہیں اور وہاں گھاس پھوس اگ آتی ہے۔ اس قسم کی زیادتیاں اس ملک میں‌بہت عام ہیں۔

گوشت کی سپلائی یہاں بھی ہالینڈ کی طرح ہے۔ اگرچہ یہاں پر یہ سستا ہے بھیڑیں، بکریاں، تیتر، بطخیں اور ہرنوں کا گوشت بازار میں ملتا ہے۔ چونکہ سپلائی بہت ہے اس لئے قیمت بھی کم ہے بیلوں اور گایوں کی قربانی نہیں کی جاتی ہے کیونکہ ایک تو ان کے ذریعے کاشت کی جاتی ہے دوسرے بادشاہ کی جانب سے ان کی قربانی کی سخت ممانعت ہے اور اس کی سزا موت ہے اس کے مقابلے میں‌بھینسوں کی قربانی کی جاتی ہے۔گائے کی قربانی کی ممانعت بادشاہ نے اپنی ہندو رعایا کو خوش کرنے کے لئے کی ہے کیونکہ وہ گائے کو دیوی اور مقدس مانتے ہیں۔ اکثر ہندو رشوت دے کر یا سفارش کرکے بادشاہ یا گورنر سے ایسا فرمان بھی جاری کروالیتے ہیں‌کہ جس کے تحت ایک خاص مدت تک مچھلی پکڑنے پر پابندی عائد کردی جاتی ہے یا یہ پابندی لگا دی جاتی ہے کہ کچھ دنوں تک بازار میں کسی قسم کا گوشت نہیں بیچا جائے گا۔ اس قسم کے احکامات عام لوگوں کے لئے تکلیف کا باعث ہوتے ہیں جہاں تک امراء کا تعلق ہے تو وہ ہر روز اپنی پسند کے جانور گھروں پر ذبح کرتے رہتے ہیں۔

انتظامِ سلطنت

انتظامِ سلطنت کے بارے میں میری یہ رپورٹ مکمل نہیں ہے کیونکہ موجودہ بادشاہ کے بارے میں پوری تفصیل دینا ممکن نہیں‌ہے۔البتہ جہانگیر کے سلسلے میں ایک اہم بات یہ ہے کہ اس نے اپنی شخصیت کو ختم کرکے خود کو اپنی چالاک بیوی کے حوالہ کردیا ہے کہ جس کا تعلق ایک کم تر خاندان سے ہے۔ یہ سب کچھ اس لئے ہوا ہے کہ یا تو وہ زبان کی بڑی میٹھی ہے یا پھر اسے شوہر کو قابو کرنے کے حربے آتے ہیں۔ اس نے اس صورتحال سے پورا پورا فائدہ اُٹھایا اور نتیجتاً اس نے آہستہ آہستہ خود کو بے انتہا مالدار بنا لیا ہے۔ اس وقت اس کی حیثیت شاہی خاندان کے کسی بھی فرد سے زیادہ ہے۔ اس کے وہ تمام حمایتی جو اس کے ساتھ ہیں انہیں بھی بے انتہا مراعات کے حاصل ہیں۔ وہ سب اس کے آدمی ہیں اور اسی کی سفارش سے ان کو ترقیاں ملی ہیں۔ چونکہ یہ تمام عہدےدار اس کے احسان مند ہیں لہٰذا بادشاہ تو برائے نام ہے۔ ورنہ تمام اختیارات اس کے اور اس کے بھائی آصف خاں کے پاس ہیں اور اس وجہ سے سلطنت پر ان کو پورا پورا کنٹرول ہے۔ بادشاہ کے کسی فرمان اور حکم کی اس وقت تک تعمیل نہیں ہوتی ہے کہ جب تک ملکہ کی اس پر تصدیق نہ ہو۔ اگرچہ انہوں نے دولت و شہرت و اقتدار سب کچھ حاصل کر لیا ہے مگر ان کی خواہشات اور ہوس کی کوئی انتہا نہیں ہے ۔

بادشاہ جب شکار سے واپس آتا ہے تو وہ غسل خانہ (جہاں وہ خاص خاص امراء سے ملتا تھا) میں آکر بیٹھتا ہے کہ جہاں تمام امراء اس کے سامنے آکر حاضری دیتے ہیں۔ یہاں‌پر ان لوگوں کو بھی شرفِ بازیابی ملتا ہے کہ جو بادشاہ سے ملنے کی خصوصی درخواست کرتے ہیں۔ وہ یہاں پر ایک پہر رات یا جب تا اس کی مرضی ہو رہتا ہے۔ اس دوران وہ شراب کے تین پیالے پیتا ہے۔ شراب پینے کا طریقہ یہ ہے کہ وہ ایک کے بعد ایک تین بار تھوڑے تھوڑے وقفے سے اس سے لطف اندوز ہوتا ہے۔ شراب نوشی کے دوران جو بھی محفل میں حاضر ہوتا ہے وہ خوشی کا اظہار کرتے ہوئے شراب نوشی کو بادشاہ کی صحت کے لئے ضروری سمجھتا ہے اسی طرح جیسے ہمارے ملک میں‌کہا جاتا ہے کہ بادشاہ کی شراب نوشی میں‌رحمت ہے۔ جب بادشاہ آخری پیالہ پی کر سوجاتا ہے تو اس وقت تمام حاضرین بھی رخصت ہوجاتے ہیں۔ امراء کے جانے کے بعد ملکہ معہ کنیزوں کے آتی ہے اور اس کے کپڑے تبدیل کراتی ہے۔ یہ تین پیالے اس کو اس قدر مدہوش او رمسرو ر کردیتے ہیں کہ وہ اس کے بعد جاگنے کے بجائے سونا پسند کرتا ہے۔یہ وہ وقت ہوتا ہے کہ جب اس کی ملکہ اس سے جو چاہتی ہے منظور کرالیتی ہے کیونکہ بادشاہ اس پوزیشن میں‌نہیں‌ہوتا ہے کہ وہ اس کی بات سے انکار کرے۔

بادشاہ کے تمام علاقوں، شہروں اور گاؤں وغیرہ کی سالانہ آمدنی کا حساب ایک رجسٹر میں‌لکھا جاتا ہے جو کہ دیوان کے چارج میں‌ہوتا ہے۔ اس وقت موجودہ دیوان ابوالحسن ہے تمام شہزادوں، منصب داروں اور امیروں کو ان کی حیثیت کے مطابق جاگیریں دی جاتی ہیں کہ جس کی آمدن سے وہ اپنا خرچہ پورا کرتے ہیں۔ ان میں کچھ امراء بادشاہ کے دربار میں رہتے ہیں، اور اپنی جاگیر کا انتظام اپنے کسی معتمد کے حوالے کر دیتے ہیں یا وہ کسانوں یا کروڑی کو دے دیتے ہیں کہ جو اچھی یا خراب فصل پر نفع و نقصان کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ لیکن صوبے اس قدر غریب ہیں کہ ایک جاگیر جس کی آمدن پچاس ہزار تصور کر لی جاتی ہے۔ وہ درحقیقت پچیس ہزار مشکل سے وصول کرتی ہے۔ اور یہ بھی اس صورت میں کہ غریب کسانوں کو بالکل نچوڑ لیا جاتا ہے۔ اور ان کے کھانے کو خشک روٹی مشکل سے بچتی ہے کہ جس سے وہ اپنا پیٹ بھر سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ جن منصب داروں کو پانچ ہزار سوار رکھنا چاہیے وہ مشکل سے ایک ہزار سوار رکھ سکتے ہیں۔ لیکن وہ اپنی شان و شوکت اور رعب داب کے لئے ہاتھی گھوڑے اور ملازمین کی ایک تعداد رکھتے ہیں تاکہ وہ عام آدمی کے بجائے بارعب امیر لگیں اور جب ان کی سواری نکلے تو ان کے ملازمین بلند آواز میں‌لوگوں کو سامنے سے ہٹاتے رہیں۔ ایسے موقعوں پر جو لوگ راستے سے نہیں‌ہٹتے ہیں۔ انہیں‌ملازم بلا کسی لحاظ کے مارتے پیٹتے ہیں۔

تعجب کی بات یہ ہے کہ ان امراء کی لالچ اور طمع کی کوئی انتہا نہیں ہے ہر وقت ان کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ کس طرح زیادہ سے زیادہ دولت جمع کریں چاہے اس میں انہیں‌لوگوں پر ظلم و ستم کرنا پڑے یا ناانصافی سے کام لینا پڑے۔ دستور یہ ہے کہ جیسے ہی کوئی امیر مرتا ہے تو دیکھے بغیر کہ وہ معمولی امیر تھا یا مقرب خاص بادشاہ کے آدمی فورا اس کے محل میں‌جاتے ہیں اور اس کے مال و اسباب و ساز و سامان کی ایک فہرست تیار کرتے ہیں یہاں تک کہ خواتین کے زیورات اور ان کے ملبوسات کو بھی نہیں چھوڑا جاتا ہے، بشرطیکہ انہیں چھپا کر نہیں رکھا جائے ۔ امیر کے مرنے پر بادشاہ اس کی جاگیر کو واپس لے لیتا ہے اس صورت میں عورتوں اور بچوں کو گذارے کے لئے معقول رقم دیدی جاتی ہے ۔ بس اس سے زیادہ نہیں۔ اس کا امکان کم ہوتا ہے کہ بچے اور خاندان والے امیر کی زندگی میں اس کی دولت کا کچھ حصہ چھپا دیں تاکہ وہ بعد میں ان کے کام آئے۔ یہ اس لئے مشکل ہوتا ہے کیونکہ ہر امیر کی جائداد اس کی آمدن اور اس کی دولت کے بارے میں اس کے دیوان کو پورا پورا پتہ ہوتا ہے۔ دیوان کے ماتحت کئی لوگ ہوتے ہیں۔ کیونکہ یہاں یہ دستور ہے کہ جو کام ایک آدمی کرسکے اس کے لئے دس ملازم رکھے جائیں۔ ان میں‌سے ہر ایک کے پاس ایک خاص کام ہوتا ہے۔ اور اب یہ اس کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ امیر کے مرنے کے بعد اس کا حساب کتاب دے۔ اگر ضرورت پڑے تو متوفی امیر کے عملہ کو گرفتار کرلیا جاتا ہے اور ان سے کہا جاتا ہے کہ وہ حساب کتاب کے تمام کاغذات پیش کریں اور یہ بتائیں کہ ان کے آقا کی آمدنی و اخراجات کیا تھے۔ اگر وہ کچھ چھپانے کی کوشش کرتے ہیں‌تو ان کو اس وقت تک اذیت دی جاتی ہے کہ جب تک وہ سب کچھ نہ بتادیں۔ اب آپ ذرا ایک ایسے شخص کے بارے میں سوچئے کہ جو ایک وقت میں سر پر ٹیڑھی ٹوپی رکھے بارعب انداز میں‌رہتا ہے اور کسی کی ہمت نہیں ہوتی کہ اس کے قریب جائے مگر وقت کے بدلتے ہی وہی شخص پھٹے پرانے کپڑوں اور زخمی چہرے کے ساتھ ادھر سے ادھر پریشان حال بھاگتا پھرتا ہے۔ اس کے بعد ایک ایسے شخص کے لئے اسی قسم کی ملازمت کا حصول مشکل ہوجاتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں کہ درحقیقت زندہ درگور ہوجاتے ہیں۔ میں‌اس قسم کے کئی لوگوں سے ذاتی طور پر واقف ہوں کہ جو اس اذیت سے گزرے ہیں اور اب غربت کی زندگی گزار رہے ہیں۔

میں اکثر امراء سے جو میرے دوست ہیں یہ سوال کرتا ہوں کہ آخر کیا وجہ ہے کہ تم لوگ اس قدر محنت و مشقت کرکے دولت جمع کرتے ہو، جب کہ تمھیں اچھی طرح معلوم ہے کہ یہ دولت نہ تو تمھارے کام آسکے گی اور نہ تمھارے خاندان والوں کے ۔ اس کے جواب میں‌سوائے اس کے اور کچھ نہیں‌ہوتا کہ وہ یہ سب کچھ وقتی طور پر دنیا کو دکھلانے کے لئے کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے مرنے کے بعد ان کی شہرت میں اس وجہ سے اضافہ ہوتا ہے کہ انہوں نے مرنے کے بعد اتنی جائداد ، اس قدر دولت چھوڑی ہے۔ میں ان سےکہا کرتا ہوں کہ اگر انہیں اپنی شہرت اور عزت کا اتنا ہی خیال ہے تو انہیں‌ یہ دیکھنا چاہیے کہ ان کے دوست اور خاندان والے چونکہ ان کی جمع شدہ دولت سے فائدہ نہیں‌ اٹھائیں گے اس لئے کیا یہ بہتر نہیں‌ہے کہ وہ اس میں ان غریبو‌ں کو شامل کریں کہ جن کی تعداد اس ملک میں بے شمار ہے۔ اور اس بات کی کوشش کریں کہ وہ لوگوں کے ساتھ کوئی ظلم نہیں کریں۔ان کے ساتھ نا انصافی نہیں کریں، تاکہ عوام کو ان سے کوئی خوف نہ ہو ۔ لیکن جب بھی میں‌یہ دلائل پیش کرتا ہوں تو وہ یہ کہہ کر بحث کا خاتمہ کردیتے ہیں کہ یہ ان کے ملک کا رواج ہے۔

جہاں تک اس ملک میں قانون کا تعلق ہے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہاں کوئی قانون نہیں ہے۔ انتظامِ سلطنت میں مطلق العنانیت ہے، لیکن قانونی کتابیں ضرور ہیں جو کہ قاضی کے پاس ہوتی ہیں۔ ان قوانین کے تحت سزاؤں میں ہاتھ کے بدلے ہاتھ اور آنکھ کے بدلے آنکھ لینے پر عمل ہوتا ہے۔ لیکن جیسا ہمارے ہاں ہے وہ کون ہے کہ جو پوپ کو عیسائیت سے نکالے؟ اس طرح یہاں بھی کسی کی مجال نہیں کہ وہ صوبہ کے عامل سے یہ سوال پوچھ سکے کہ "تم ہم پر اس طرح کیوں حکومت کرتے ہو؟ جب کہ ہمارا قانون تو یہ مطالبہ کرتا ہے"

آدابِ زندگی

جہاں تک لوگوں کے طرزِ رہائش اور رہنے سہنے کے انداز کا سوال ہے تو امیر لوگوں کے پاس تو بے انتہا دولت اور لامحدود طاقت ہے لیکن اس کےمقابلے میں عام لوگ انتہائی غربت اور مفلسی کی زندگی گزارتے ہیں۔ مفلسی کے باعث ان کی حالت یہ ہے کہ ان کے پاس مشکل سے دو وقت کے کھانے کے لئے کچھ ہوتا ہے۔ ان کی رہنے کی جگہوں یا گھروں کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ وہ عبرت کا نمونہ ہیں۔

تعجب کی بات یہ ہے کہ لوگ ان تکالیف کو انتہائی صبر کے ساتھ برداشت کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ اس قابل نہیں کہ ان کے ساتھ اس سے زیادہ اچھا سلوک ہو۔ ان میں مشکل ہی سے کوئی اس بات کی ٕکوشش کرتا ہے کہ اپنی زندگی کوتبدیل کرے اور اپنی موجودہ حالات کو بہتر بنائے۔ یہ اس لئے بھی مشکل ہے کہ ذات پات کی وجہ سے لڑکے کو وہی پیشہ اختیار کرنا پڑتا ہے کہ جو اس کے باپ کا ہے۔ لوگوں کے لئے یہ بھی ناممکن ہے کہ اپنی ذات سے باہر شادی بیاہ کر سکیں۔ اس لئے ہر فرد اپنی ذات اور پیشہ کے بارے میں پہلے ہی سے آگاہ ہوتا ہے۔

یہاں مزدوروں اور دستکاروں کے لئے دو عذاب ہیں۔ پہلا عذاب تو یہ ہے کہ ان کی تنخواہیں بے انتہا کم ہوتی ہیں۔ سنار، رنگریز، کشیدہ کاری کرنے والے قالین بننے والے، جولاہے، لوہار، درزی ، معمار، پتھر توڑنے والے، اور اسی طرح سے دوسرے پیشہ ور دست کار و ہنر مند، یہ اس کام کو جو ہالینڈ میں ایک آدمی کرے چار مل کر کرتے ہیں۔ صبح سے شام تک کام کرنے کے بعد ان کی روزانہ کی کمائی مشکل سے 5 یا 6 ٹکہ ہوتی ہے۔ ایک دوسرا عذاب ان کے لئے گورنر، امراء، دیوان، کوتوال، بخشی اور دوسرے شاہی عہدے داروں کی شکل میں آتا ہے۔ اگر ان میں سے کسی کو کام کروانے کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ کام کرنے والے کو، چاہے وہ چاہے یا نہ چاہے زبردستی پکڑ کر بلوا لیتے ہیں، ایک مزدور یا کاریگر کی یہ ہمت نہیں ہوتی ہے کہ وہ اس پر ذرا اعتراض کرے۔ پورے دن کام کے بعد شام کو یا تو اسے معمولی سی اجرت دی جاتی ہے یا بغیر کسی ادائیگی کے اسے رخصت کر دیا جاتا ہے۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان کا کھانا کس قسم کا ہوگا۔ وہ گوشت کے ذائقہ سے بہت کم واقف ہوتے ہیں اور ان کے کھانے میں سوائے کھچڑی کے اور کچھ نہیں ہوتا۔

مذہبی توہمات

مسلمانوں کے مذہب کے بارے میں ہماری زبان میں کافی مواد چھپ چکا ہے۔ لیکن اب تک ان کے توہمات کے بارے میں‌کہ جو اس ملک میں عام ہیں، نہیں لکھا گیا ہے لہٰذا میں ان میں سے کچھ کے بارے میں‌یہاں لکھوں گا، ان میں سے کچھ تو ایسے ہیں کہ جو کیتھولک فرقہ والوں کے ہاں بھی پائے جاتے ہیں۔ مثلا ان کے ہاں بھی اس قدر پیر، فقیر ہیں کہ جیسے کیتھولک فرقہ والوں کے ہاں بزرگ اور اولیاء ہیں۔ لیکن یہ لوگ ان کی مورتیاں نہیں بناتے ہیں کیونکہ یہ ان کے مذہب میں ممنوع ہے۔ لیکن یہ بھی ان کی طرح منتیں مانتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جیسے ہر دنیاوی بادشاہ کا اپنا دربار ہوتا ہے۔ اس کے امراء اور عہدے دار ہوتے ہیں کہ جو اپنے اپنے فرائض منصبی ادا کرتے ہیں۔ او ر انتظام سلطنت کی دیکھ بھال کرتے ہیں، جیسے بادشاہ تک کوئی بھی اس وقت تک نہیں پہنچ سکتا جب تک کہ اس کی رسائی کسی امیر یا عہدے دار سے نہ ہو اسی طرح سے خدا تک سفارش پہنچانے کے لئے بھی اس کے کسی نمائندے کی ضرورت ہے کہ جو اس کی درخواست کو منظور کرائے۔ یہ لوگ بھی کیتھولک فرقہ کی طرح اس گمراہی میں‌ہیں اور یہ نہیں سمجھتے کہ خدا عالم الغیب اور ہر چیز کا جاننے والا ہے لیکن یہ لوگ اس سے آنکھیں بند کرکے اور خدا کی رحمت سے انکار کرکے ان جھوٹے لوگوں کے دام فریب میں آجاتے ہیں۔ ان نام نہاد اولیاء کا سحر اور جادو غریب لوگوں پر نہ صرف ان کی زندگی میں بھی چلتا ہے بلکہ ان کے مرنے کے بعد بھی ان کے مرید اور متولی غریب لوگوں کو مسلسل فریب و دھوکے میں مبتلا رکھتے ہیں۔ ان کو پتہ ہوتا ہے کہ عام لوگوں کو کس طرح سے قابو میں رکھا جائے اس مقصد کے لئے یہ عوام میں ان کی کراماتیں اور عجیب و غریب واقعات کے بارے میں کہانیاں پھیلاتے ہیں کہ جنہیں سن کر لوگ ان کے عقیدت مند ہو جاتے ہیں۔

ہندو مت

میری خواہش تو یہ تھی کہ میں ہندومت اور اس کے اعتقادات پر تفصیل سے لکھوں، لیکن جب میں نے اس کا مطالعہ کیا اور اس کے بارےمیں معلومات اکھٹی کیں تو مجھے پتہ چلا کہ چند دلکش اور شاعرانہ قصہ کہانیوں، ہزاروں دیوی و دیوتاؤں اور ان کے کرداروں اور عقیدوں کی بوقلمونی کے سوا اس میں اور کچھ نہیں۔ بس اس بات نے مجھے تفصیل میں جانے سے روک دیا اور میں نے سچائی کو تلاش کرنے کی کوشش نہیں کی۔ ہندو مت میں اگر ایک فرقہ کوئی بات کہتا ہے تو دوسرا فرقہ اس سے الگ ہٹ کر بالکل دوسری بات بتاتا ہے۔ اگر اس مذہب کے بارے میں مصنفین کی تحریریں پڑھو تو اس میں تضادات ہی تضادات نظر آئیں گے کیونکہ اپنا مواد شاید انہوں نے کئی فرقوں سے لیا ہوگا۔ مثلاً گجرات کے بنیوں کی لاتعداد ذاتیں ہیں اور یہ ایک دوسرے کے ساتھ نہ کھاتے ہیں‌اور نہ پیتے ہیں‌۔ برہمنوں کی ذات چونکہ قابلِ عزت ہے اس لئے صرف اس کے ساتھ کھانے پینے میں ممانعت نہیں ہے۔ اسی طرح یہاں پر کھتریوں میں‌کئی ذاتیں ہیں۔ لیکن یہ لوگ پھر بھی اپنے اعتقادات میں اس قدر تنگ نظر نہیں ہیں۔ یہ بھیڑ و بکری کا گوشت کھالیتے ہیں۔ اور اپنی نجی محفلوں میں‌شراب سے بھی شوق کر لیتے ہیں۔ لیکن ایسی ذاتوں سے بھی میری واقفیت رہی ہے جو کسی ایسی چیز کو نہیں‌کھاتے ہیں کہ جس میں زندگی ہو، یہاں تک کے کچھ سبزیاں بھی۔ ان کی غذا محض چاول اناج اور گھی ہوتی ہے۔ یہاں پر عام بات ہے کہ جتنے خاندان ہیں، اسی قدر عقیدے ہیں۔ چونکہ شادی بیاہ صرف ذات میں ہی ہوتا ہے اس لئے اگر کوئی ذات و براداری ختم ہو جائے تو اس کے ساتھ اس کا عقیدہ بھی ختم ہوجاتا ہے۔

انہی رسومات و تہواروں میں ہندو مسلمانوں سے زیادہ سخت ہیں کوئی ہندو عورت و مرد چاہے کس قدر سردی ہو، ضرور صبح کے وقت نہاتا ہے عام لوگ تو دریا یا ندی کے کنارے جا کر نہاتے ہیں جب کہ امراء گھروں‌پر نہاتے ہیں وہ اس وقت تک کھانے کو ہاتھ نہیں لگاتے جب تک کہ نہا نہ لیں۔ وہ اس بات کی کوشش کرتے ہیں‌کہ سال میں ایک بار گنگا میں جا کر ضرور نہائیں۔ جو اس قابل ہوتے ہیں وہ 500 سے 600 کوس کا فاصلہ اس مقصد کے حصول کے لئے طے کرتے ہیں۔ وہ اکتوبر کے مہینہ میں‌غسل کرتے ہیں۔ ان کا عقیدہ ہے کہ اس کے بعد ان کے تمام گناہ دھل جاتے ہیں، واپسی پر وہ گنگا کا پانی اپنے ہمراہ لاتے ہیں اور اسے برکت کے لئے گھر میں رکھتے ہیں۔

کچھ برہمن بڑے ہوشیار ہوتے ہیں۔ وہ اچھے نجومی کی طرح ستاروں کی حرکات سے واقف ہوتے ہیں اور موسموں و حالات کے بارے میں‌صحیح پیشین گوئی کرتے ہیں۔ وہ چاند اور سورج گرہن کے بارے میں بالکل صحیح اندازہ کرتے ہیں۔ ان میں سے کچھ قسمت کا حال بھی بتاتے ہیں۔ ہر شہر میں اس شہرت کے دو یا چار برہمن ضرور ہوتے ہیں۔ موجودہ بادشاہ بھی خاص طور سے ایک کو اپنے دربار میں رکھتاہے۔

خاتمہ

یہ اس ملک کے لوگوں کی عادات، اطوار، انتظام اور رسم و رواج کا ایک خاکہ ہے ۔ میں نے کوشش کی ہے کہ جتنا حقیقت سے قریب ہو اسے بیان کروں لیکن میں نے جو میں نے بیان کیا ہے نہ تو یہ حتمی ہے نہ پورے ملک پرصادق آتا ہے کیونکہ اس ملک میں بہت زیادہ اختلافات ہیں، انواع و اقسام کی روایات ہیں اور لوگوں کے مذاق میں بہت فرق ہے۔ ان کے طبقہ اعلٰی اور عوام میں اس فرق کو بخوبی دیکھا جاسکتا ہے۔ اس رپورٹ سے میں اس بات کو بھی ثابت کرنا چاہتا ہوں کہ میں ہندوستان میں خاموش تماشائی کی طرح نہیں رہا بلکہ ان کے معاشرے اور لوگوں کے بارے میں جاننے کی کوشش کی ہے۔

*******
گذشتہ حوالے:
جہانگیر کا ہندوستان ۱
جہانگیر کا ہندوستان ۲

جہانگیر کا ہندوستان تینوں حصے ایک ساتھ پڑھنے کے لئے یہاں سے ڈاؤنلوڈ کریں۔

بھوک از جاوید اختر



بھوک


آنکھ کھل گئی میری
ہوگیا میں پھر زندہ
پیٹ کے اندھیروں سے
ذہن کے دھندلکوں تک
ایک سانپ کے جیسا
رینگتا خیال آیا
آج تیسرا دن ہے۔۔۔۔ آج تیسرا دن ہے

اک عجیب خاموشی
منجمد ہے کمرے میں
ایک فرش اور اک چھت
اور چار دیواریں
مجھ سے بے تعلّق سب
سب مرے تماشائی
سامنے کی کھڑکی سے
تیز دھوپ کی کرنیں
آرہی ہیں بستر پر
چُبھ رہی ہیں چہرے پر
اس قدر نکیلی ہیں
جیسے رشتے داروں کے
طنز میری غربت پر
آنکھ کھل گئی میری
آج کھوکھلا ہوں میں
صرف خول باقی ہے
آج میرے بستر میں
لیٹا ہے مرا ڈھانچہ
اپنی مُردہ آنکھوں سے
دیکھتا ہے کمرے کو
آج تیسرا دن ہے
آج تیسرا دن ہے

دوپہر کی گرمی میں
بے ارادہ قدموں سے
اک سڑک پہ چلتا ہوں
تنگ سی سڑک پر ہیں
دونوں سمت دُکانیں
خالی خالی آنکھوں سے
ہر دُکان کا تحتہ
صرف دیکھ سکتا ہوں
اب پڑھا نہیں جاتا
لوگ آتے جاتے ہیں
پاس سے گزرتے ہیں
پھر بھی کتنے دھندلے ہیں
سب ہیں جیسے بے چہرہ
شور ان دُکانوں کا
راہ چلتی اک گالی
ریڈیو کی آوازیں
دُور کی صدائیں ہیں
آرہی ہیں میلوں سے
جو بھی سن رہا ہوں میں
جو بھی دیکھتا ہوں میں
خواب جیسا لگتا ہے
ہے بھی اور نہیں بھی ہے
دوپہر کی گرمی میں
بے ارادہ قدموں سے
اک سڑک پہ چلتا ہوں
سامنے کے نُکّڑ پر
نل دکھائی دیتا ہے
سخت کیوں ہے یہ پانی
کیوں گلے میں پھنستا ہے
میرے پیٹ میں جیسے
گھونسہ ایک لگتا ہے
آرہا ہے چکّر سا
جسم پر پسینہ ہے
اب سکت نہیں باقی
آج تیسرا دن ہے
آج تیسرا دن ہے

ہر طرف اندھیرا ہے
گھاٹ پر اکیلا ہوں
سیڑھیاں ہیں پتّھر کی
سیڑھیوں پہ لیٹا ہوں
اب میں اُٹھ نہیں سکتا
آسماں کو تکتا ہوں
آسماں کی تھالی میں
چاند ایک روٹی ہے
جھک رہی ہیں اب پلکیں
ڈوبتا ہے یہ منظر
ہے زمین گردش میں

میرے گھر میں چُولھا تھا
روز کھانا پَکتا تھا
روٹیاں سُنہری ہیں
گرم گرم یہ کھانا
کُھل نہیں رہی آنکھیں
کیا میں مرنے والا ہوں
ماں عجیب تھی میری
روزاپنے ہاتھوں سے
مجھ کو وہ کھلاتی تھی
کون سرد ہاتھوں سے
چھو رہا ہے چہرے کو
اک نوالا ہاتھی کا
اک نوالا گھوڑے کا
اک نوالا بھالو کا
موت ہے کہ بے ہوشی
جو بھی ہے غنیمت ہے
آج تیسرا دن تھا۔ ۔۔۔آج تیسرا دن تھا


جاوید اختر

جہانگیر کا ہندوستان ۔ ۲



جہانگیر کا ہندوستان - ۲


گذشتہ سے پیوستہ

اور اب پیلسے ئرٹ آپ سے مخاطب ہیں:

یہ رپورٹ میرے اُن تجربات اور مشاہدات پر مبنی ہے کہ جو میں نے یونائیٹڈ ایسٹ انڈیا کمپنی کے سینئر فیکٹر کی حیثیت سے پیٹرفان ۔ ڈین ۔ بروکے کی ماتحتی میں آگرہ کی تجارتی کوٹھی میں سات سالہ قیام کے دوران لکھی۔ اس دوران میں مجھے تجارت کی غرض سے دوسرے شہر بھی جانے کا اتفاق ہوا۔ ذیل میں اس رپورٹ کی تفصیل (یہاں صرف منتخب اقتباسات دئیے گئے ہیں)ہے۔

آگرہ

سب سے پہلے آگرہ شہر کا ذکر کروں کہ جو کافی وسیع و عریض ، کھلا ہوا ، اور بغیر فصیلوں کے ہے۔ مگر اس پر زوال کے آثار نظر آتے ہیں۔ شہر کے مکانات اور سڑکیں بغیر کسی منصوبہ اور پلان کے بنی ہوئی ہیں۔ اگرچہ یہاں پر شہزادوں اور امراء کی حویلیاں موجود ہیں مگر وہ سب تنگ و تاریک گلیوں میں چھپی ہوئی ہیں۔ اس کی وجہ اس شہر کی اچانک اور غیر معمولی ترقی ہے۔ ورنہ اس سے پہلے یہ بیانہ کی حدود میں واقع ایک معمولی سا قصبہ تھا۔ لیکن 1566ء میں اکبر نے اس شہر کو اپنی رہائش کے لئے منتخب کیا اور دریائے جمنا کے کنارے ایک عالیشان قلعہ تعمیر کرایا تو اس قصبہ کی شکل و صورت ہی بدل گئی۔

اس کے ارد گرد گھنے جنگلات کی وجہ سے اب یہ شہر ایک شاہی باغ معلوم ہوتا ہے۔ شاہی محلات اور قلعہ کی وجہ سے امراء نے بھی اس شہر میں کہ جہاں اُنہیں جگہ ملی اپنی حویلیاں تعمیر کرائیں۔ اس غیر منصوبہ بندی کا نتیجہ یہ ہوا کہ یہاں پر کوئی منڈیاں یا بازار اس طرح سے نہیں ہیں جیسے کہ لاہور، برہانپور، احمدآباد یا دوسرے شہروں میں ہیں۔ شہر میں مکانات ایک دوسرے کےقریب قریب ہیں۔ ہندو مسلمان اور امیرو غریب سب آپس میں ملے ہوئے ہیں۔ اگر موجودہ بادشاہ (جہاں گیر) اس شہر کو اپنی رہائش گاہ بنا لیتا جیسا کہ اکبر نے بنایا تھا، تو یہ شہر دنیا کے مشہور شہروں میں سے ایک ہوجاتا۔ اس شہر کے دروازے جو اکبر نے دفاع اور حفاظت کے لئے تعمیر کرائے تھے وہ اب شہر کے درمیان آگئے ہیں، اور اس کے آگے جو شہر پھیلا ہے وہ موجودہ شہر سے تین گنا زیادہ ہے۔

شہر کی چوڑائی، اس کی لمبائی کے مقابلے میں زیادہ نہیں ہے کیونکہ ہر ایک کی یہ کوشش ہے کہ دریا کے قریب رہے۔ اس لئے دریا کے کناروں پر امراء کے شاندار محلات ہیں جس کی وجہ سے یہ خوبصورت اور دلکش منظر پیش کرتے ہیں۔

ان محلات کے بعد شاہ برج یا شاہی قلعہ ہے۔ اس کی فصیلیں سرخ پتھروں سے تعمیر کی گئ ہیں۔ فصیلوں کی چوڑائی ¾ گز ہے ،پھیلاؤ میں یہ 2 کوس ہے۔ اس کی تعمیر میں جو بھی خرچہ ہوا، اور اس کا جو طرزِ تعمیر ہے۔ اس وجہ سے یہ دنیا کی مشہور عمارتوں میں سے ایک ہے۔ یہ عمارت مناسب جگہ پر واقع ہے اس کے اردگرد کا ماحول انتہائی خوشگوار ہے۔ اس کا جو حصہ دریا کے رخ پر ہے وہاں پتھروں کی خوبصورت جالیاں اور سنہری کھڑکیاں ہیں۔ یہاں سے بادشاہ اکثر ہاتھیوں کی لڑائی دیکھتا ہے۔ اس کے تھوڑے فاصلہ پر غسل خانہ (وہ جگہ جہاں بادشاہ خاص خاص امراء سے ملتا تھا۔ یہ نجی محفلوں کے لئے بھی مخصوص تھا) ہے جو کہ سنگِ مرمر سے تعمیرکیا گیا ہے۔ شکل میں‌یہ چوکور ہے ۔ اس کے گنبد پر باہر سے طلاء کاری ہے جس کی وجہ سے یہ قریب سے دیکھنے پر شاہی اور دور سے دیکھنے پر شہنشاہی نظر آتا ہے۔ اس کے آگے موجودہ ملکہ نور جہاں کا محل ہے۔ قلعہ میں شہزادوں، بیگمات، اور حرم کی خواتین کی رہائش گاہیں ہیں۔ انہیں میں‌ایک محل مریم زمانی کا ہے جو کہ اکبر کی بیگم اور موجودہ بادشاہ کی ماں ہے۔ ان کے علاوہ تین اور محلات ہیں کہ جو اتوار، منگل اور سنیچر کہلاتے ہیں بادشاہ انہیں دنوں میں‌یہاں ہوتا ہے۔ بنگالی محل میں مختلف اقوام کی عورتیں رہتی ہیں ۔ دیکھا جائے تو یہ قلعہ ایک چھوٹا سا شہر ہے کہ جس میں مکانات ہیں، سڑکیں ہیں، دوکانیں ہیں، اندر سے یہ قلعہ معلوم نہیں‌ہوتا، مگر باہر سے دیکھو تو یہ ایک ناقابلِ تسخیر قلعہ نظر آتا ہے ۔

دریا کے دوسری جانب سکندرہ نامی شہر ہے۔ یہ آباد شہر ہے اور خوبصورتی و منصوبہ بندی کے ساتھ بنایا گیا ہے یہاں کی اکثر آبادی تاجروں کی ہے۔ اسی شہر سے مشرقی علاقوں اور بھوٹان سے تجارتی سامان آتا ہے۔ یہاں پر نورجہاں کے عہدے دار ان اشیاء پر دریا پار کرنے سے قبل کسٹم ڈیوٹی وصول کرتے ہیں۔ یہ جگہ تجارت کی سب سے بڑی منڈی ہے یہ دو سو کوس کی لمبائی میں پھیلا ہوا ہے ، اگرچہ چوڑائی کم ہے مگر یہاں پر خوبصورت باغات اور بلند و بالا عمارتیں ہیں۔

ان میں سے مشہور سلطان پرویز، نورجہاں اور اس کے مرحوم باپ اعتمادالدولہ کی عمارتیں ہیں۔ اس کا مقبرہ بھی اس شہر میں ہے۔ اس کی تعمیر پر تین لاکھ پچاس ہزار روپیہ کا خرچہ آچکا ہے اور یہ ابھی تک مکمل نہیں‌ہوا ہے۔ اندازہ ہے کہ اس کے ختم ہونے تک اس پر دس لاکھ مزید خرچ ہوں گے۔ یہاں پر دو مشہور باغات ہیں کہ جو بادشاہ کی ملکیت ہیں، یہ چہار باغ اور موتی محل کے نام سے موسوم ہیں۔ ان کے علاوہ اور بہت سے باغات ہیں کہ جو اونچی دیواروں سے گھرے ہوئے ہیں۔ اور جن کے دروازے باغ سے زیادہ قلعہ کے معلوم ہوتے ہیں۔ ان باغات و محلات کی وجہ سے شہر کی خوبصورتی بڑھ گئی ہے۔ یہاں کے امراء کی دولت اور شان و شوکت ہمارے ہاں کے امراء سے زیادہ ہے۔ جب تک وہ زندہ رہتے ہیں، اپنے باغات سے لطف اُٹھاتے ہیں، جب یہ مرجاتے ہیں تو یہی باغات ان کے مقبرے بن جاتے ہیں۔ اس شہر میں ان کی تعداد اس قدر ہے کہ میں ان کا ذکر کرنا نہیں چاہتا۔

آگرہ کے مشرقی علاقوں کی تجارت

اکبر کے دور حکومت میں‌تجارت کو بڑا فروغ تھا، یہ صورت حال موجودہ بادشاہ کے ابتدائی عہد میں بھی رہی، کیونکہ اس وقت تک اس میں تازگی و توانائی اور حکومت کرنے کا سلیقہ تھا۔ لیکن جب سے اس نے خود کو لہو و لعب میں مبتلا کر لیا ہے، اس وقت سے عدل و انصاف کی جگہ ظلم و ستم نے لے لی ہے۔ اگرچہ ہر گورنر کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے عوام کی حفاظت کرے ، لیکن اس کے برعکس ہو یہ رہا ہے کہ ہر گورنر مختلف حیلوں، بہانوں سے لوگوں کو لوٹ رہا ہے اور ان کی ذرائع آمدن پر قابض ہو رہا ہے ۔ کیونکہ وہ اس بات سے اچھی طرح واقف ہوتے ہیں کہ ان غریب لوگوں کی پہنچ نہ تو دربار تک ہے اور نہ ہی بادشاہ تک اپنی شکایات پہنچا سکتے ہیں۔ نتیجہ ان سب باتوں کا یہ ہوا ہے کہ ملک تباہ ہوگیا ہے، لوگ غریب سے غریب تر ہو رہے ہیں۔ اس شہر کے پرانے لوگوں کا کہنا ہے کہ اب اس میں ماضی کی کوئی شان وشوکت باقی نہیں رہی ہے کہ جس کی وجہ سے کبھی یہ دنیا بھر میں مشہور تھا۔ اس شہر کی تجارتی اہمیت اس لئے ابھی تک باقی ہے کیونکہ جغرافیائی طور پر یہ ایک ایسی جگہ ہے کہ جہاں سے تمام ملکوں کو راستے جاتے ہیں۔ اس لئے اس راستے سے تمام تجارتی اشیاء کو گزرنا ہوتا ہے، مثلا گجرات، ٹھٹھہ، کابل، قندھار،ملتان اور دکن برہانپور اور لاہور کے راستے یہیں سے گزرتے ہیں بلکہ بنگال اور تمام مشرقی علاقے بھی یہاں سے ملے ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ اور کوئی دوسرا راستہ نعم البدل کے طور پر نہیں ہے۔ ان راستوں پر بڑی تعداد میں تجارتی اشیاء آتی جاتی ہیں۔

آگرہ کے مشرق اور مغرب میں واقع صوبوں کا ذکر

لاہور، آگرہ سے 300 کوس مشرق، مغرب میں‌واقع ہے۔ انگریزوں کے آگرہ آنے سے پہلے یہ ہندوستان کا مشہور تجارتی مرکز تھا اور یہاں آرمینا اور شام کے تاجر منافع بخش تجارت کرتے تھے۔ اس وقت نیل کی اہم منڈی آگرہ نہیں بلکہ لاہور تھا کیونکہ یہ تاجروں کے لئے سہولت کا باعث تھا کہ جو مقررہ موسموں میں قندھار سے اصفہاں اور شام قافلوں کی شکل میں جاتے تھے۔ اس لئے نیل شام کے راستے سے یورپ جاتی تھی، یہ یورپ میں‌لاؤری یا لاہوری کہلاتی تھی اب بھی یہاں سے گولکنڈا، منگاپٹم اور مالی پٹم کے بنے ہوئے کپڑوں کی تجارت ہوتی ہے، مگر بہرحال تجارت کی پہلی والی صورت اب باقی نہیں رہی ہے۔ اس لئے کہا جاسکتا ہے کہ اب یہ تجارت مر چکی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں سے درآمد کرنے والی اشیاء اب صرف ترکی اور ایران کی ضروریات کو پورا کرتی ہیں کہ جس کی مانگ محدود ہے۔ چونکہ اب تجارت خشکی سے زیادہ سمندری راستوں سے ہوتی ہے، اس لئے اس کی اہمیت گھٹ کر رہ گئ ہے۔ ان وجوہات کی بنا پر لاہور کی تجارت عملی طور پر ختم ہوگئی ہے، ہندو یا کھتری تاجر جو یہ تجارت کرتے تھے ان کی شہرت اب تک باقی ہے مگر ان کا گذارہ پرانے کمائے ہوئے منافع پر ہوتا ہے۔ کچھ عرصہ سے موجودہ بادشاہ سال کے پانچ یا چھ مہینے لاہور میں گزارتا ہے (بقیہ وقت، خصوصیت سے گرمیوں کا زمانہ یہ کشمیر یا کابل میں‌رہ کر گزارتا ہے) اس کی رہائش کی وجہ سے شہر کی حالت تھوڑی بہت بہتر ہوگئی ہے۔ لیکن اس کی یہ ساری شان و شوکت، شاہی عمارتوں، محلات، باغات اور شاہی اخراجات کی وجہ سے ہے، اس لئے اس کے اثرات بھی محدود ہیں۔

کشمیر

کشمیر 35 این۔ عرض البلد پر واقع ہے۔ مشرق کی جانب اس کی سرحدیں تبت خورو و کلاں تک جاتی ہیں جو کہ دس دنوں کے سفر کے فاصلے پر ہے۔ جنوب میں‌اس کی سرحدیں کابل سے جا کر ملتی ہیں جو کہ یہاں سے 30 دن کا سفر ہے۔ مغرب میں پونچھ اور پشاور واقع ہیں۔ اس کا سب سے خوبصورت شہر دیرناگ ہے جہاں کہ بادشاہ کے لئے ہندوستان میں‌سب عمدہ شکار گاہیں ہیں۔ اس علاقے میں بڑے خوبصور شہر اور گاؤں واقع ہیں ان کی اتنی تعداد ہے کہ ان سب کا بیان کر مشکل ہے۔

اس لئے اب ہم سب سے مشہور شہر کشمیر (سری نگر) کا بیان کرتے ہیں جو کہ اونچے اونچے پہاڑوں میں گھرا ہوا ہے۔ یہاں کا ایک پہاڑ مسلمانوں میں تخت سلیمان کہلاتا ہے جس کے بارے میں عجیب و غریب باتیں مشہور ہیں، اور کئی کراماتیں اس سے منسوب ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اس پر کئی قدیم تحریریں موجود ہیں، اور یہ کہ خود حضرت سلیمان نے یہاں اپنا تخت بنوایا تھا۔ شہر میں پھلوں والے اور دوسرے لا تعداد درخت ہیں۔ یہاں پر دو دریا بہتے ہیں۔ ان میں‌سے بڑا دریا دیر ناگ سےآتا ہے، دوسرا چشمہ کی صورت ابلتا ہے۔ لیکن ان دونوں دریاؤں کا پانی نہ تو میٹھا ہے اور نہ ہی صحت مند۔ اس لئے یہاں کے باشندے اسے پینے سے پہلے ابال لیتے ہیں۔ بادشاہ اور اس کے امراء کے لئے 3 یا 4 کوس سے پانی لایا جاتا ہے جو صاف اور برف کی طرح سفید ہوتا ہے۔ جہانگیر بادشاہ نے پانی کو محفوظ رکھنے کی غرض سے ایک کاریز تعمیر کرائی تھی کہ جو کہ 10 یا 12 کوس کے فاصلہ سے قلعہ میں پانی لاتی تھی۔ لیکن اس خیال سے کہ اسے آسانی کے ساتھ دشمن یا باغی زہر آلود کر سکتے ہیں اس نے کوئی 10 ہزار روپیہ خرچ کرنے کے بعد اس منصوبہ کو ترک کردیا۔

اس ملک اور شہر کے لوگوں کی اکثریت غریب ہے۔ لیکن جسمانی طور پر یہ لوگ طاقتور ہیں، اور بمقابلہ ہندوستانیوں کے زیادہ بوجھ اٹھا سکتے ہیں۔ یہ اس لئے حیرت کی بات ہے کہ یہاں مردوں اور عورتوں کو بہت کم کھانے کو ملتا ہے۔ ان کے بچے اس ملک اور شہر کے لوگوں کی اکثریت غریب ہے۔ لیکن جسمانی طور پر یہ لوگ طاقتور ہیں، اور بمقابلہ ہندوستانیوں کے زیادہ بوجھ اٹھا سکتے ہیں۔ یہ اس لئے حیرت کی بات ہے کہ یہاں مردوں اور عورتوں کو بہت کم کھانے کو ملتا ہے۔ ان کے بچے گورے اور خوبصورت ہوتے ہیں، لیکن جب یہ بڑے ہوتے ہیں‌تو پیلے اور بدصورت ہوتے چلے جاتے ہیں۔ ان کے طور طریق خوراک اور رہائش کو دیکھا جائے تو وہ انسانوں سے زیادہ جانوروں سے نسبت رکھتے ہیں۔

یہ لوگ مذہبی امور میں بڑے سخت ہیں۔ اکبر کے زمانہ میں کشمیر کو اس کے جنرل راجہ بھگوان داس نے حیلے و بہانے سے فتح کیا تھا کیونکہ دوسری صورت میں پہاڑوں اور دشوار گزار راستوں کی وجہ سے اس ملک کو فتح کرنا آسان نہ تھا۔

کشمیر میں پھلوں کی کئی اقسام پائی جاتی ہیں۔ جیسے سیب، ناشپاتی اور اخروٹ وغیرہ لیکن ذائقہ میں یہ ایران و کابل کے پھلوں کے مقابلہ میں کم تر ہیں۔ دسمبر جنوری اور فروری میں‌یہاں سخت سردی ہوتی ہے۔ ان مہینوں‌میں‌بارش اور برف باری ہوتی ہے اور پہاڑ برف کی وجہ سے سفید نظر آتے ہیں۔ جب گرمی میں سورج چمکتا ہے تو اس وقت برف پگھلنے سے دریاؤں میں‌سیلاب آجاتا ہے۔

بادشاہ کشمیر کو اس لئے پسند کرتا ہے کہ جب ہندوستان میں گرمیوں کا موسم آتا ہے تو اس کا جسم کثرت سے شراب پینے اور افیم کھانے کی وجہ سے جلنے لگتا ہے۔ اس لئے وہ مارچ یا اپریل میں لاہور سے کشمیر کے لئے روانہ ہوجاتا ہے۔ مئی کے مہینے میں‌یہاں پہنچ جاتا ہے۔ یہ سفر انتہائی دشوار اور خطرناک ہے۔ پہاڑی راستوں کی وجہ سے جانوروں کے لئے سامان اُٹھا کر چلنا مشکل ہوتا ہے اس لئے بادشاہ اور اُمراء کا سامان مزدور اپنے سروں پر اُٹھا کر لاتے ہیں۔ بادشاہ کے کیمپ کے تمام لوگ اس سفر کو اپنے لئے عذابِ الہٰی سمجھتے ہیں۔ کیونکہ اس میں امیر لوگ غریب ہو جاتے ہیں اور غریبوں کو کھانے کے لالے پڑ جاتے ہیں کیونکہ یہاں ہر چیز انتہائی مہنگی ہے۔ مگر بادشاہ ان سب باتوں سے بے پرواہ ہو کر اپنی آسائش و آرام کو دیکھتا ہے اور عوام کی تکلیف کا اسے خیال تک نہیں آتا۔



گذشتہ حوالہ: جہانگیر کا ہندوستان-۱