انکار یا فرار ۔۔۔ ایک خیال
عنیقہ ناز کی فکر انگیز تحریر "انکار یا فرار" کے تبصرے میں خاکسار نے یہ تحریر درج کی ہے۔ آپ سب کی توجہ اور آرا کے لئے یہاں بھی پیش کر رہا ہوں۔
بہت اچھی اور سچی تحریر ہے۔ نوجوانوں کے موجودہ رویّے میں آپ کی بتائی ہوئی تینوں چیزیں ہی کسی نہ کسی حد تک پائی جاتی ہیں۔ یعنی احساس محرومی، احساس ذمہ داری اور مقابلے کی فضا میں فرار ۔
اس کے علاوہ اُن کی تعلیم و تربیت اور اندازِ تعلیم و تربیت اس معاملے میں بے حد اہم ہے۔ ہماری اکثریت چونکہ معاشی طور پر مستحکم نہیں ہے اس لئے ہم اپنے بچوں کو تیار ہی اس طرح کرتے ہیں کہ وہ بڑے ہوتے ہی معاشی بدحالی کے خلاف جنگ میں ہمارے ساتھ شریک ہوجائیں ۔ یہاں تعلیم کا مطلب نوکری کا حصول ہے اور ڈگریوں کا مطلب محض فارمیلیٹی، کہ نوکری کے لئے ڈگری کا ہونا ضروری ہے۔
پھر ہم لوگوں کی تنگ اور متعصبانہ سوچ بھی ان بچوں کو ورثہ میں ملتی ہے ، وہ اسے ساری زندگی اپنے ساتھ لگا کر رکھتے ہیں اور آنے والی نسل کو منتقل کر دیتے ہیں اور اس طرح ہمیں اس بات کا موقع مل جاتا ہے کہ ہم اپنی ناکامیوں کو کسی نہ کسی کے سر منڈ دیں ۔ ہم اگر مسلمان ہیں تو ہماری ناکامیوں کی وجہ یہود و نصاریٰ ہیں۔ اگر ہم اردو بولنے والے ہیں تو پنجاب اور اسٹیبلشمینٹ اس کام کے لئے حاضر ہیں۔ اگر ہم پنجابی ہیں تو سندھ اور کراچی والے حاضر ہیں غرض یہ کہ ہم سب نے کسی نہ کسی کو ظالم ٹہھرا لیا اور خودکو مظلوم ثابت کرکے ہر قسم کے احتساب سے بری کر لیا۔
اگر ہم سب اپنے آپ کو پاکستانی سمجھنے لگیں تو پھر ہمیں اپنے لئے اور پاکستان کے لئے کام کرنا پڑے گا اور اپنی ناکامیوں پر اپنی ہی طرف دیکھنا پڑے گا شاید اسی لئے ہم لوگ چھوٹے چھوٹے حصوں میں بٹ کر اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنا کربیٹھے ہیں اور بے حد مطمئن ہیں۔
کیا ہی اچھا ہو اگر ہم اپنے نوجوانوں کی نظر میں پاکستان کا امیج بہتر کریں اور جس طرح "آئی اون کراچی" کی تھیم کراچی میں لائی گئی ہے اسی طرح "آئی اون پاکستان" کی تھیم لائی جائے تاکہ ہمارے نوجوان اپنے ملک پاکستان کو اپنا سمجھیں پاکستان سے محبت کریں ۔ مجھے اُمید ہے کہ یہاں سے ہمارے نوجوان کو وہ اسپائریشن ملے گی کہ وہ کچھ نہ کچھ کرنے کی کوشش ضرور کرے گا۔
واقعی آپ نے سچ کہا ہے ہمیں اپنی غلطیوں کا ذمہ دار دوسروں کو ٹھرانے کی عاد ت پڑ گئی ہے.
جواب دیںحذف کریںیہ "آئی اون پاکستان" والا آئڈیا بہت خوب ہے۔ اگر اس کو پاکستان کے طول و عرض میں ایک خاطر خواہ عرصے تک عام کرنے کی کوششیں کی جا ئیں تو پاکستانیوں کی سوچ میں بہت اہم تبدیلی آسکتی ہے۔ اور سوچ جو بدل جائے تو زندگی بدل جاتی ہے۔
جواب دیںحذف کریںحالات کی درست رونمائی کی ہے آپ نے
جواب دیںحذف کریںہم سب کچھ ہيں ليکن پاکستانی نہيں ہيں اور يہی ہماری بے کسی کی وجہ ہے
پچھلے سال لوگ محبِ وطن ہونے کے اشارے دے رہے تھے ۔ ميں نے ايک پاکستانی جوان کا بنايا ہوا اوتار "ميری پہچان پاکستان" اپنے بلاگ پر لگايا اور سب پاکستانی بلاگرز کو اسے اپنے بلاگز پر لگانے کی ترغيب دی ۔ کسی نے نہ لگايا بلکہ ايک صاحب نے مجھے لکھا "يہ کيا ضروری ہے ؟"
بالکل صحیح کہا
جواب دیںحذف کریںلیکن بچوں کی درست پرورش کے لیے والدیں کی میچور سوچ بھی ضروری ہے
اور اگر ابھی سے کوشش کریں تو پھل اگلی یا اس سے اگلی نسل میں دیکھنے کو ملے گا
اور اتنی دور اندیشی ہماری قوم میں قطعا نہیں پائی جاتی
نئی نسل میں شعور آ رہا ہے اور یہ شعور اگر نسل در نسل منتقل ہوتا رہا تو اگلے سو دو سو سالوں میں بہتری کی امید ہے
جواب دیںحذف کریںمیرا پاکستان ،
جواب دیںحذف کریںکم از کم جن لوگوں کو اس بات کا ادراک ہو چلا ہے وہ ہی اپنی حد تک ہی تبدیلی لانے کی کوشش کریں تو کچھ نہ کچھ بہتری ہوجائے گی.
احمد عرفان شفقت صاحب،
جواب دیںحذف کریںآئی اون پاکستان والا آئیڈیا آپ کو پسند آیا مجھے اچھا لگا لیکن ہمارے ہاں اس قسم کی چیزوں کی پزیرائی کم کم ہی ہوتی ہے کہ اس میں اپنے اختلافات کو پسِ پشت ڈالنا پڑتا ہے جو ہم میں سے بہت سوں کے لئے بہت گراں عمل ہے.
افتخار اجمل صاحب،
جواب دیںحذف کریںواقعی ہم سب کچھ ہيں ليکن پاکستانی نہيں ہيں.پاکستانی ہونے کی پہچان اپنے بلاگ پر لگانا ایک پاکستانی بلاگر کے لئے باعثِ فخر ہونا چاہیے . اوراگر ملک کے حالات خراب ہیں تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ ہم اپنی شناخت سے ہی کنارہ کش ہو جائیں گے.
ڈفر بھائی
جواب دیںحذف کریںآپ نے ٹھیک کہا کہ یہ ایک آہستہ رو مرحلہ ہے اور ہمیں اپنے آج کو ٹھیک کرنا پڑے گا اور ہماری آج کی اصلاحات کے ثمر کے لئے ہمیں ایک دو نسلوں تک استقامت دکھانی ہوگی.
فکرِ پاکستان
جواب دیںحذف کریںچلئے بہتری کی امیدتو ہے. اُمید بڑی چیز ہے.