غزل
داغ دل ہم کو یاد آنے لگے
لوگ اپنے دیئے جلانے لگے
کچھ نہ پا کر بھی مطمئن ہیں ہم
عشق میں ہاتھ کیا خزانے لگے
یہی رستہ ہے اب یہی منزل
اب یہیں دل کسی بہانے لگے
خود فریبی سی خود فریبی ہے
پاس کے ڈھول بھی سہانے لگے
اب تو ہوتا ہے ہر قدم پہ گماں
ہم یہ کیسا قدم اٹھانے لگے
اس بدلتے ہوئے زمانے میں
تیرے قصے بھی کچھ پرانے لگے
رخ بدلنے لگا فسانے کا
لوگ محفل سے اٹھ کے جانے لگے
ایک پل میں وہاں سے ہم اٹھے
بیٹھنے میں جہاں زمانے لگے
اپنی قسمت سے ہے مفر کس کو
تیر پر اڑ کے بھی نشانے لگے
ہم تک آئے نہ آئے موسم گل
کچھ پرندے تو چہچہانے لگے
شام کا وقت ہو گیا باقیؔ
بستیوں سے شرار آنے لگے
باقیؔ صدیقی
خود فریبی سی خود فریبی ہے
جواب دیںحذف کریںپاس کے ڈھول بھی سہانے لگے
واہ واہ۔۔۔ کیا کمال غزل ہے۔۔۔۔ ایک ایک شعر لاجواب ہے۔
انتخاب کی پسندیدگی کا بہت شکریہ ذوالقرنین بھائی !
جواب دیںحذف کریں