تم ہوتے ہو جہاں حماقت ہوتی ہے



جاوید اختر ہمارے پسندیدہ شاعر ہیں۔ اُن کی ایک غزل جو ہمیں  بہت پسند ہے ایک دن بیٹھے بیٹھے دماغ میں اُلٹ پُلٹ ہوگئی۔ یہ نیا ورژن قارئینِ بلاگ کے لئے پیش ہے۔

تم ہوتے ہو جہاں حماقت ہوتی ہے
میں ہوتا ہوں، میری ہمت ہوتی ہے

اکثر وہ کہتے ہیں تکلف مت کرنا
اکثر کیوں کہتے ہیں حیرت ہوتی ہے

چاروں اور سے دیکھتے ہیں اُس شوخ کو ہم
ڈبے پر ہر شے کی قیمت ہوتی ہے

ماں کے ہاتھ میں چپل بھی ہے دھیا ن رہے
یہ مانا پیروں میں جنت ہوتی ہے

عادی ہوں میں دنیا بھر کی باتوں کا
جانتا ہوں میں اُن کو عادت ہوتی ہے

بسمہ اللہ پڑھ کر وہ پانی ڈالتا ہے
دودھ میں اچھی خاصی برکت ہوتی ہے​

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں