باقی سب افسانے ہیں


باکسنگ کا مقابلہ زور و شور سے جاری تھا۔ تماشائیوں میں بھی کافی گرم جوشی پائی جاتی تھی ۔ ایک صاحب کچھ زیادہ ہی پرجوش نظر آرہے تھے اور بار بار کہہ رہے تھے۔
مارو ! اور مارو ! دانت توڑ دو اس کے!
ساتھ ہی بیٹھے ایک صاحب نے پوچھا" کیا آپ بھی باکسر ہیں؟"
جواب ملا "نہیں میں ڈینٹسٹ (دانتوں کا معالج)ہوں"۔

یہ تو خیر ایک لطیفہ تھا لیکن روزگار کے مواقع تلاش کرنا اور اُس کے لئے کوششیں کرنا تو سب کا حق ہے۔ یہ کوششیں اُس وقت تیز تر کرنی پڑتی ہیں جب کوئی آپ کے پیٹ پر لات مار دے۔

چلئے صاف صاف بات کرتے ہیں اور بات ہے قومی مفاہمتی آرڈیننس کی۔ یہ اُس وقت کی بات ہے جب ہمارے سابق صدر صاحب کی کُرسی ڈگمگا رہی تھی کیونکہ انہوں نے خود ہی اس کُرسی کے دو پائے بُری طرح سے ہلا دیئے تھے ایسے میں اُن کی نظر بد عنوانیوں کی غلاظت میں سر سے پاؤں تک سنے ہوئے روتے بلکتے سیاست دانوں پر پڑی۔ ڈوبتے کو تنکے کا سہارا کے مصداق اُنہوں نے سیاست دانوں کو اے نہ رو (این آر او ) کی لوری سُنائی اور سیاست دانوں کو سینکڑوں مقدمات میں سے دودھ سے مکھی کی طرح نکال کر اپنے پاس رکھ لیا ۔صدر صاحب کیا چاہتے تھے یہ تو سب کو ہی پتہ ہے لیکن اُن کے اس مفاہمتی آرڈینینس کی ہی کرامات ہیں کہ آج

جو رد ہوئے تھے جہاںمیں کئی صدی پہلے
وہ لوگ ہم پہ مسلط ہیں اس زمانے میں
(جون ایلیا)

خیر بات ہو رہی تھی قومی مفاہمتی آرڈینینس کی تو اس بات پر تو کافی بحث ہوئی کہ اس مفاہمت سے کس کس کو کتنا فائدہ پہنچا لیکن یہ بات کسی نے بھی نہ سوچی کہ اس آرڈینینس کا سب سے زیادہ نقصان کس کو ہوا۔ یہ بات بھی اب آہستہ آہستہ سمجھ آ رہی ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ بہ یک جنبشِ قلم سینکڑوں ہزاروں مقدمات ختم ہونے سے سب سے زیادہ اثر وکلا اور اُن کے روزگار پر پڑا کہ جب مقدمات سے ہی جان چھوٹ جائے تو وکیلوں کے ناز نخرے کوئی کیوں اُٹھائے۔

یہ کہنا تو خیر زیادتی ہوگا کہ اسی کارن وکلا نے اپنی تاریخ ساز تحریک چلائی لیکن اس ایک بات سے اُنہیں اچھی خاصی تحریک ضرور ملی ہوگی کیونکہ وہ کیا کہا ہے کسی نے کہ
"اپنی ذات سے عشق ہے سچاباقی سب افسانے ہیں

اعتزاز احسن کے معاملے میں مجھے پپلز پارٹی پر بہت رشک آتا تھا کہ اس پارٹی میں ایک ایسا شخص بھی ہے جو اس قدر با وفا ہے کہ بالکل متضاد موقف رکھتے ہوئے بھی پارٹی سے علیحدگی کے بارے میں سوچتا بھی نہیں ہے۔ حتیٰ کہ جب پارٹی از خود اُسے مرکزی مجلسِ شوریٰ سے الگ کردیتی ہے تب بھی یہ شخص ہے کہ پارٹی سے الگ نہیں ہوتا یعنی میں تو کمبل کو چھوڑتا ہوں کمبل مجھے نہیں چھوڑتا۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو اعتزاز صاحب ہی وہ برہمن قرار پائے ہیں جنہیں بلا شبہ کعبے میں گاڑا جانا چاہیے (جلدی کوئی نہیں ہے)۔

بہرحال اب جبکہ این آر او کا لحاف کھینچ لیا گیا ہے اور مقدمات کی یخ بستہ ہوائیں پھر سے چل پڑی ہیں قوی اُمید ہے کہ پپلز پارٹی اب اپنے وفا شعار کمبل کو پھر سے گلے لگا لے گی ۔ شاید کمبل کو بھی اسی دن کا انتظار تھا کیونکہ پھر وہی بات کہ

اپنی ذات سے عشق ہے سچا باقی سب افسانے ہیں


15 تبصرے:

  1. ساری تحریر میں یہ مساوات کام کی ہے

    اے نہ رو = این آر او

    جواب دیںحذف کریں
  2. کبھی ہم ہنس کر رہ جاتے ہیں۔ اور کبھی زور سے ہنسی نکل جاتی ہے۔ شکر ہے پاس بٹو ہے نہیں۔ پوچھے کہ کیوں اتنا ہنس رہی ہیں تو بتا بھی نہ سکوں۔

    جواب دیںحذف کریں
  3. NROکالا قانون تھا . اچھا ہے کہ ختم ہو گیا ......

    جواب دیںحذف کریں
  4. جناب یہ "اے نہ رو" کی اصطلاح خوب پیش کی ہے آپ نے۔۔ ۔

    جواب دیںحذف کریں
  5. مجھے تو سب سے اچھی یہ بات لگی
    اپنی ذات سے عشق ہے سچا باقی سب افسانے ہیں!
    افسوس ہم سب اپنی ذات کے عشق میں مبتلا لوگ ایک دن یونہی فنا ہوجائیں گے!

    جواب دیںحذف کریں
  6. افتخار اجمل بھوپال صاحب،

    آپ چونکہ مساوات کے قائل ہیں سو آپ کو مساوات اچھی لگی۔ آپ کو اس تحریر میں سے کچھ اچھا لگا یہ بات ہمیں اچھی لگی۔

    جواب دیںحذف کریں
  7. عنیقہ صاحبہ،

    ہم بھی نہیں پوچھیں گے کہ آپ کو ہنسی کیوں آئی. یوں بھی بلاگرز کو ہنسنے کا موقع اور فرصت کم ہی ملتی ہے.

    خوش رہیے۔

    جواب دیںحذف کریں
  8. فرحان دانش،

    بلاشبہ این آر او اسی قابل تھا کہ اُسے ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا جائے۔

    جواب دیںحذف کریں
  9. اُسید صاحب،

    آپ کو اس تحریر میں کچھ لگا یہ آپ کا حسنِ نظر ہے۔

    جواب دیںحذف کریں
  10. ٹھیک کہا عبداللہ بھائی!

    ہمیں ایسےمخلص لوگوں کی ضرورت ہے جو اپنی جماعت سے بھی زیادہ پاکستان سے مخلص ہوں۔ یعنی ہر قیمت پر اُن کی ترجیح پاکستان ہو ۔ تب ہی ہم پاکستان کے لئے کچھ کر سکیں گے۔

    جواب دیںحذف کریں
  11. مزہ تو جب ہے جب ان ججوں کا بھی مواخذہ کیا جائے جنہون نے برسہا برس تک بے نظیر اور آصف زرداری کے مقدمات کو لٹکائے رکھا اور انکا فیصلہ کر کے نہ دیااور وہ یہ بھی بتائیں کہ وہ یہ سب کن لوگوں کے اشاروں پر کرتے رہے ہیں!

    جواب دیںحذف کریں
  12. عبداللہ بھائی !

    اس کا آسان ترین طریقہ یہ ہے کہ این آر او جیسے کالے قانون کو متعارف کرانے والے شخص کا مواخذہ کیا جائے آپ دیکھئے گا تحقیقات کے دوران وہ لوگ بھی رگڑے میں آجائیں گے جن کا مواخذہ آپ چاہتے ہیں.

    جواب دیںحذف کریں
  13. ہاں لگتا تو یہی ہے کہ کچھ ایسا ہی ہوگا!اگر لوگ اس ملک کو واقعی صحیح راستے پر چلانے کے خواہشمند ہیں تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    جواب دیںحذف کریں