اکبر حمیدی کی خوبصورت غزل آپ کے نام
گنوا نہ آبِ گہر، یار آبدیدہ مرے
بہار آئے گی نخلِ خزاں رسیدہ مرے
زوال کی ہے علامت، عروج ظلمت کا
حصارِ غم سے نکل ، مہر شب گزیدہ مرے
فضا میں تھام لے اُس کے گلاب ہاتھوں کو
ہوائے شوق میں اُٹھ دست نا رسیدہ مرے
زمانہ گوش بر آواز ہے تری خاطر
یہ ترا عہد ہے، اے حرف نا شنیدہ مرے
برنگِ حرف غلط ہیں یہ سر کشیدہ تمام
تمھیں تو نقشِ ابد ہو، سرِ خمیدہ مرے
قریب ہے وہ زمانہ کہ ظالموں کے خلاف
علم بنیں گے ترے، دامنِ دریدہ مرے
مجھے یقین ہے روئے زمین کو اکبر
چمن بنائیں گے گلہائے نودمیدہ مرے
اکبر حمیدی
بہت شکریہ احمد صاحب، خوبصورت غزل شیئر کرنے کیلیے۔
جواب دیںحذف کریںبہت شکریہ وارث بھائی!
جواب دیںحذف کریں۔
زبردست، بہت خوب۔ بار بار پڑھے جانے کے لائق ہے۔
جواب دیںحذف کریںشکریہ عنیقہ صاحبہ !
جواب دیںحذف کریں۔