تبصرہ ٴکُتب | ہدایت نامہ شاعر از ساقی فاروقی


ہدایت نامہ شاعر، ساقی فاروقی کی کتاب ہے۔

یہ ساقی فاروقی کے تنقیدی مضامین کا مجموعہ ہے، جسے سنگ میل پبلیکیشنز نے شائع کیا ہے۔ شاعری پر تنقید کے حوالے سے یہ ایک بہت اچھی کتاب ہے۔ مصنف ادبی تنقید میں کافی درک رکھتے ہیں ۔ اپنی تحریر میں بڑے کھرے ہیں اور جس بات کو جیسا سمجھتے ہیں ویسا ہی بیان کرتے ہیں۔ اور یہی اُن کی خوبی ہے۔

ساقی صاحب نے اپنی کتاب میں جہاں جہاں تنقید کے باب رقم کیے ہیں وہاں وہاں اُنہوں نے اُنہیں حوالوں سے مشاہیر و معاصر شعراء کے بہترین اشعار کا انتخاب بھی پیش کیا ہے اور ساقی بہرکیف سچے اور اچھے شعر سے محبت کرنے والے ہیں۔

ساقی کلیشے زدہ اشعار و عبارت سے سخت خائف ہیں اور وہ چاہتے کہ ہر شخص جو لکھے وہ نیا ہو اور اوریجنل ہو۔ خاکسار اُن کی اس بات سے صد فی صد متفق ہے ۔ جب ہم کسی نئے شاعر کا کلام پڑھیں تو ہمیں لگے کہ ہم کچھ نیا پڑھ رہے ہیں اور یہ شاعری مشاہیر کے کلام کا نیا جنم نہیں ہے۔

کتاب کا پہلا اور شاید سب سے طویل باب اُنہوں نے وزیر آغا صاحب کی شاعری پر لکھا ہے بلکہ اُنہیں ٹھیک ٹھاک آڑے ہاتھوں لیا ہے۔ اور وزیر آغا کے کلام میں ایسے اسقام کی نشاندہی کی ہے کہ جن سے مبتدی شعراء بھی با آسانی بچ جاتے ہیں۔

یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ مصنف کافی زیادہ منہ پھٹ اور کسی حد تک بد تمیز واقع ہوئے ہیں لیکن اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ فن شعر اور تنقید میں اُن کی فہم و فراست اور اعلیٰ ذوق کسی تعریف کے محتاج نہیں ہیں۔

اس کتاب کو اردو شعری تنقید کی اچھی کتابوں میں چُنا جا سکتا ہے تاہم اب صرف یہ خواہش ہی کی جا سکتی ہے کہ مصنف نے تنقید کرتے ہوئے نرم رویّہ اختیار کیا ہوتا اور زیرِ گفتگو متن کو معروضی انداز میں دیکھا ہوتا۔

بہر کیف یہ ایک اچھی کتاب ہے اور شاعری سے دلچسپی رکھنے والوں اور بالخصوص شاعری کے میدان میں طبع آزمائی کرنے والوں کو اسے ضرور پڑھنا چاہیے۔



کتاب پڑھنا کیوں ضروری ہے؟​


ہم حیران ہوتے ہیں ، ہم سے مراد وہ لوگ جنہوں نے انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کو اپنی آنکھوں کے سامنے نمو پاتے ہوئے دیکھا ہے اور جن لوگوں کے دیکھتے ہی دیکھتے انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا نے ہمارے معاشرے میں اچھی خاصی جگہ بنا لی ، بلکہ یوں کہیے کہ یہ ہم میں سے بیشتر کے حواس پر چھا گیا۔

ہم سب حیران ہوتے ہیں اور اکثر حیران ہوتے ہیں کہ ہم اِس زلفِ گرہ گیر کے اسیر کیسے ہو گئے۔ ہم جو ایک زمانے میں کتابوں سے جڑے رہتے تھے، کتابیں پڑھتے پڑھتے نیند کی آغوش میں چلے جاتے اور صبح اُٹھتے ساتھ ہی تکیے کی نیچے سے پھر کتاب نکال کر وہیں سے شروع ہو جاتے ، ہم کس طرح انٹرنیٹ بالخصوص سوشل میڈیا کے چُنگل میں اس بُری طرح پھنس گئے کہ اِس سے اب جان چھوٹتی نظر نہیں آتی۔

ہم میں سے بیشتر نے اس کا شکوہ بھی کیا، گلزار صاحب نے اپنی مشہورِ زمانہ نظم "کتابیں جھانکتی ہیں بند الماری کے شیشوں سے " لکھی اور بھی کئی لوگوں نے گاہے گاہے اس موضوع پر اپنی تشویش کا اظہار کیا لیکن یہ سب اظہاریے اور شکوے ، شکوے کم اور اپنی بے بسی کا اظہار زیادہ معلوم ہوتے ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم جو کتابیں پڑھنے والے لوگ تھے، اب ہماری اکثریت سوشل میڈیا پر موجود تحریریں پڑھنے تک محدود کیوں ہو گئی ہے؟

شاید آپ یہ کہیں کہ بیشتر لوگ جو دن میں ایک صفحہ بھی نہیں پڑھتے تھے اب ان جانے میں کئی کئی صفحات کے برابر مواد سوشل میڈیا پر روزانہ کی بنیاد پر پڑھ لیتے ہیں۔ اور یہ سوشل میڈیا کی خوبی ہے۔ بلاشبہ ایسے لوگوں کی حد تک تو یہ واقعی ایک اچھی بات ہے۔ لیکن اگر اُن سنجیدہ قارئین کو دیکھا جائے جو پہلے کُتب بینی کے عادی تھے اور اب انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کی تحریروں تک محدود ہو گئے ہیں تو اُن کے لئے یہ بہت بڑے نقصان کا سودا ہے۔

ذیل میں ہم سوشل میڈیا پر ملنے والے تحریری مواد اور باقاعدہ کتب کا ایک مختصر موازنہ کریں گے۔ باقاعدہ کتب سے مراد وہ کتابیں ہیں جو لکھی گئی اور شائع کی گئی، ان میں ای بکس وغیر ہ بھی شامل ہیں۔

کتابیں (کاغذ پر چھپی کتابیں اور ای بُکس وغیرہ)
سوشل میڈیا تحریریں
باقاعدہ کتابیں (اب سے ہم صرف کتابیں کہیں گے) باقاعدہ مصنفین کی لکھی ہوئی ہوتی ہیں ۔ جو کہ ناصرف پڑھنے لکھنے کے ہنر سے واقف ہوتے ہیں ۔ بلکہ اُن میں سے بیشتر اوسط علم و ذہانت سے زیادہ ذہین و فطین ہوتے ہیں، اور اپنے وسیع مطالعے کے باعث زیادہ علم والے بھی ہوتے ہیں۔ بلکہ اُن میں سے کچھ تو عبقری اذہان کے حامل نابغہ روزگار شخصیات ہوتی ہیں۔
سوشل میڈیا پرلکھنے والے ہمارے آپ کے جیسے اوسط علم و ذہانت کے حامل ہوتے ہیں بلکہ وہ لوگ جو محض پروپیگنڈہ کے لئے لکھ رہے ہوتے ہیں کافی پست ذہنیت کے مالک ہوتے ہیں۔
یوں تو بہت سی کتابیں بھی اتفاقاً ہمارے پاس چلی آتی ہیں لیکن زیادہ تر کُتب کی اصناف و مضامین کا انتخاب ہمارے پاس ہوتا ہے۔
سوشل میڈیا پر موضوعات اکثر ہم پر مسلط کیے جاتے ہیں اور ہم اپنے انتخاب کا اختیار کسی حد تک دوسروں کو دے دیتے ہیں ۔
سوشل میڈیا کی بہ نسبت ، کتابوں میں ہمیں زیادہ موضوعات اور تنوع مل سکتا ہے کہ اکثر یہ ہمارا اپنا انتخاب ہوتی ہیں اورکسی پروپیگنڈے کے تحت ہم پر مسلط نہیں کی جاتیں۔
سوشل میڈیا پر موضوعات میں تنوع بہت کم ہوتا ہے اور اکثر تحریریں محض بہاؤ میں بہنے والے مضامین لیے ہوتی ہیں ۔
سوشل میڈیا کی بہ نسبت ، کتابوں میں ہمارے لئے اثر پذیری بہت زیادہ ہوتی ہے۔ اور اِن میں سے اچھی کتابوں کی رسائی ہماری درونی کیفیات تک ہوجاتی ہے، کہ جس تجربے سے گزرنا بڑے نصیب کی بات ہوتی ہے۔
سوشل میڈیا مضامین کے پیچھے اکثر سطحی ذہنیت کارفرما ہوتی ہے اور ہمیں عموماً ایسی تحاریر پڑھنے کو نہیں ملتی جن میں واقعتاً گہرائی اور گیرائی کا عنصر موجود ہو۔
کتاب اپنے موضوعات کا احاطہ بڑی جامعیت کے ساتھ کرتی ہیں، اور ان میں فصاحت و بلاغت کا اہتمام کیا جاتا ہے۔
جبکہ سوشل میڈیا تحریر عموماً یک تہی اور اکثر ناقص الخیال ہوتی ہیں۔


مزے کی بات یہ ہے کہ سوشل میڈیا ایجاد کرنے والے امریکیوں کی ایک غالب اکثریت اب بھی کتابیں پڑھتی ہے۔ جن میں طبع شدہ کتابوں کا تناسب اب بھی ای بکس اور آڈیو بکس سے زائد ہے۔ ایک اندازے کے مطابق تہتر فیصد بالغ افراد اب بھی امریکہ میں کتابیں پڑھتے ہیں۔ اور بیشتر لوگوں کے ریڈرز، ٹیب اور فونز میں ہمہ وقت کتابیں موجود رہتی ہیں۔


اگر آپ سمجھتے ہیں کہ سوشل میڈیا پر محض چھوٹی چھوٹی مجہول تحریریں پڑھتے رہنا آپ کے مطالعے کے شوق اور ضرورت کو اُسی طرح پورا کرتی ہیں کہ جیسے پہلے کبھی کتابیں کیا کرتیں تھیں تو پھر آپ کو ایک بار پھر سے اس معاملے کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔ امریکی مصنف اور مزاح نگار مارک ٹوئین کا کہنا ہے کہ جو شخص کتابیں نہیں پڑھتا ، اُس شخص سے کسی طرح بہتر نہیں ہے جو پڑھنا ہی نہیں جانتا۔ اسی بات کو اردو میں پڑھ لکھ کر گھاس کاٹنا کہا جاتا ہے۔

ہمارا یہ کہنا ہے کہ کتابوں کے لئے اپنے وسائل بالخصوص وقت میں سے کچھ حصہ ضرور صرف کریں یہ یقیناً آپ کے اور آپ کی آنے والی نسل کے مستقبل کے لئے بہترین سرمایہ کاری ثابت ہوگی۔

تحریر: محمد احمد​



***

Why Book Reading is important?

غزل : زعمِ عہدِ سلف میں رکھا ہوا

غزل

زعمِ عہدِ سلف میں رکھا ہوا
خاکزادہ ، خذف میں رکھا ہوا

سُونی سُونی ہے سوزنِ مژگاں
ہے نگینہ صدف میں رکھا ہوا

منزلیں مل گئیں تو ہوگا کیا ؟
ایسا کیا ہے ہدف میں رکھا ہوا

تھے وہاں سب بہ امرِ مجبوری
میں بھی تھا ایک صف میں رکھا ہوا

یہ ترا سنگِ در ، یہ دروازہ
اور ہُوں اِک طرف، میں رکھا ہوا

پھول صحرا میں منتظر اُنؐ کے
سازِ اُلفت تھا دف میں رکھا ہوا

ایک لمحہ مرا بھی ہے احمدؔ
ایک عہدِ سلف میں رکھا ہوا

محمد احمدؔ


غزل: آ گیا تھا وہ خوش خصال پسند

غزل

آ گیا تھا وہ خوش خصال پسند
تھی ہماری بھی کیا کمال پسند

حیف! بد صورتی رویّوں کی
ہائے دل تھا مرا جمال پسند

کیوں بنایا تھا ٹِھیکرا دل کو
کیوں کیا ساغرِ سفال پسند

ٹھیک ہے میں نہیں پسند اُنہیں
لیکن اس درجہ پائمال پسند

سچ نہ کہیے کہ سچ ہے صبر طلب
لوگ ہوتے ہیں اشتعال پسند

ہاں مجھے آج بھی پسند ہے وہ
اس کو کہتے ہیں لازوال پسند

حلم ہے اہلِ علم کا شیوہ
جاہ والوں کو ہے جلال پسند

وصل کو ہجر ، ناگہانی موت
ہجر کو موسمِ وصال پسند
 

فکرِ دنیا نہیں! مجھے احمدؔ
اپنی مستی اور اپنی کھال پسند

محمد احمدؔ​

غزل: اوس کہتی ہے رات روئی ہے

غزل

اوس کہتی ہے رات روئی ہے
ابر کہتا ہے اور کوئی ہے

اشک قرطاسِ دل پہ برسے ہیں
حرف و معنی کی فصل بوئی ہے

میں تمھاری طرح نہ بن پایا
میں نے اپنی شناخت کھوئی ہے

جاگتے خواب مجھ سے کہتے ہیں
نیند کن وادیوں میں سوئی ہے

خود کلامی کی خُو نہیں جاتی
کچھ نہیں ہے تو شعر گوئی ہے

کیا اُنہیں حالِ دل بتا دوں میں
وہ جنہیں زعمِ اشک شوئی ہے

محمد احمدؔ​


مدحتِ رسول ﷺ ۔ ایک توجہ طلب پہلو


مدحتِ رسول ﷺ
ایک توجہ طلب پہلو

ہمارے ہاں رکشے والوں کے پاس آڈیو پلئر ہونا ایک بڑی پرانی روایت ہے جسے وہ بڑی بے دردی سے اب تک برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ پہلے آڈیو سننے کے لئے کیسٹ پلئرز استعمال ہوتے تھے لیکن اب تو بس چھوٹے سے ایم پی تھری پلئر سے یو ایس بی منسلک کرنے کی دیر ہوتی ہے اور بعض لوگ تو اپنے موبائل کو بھی پلئر سے جوڑ کر سنںنے سُنانے کا "فریضہ" انجام دیتے ہیں۔

خیر ، کل صبح کی بات ہے کہ ہم راستے میں کہیں جا رہے تھے کہ کہیں سے ایک نغمے کی صدا کان میں پڑی ، اور ہم نے چونکہ ایک مدت ، ہندوستانی اردو موسیقی کو تضیع اوقات کے لئے خاص نشانہ بنائے رکھا ہے ،اس مصرع کو فوراً پکڑ لیا اور آگے سے لقمہ بھی دے دیا۔ لقمہ کیا دیا بلکہ ساتھ ساتھ گنگنانے لگے۔ یہ کافی مشہور و معروف نغمہ تھا۔


میرے محبوب قیامت ہو گی
آج رُسوا تیری گلیوں میں محبت ہوگی


لیکن جیسے ہی گنگناتا رکشہ ہمارے قریب پہنچا تو ہمیں کافی خفت کا سامنا ہوا کہ یہ وہ گانا نہیں تھا بلکہ اُس کی طرز پر لکھی اور پڑھی گئی ایک نعت تھی۔ ہمیں شرمندگی تو ہوئی لیکن غصہ بھی آیا کہ یہ کیا طریقہ ہے۔

ہمارے ہاں اس طرح معروف نغموں کی طرز پر نعتیں وغیرہ کہنے کا رُجحان کافی زیادہ ہوگیا ہے۔ حالانکہ خاکسار کی ذاتی رائے میں یہ رُجحان کچھ اچھا نہیں ہے۔ بلکہ سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ممانعت کردہ موسیقی اور نعت جیسی ارفع شے کو یکجا کردینے جیسی بات ہے۔

یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ شاعری کے لئے دستیاب بحور عام شعراء اور نعت گو شعراء کے لئے یکساں ہیں اور دونوں کو انہی میں رہ کر شاعری کرنا ہوتی ہے ۔ لیکن یہ رویّہ کہ نعت کو بالکل گیت کی ہی زمین میں کہا جائے، نا صرف کہا جائے بلکہ اُسے اُسی طرز میں پڑھا بھی جائے ، میری رائے میں قابلِ قبول نہیں ہے۔


مختصر یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سچی پکی محبت کا تقاضا یہ ہے کہ اُن کی ذات کا حتی الوسع احترام کیا جائے اور نعت گوئی جیسی پاکیزہ صنفِ سُخن کو ہر قسم کی کجی کوتاہی سے پاک رکھنے کی کوشش کی جائے۔ بالخصوص فلمی گانوں کی طرز پر نعتیں لکھ کر اس پاکیزہ محبت کو گلیوں میں رُسوا نہ کیا جائے۔

*****

نظم : ضد نہیں کیجیے ۔۔۔ شاہین مفتی

ضد نہیں کیجے

زندگی کی دعائیں نہیں دیجئیے
ضد نہیں کیجئیے
اپنی تشنہ لبی کا تقاضہ تھا یہ
پانیوں کے سفر پر چلیں جس گھڑی
ساحلوں پر کوئی بھی ہمارا نہ ہو
اجنبی دیس کی ملگجی شام کے آسمانوں پہ کوئی ستارہ نہ ہو
کشتئ عمر کو بادبانوں کا کوئی سہارا نہ ہو
حلقہء موج میں کوئی آواز جو آ کے پیچھا کرے
مُڑ کے تکنا بھی ہم کو گوارا نہ ہو
اِس سمندر کا کوئی کنارہ نہ ہو

اب ہمارا تعاقب نہیں کیجئیے
ڈوبنے دیجئیے
ضد نہیں کیجئیے

شاہین مفتی 

بشکریہ نعیم رضوان ۔ فیس بک