نظم : ضد نہیں کیجیے ۔۔۔ شاہین مفتی

ضد نہیں کیجے

زندگی کی دعائیں نہیں دیجئیے
ضد نہیں کیجئیے
اپنی تشنہ لبی کا تقاضہ تھا یہ
پانیوں کے سفر پر چلیں جس گھڑی
ساحلوں پر کوئی بھی ہمارا نہ ہو
اجنبی دیس کی ملگجی شام کے آسمانوں پہ کوئی ستارہ نہ ہو
کشتئ عمر کو بادبانوں کا کوئی سہارا نہ ہو
حلقہء موج میں کوئی آواز جو آ کے پیچھا کرے
مُڑ کے تکنا بھی ہم کو گوارا نہ ہو
اِس سمندر کا کوئی کنارہ نہ ہو

اب ہمارا تعاقب نہیں کیجئیے
ڈوبنے دیجئیے
ضد نہیں کیجئیے

شاہین مفتی 

بشکریہ نعیم رضوان ۔ فیس بک

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں