غزل : زعمِ عہدِ سلف میں رکھا ہوا

غزل

زعمِ عہدِ سلف میں رکھا ہوا
خاکزادہ ، خذف میں رکھا ہوا

سُونی سُونی ہے سوزنِ مژگاں
ہے نگینہ صدف میں رکھا ہوا

منزلیں مل گئیں تو ہوگا کیا ؟
ایسا کیا ہے ہدف میں رکھا ہوا

تھے وہاں سب بہ امرِ مجبوری
میں بھی تھا ایک صف میں رکھا ہوا

یہ ترا سنگِ در ، یہ دروازہ
اور ہُوں اِک طرف، میں رکھا ہوا

پھول صحرا میں منتظر اُنؐ کے
سازِ اُلفت تھا دف میں رکھا ہوا

ایک لمحہ مرا بھی ہے احمدؔ
ایک عہدِ سلف میں رکھا ہوا

محمد احمدؔ


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں