غزل: اوس کہتی ہے رات روئی ہے

غزل

اوس کہتی ہے رات روئی ہے
ابر کہتا ہے اور کوئی ہے

اشک قرطاسِ دل پہ برسے ہیں
حرف و معنی کی فصل بوئی ہے

میں تمھاری طرح نہ بن پایا
میں نے اپنی شناخت کھوئی ہے

جاگتے خواب مجھ سے کہتے ہیں
نیند کن وادیوں میں سوئی ہے

خود کلامی کی خُو نہیں جاتی
کچھ نہیں ہے تو شعر گوئی ہے

کیا اُنہیں حالِ دل بتا دوں میں
وہ جنہیں زعمِ اشک شوئی ہے

محمد احمدؔ​


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں