جہانگیر کا ہندوستان ۔ ۲



جہانگیر کا ہندوستان - ۲


گذشتہ سے پیوستہ

اور اب پیلسے ئرٹ آپ سے مخاطب ہیں:

یہ رپورٹ میرے اُن تجربات اور مشاہدات پر مبنی ہے کہ جو میں نے یونائیٹڈ ایسٹ انڈیا کمپنی کے سینئر فیکٹر کی حیثیت سے پیٹرفان ۔ ڈین ۔ بروکے کی ماتحتی میں آگرہ کی تجارتی کوٹھی میں سات سالہ قیام کے دوران لکھی۔ اس دوران میں مجھے تجارت کی غرض سے دوسرے شہر بھی جانے کا اتفاق ہوا۔ ذیل میں اس رپورٹ کی تفصیل (یہاں صرف منتخب اقتباسات دئیے گئے ہیں)ہے۔

آگرہ

سب سے پہلے آگرہ شہر کا ذکر کروں کہ جو کافی وسیع و عریض ، کھلا ہوا ، اور بغیر فصیلوں کے ہے۔ مگر اس پر زوال کے آثار نظر آتے ہیں۔ شہر کے مکانات اور سڑکیں بغیر کسی منصوبہ اور پلان کے بنی ہوئی ہیں۔ اگرچہ یہاں پر شہزادوں اور امراء کی حویلیاں موجود ہیں مگر وہ سب تنگ و تاریک گلیوں میں چھپی ہوئی ہیں۔ اس کی وجہ اس شہر کی اچانک اور غیر معمولی ترقی ہے۔ ورنہ اس سے پہلے یہ بیانہ کی حدود میں واقع ایک معمولی سا قصبہ تھا۔ لیکن 1566ء میں اکبر نے اس شہر کو اپنی رہائش کے لئے منتخب کیا اور دریائے جمنا کے کنارے ایک عالیشان قلعہ تعمیر کرایا تو اس قصبہ کی شکل و صورت ہی بدل گئی۔

اس کے ارد گرد گھنے جنگلات کی وجہ سے اب یہ شہر ایک شاہی باغ معلوم ہوتا ہے۔ شاہی محلات اور قلعہ کی وجہ سے امراء نے بھی اس شہر میں کہ جہاں اُنہیں جگہ ملی اپنی حویلیاں تعمیر کرائیں۔ اس غیر منصوبہ بندی کا نتیجہ یہ ہوا کہ یہاں پر کوئی منڈیاں یا بازار اس طرح سے نہیں ہیں جیسے کہ لاہور، برہانپور، احمدآباد یا دوسرے شہروں میں ہیں۔ شہر میں مکانات ایک دوسرے کےقریب قریب ہیں۔ ہندو مسلمان اور امیرو غریب سب آپس میں ملے ہوئے ہیں۔ اگر موجودہ بادشاہ (جہاں گیر) اس شہر کو اپنی رہائش گاہ بنا لیتا جیسا کہ اکبر نے بنایا تھا، تو یہ شہر دنیا کے مشہور شہروں میں سے ایک ہوجاتا۔ اس شہر کے دروازے جو اکبر نے دفاع اور حفاظت کے لئے تعمیر کرائے تھے وہ اب شہر کے درمیان آگئے ہیں، اور اس کے آگے جو شہر پھیلا ہے وہ موجودہ شہر سے تین گنا زیادہ ہے۔

شہر کی چوڑائی، اس کی لمبائی کے مقابلے میں زیادہ نہیں ہے کیونکہ ہر ایک کی یہ کوشش ہے کہ دریا کے قریب رہے۔ اس لئے دریا کے کناروں پر امراء کے شاندار محلات ہیں جس کی وجہ سے یہ خوبصورت اور دلکش منظر پیش کرتے ہیں۔

ان محلات کے بعد شاہ برج یا شاہی قلعہ ہے۔ اس کی فصیلیں سرخ پتھروں سے تعمیر کی گئ ہیں۔ فصیلوں کی چوڑائی ¾ گز ہے ،پھیلاؤ میں یہ 2 کوس ہے۔ اس کی تعمیر میں جو بھی خرچہ ہوا، اور اس کا جو طرزِ تعمیر ہے۔ اس وجہ سے یہ دنیا کی مشہور عمارتوں میں سے ایک ہے۔ یہ عمارت مناسب جگہ پر واقع ہے اس کے اردگرد کا ماحول انتہائی خوشگوار ہے۔ اس کا جو حصہ دریا کے رخ پر ہے وہاں پتھروں کی خوبصورت جالیاں اور سنہری کھڑکیاں ہیں۔ یہاں سے بادشاہ اکثر ہاتھیوں کی لڑائی دیکھتا ہے۔ اس کے تھوڑے فاصلہ پر غسل خانہ (وہ جگہ جہاں بادشاہ خاص خاص امراء سے ملتا تھا۔ یہ نجی محفلوں کے لئے بھی مخصوص تھا) ہے جو کہ سنگِ مرمر سے تعمیرکیا گیا ہے۔ شکل میں‌یہ چوکور ہے ۔ اس کے گنبد پر باہر سے طلاء کاری ہے جس کی وجہ سے یہ قریب سے دیکھنے پر شاہی اور دور سے دیکھنے پر شہنشاہی نظر آتا ہے۔ اس کے آگے موجودہ ملکہ نور جہاں کا محل ہے۔ قلعہ میں شہزادوں، بیگمات، اور حرم کی خواتین کی رہائش گاہیں ہیں۔ انہیں میں‌ایک محل مریم زمانی کا ہے جو کہ اکبر کی بیگم اور موجودہ بادشاہ کی ماں ہے۔ ان کے علاوہ تین اور محلات ہیں کہ جو اتوار، منگل اور سنیچر کہلاتے ہیں بادشاہ انہیں دنوں میں‌یہاں ہوتا ہے۔ بنگالی محل میں مختلف اقوام کی عورتیں رہتی ہیں ۔ دیکھا جائے تو یہ قلعہ ایک چھوٹا سا شہر ہے کہ جس میں مکانات ہیں، سڑکیں ہیں، دوکانیں ہیں، اندر سے یہ قلعہ معلوم نہیں‌ہوتا، مگر باہر سے دیکھو تو یہ ایک ناقابلِ تسخیر قلعہ نظر آتا ہے ۔

دریا کے دوسری جانب سکندرہ نامی شہر ہے۔ یہ آباد شہر ہے اور خوبصورتی و منصوبہ بندی کے ساتھ بنایا گیا ہے یہاں کی اکثر آبادی تاجروں کی ہے۔ اسی شہر سے مشرقی علاقوں اور بھوٹان سے تجارتی سامان آتا ہے۔ یہاں پر نورجہاں کے عہدے دار ان اشیاء پر دریا پار کرنے سے قبل کسٹم ڈیوٹی وصول کرتے ہیں۔ یہ جگہ تجارت کی سب سے بڑی منڈی ہے یہ دو سو کوس کی لمبائی میں پھیلا ہوا ہے ، اگرچہ چوڑائی کم ہے مگر یہاں پر خوبصورت باغات اور بلند و بالا عمارتیں ہیں۔

ان میں سے مشہور سلطان پرویز، نورجہاں اور اس کے مرحوم باپ اعتمادالدولہ کی عمارتیں ہیں۔ اس کا مقبرہ بھی اس شہر میں ہے۔ اس کی تعمیر پر تین لاکھ پچاس ہزار روپیہ کا خرچہ آچکا ہے اور یہ ابھی تک مکمل نہیں‌ہوا ہے۔ اندازہ ہے کہ اس کے ختم ہونے تک اس پر دس لاکھ مزید خرچ ہوں گے۔ یہاں پر دو مشہور باغات ہیں کہ جو بادشاہ کی ملکیت ہیں، یہ چہار باغ اور موتی محل کے نام سے موسوم ہیں۔ ان کے علاوہ اور بہت سے باغات ہیں کہ جو اونچی دیواروں سے گھرے ہوئے ہیں۔ اور جن کے دروازے باغ سے زیادہ قلعہ کے معلوم ہوتے ہیں۔ ان باغات و محلات کی وجہ سے شہر کی خوبصورتی بڑھ گئی ہے۔ یہاں کے امراء کی دولت اور شان و شوکت ہمارے ہاں کے امراء سے زیادہ ہے۔ جب تک وہ زندہ رہتے ہیں، اپنے باغات سے لطف اُٹھاتے ہیں، جب یہ مرجاتے ہیں تو یہی باغات ان کے مقبرے بن جاتے ہیں۔ اس شہر میں ان کی تعداد اس قدر ہے کہ میں ان کا ذکر کرنا نہیں چاہتا۔

آگرہ کے مشرقی علاقوں کی تجارت

اکبر کے دور حکومت میں‌تجارت کو بڑا فروغ تھا، یہ صورت حال موجودہ بادشاہ کے ابتدائی عہد میں بھی رہی، کیونکہ اس وقت تک اس میں تازگی و توانائی اور حکومت کرنے کا سلیقہ تھا۔ لیکن جب سے اس نے خود کو لہو و لعب میں مبتلا کر لیا ہے، اس وقت سے عدل و انصاف کی جگہ ظلم و ستم نے لے لی ہے۔ اگرچہ ہر گورنر کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے عوام کی حفاظت کرے ، لیکن اس کے برعکس ہو یہ رہا ہے کہ ہر گورنر مختلف حیلوں، بہانوں سے لوگوں کو لوٹ رہا ہے اور ان کی ذرائع آمدن پر قابض ہو رہا ہے ۔ کیونکہ وہ اس بات سے اچھی طرح واقف ہوتے ہیں کہ ان غریب لوگوں کی پہنچ نہ تو دربار تک ہے اور نہ ہی بادشاہ تک اپنی شکایات پہنچا سکتے ہیں۔ نتیجہ ان سب باتوں کا یہ ہوا ہے کہ ملک تباہ ہوگیا ہے، لوگ غریب سے غریب تر ہو رہے ہیں۔ اس شہر کے پرانے لوگوں کا کہنا ہے کہ اب اس میں ماضی کی کوئی شان وشوکت باقی نہیں رہی ہے کہ جس کی وجہ سے کبھی یہ دنیا بھر میں مشہور تھا۔ اس شہر کی تجارتی اہمیت اس لئے ابھی تک باقی ہے کیونکہ جغرافیائی طور پر یہ ایک ایسی جگہ ہے کہ جہاں سے تمام ملکوں کو راستے جاتے ہیں۔ اس لئے اس راستے سے تمام تجارتی اشیاء کو گزرنا ہوتا ہے، مثلا گجرات، ٹھٹھہ، کابل، قندھار،ملتان اور دکن برہانپور اور لاہور کے راستے یہیں سے گزرتے ہیں بلکہ بنگال اور تمام مشرقی علاقے بھی یہاں سے ملے ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ اور کوئی دوسرا راستہ نعم البدل کے طور پر نہیں ہے۔ ان راستوں پر بڑی تعداد میں تجارتی اشیاء آتی جاتی ہیں۔

آگرہ کے مشرق اور مغرب میں واقع صوبوں کا ذکر

لاہور، آگرہ سے 300 کوس مشرق، مغرب میں‌واقع ہے۔ انگریزوں کے آگرہ آنے سے پہلے یہ ہندوستان کا مشہور تجارتی مرکز تھا اور یہاں آرمینا اور شام کے تاجر منافع بخش تجارت کرتے تھے۔ اس وقت نیل کی اہم منڈی آگرہ نہیں بلکہ لاہور تھا کیونکہ یہ تاجروں کے لئے سہولت کا باعث تھا کہ جو مقررہ موسموں میں قندھار سے اصفہاں اور شام قافلوں کی شکل میں جاتے تھے۔ اس لئے نیل شام کے راستے سے یورپ جاتی تھی، یہ یورپ میں‌لاؤری یا لاہوری کہلاتی تھی اب بھی یہاں سے گولکنڈا، منگاپٹم اور مالی پٹم کے بنے ہوئے کپڑوں کی تجارت ہوتی ہے، مگر بہرحال تجارت کی پہلی والی صورت اب باقی نہیں رہی ہے۔ اس لئے کہا جاسکتا ہے کہ اب یہ تجارت مر چکی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں سے درآمد کرنے والی اشیاء اب صرف ترکی اور ایران کی ضروریات کو پورا کرتی ہیں کہ جس کی مانگ محدود ہے۔ چونکہ اب تجارت خشکی سے زیادہ سمندری راستوں سے ہوتی ہے، اس لئے اس کی اہمیت گھٹ کر رہ گئ ہے۔ ان وجوہات کی بنا پر لاہور کی تجارت عملی طور پر ختم ہوگئی ہے، ہندو یا کھتری تاجر جو یہ تجارت کرتے تھے ان کی شہرت اب تک باقی ہے مگر ان کا گذارہ پرانے کمائے ہوئے منافع پر ہوتا ہے۔ کچھ عرصہ سے موجودہ بادشاہ سال کے پانچ یا چھ مہینے لاہور میں گزارتا ہے (بقیہ وقت، خصوصیت سے گرمیوں کا زمانہ یہ کشمیر یا کابل میں‌رہ کر گزارتا ہے) اس کی رہائش کی وجہ سے شہر کی حالت تھوڑی بہت بہتر ہوگئی ہے۔ لیکن اس کی یہ ساری شان و شوکت، شاہی عمارتوں، محلات، باغات اور شاہی اخراجات کی وجہ سے ہے، اس لئے اس کے اثرات بھی محدود ہیں۔

کشمیر

کشمیر 35 این۔ عرض البلد پر واقع ہے۔ مشرق کی جانب اس کی سرحدیں تبت خورو و کلاں تک جاتی ہیں جو کہ دس دنوں کے سفر کے فاصلے پر ہے۔ جنوب میں‌اس کی سرحدیں کابل سے جا کر ملتی ہیں جو کہ یہاں سے 30 دن کا سفر ہے۔ مغرب میں پونچھ اور پشاور واقع ہیں۔ اس کا سب سے خوبصورت شہر دیرناگ ہے جہاں کہ بادشاہ کے لئے ہندوستان میں‌سب عمدہ شکار گاہیں ہیں۔ اس علاقے میں بڑے خوبصور شہر اور گاؤں واقع ہیں ان کی اتنی تعداد ہے کہ ان سب کا بیان کر مشکل ہے۔

اس لئے اب ہم سب سے مشہور شہر کشمیر (سری نگر) کا بیان کرتے ہیں جو کہ اونچے اونچے پہاڑوں میں گھرا ہوا ہے۔ یہاں کا ایک پہاڑ مسلمانوں میں تخت سلیمان کہلاتا ہے جس کے بارے میں عجیب و غریب باتیں مشہور ہیں، اور کئی کراماتیں اس سے منسوب ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اس پر کئی قدیم تحریریں موجود ہیں، اور یہ کہ خود حضرت سلیمان نے یہاں اپنا تخت بنوایا تھا۔ شہر میں پھلوں والے اور دوسرے لا تعداد درخت ہیں۔ یہاں پر دو دریا بہتے ہیں۔ ان میں‌سے بڑا دریا دیر ناگ سےآتا ہے، دوسرا چشمہ کی صورت ابلتا ہے۔ لیکن ان دونوں دریاؤں کا پانی نہ تو میٹھا ہے اور نہ ہی صحت مند۔ اس لئے یہاں کے باشندے اسے پینے سے پہلے ابال لیتے ہیں۔ بادشاہ اور اس کے امراء کے لئے 3 یا 4 کوس سے پانی لایا جاتا ہے جو صاف اور برف کی طرح سفید ہوتا ہے۔ جہانگیر بادشاہ نے پانی کو محفوظ رکھنے کی غرض سے ایک کاریز تعمیر کرائی تھی کہ جو کہ 10 یا 12 کوس کے فاصلہ سے قلعہ میں پانی لاتی تھی۔ لیکن اس خیال سے کہ اسے آسانی کے ساتھ دشمن یا باغی زہر آلود کر سکتے ہیں اس نے کوئی 10 ہزار روپیہ خرچ کرنے کے بعد اس منصوبہ کو ترک کردیا۔

اس ملک اور شہر کے لوگوں کی اکثریت غریب ہے۔ لیکن جسمانی طور پر یہ لوگ طاقتور ہیں، اور بمقابلہ ہندوستانیوں کے زیادہ بوجھ اٹھا سکتے ہیں۔ یہ اس لئے حیرت کی بات ہے کہ یہاں مردوں اور عورتوں کو بہت کم کھانے کو ملتا ہے۔ ان کے بچے اس ملک اور شہر کے لوگوں کی اکثریت غریب ہے۔ لیکن جسمانی طور پر یہ لوگ طاقتور ہیں، اور بمقابلہ ہندوستانیوں کے زیادہ بوجھ اٹھا سکتے ہیں۔ یہ اس لئے حیرت کی بات ہے کہ یہاں مردوں اور عورتوں کو بہت کم کھانے کو ملتا ہے۔ ان کے بچے گورے اور خوبصورت ہوتے ہیں، لیکن جب یہ بڑے ہوتے ہیں‌تو پیلے اور بدصورت ہوتے چلے جاتے ہیں۔ ان کے طور طریق خوراک اور رہائش کو دیکھا جائے تو وہ انسانوں سے زیادہ جانوروں سے نسبت رکھتے ہیں۔

یہ لوگ مذہبی امور میں بڑے سخت ہیں۔ اکبر کے زمانہ میں کشمیر کو اس کے جنرل راجہ بھگوان داس نے حیلے و بہانے سے فتح کیا تھا کیونکہ دوسری صورت میں پہاڑوں اور دشوار گزار راستوں کی وجہ سے اس ملک کو فتح کرنا آسان نہ تھا۔

کشمیر میں پھلوں کی کئی اقسام پائی جاتی ہیں۔ جیسے سیب، ناشپاتی اور اخروٹ وغیرہ لیکن ذائقہ میں یہ ایران و کابل کے پھلوں کے مقابلہ میں کم تر ہیں۔ دسمبر جنوری اور فروری میں‌یہاں سخت سردی ہوتی ہے۔ ان مہینوں‌میں‌بارش اور برف باری ہوتی ہے اور پہاڑ برف کی وجہ سے سفید نظر آتے ہیں۔ جب گرمی میں سورج چمکتا ہے تو اس وقت برف پگھلنے سے دریاؤں میں‌سیلاب آجاتا ہے۔

بادشاہ کشمیر کو اس لئے پسند کرتا ہے کہ جب ہندوستان میں گرمیوں کا موسم آتا ہے تو اس کا جسم کثرت سے شراب پینے اور افیم کھانے کی وجہ سے جلنے لگتا ہے۔ اس لئے وہ مارچ یا اپریل میں لاہور سے کشمیر کے لئے روانہ ہوجاتا ہے۔ مئی کے مہینے میں‌یہاں پہنچ جاتا ہے۔ یہ سفر انتہائی دشوار اور خطرناک ہے۔ پہاڑی راستوں کی وجہ سے جانوروں کے لئے سامان اُٹھا کر چلنا مشکل ہوتا ہے اس لئے بادشاہ اور اُمراء کا سامان مزدور اپنے سروں پر اُٹھا کر لاتے ہیں۔ بادشاہ کے کیمپ کے تمام لوگ اس سفر کو اپنے لئے عذابِ الہٰی سمجھتے ہیں۔ کیونکہ اس میں امیر لوگ غریب ہو جاتے ہیں اور غریبوں کو کھانے کے لالے پڑ جاتے ہیں کیونکہ یہاں ہر چیز انتہائی مہنگی ہے۔ مگر بادشاہ ان سب باتوں سے بے پرواہ ہو کر اپنی آسائش و آرام کو دیکھتا ہے اور عوام کی تکلیف کا اسے خیال تک نہیں آتا۔



گذشتہ حوالہ: جہانگیر کا ہندوستان-۱


جہانگیر کا ہندوستان


جہانگیر کا ہندوستان




"جہانگیر کا ہندوستان" پیلسے ئرٹ (پیل سارٹ) کا سفرنامہ ہندوستان ہے۔ پیلسے ئرٹ نے یہ کتاب (سفرنامہ) ڈچ زبان میں1626ء میں لکھی جس کا انگریزی ترجمہ ڈبلیو ۔ ایچ۔ مورلینڈ نے 1925ء میں کیا ۔ اس انگریزی ترجمہ سے اردو ترجمہ کا کام ڈاکٹر مبارک علی نے 1997ء میں انجام دیا۔

پیلسے ئرٹ ڈچ ایسٹ انڈیا کمپنی کا ملازم تھا اور زیرِ نظر تحریر اُس نے اپنی کمپنی کے لئے بطور تجارتی رپورٹ لکھی تھی جس میں تجارتی معاملات کے ساتھ ساتھ اُس نے اُس وقت کے ہندوستان کے انتظامی امور، عوامی مزاج ا ور معاشرتی و ثقافتی پہلوؤں کا بھی جائزہ لیا ہے ۔ تاریخ کے سنجیدہ قارئین کے ساتھ ساتھ اس تحریر میں عام لوگوں کے لئے بھی دلچسپی کا سامان ہے کہ اُس وقت کے ہندوستان کا عکس ہمارے آج کے منظرنامے سے بہت زیادہ مختلف نہیں ہے۔ احباب کو شاملِ مطالعہ کرنے کے لئے اس کتاب سے چیدہ چیدہ اقتباسات درج کئے جارہے ہیں۔

ڈاکٹر مبارک علی کی اس کتاب کا انتساب بھی قابلِ ذکر ہے۔ انتساب کے عنوان کے تحت ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں " محترم عبدالعزیز کے نام ۔ جنہوں نے سیاسی مسائل پر ملک کے نامور دانشوروں اور سیاست دانوں سے بحث کی اور پھر اُن سے مایوس ہوکر اس نتیجے پر پہنچے کہ ہمارے مسائل کا حل ہمیں ہی تلاش کرنا ہے"۔

دیباچہ میں ڈاکٹر مبارک علی لکھتے ہیں:

تاریخ اس وقت ہی سمجھ آتی ہے جب بنیادی ماخذوں کا مطالعہ کیا جائےاس لئے پیلسے ئرٹ کی کتاب کا ترجمہ کیا گیا ہے تاکہ جہانگیر کے ہندوستان سے آگہی ہو۔کتاب کا ترجمہ کرتے وقت اس چیز کو مدِّ نظر رکھا گیا ہے کہ اسے عام فہم زبان میں کیا جائے اس لئے وہ حصے شامل نہیں کئے گئے جن کا مقصد ڈچ ایسٹ انڈیا کمپنی کو تجارتی معلومات فراہم کرنا تھا۔

نوٹ: ڈاکٹر مبارک علی نے جہانگیر کے بارےمیں مختصر تعارف بھی لکھا ہے تاکہ وہ لوگ جنہوں نے مغل تاریخ نہیں پڑی ہے وہ اس حکمران کے بارے میں جا ن سکیں بوجہ طوالت یہ تعارف اس مضمون میں شامل نہیں ہے اگر آپ یہ تعارف پڑھنا چاہیں تو یہاں سے اسکیننگ ڈاؤن لوڈ کرلیں۔

کتاب کے تعارف میں ڈاکٹر مبارک علی لکھتے ہیں:

ڈچ ہندوستان میں 1602 ء میں بغرضِ تجارت آئے۔ جب ہندوستان میں کپڑے کی زیادہ مانگ ہوئی تو انہوں نے کھمبے، بھڑوچ اور آگرہ میں اپنی تجارتی کوٹھیاں (فیکٹریاں) قائم کیں کہ جہاں کپڑا تیار ہوتا تھا ۔ آگرہ کی فیکٹری ہی میں ڈچ فیکٹر پیلسے ئرٹ آیا تھا۔ اُس کی آمد کا مقصد ڈچ تجارت کو فروغ دینا تھا۔ ہندوستان میں اپنے قیام کے دوران اس نے جو رپورٹ لکھی اگرچہ اس کا تعلق تجارتی معاملات سے ہے مگر اس میں جہانگیر کے عہد کے بہت سے واقعات ہیں ۔ خصوصیت کے ساتھ اس نےاس وقت کی سماجی زندگی کے بارے میں جو کچھ لکھا ہے اس کی تاریخی اعتبار سے بڑی اہمیت ہے۔

چونکہ درباری مورخ اور واقعہ نویس صرف تعریفیں لکھتے ہیں اس لئے پیلسے ئرٹ کے مشاہدات میں جو عام لوگوں کی زندگی کے بارے میں مواد ملتا ہے اس سے ہماری تاریخیں خالی ہیں۔ اس رپورٹ سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اس وقت کا معاشرہ بھی آج کی طرح امیر و غریب کے طبقوں میں بٹا ہوا تھا۔ رشوت، بدعنوانیاں، ناجائز طریقوں سے دولت اکھٹی کرنا اس وقت بھی حکمران طبقوں کا کام تھا۔ غریبوں کے طرزِ زندگی سے اندازہ ہوتا ہے کہ مغل سلطنت کی شان و شوکت اور دولت محلات و حویلیوں سے اُتر کر جھونپڑیوں تک نہیں آئی تھی۔

یہ ظاہر ہے کہ جس معاشرہ میں غربت، مفلسی اور محرومی ہوگی وہ محروم لوگ توہمات میں پناہ لیں گے، اس لئے آج کی طرح ماضی میں بھی مزار لوگوں کی زیارت کا مرکز تھے کہ جہاں وہ نہ پوری ہونے والی خواہشات کو پورا کرنے کے لئے منتیں مانتے تھے۔

اس لئے ذہن میں یہ سوال بھی آتا ہے کہ کیا ہماری تاریخ کا یہ تسلسل آج بھی اسی طرح سے برقرار ہے کہ جیسا یہ ماضی میں تھا؟ اس رپورٹ کے بہت سے حصوں کو پڑھ کر یہ اندازہ ہوتا ہے کہ یہ باتیں جہانگیر کے عہد کی نہیں بلکہ ہمارے زمانے کی ہیں۔ تو کیا تاریخ کے اس پورے سفر میں ہمارا معاشرہ ایک ہی جگہ ٹھہرا رہا ہے یا اس میں کوئی تبدیلی بھی آئی ہے؟ اس میں امراء کی دولت مندی، دولت کی دکھاوٹ کے طریقے، رعونت، اور بدعنوانیوں کے جو تذکرے ہیں، دیکھا جائے تو آج کے حالات میں صرف ماحول بدلا ہے، ورنہ فرق کوئی نظر نہیں آتا ہے۔

اس رپورٹ سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ جس وقت اہلِ یورپ ہمارے معاشرہ کو جاننے اور سمجھنے میں مصروف تھے، اس وقت بھی ہم یورپ اور اس کے معاشرے سے ناواقف تھے۔ آج صورت حال یہ ہے کہ یورپی علماء و فضلاء آکر ہمیں ہماری تاریخ اور روایات و اداروں کے بارے میں بتاتے ہیں۔ یہ تو دور کی بات ہے کہ ہم اہلِ یورپ کو ان کے بارے میں کچھ بتائیں ۔ اکثر تو ہم اس پر بھی خوش ہوجاتے ہیں کہ "تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی" اور اس انتظار میں رہتے ہیں کہ کہ کب اس خود کشی کی خبر آتی ہے۔
اب چونکہ یورپ جانا زیادہ مشکل نہیں رہا ہے۔ اس لئے لوگ یورپ کے سفر نامے بہت لکھنے لگے ہیں، مگر ذرا مقابلہ کیجئے اس سترہویں صدی کے یورپی مسافر کے مشاہدات اور تاثرات کا اور ہمارے آج کے سیاحوں کا کہ جنہیں یورپ میں سوائے لڑکیوں اور محبوباؤں کے اور کچھ نظر نہیں آتا۔ ان سفرناموں کو پڑھ کر نہ تو یورپ کے بارے میں کچھ پتہ چلتا ہے اور نہ ان کے معاشرے کے بارے میں۔ یہ سفرنامے پیسہ کمانے کے لئے ہوتےہیں۔ علم دینے کے لئے نہیں۔

غیر ملکی سیاحوں کے بیانات کو آنکھیں بند کرکے قبول بھی نہیں کرنا چاہیے، کیونکہ یہ سیاح اپنے ملک کی تہذیب و روایات کے اس قدر عادی ہوتے ہیں کہ انہیں دوسرے معاشروں میں یہ اجنبی اور بری لگتی ہے۔ ان کے اپنے تعصبات اپنی جگہ، مگر ان کے ہاں وہ مشاہدات بھی مل جاتے ہیں کہ جنہیں ہماری نظریں نہیں دیکھتی ہیں۔

پیلسےئرٹ کے یہ مشاہدات نہ صرف ماضی کو بلکہ ہمارے حال کو بھی سمجھنے میں مدد دیں گے۔

کچھ علاج اس کا بھی ۔۔۔۔



پروین شاکر نے کہا تھا :

ملنا، دوبارہ ملنے کا وعدہ، جدائیاں
اتنے بہت سے کام اچانک نمٹ گئے

واقعی جب وقت گذر جاتا ہے تو ایسا ہی لگتا ہے حالانکہ لمحہ موجود میں آنے والے سنگِ میل کے لئے سعی اور اس کا انتظار بہت کٹھن ہوتا ہے۔ ایسا ہی کچھ ہمارے سیاسی منظر نامے میں بھی ہوا اپنے مشرف صاحب وردی بلکہ عہدہ صدارت سے بھی عہدہ برا ہوگئے ، عدلیہ آزاد ہوگئی چیف جسٹس بھی بحال ہوگئے ، این آر او بھی اپنے منطقی انجام کو پہنچ گیا، قومی مالیاتی ایوارڈ (عوامی پیسہ کی بندر بانٹ ) کا دیرینہ معاملہ بھی نمٹ گیا اور تو اور اٹھارویں ترمیم بھی اللہ اللہ کرکے پاس ہو ہی گئی جس کے تحت ہمارے صوبہ سرحد کو ایک کی جگہ دو نام مل گئے۔ گو کہ عرصہ دراز تک یہ تمام امور ناممکنات میں سے ہی نظر آتے تھے لیکن وقت آنے پر پایہ تکمیل تک پہنچ ہی گئے ۔

اتنے بہت سے کام اچانک نمٹ جانے سے میڈیا والوں کے سر پر یہ سوال آ کھڑا ہوا کہ اب کیا کریں بالکل ایسے ہی جیسے ہر گھر میں روز یہ سوال ہوتا ہے کہ آج کیا پکائیں یا پھر ایسے ہی جیسے ہمارے ہاں بچے امتحانات کے بعد کی فراغت کے بارے میں سوچتے ہیں کہ یہ سنہری لمحات کیسے گزارے جائیں ۔ امتحانات کے بعد بچوں کی فارغ البالی تو قابلِ دید ہوتی ہی ہے لیکن آج کل میڈیا والوں کی خوش دلی بھی دیدنی ہے۔ اپنی شادی کے سہرے کے علاوہ اس بات کا سہرا بھی شعیب ملک کے سر جائے گا کہ اُنہوں نے عین فراغت کے دنوں میں وہ گُل کھلائے کہ اُن کے ساتھ ساتھ میڈیا والوں کے بھی وارے نیارے ہوگئے۔ اب دن ہو یا رات خبر نامہ انڈین گیتوں اور شعیب اور ثانیہ کی تصاویر اور ویڈیوز سے مزین نظر آتا ہے نہ جانے کہاں کہاں سے حسبِ حال فلمی گیت ڈھونڈے جا رہے ہیں اور ہر دوسری رپورٹ اس مستقبل کی شادی کی مُووی کا سماں پیش کرتی ہے۔

اسی پر بس نہیں ہے بلکہ ہمارے ایک اور"کھلاڑی" اور شو بز کی ایک حسینہ بھی میڈیا والوں کے بُرے وقت میں کام آرہے ہیں اور اپنے بُرے وقت کو دعوت دے رہیں ہیں۔ میڈیا والے بھی روز دونوں کو آن لائن لا کر مناظرے کا اہتمام کرتے ہیں۔اس قصے میں یہ بات بڑی عجیب ہے کہ کھلاڑی صاحب حسینہ کی محبت کے ساتھ ساتھ کچھ رقم کے بھی مقروض ہیں اور حسینہ اُن سے یہ رقم سرِ عام مانگ رہی ہیں۔ حسینہ کا کہنا ہے کہ کھلاڑی نے اُن کی دولت کے علاوہ اُن میں بھی دلچسپی ظاہر کی ہے لیکن حسینہ کے لئے کھلاڑی موصوف میں کوئی خاص دلچسپی کی بات نہیں ہے ۔ بغیر دلچسپی کے اتنی شاہ خرچیاں بھی کوئی کوئی ہی کرتا ہے۔

بہر کیف وقت گزاری کے لئے میڈیا کے یہ مشاغل واقعی بہت اچھے ہیں اور اس ضمن میں میڈیا کی کارکردگی بھی لائقِ صد ستائش ہے۔ لیکن کچھ دیر سستا لینے کے بعد میڈیا کو پھر سے کمر باندھنی ہوگی تاکہ عوامی مسائل کی نمائندگی کا فریضہ بہتر سے بہتر طور پر ادا کیا جاسکے کہ یہی حالات کا اولین تقاضہ بھی ہے۔



آگہی کا عذاب


نیوز چینلز کی آمد سے پہلے کسی کو ورغلانا اتنا آسان کام نہیں تھا۔ زرا کسی کو "اُس کے فائدے" کی بات بتادو تو وہ صاحب ہتھے سے اُکھڑ جاتے اور اول فول بکنے لگتے ۔ ہاں جو لوگ "کچھ" سمجھدار ہوتے وہ وقتی سمجھداری کا مظاہرہ ضرور کرتے اور آپ کی بات کو سمجھنے کی کوشش بھی کرتے اور اُس پر عمل کی سعی بھی لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔ زرا کسی نے آپ کے "معمول " سے استفسار کر لیا کہ یہ پٹی آپ کو کس نے پڑھائی ہے سب کچھ فر فر بتا دیتے اور آپ کا نام تو گویا نوکِ زبان پر ہی ہوتا ۔ نتیجہ وہی جو اس طرح کے معاملات میں ہوتا ہے یعنی تعلقات کی خرابی۔

اس کے برعکس جب سے نیوز چینلز نے یلغار کی ہے سب کچھ بدل گیا ہے۔ اب نیوز چینلز والے سارا سارا دن لوگوں کو "پٹیاں پڑھاتے *" رہتے ہیں اور لوگ ناصرف وہ پٹیاں تن من دھن سے پڑھتے ہیں بلکہ من و عن ایمان بھی لے آتے ہیں۔ یہ پٹیاں خبروں کی فوری ترسیل کا کام کرتی ہیں لیکن یہ صرف خبروں کی ہی محتاج نہیں ہوتی اور خبروں کے علاوہ بھی اپنے اندر ایک جہانِ معنی رکھتی ہیں۔

نیوز چینلز کی یہ پٹیاں خبروں کی اہمیت اور پروپیگنڈا کی کیفیت کے اعتبار سے اپنی رنگت بدلتی رہتی ہیں اور درجہ شرارت کے حساب سے کبھی سبز، کبھی نیلی اور اکثر شدتِ جذبات سے سُرخ رہتی ہیں۔ یہ پٹیاں اپنی مدد آپ کے تحت ناظرین کی توجہ اپنی جانب مبذول کروانا جانتی ہیں ۔ آپ کیسا ہی دلچسپ پروگرام دیکھ رہے ہوں پٹیاں بھی آپ کی توجہ اور دلچسپی میں سے اپنا خراج لیتی رہتی ہیں۔

ان پٹیوں میں اکثر باتیں سمجھ سے بالا تر ہوتی ہیں لیکن کچھ فوراً ہی سمجھ آجاتی ہیں پر افسوس کہ جو باتیں فوراً سمجھ آجائیں دوسرے دن اُن کی تردید آجاتی ہے ۔ مثلاً آج وزیرِ اعظم صاحب کا یہ بیان کہ حکومت کوئی بھی غیر قانونی کام نہیں کرے گی "جو" بھی ہوگا وہ اپوزیشن کو اعتماد میں لے کر کیا جائے گا۔ اب اس میں سے ہم جو بات سمجھے ہیں کل اُس کی تردید آجائے گی اور وزیرِ اعظم صاحب کہیں گے کہ اُن کے بیان کو سیاق و سباق سے ہٹ کر سمجھا گیا ہے۔

ہمارے وزرا صاحبان الفاظ کا چناؤ کچھ اس طرح سے کرتے ہیں کہ سمجھو تو بہت کچھ اور نہ سمجھو تو کچھ بھی نہیں یعنی سانپ بھی بچ جائے اور لاٹھی بھی ٹوٹ جائے۔

کبھی کبھی خیال آتا ہے کہ ان نیوز چینلز کا آخر مقصد کیا ہے اور انہوں نے آکر کون سی نئی بات بتائی۔ مثلاً یہ لوگ کہتے ہیں کہ حکومت کے سارے وزیر اور مشیر چور معاف کیجے گا بدعنوان ہیں یا یہ کہ پولیس بے گناہ لوگوں پہ تشدد کرتی ہے یا پھر یہ کہ آئی ایم ایف سے لیا جانے والا سارا قرضہ عوام کو اپنی خون پسینے کی کمائی سے چکانا پڑے گا یہ سب باتیں تو ہمیں پہلے سے پتہ ہیں پھر ان نیوز چینلز کا کیا مصرف ہے سوائے اس کے کہ روزانہ کسی نہ کسی پروگرام میں دو مخالف جماعتوں کے حاشیہ برداروں کو مرغوں کی طرح لڑنے کے لئے چھوڑ دیا جاتا ہے ۔ یہ مرغے غالب کے اس فرمان پر کامل یقین رکھتے ہیں کہ" لطافت بے کثافت جلوہ پیدا کر نہیں سکتی" اور حقِ نمک ادا کرتے ہوئے اپنے مخالف کو زیر کرنے کے لئے اس حد تک چلے جاتے ہیں کہ چوپائے بھی شرمسار ہو کر ان مرغوں کے حق میں دستبردار ہو جاتے ہیں۔

ہاں البتہ کچھ کچھ نیوز سٹوریز کی اُٹھان دیکھ کر یہ شعر ضرور یاد آتا ہے ۔

جب تک کہ نہ دیکھا تھا قدِ یار کا عالم
میں معتقدِ فتنۂ محشر نہ ہوا تھا
غالب

اور اس طرح کی کارکردگی کی داد نہ دینا یقیناً بڑی بے انصافی کی بات ہے۔

* News Ticker


قصّہ ایک بسنت کا ۔ ۔ ۔


قصہ ایک بسنت کا



پتنگیں لوٹنے والوں کو کیا معلوم کس کے ہاتھ کا مانجھا کھرا تھا اور کس کی
ڈور ہلکی تھی
اُنھیں اس سے غرض کیا پینچ پڑتے وقت کن ہاتھوں میں لرزہ آگیا تھا
اور کس کی کھینچ اچھی تھی؟
ہوا کس کی طرف تھی، کونسی پالی کی بیری تھی؟
پتنگیں لُوٹنے والوں کو کیا معلوم؟
اُنھیں تو بس بسنت آتے ہی اپنی اپنی ڈانگیں لے کے میدانوں میں آنا ہے
گلی کوچوں میں کانٹی مارنی ہے پتنگیں لُوٹنا ہے لُوٹ کے جوہر دکھانا ہے
پتنگیں لُوٹنے والوں کو کیا معلوم کس کے ہاتھ کا مانجھا کھرا تھا
اور کس کی ڈور ہلکی تھی؟


افتخار عارف


جو ذرا ہنس کے ملے ۔۔۔۔


آج کل ایک ٹیلی کام کمپنی کو پاکستان کے مستقبل کی فکر لاحق ہوگئی ہے اور وہ ہر ایرے غیرے سے پوچھتے پھر رہے ہیں کہ پاکستان کا مستقبل کیسا ہوگا۔ ایرے غیرے اس لئے کہ یہ وہ لوگ ہیں جن کو خود اِن کے منتخب نمائندے نہیں پوچھتے ۔ جن سے کوئی یہ نہیں پوچھتا کہ پٹرول کے نرخ بڑھا دیئے جا ئیں یا بجلی پر سے سبسڈی (جو کبھی دی ہی نہیں گئی) گھٹا دی جائے۔ جو اپنا ووٹ کاسٹ کرنے جائیں تو اُن کا بیلیٹ پیپر ایک مُسکراہٹ اور اس جملے کے ساتھ کے ساتھ لے لیا جاتا ہے کہ آپ فکر مت کیجے آپ کا ووٹ کاسٹ ہو جائے گا۔ پھر ایسے میں یہ بات تو خوشی کی ہی ہے کہ کسی کو پاکستان کے مستقبل کا خیال آہی گیا ہے اور تو اور ایرے غیرے لوگوں کو حقِ رائے دہی بھی حاصل ہورہا ہے۔

اس پر شاید کچھ وہمی لوگ یہ خیال کریں کہ یہ سب کچھ کرکے کمپنی یقیناً کچھ تجارتی مقاصد حاصل کرنا چاہتی ہوگی یا یہ پھر یہ لوگ اپنی کسی نئی پروڈکٹس کے اجرا سے پہلے کوئی مارکیٹ ریسرچ کر رہے ہوں گے لیکن ہم ایسا نہیں سوچتے بلکہ ہمارا تو حال بقول احمد ندیم قاسمی یہ ہے کہ

کس قدر قحطِ وفا ہے مری دُنیا میں ندیم
جو ذرا ہنس کے ملے اُس کو مسیحا سمجھوں

سو ہم بھی ہر اُس شخص کے پیچھے ہو جاتے ہیں جو جھوٹے منہ ہی سہی کوئی اچھی بات کرتا ہے یا کم از کم اس بارے میں سوچنے کی دعوت ہی دیتا ہے۔ رہی بات پاکستان کی تو پاکستان بڑا ہی عجیب ملک ہے شاید اسی لئے اسے مملکتِ خداداد کہا جاتا ہے کہ اسے خدا ہی چلا رہا ہے ورنہ پاکستان کے حصے میں دوست بہت کم اور دشمن بہت زیادہ آئے ہیں اور جو دوست ہیں وہ بھی زیادہ تر نادان دوست ہیں سو جی کا جنجال ہیں۔ پھر ایسے میں پاکستان کے مستقبل کے بارے میں کیا کہا جا سکتا ہے سوائے اس گھسے پٹے شعر کے کہ

مدعی لاکھ بُرا چاہے تو کیا ہوتا ہے
وہی ہوتا ہے جو منظورِ خدا ہوتا ہے

اور رہ گئی اُنہیں آئیڈیاز (خیالات یا شاید تجاویز )دینے کی بات ! تو اگر ہمارے پاس اتنے ہی آئیڈیاز ہوتے تو ہمارے بلاگ پر ہر دوسرے دن ایک نئی تحریر ضرور نظر آتی، اب شاید کچھ لوگ یہ سمجھیں کہ ہمارے پاس آئیڈیاز کی کمی ہے تو ہم اُنہیں ایسا سمجھنے نہیں دیں گے اور جھٹ سے صفائی پیش کریں گے کہ ایسا کچھ نہیں بس ذرا وقت نہیں ملتا۔


غزل



کوئی مہرباں نہیں ساتھ میں، کوئی ہاتھ بھی نہیں ہات میں
ہیں اداسیاں مری منتظر سبھی راستوں میں جِہات میں

ہے خبر مجھے کہ یہ تم نہیں، کسی اجنبی کو بھی کیا پڑی
سبھی آشنا بھی ہیں روبرو، تو یہ کون ہے مری گھات میں

یہ اداسیوں کا جو رنگ ہے، کوئی ہو نہ ہو مرے سنگ ہے
مرے شعر میں، مری بات میں، مری عادتوں میں، صفات میں

کریں اعتبار کسی پہ کیا کہ یہ شہر شہرِ نفاق ہے
جہاں مسکراتے ہیں لب کہیں، وہیں طنز ہے کسی بات میں

چلو یہ بھی مانا اے ہمنوا کہ تغیّرات کے ماسوا
نہیں مستقل کوئی شے یہاں، تو یہ ہجر کیوں ہے ثبات میں

مری دسترس میں بھی کچھ نہیں ، نہیں تیرے بس میں بھی کچھ نہیں
میں اسیرِ کاکلِ عشق ہوں، مجھے کیا ملے گا نجات میں


محمد احمدؔ