زمانہ گوش بر آواز ہے تری خاطر


اکبر حمیدی کی خوبصورت غزل آپ کے نام



گنوا نہ آبِ گہر، یار آبدیدہ مرے
بہار آئے گی نخلِ خزاں رسیدہ مرے

زوال کی ہے علامت، عروج ظلمت کا
حصارِ غم سے نکل ، مہر شب گزیدہ مرے

فضا میں تھام لے اُس کے گلاب ہاتھوں کو
ہوائے شوق میں اُٹھ دست نا رسیدہ مرے

زمانہ گوش بر آواز ہے تری خاطر
یہ ترا عہد ہے، اے حرف نا شنیدہ مرے

برنگِ حرف غلط ہیں یہ سر کشیدہ تمام
تمھیں تو نقشِ ابد ہو، سرِ خمیدہ مرے

قریب ہے وہ زمانہ کہ ظالموں کے خلاف
علم بنیں گے ترے، دامنِ دریدہ مرے

مجھے یقین ہے روئے زمین کو اکبر
چمن بنائیں گے گلہائے نودمیدہ مرے

اکبر حمیدی



اعتدال اور انصاف کی راہ


آج کل انتہا پسندی کی اصطلاح بہت عام ہے ہونی بھی چاہیے کہ ہم سب ہی اس کا شکار ہیں اور سخت اذیت اور اضطراب میں مبتلا ہیں۔ انتہا پسندی کی اور جو بھی وجوہات ہوں لیکن بنیادی وجہ ہمارے ملک میں تعلیم و تربیت کی سہولتوں کا فقدان ہے۔ سب کے لئے عمدہ، اعلیٰ اور یکساں تعلیم ہمارے اربابِ اختیار کی ترجیحات میں کبھی رہی ہی نہیں ( وسائل کا معاملہ ثانوی ہے)۔ شاید یہی وجہ ہے کہ جو علاقے جتنے زیادہ پسماندہ ہیں اُتنے ہی انتہا پسندی کی آماجگاہ بنے ہوئے ہیں اور ہمارا اجتماعی شعور اب بھی اتنا پست ہے کہ ہم صحیح اور غلط کی تمیز نہیں کر پاتے۔

قطعہ نظر ان سب باتوں کے میں آج جس انتہا پسندی کی بات کرنا چاہ رہا ہوں وہ ہمارے رویّوں کی انتہا پسندی ہے اگر ہم اپنے رویّوں پر غور کریں تو ہم سب ہی کہیں نہ کہیں انتہا پسند واقع ہوئے ہیں۔ شاید آپ کو یہ سن کر حیرت بھی ہو کیونکہ ہم میں سے کوئی بھی یہ نہیں چاہتا کہ اُسے انتہا پسندوں کی فہرست میں گنا جائے۔ لیکن زیادہ اہم بات یہ ہے کہ کیا ہم واقعی ایسا چاہتے ہیں۔

چلئے اس بحث کا آغاز "بحث" ہی سے کرتے ہیں۔ ہم میں سے کتنے لوگ ہیں جو بحث کے آغاز پر یہ سوچتے ہیں کہ زیرِ بحث معاملے میں اُن کا موقف بھی غلط ہو سکتا ہے اور اگر کوئی شخص اُنہیں مناسب اور مستند دلائل دے تو وہ قائل بھی ہو سکتے ہیں۔ شاید ایسے لوگ ایک فیصد بھی نہ ہوں۔ اس کے برعکس جب ہم بحث کا آغاز کرتے ہیں تو ہمارے ذہن میں اس کے سوا کوئی مقصد نہیں ہوتا کہ ہم اپنے دلائل سے سامنے والے کو لاجواب کردیں اور اُسے ہمارا موقف مانتے ہی بنے ۔ شاید ہم سب یہی سوچتے ہیں کہ ہم تو حق پر ہیں اور سامنے والا غلط تو پھر اُسے ہی ماننا چاہیے ہم کیونکر حق سے روگردانی کے مرتکب ہوں۔ یہی وہ وجہ ہے کہ صحت مند بحث کا آغاز ہو ہی نہیں پاتا اور ہم دلائل سے طعن و دشنام اور پھر کفر و باطل کے فتووں پر اُتر آتے ہیں۔

یہ ہمیں لوگ ہیں جو بحث مذہبی ہو تو اپنے مخالف کو کافر اور زندیق سے کم درجہ دینے پر راضی نہیں ہوتے اور اگر بات سیاسی نوعیت کی ہو تو فریقِ مخالف کو ملک دشمن ، امریکہ کا یار اور یہودیوں اور را کا ایجنٹ بنانے میں دیر نہیں کرتے ۔ سیکولر طبقہ کسی بھی مذہبی سوچ رکھنے والے کو طالبان جیسے سفاک لوگوں سے ملانے سے گریز نہیں کرتا اور مذہبی طبقہ ہر لبرل اور آزاد سوچ رکھنے والے کو سیکولر، سوشلسٹ اور دہریا قرار دینے میں ہی اپنی جیت سمجھتا ہے۔

سیاسی عقیدت مندی میں ہم صحیح کو غلط اور غلط کو صحیح قرار دینے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتے ہیں۔ ہم اپنے ممدوح کی اچھی باتوں کا تو پروپیگنڈا کرتے ہی ہیں بری باتوں کا بھی پوری شد ومد سے دفاع کرتے ہیں۔ رہے ہمارے سیاسی حریف تو اُن کے ہر اقدام کو غلط اور ملک دشمنی قرار دے دینا ہمارے لئے کون سا مشکل ہے۔ مذہبی عقیدت مندی کو تو جانے ہی دیجیے۔

شاعری کو لے لیجے۔ ہمارا شاعر اپنی شاعری میں انوکھا پن اور شدتِ اظہار کے لئے خدا سے جا اُلجھتا ہے اور گستاخی کو گستاخی بھی نہیں سمجھتا ۔ فلمی گیتوں کو تو چھوڑ ہی دیجے کہ اُن کی تو کوئی حد ہی متعین نہیں ہے۔ یہی شاعر جب نعت لکھتا ہے تو نبی کی ذات کو خدا سے جا ملاتا ہے اور اسے اس بات کا احساس تک نہیں ہو پاتا۔

یہی حد سے بڑھی ہوئی خوش اعتقادی لوگوں کو نام نہاد پیر وں فقیروں کے در کا گدا بنا دیتی ہے اور وہ اپنے جیسے محتاج لوگوں سے ہی حاجت روی اور مشکل کشائی کی اُمید کرنے لگتے ہیں اور اللہ رب العزت کی ذاتِ عظیم کو بھلا بیٹھتے ہیں کہ جس کے خزانوں میں کوئی کمی نہیں اورجو واقعتا دینے والا اور مشکل کشائی کرنے والا ہے۔

ان چند مثالوں کے علاوہ بھی اس طرح کے بہت سے مظاہر ہمارے ارد گرد ہی نظر آتے ہیں بس شرط آنکھیں کھلی رکھنے کی ہے۔ انتہا پسندی کے سب سے زیادہ نقصانات ہماری ذات ہی کو پہنچتے ہیں کہ ہم اس وجہ سے بہت سے دوستوں کو کھو دیتے ہیں اور بغض اور نفرت جیسے منفی رویوں میں گھر کر اپنا بھی دن رات کا سکون غارت کر بیٹھتے اور دوسروں کے لئے بھی تکلیف کا باعث بنتے ہیں۔

ان سب معاملات سے بچنے کا ایک ہی آسان سا نسخہ ہے اور وہ ہے اعتدال اور انصاف کی راہ ۔ اگر ہم صرف اتنا سا خیال رکھیں کہ ہم کسی کی دوستی اور دشمنی میں اتنے آگے نہ نکل جائیں کہ انصاف کا دامن ہی ہاتھ سے چھوٹ جائے تو بہت سے لا یعنی مباحث جنم ہی نہ لیں اور نہ ہی دوستوں کے درمیان بے جا رنجشیں اور دوریاں پیدا ہوں۔

خیالِ خاطر ِاحباب چاہیے ہردم
انیس ٹھیس نہ لگ جاے آبگینوں کو

کیا حرج ہے اگر ہم اپنے رویّوں پر نظرِ ثانی کرتے رہیں۔



مجھ سے ناراض ہو تو ہو جاؤ

اچھی شاعری چاہے کسی بھی صنف میں ہو دل کو بھلی لگتی ہے کہ دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے ۔ آج ایک خوبصورت نغمہ آپ سے شئر کر رہا ہوں جو اچھی شاعری کی عمدہ مثال ہے ۔ اسے معروف شاعر اور گیت نگار جاوید اختر نے لکھا ہے اور مشہور گلوکار سونو نگم نے بہت خوبصورتی کے ساتھ گایا ہے ۔ عین ممکن ہے کہ آپ میں سے بہت سوں نے یہ گیت سنا ہوا بھی ہو۔ مجھ سے ناراض ہو تو ہو جاؤ خود سے لیکن خفا خفا نہ رہو مجھ سے تم دور جاؤ تو جاؤ آپ اپنے سے تم جدا نہ رہو مجھ پہ چاہے یقیں کرو نہ کرو تم کو خود پر مگر یقین رہے سر پہ ہو آسمان یا کہ نہ ہو پیر کے نیچے یہ زمین رہے مجھ کو تم بے وفا کہو تو کہو تم مگر خود سے بے وفا نہ رہو آؤ اک بات میں کہوں تم سے جانے پھر کوئی یہ کہے نہ کہے تم کو اپنی تلاش کرنی ہے ہمسفر کوئی بھی رہے نہ رہے تم کو اپنے سہارے جینا ہے ڈھونڈتی کوئی آسرا نہ رہو مجھ سے ناراض ہو تو ہو جاؤ خود سے لیکن خفا خفا نہ رہو مجھ سے تم دور جاؤ تو جاؤ آپ اپنے سے تم جدا نہ رہو جاوید اختر

دسمبر اور شاعری


عیسویں کیلنڈر کا بارہواں مہینہ دسمبر ہے۔ دسمبر اپنے ساتھ جاڑے کی خنک شامیں، یخ بستہ ہوائیں اور بہت سی دل کو گرما دینے والی یادیں لئے چلا آتا ہے۔ سال کا آخری مہینہ ہونے کے ناطے دسمبر ایک طرف جدائی اور ہجر کا استعارہ ہے تو دوسری جانب نئے آنے والے سال کی اُمید بھی۔ شاید اسی جذباتی وابستگی کے باعث دسمبر کے مہینے کو شاعروں کی کچھ زیادہ ہی توجہ حاصل رہی اور کئی ایک شعرا نے دسمبر کو اپنی شاعری میں جگہ دی ۔ ابرار الحق کا مشہور گیت دسمبر بھی اسی زمرے میں آتا ہے۔

شاعروں کے علاوہ دسمبر کا مہینہ وزیرِ لوڈ شیڈنگ کا بھی پسندیدہ مہینہ ہے اور وہ تمام وعدے اور وعدہ خلافیوں کے لئے اسی متبرک مہینے کا ہی انتخاب کرتے رہے ہیں۔ ان وعدوں کی ماری عوام بھی لاشعوری طور پر دسمبر کا انتظار کرتی رہتی ہے لیکن نو من تیل کی عدم دستیابی کے باعث رقص کا بھی کسی طور اہتمام نہیں ہو پاتا ۔ پھر بھی اپنی ہی دُھن کے پکے وزیرِ موصوف عوام کو اگلے دسمبر کے سچے جھوٹے (سچے صرف محاورتاً لکھا ہے ) دلاسے دینے سے باز نہیں آتے۔

خیر اس سے پہلے کہ وزیرِ موصوف کا عتاب ہم پر بھی آجائے ہم اپنے موضوع یعنی دسمبر اور شاعری کی طرف لوٹ آتے ہیں۔ دسمبر کے حوالے سے شاعری کے لئے جب میں نے ویب سرچ کی تو اتنے سارے نتائج سامنے آئے کہ محدود وقت میں اُن سب کو دیکھنا بھی ممکن نہیں تھا (بیشتر کلام غیر معیاری بھی ہے )۔ پھر بھی میں نے کچھ کلام آپ کے ساتھ شئر کرنے کے لئے منتخب کیا ہے۔

سب سے پہلے دانیال طریر کا ایک خوبصورت شعر:

تیس دن تک اسی دیوار پہ لٹکے گا یہ عکس
ختم اک دن میں دسمبر نہیں ہونے والا

امجد اسلام امجد کی نظم "آخری چند دن دسمبر کے"

آخری چند دن دسمبر کے

ہر برس ہی گراں گزرتے ہیں
خواہشوں کے نگار خانے میں
کیسے کیسے گماں گزرتے ہیں

رفتگاں کےبکھرتے سالوں کی
ایک محفل سی دل میں سجتی ہے

فون کی ڈائری کے صفحوں سے
کتنے نمبر پکارتے ہیں مجھے
جن سے مربوط بے نوا گھنٹی
اب فقط میرے دل میں بجتی ہے

کس قدر پیارے پیارے ناموں پر
رینگتی بدنما لکیریں سی
میری آنکھوں میں پھیل جاتی ہیں
دوریاں دائرے بناتی ہیں

دھیان کی سیڑھیوں میں کیا کیا عکس
مشعلیں درد کی جلاتے ہیں
ایسے کاغذ پہ پھیل جاتے ہیں

حادثے کے مقام پر جیسے
خون کے سوکھے نشانوں پر
چاک کی لائنیں لگاتے ہیں

ہر دسمبر کے آخری دن میں
ہر برس کی طرح اب بھی

ڈائری ایک سوال کرتی ہے
کیا خبر اس برس کے آخر تک

میرے ان بے چراغ صفحوں سے
کتنے ہی نام کٹ گئے ہونگے
کتنے نمبر بکھر کے رستوں میں
گرد ماضی سے اٹ گئے ہونگے

خاک کی ڈھیریوں کے دامن میں
کتنے طوفان سمٹ گئے ہونگے

ہردسمبر میں سوچتا ہوں میں
ایک دن اس طرح بھی ہونا ہے
رنگ کو روشنی میں کھونا ہے

اپنے اپنے گھروں میں رکھی ہوئی
ڈائری ،دوست دیکھتے ہونگے

ان کی آنکھوں کے خاکدانوں میں
ایک صحرا سا پھیلتا ہوگا
اور کچھ بے نشاں صفحوں سے

نام میرا بھی

کٹ گیا ہوگا
(امجد اسلام امجد)

اور دسمبر کی ردیف میں ایک غزل

ہمارے حال پر رویا دسمبر
وہ دیکھو ٹوٹ کر برسا دسمبر

گزر جاتا ہے سارا سال یوں تو
نہیں کٹتا مگر تنہا دسمبر

بھلا بارش سے کیا سیراب ہوگا
تمھارے وصل کا پیاسا دسمبر

وہ کب بچھڑا، نہیں اب یاد لیکن
بس اتنا علم ہے کہ تھا دسمبر

یوں پلکیں بھیگتی رہتی ہیں جیسے
میری آنکھوں میں آ ٹھہرا دسمبر

جمع پونجی یہی ہے عمر بھر کی
میری تنہائی اور میرا دسمبر

اور اب کچھ متفرق اشعار

تری یاد کی برف باری کا موسم
سلگتا رہا دل کے اندر اکیلے
ارادہ تھا جی لوں گا تجھ سے بچھڑ کر
گزرتا نہیں ہے دسمبر اکیلے

***********

کسی کو دیکھوں تو ماتھے پہ ماہ و سال ملیں
کہیں بکھرتی ہوئی دھول میں سوال ملیں
ذرا سی دیردسمبر کی دھوپ میں بیٹھیں
یہ فرصتیں ہمیں شاید نہ اگلے سال ملیں

***********

الاؤ بن کے دسمبر کی سرد راتوں میں
تیرا خیال میرے طاقچوں میں رہتا ہے
بچا کے خود کو گزرنا محال لگتا ہے
تمام شہر میرے راستوں میں رہتا ہے

***********

دسمبر کی سرد راتوں میں اک آتش داں کے پاس
گھنٹوں تنہا بیٹھنا، بجھتے شرارے دیکھنا
جب کبھی فرصت ملے تو گوشہ تنہائی میں
یاد ماضی کے پرانے گوشوارے دیکھنا

**********

یہ سال بھی اداس رہا روٹھ کر گیا
تجھ سے ملے بغیر دسمبر گذر گیا
جو بات معتبر تھی،وہ سر سے گزر گئی
جو حرف سرسری تھا وہ دل میں اُتر گیا

********

وہ مجھ کو سونپ گیا فرقتیں دسمبر میں
درخت جاں پہ وہی سردیوں کا موسم ہے

*********

دسمبر کی شب آخر نہ پوچھو کس طرح گزری
یہی لگتا تھا ہر دم وہ ہمیں کچھ پھول بھیجے گا

**********

اور آخر میں پھر ایک نظم

محبت کے دسمبر میں
اچانک جیسے تپتا جون آیا ہے
تمہارا خط نہیں آیا نہ کوئی فون آیا ہے
تو کیا تم کھو گئے اجنبی چہروں کے جنگل میں
مسافر مل گیا کوئی ، کسی منزل کسی پل میں
عقیدت کے سنہرے پھول
چپکے سے کسی نے باندھ ڈالے آ کے آنچل میں
یکایک موڑ کوئی آگیا چاہت کی منزل میں
خیال وعدہء برباد بھی تم کو نہیں آیا
تو کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں یاد بھی تم کو نہیں آیا ؟

اسی سلسلے کا مزید کلام آپ اردو محفل میں یہاں دیکھ سکتے ہیں۔ زیادہ تر کلام کا انتخاب بھی اردو محفل کی ہی مرہونِ منت ہے سو خاکسار اردو محفل کا شکر گزار ہے۔

ہمارا معاشرہ اور انصاف کے تقاضے


جب میں تیسری جماعت میں تھا تو میرے اردو نصاب میں ایک سبق "انصاف "کے نام سے تھا۔ اس سبق میں ایک ایسے شخص کا تذکرہ ہے جس نے سرِ دربارخلیفہء وقت سے مالِ غنیمت میں ہاتھ آئے کپڑے کی بابت استفسار کیا کہ خلیفہ نے اور لوگوں سے زیادہ کپڑا کیوں لیا۔ اس اعتراض کے جواب میں خلیفہ نے بتایا کہ کیونکہ اُس کا قد کچھ زیادہ ہے اس لئے اُس کے حصے کا کپڑا اُس کی پوشاک کے لئے ناکافی تھا سو اُس کے بیٹے نے اپنے حصے کا کپڑا بھی اُسے دے دیا۔ اس وضاحت کے بعد خلیفہ نے اُس شخص کی جرآت اور بے باکی کی تعریف بھی کی۔

میں سوچتا ہوں کہ اگر یہ واقعہ آج کل کے دور میں پیش آتا تو سب سے پہلے تو اُس شخص کی زبان بند کرنے کی دامے درمے سخنے کوشش کی جاتی ۔ اس کے باوجود بھی اگر یہ شخص باز نہیں آتا تو حاکمِ وقت اسے خلافت کے خلاف سازش قرار دیتا اور ساتھ ہی دشمنوں کو منہ توڑ جواب کی وعید بھی سُنائی جاتی۔ خلیفہ کے حواری مختلف بیانات میں بار بار خلیفہ سے اظہارِ یکجہتی کا اظہار کرتے نظر آتے اور اس بات کا اعادہ کرتے کہ خلافت کی گاڑی کو پٹری سے اُتارنے والوں کے ہاتھ کاٹ دیئے جائیں گے۔ نیز گھنٹوں کی تقاریر سننے کے بعد بھی اصل قصے کی سن گن تک نہیں مل پاتی۔

آج کل آزاد عدلیہ کا بہت شہرہ ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ انتظامیہ عدلیہ سے کہیں زیادہ آزاد ہے جو اس بات کی بھی مکلف نہیں کہ عدلیہ کے احکامات پر عمل درامد کی کوشش ہی کرتی دکھائی دے ۔ پھر بھی یہ بات خوش آئند ہے کہ حکومت عدلیہ کے فیصلوں پر(بظاہر ) اعتماد کا اظہار کرتی ہے اور (مجبوراً) اُن فیصلوں کا احترام بھی کرتی ہے لیکن احترام کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ حکومت ان فیصلوں پر عملدرامد کی پابندبھی ہے۔

کہتے ہیں کہ کسی معاشرے میں اگر عدالتیں اپنا کا م بھرپورطریقے سے کر رہی ہوں اور جرائم کی بیخ کنی ہاتھ کے ہاتھ ہوتی رہے تو معاشرے میں جرائم کا تناسب بہت کم ہو جاتا ہے لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ قانون سب کے لئے یکساں ہو اور اُس پر عملدرامد بھی ہو۔ افسوس کہ ہمارا معاشرہ ابھی اس منزل سے بہت دور ہے کہ ہمارے ہاں بے شمار جرائم تو درج ہی نہیں کرائے جاتے کہ اس کا فائدہ ہی کوئی نہیں ۔ ہمارے ہاں مظلوم کی داد رسی کرنے کے بجائے ساری تحقیقات کا رخ اُسی کی طرف موڑ دیا جاتا ہے اور اُس کے جان و مال کو اس قدر نقصان پہچایا جاتا ہے کہ جتنا اصل معاملے میں بھی نہیں پہچتا پھر ایسے میں کوئی کیوں کر ان اداروں پر اعتماد کرے گا۔

زنجیرِ عدل میں نے ہلائی نہ اس لئے
ہر جرم تیرے شہر میں دستور ہو گیا

اور پھر جس معاشرے میں "کُتے" کچرا چننے والے مفلوک الحال لوگوں پر تو بھونک بھونک کر گلا سُکھالیتے ہوں لیکن نفیس کپڑوں میں ملبوس لُٹیروں کے جوتے چاٹتے رہیں وہاں انصاف کی توقع رکھنا کہاں کی عقلمند ی ہے۔

چشمِ خوش خواب، فہمِ رسا چاہیے

غزل

چشمِ خوش خواب، فہمِ رسا چاہیے
اک دریچہ دُروں میں کھلا چاہیے

سر میں سودا بھی ہے، دل میں وحشت بھی ہے
رختِ صحرا نوردی کو کیا چاہیے

ہم ہی دیکھیں کہاں تک تجھے آئینے
اب تجھے بھی ہمیں دیکھنا چاہیے

عیب کیوں ہو گئے میرے سارے ہُنر
اُن کو ساتھی نہیں ، ہمنوا چاہیے

منتظر ریت بھی، بادِ صر صر بھی ہے
بس تماشے کو اک نقشِ پا چاہیے

خامشی ایک دن مجھ سے کہنے لگی
کم سخن ہو بہت، بولنا چاہیے

میں نے سوچا ہے میں ہی وفا کیوں کروں
کیا مجھے اس طرح سوچنا چاہیے؟

محمد احمدؔ

کیا ستم ہے کہ ستمگر کو ستمگر نہ کہوں


ہونا تو یوں چاہیے کہ ہمارے نظریات ہماری سیاسی وابستگیاں متعین کریں لیکن ہمارے ہاں(زیادہ تر ) اس کے برعکس ہی ہوتا ہے یعنی ہماری سیاسی وابستگیاں ہمارے نظریات کا تعین کرتی نظر آتی ہیں۔ مثلاً اگر آپ کسی خاص کمیونٹی کے فرد ہیں تو اُس کمیونٹی کے مفادات کا تحفظ کرنے والی یا صرف اس بات کا دعویٰ کرنے والی جماعت آپ کی جماعت ہے (ڈیفالٹ سیٹنگ )۔ اب یہ آپ کا فرض ہے کہ آپ اس جماعت کے ہر اچھے فعل کو بڑھا چڑھا کر بیان کریں اور ہر قابلِ گرفت عمل کا دفاع کریں لیکن ویسا ہی فعل اگر کوئی اور جماعت انجام دے تو پھر ۔۔۔۔۔ (آپ جانتے ہی ہیں)۔

پھر اگر آپ کی جماعت اگر کسی اور جماعت کی حلیف ہے تو اب حلیف جماعت یا شخصیت کے لئے مذکورہ بالا خدمات انجام دینا بھی آپ کا اولین فریضہ ہے۔ کیوں ؟ صرف اس لئے کہ وہ آپ کی جماعت کی حلیف ہے اور اُسے بھی سات خون معاف ہیں ۔(یہاں سات کا ہندسہ یقیناً بہت کم ہے)۔

بالفرض آپ اس روایت کے برخلاف چلتے ہیں یعنی آپ جس کمیونٹی یا جماعت سے وابستہ ہیں اُس کے کسی عمل پر تنقید کرنے کی غلطی کر بیٹھتے ہیں ۔ اب آپ کی خیر نہیں ! کیونکہ اب آپ غدار ہیں ، آپ دشمنوں سے ملے ہوئے ہیں اور آپ کھاتے کسی کا ہیں اور گاتے کسی کا ۔ نتیجہ اس کا یہ ہوگا کہ آپ کو اپنی سوچ پر ہی شک ہونے لگے گا اور پھر آئندہ آپ اپنے لیڈر حضرات کو اپنی سوچ پر پرکھنے کے بجائے اپنی سوچ کو اُن کے افعال پر پرکھنا شروع کر دیں گے اور جہاں جہاں آپ کو اپنی سوچ سے ذرا بھی غداری کی بو آنے لگے گی آپ توبہ توبہ کرتے ہوئے فوراً رجوع کر لیں گے ۔ یہی وہ وحد عمل ہے کہ جس سے ایک بار پھر سے آپ کا نام مخلص ساتھیوں کی فہرست میں جگمگانے لگے گا ورنہ آپ واقعی غدار ہیں۔

دل کی تاکید ہے ہر حال میں ہو پاس وفا
کیا ستم ہے کہ ستمگر کو ستمگر نہ کہوں
داغ دہلوی

داغ دہلوی کے ساتھ تو چلیے دل کا معاملہ تھا لیکن بحیثیت مجموعی کیا یہ طرزِ عمل کسی باشعور قوم کی عکاسی کرتا ہے؟