ہمارا معاشرہ اور انصاف کے تقاضے


جب میں تیسری جماعت میں تھا تو میرے اردو نصاب میں ایک سبق "انصاف "کے نام سے تھا۔ اس سبق میں ایک ایسے شخص کا تذکرہ ہے جس نے سرِ دربارخلیفہء وقت سے مالِ غنیمت میں ہاتھ آئے کپڑے کی بابت استفسار کیا کہ خلیفہ نے اور لوگوں سے زیادہ کپڑا کیوں لیا۔ اس اعتراض کے جواب میں خلیفہ نے بتایا کہ کیونکہ اُس کا قد کچھ زیادہ ہے اس لئے اُس کے حصے کا کپڑا اُس کی پوشاک کے لئے ناکافی تھا سو اُس کے بیٹے نے اپنے حصے کا کپڑا بھی اُسے دے دیا۔ اس وضاحت کے بعد خلیفہ نے اُس شخص کی جرآت اور بے باکی کی تعریف بھی کی۔

میں سوچتا ہوں کہ اگر یہ واقعہ آج کل کے دور میں پیش آتا تو سب سے پہلے تو اُس شخص کی زبان بند کرنے کی دامے درمے سخنے کوشش کی جاتی ۔ اس کے باوجود بھی اگر یہ شخص باز نہیں آتا تو حاکمِ وقت اسے خلافت کے خلاف سازش قرار دیتا اور ساتھ ہی دشمنوں کو منہ توڑ جواب کی وعید بھی سُنائی جاتی۔ خلیفہ کے حواری مختلف بیانات میں بار بار خلیفہ سے اظہارِ یکجہتی کا اظہار کرتے نظر آتے اور اس بات کا اعادہ کرتے کہ خلافت کی گاڑی کو پٹری سے اُتارنے والوں کے ہاتھ کاٹ دیئے جائیں گے۔ نیز گھنٹوں کی تقاریر سننے کے بعد بھی اصل قصے کی سن گن تک نہیں مل پاتی۔

آج کل آزاد عدلیہ کا بہت شہرہ ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ انتظامیہ عدلیہ سے کہیں زیادہ آزاد ہے جو اس بات کی بھی مکلف نہیں کہ عدلیہ کے احکامات پر عمل درامد کی کوشش ہی کرتی دکھائی دے ۔ پھر بھی یہ بات خوش آئند ہے کہ حکومت عدلیہ کے فیصلوں پر(بظاہر ) اعتماد کا اظہار کرتی ہے اور (مجبوراً) اُن فیصلوں کا احترام بھی کرتی ہے لیکن احترام کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ حکومت ان فیصلوں پر عملدرامد کی پابندبھی ہے۔

کہتے ہیں کہ کسی معاشرے میں اگر عدالتیں اپنا کا م بھرپورطریقے سے کر رہی ہوں اور جرائم کی بیخ کنی ہاتھ کے ہاتھ ہوتی رہے تو معاشرے میں جرائم کا تناسب بہت کم ہو جاتا ہے لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ قانون سب کے لئے یکساں ہو اور اُس پر عملدرامد بھی ہو۔ افسوس کہ ہمارا معاشرہ ابھی اس منزل سے بہت دور ہے کہ ہمارے ہاں بے شمار جرائم تو درج ہی نہیں کرائے جاتے کہ اس کا فائدہ ہی کوئی نہیں ۔ ہمارے ہاں مظلوم کی داد رسی کرنے کے بجائے ساری تحقیقات کا رخ اُسی کی طرف موڑ دیا جاتا ہے اور اُس کے جان و مال کو اس قدر نقصان پہچایا جاتا ہے کہ جتنا اصل معاملے میں بھی نہیں پہچتا پھر ایسے میں کوئی کیوں کر ان اداروں پر اعتماد کرے گا۔

زنجیرِ عدل میں نے ہلائی نہ اس لئے
ہر جرم تیرے شہر میں دستور ہو گیا

اور پھر جس معاشرے میں "کُتے" کچرا چننے والے مفلوک الحال لوگوں پر تو بھونک بھونک کر گلا سُکھالیتے ہوں لیکن نفیس کپڑوں میں ملبوس لُٹیروں کے جوتے چاٹتے رہیں وہاں انصاف کی توقع رکھنا کہاں کی عقلمند ی ہے۔

6 تبصرے:

  1. واقعہ جو آپ نے بیان کیا درست ہے لیکں طرزِ تحریر ترمیم کا متقاضی ہے ۔ خلیفہ وقت امیرالمؤمنین عمر ابن الخطاب رضي اللہ عنہ سے کھلِے دربار میں سوال کیا گیا تھا کہ مالِ غنیمت میں جو ایک ایک چادر سب کے حصہ میں آئی امیرالمؤمنین کا قد دراز ہونے کے باعث اُس مین سے اُن کا کُرتہ نہ بن سکتا تھا ۔ امیرالمؤمنین نے اپنے بیٹے کو جواب دینے کا کہا تھا

    جواب دیںحذف کریں
  2. افتخار صاحب،

    آپ کی توجہ اور رہنمائی کا شکریہ، متن میں کچھ تبدیلی میں نے کردی ہے۔مزید کے لئے احباب سے درخواست ہے کہ وہ افتخار صاحب کا تبصرہ بھی دیکھتے چلیں۔

    جواب دیںحذف کریں
  3. بہت خوب!
    اسے کہتے ہیں دیر آئد درست آئد!:)

    جواب دیںحذف کریں
  4. آپ نے آخری جملے میں ایک بہت پیاری بات کہی ہے۔ ہمیں یہ بات سوچنی چاہیے کہ ہم جو بات کہیں اس کا مقصد اپنی اور دیگر لوگوں کی اصلاح ہے۔ اگر اصلاح کا یہ عمل جاری رہتا ہے تو انشاء اللہ ایک دن ضرور آئے گا، جو تبدیلی لائے گا۔

    جواب دیںحذف کریں
  5. عبداللہ بھائی،

    آپ کی توجہ اور محبت کا شکریہ!

    جواب دیںحذف کریں
  6. بھائی ابو شامل،

    انشاءاللہ وہ دن ضرور آئے گا کہ ہم سب از خود اپنی اصلاح کریں گے، اصلاح کا اس کے علاوہ اور کوئی طریقہ ہے بھی نہیں.

    آپ کی توجہ اور محبت کا شکریہ!

    ۔

    جواب دیںحذف کریں