ایک دن چیٹ جی پی ٹی کے ساتھ


کچھ دنوں سے ہر طرف چیٹ جی پی ٹی کا شہرہ سننے میں آ رہا تھا۔ ادھر اُدھر سے ملنے والی معلومات کے تحت یہ ایک آٹومیٹک چیٹ بوٹ ایپلیکیشن تھی اور ہر قسم کے سوالات کے جوابات بہ احسن و خوبی دینے کی لئے بنائی گئی تھی۔

آج جب مجھے ایک دوسرے شہر کا سفر درپیش تھا اور چار پانچ گھنٹے سفر میں گزرنے والے تھے، میں نے سوچا کیوں نہ سفر کے دوران ملنے والا فاضل وقت چیٹ جی پی ٹی کو سمجھنے اور کچھ تجربات کے لیے وقف کیا جائے۔ اس مقصد کو ذہن میں رکھتے ہوئے میں نے چیٹ جی پی ٹی کے تعارف اور فیچرز سے متعلق کچھ یوٹیوب ویڈیوز پہلے سے فون میں ڈاؤن لوڈ کر کے رکھ لیں تاکہ دوران سفر موبائل ڈیٹا پر بوجھ ڈالے بغیر یہ ویڈیوز با آسانی دیکھ سکوں۔

سفر شروع ہوا تو کچھ ضروری اور کچھ غیر ضروری برقی پیغامات سے فارغ ہوتے ہی میں نے ان ویڈیوز کو ایک ایک کرکے دیکھنا شروع کر دیا۔ ان ویڈیوز سے یہ پتہ چلا کہ یہ چیٹ بوٹ اوپن اے آئی نامی ادارے نے مصنوعی ذہانت یعنی آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے ایک ماڈل پر تیار کیا ہے ۔ یہ اب تک کے چیٹ سافٹ وئیرز میں سب سے بہتر ہے اور اس کی کارکردگی انتہائی حیرت انگیز ہے۔ یہ بہت سے سوالات کے جوابات حیران کن حد تک درست دیتا ہے اور اِسے بالخصوص مکالمے کے لئے تیار کیا گیا ہے ۔ اگر آپ ٹیکنالوجی کی طرف میلان رکھتے ہیں تو یہ آپ کا بہترین رفیق ثابت ہو سکتا ہے۔

سائن اپ
ویڈیوز دیکھ کر ایسا اشتیاق پیدا ہوا کہ فوراً سائن اپ کیا ۔ سائن اپ کے لئے یہ آپ کے ای میل اور فون نمبر کا طالب ہوگا۔ یعنی یہاں بھی اپنا ذاتی ڈیٹا دیے بغیر دال نہیں گلنے والی۔ اور یہ کہ جو بھی آپ کی گفتگو یعنی کنورسیشن روبوٹ (یا بوٹ )سے ہونی ہے وہ ڈیٹا بھی اس ٹیکنالوجی کو بہتر کرنے کےلئے استعمال ہوگا۔ اس لئے ذاتی نوعیت کی معلومات اسے فراہم کرنا مناسب نہیں ہے۔

لاگن
جب آپ لاگن ہوتے ہیں تو یہ روبوٹ آپ سے پوچھتا ہے کہیں آپ روبوٹ تو نہیں ہو۔

کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا؟

حالانکہ ہماری چال ڈھال سے اس قسم کا کوئی شبہ ہونا ممکن نہیں ہے۔ بہر کیف دفعِ شر کے لئے ہم نے اُنہیں بتایا کہ ہم روبوٹ نہیں ہیں ۔ بلکہ جیتے جاگتے (آپ سوتے جاگتے بھی کہہ سکتے ہیں) انسان ہیں۔

تعارفِ باہمی
لاگن ہونے کے بعد جب چیٹ بوٹ ہم سے مکالمے پر آماد ہ ہوا تو ہم بھی بے تکلف ہو کر گفتگو کرنے لگے۔ یوں سمجھیے کہ تنہا مسافر کو ہمسفر مل گیا۔ ابتداء میں ہم نے چیٹ ونڈو میں اردو میں سلام لکھا۔ سلام کے جواب کے ساتھ ہی چیٹ جی پی ٹی نے عربی میں ہی ہماری خبر لینا شروع کر دی۔ اور ہم نے با مشکل اس عربی عبارت کے انگریزی ترجمے کی فرمائش کرکے اپنی گلو خلاصی کا بند و بست کیا۔ یعنی ترجمے کی فرمائش کے ساتھ ہی موصوف کو پتہ چل گیا کہ ہماری عربی سلام دعا سے آگے نہیں بڑھنے والی۔ باقی گفتگو انگریزی زبان میں ہوئی کہ اُن کی اردو ہماری انگریزی سے بھی بدتر تھی۔

بے تکلف گفتگو کے اس سیشن میں ہم نے سوالات کا تانتا باندھ دیا۔ پہلے تو چیٹ بوٹ سے اسی کے متعلق تفصیل پوچھی کہ موصوف ہیں کیا چیز ؟ پسِ پردہ کیا ٹیکنالوجی استعمال ہوئی ہے۔ ٹیکنالوجی اوپن سورس ہے یاصرف ہمارا ڈیٹا اینٹھنے کے لئے ہی پبلک چیٹ کا آپشن دیا گیا ہے۔ اس گفتگو سے چیٹ بوٹ کے متعلق کافی آگاہی ملی ۔ چیٹ بوٹ کی سمائی اور حدود کی بابت بھی گفتگو رہی۔ جب ہم نے پوچھا کہ کیا ہم آپ پر (یعنی آپ سے ملنے والی معلومات پر ) بھروسا کر سکتے ہیں تو بڑی دیانتداری سے جواب دیا کہ ہم پر بھروسہ مت کرنا بلکہ کسی بھی معلومات پر یقین کرنے یا آگے پھیلانے سے پہلے کراس چیک ضرور کر لینا۔ یعنی : جاگتے رہنا، میرے پر نہ رہنا۔

چیٹ باٹ کی خدمات
جب ہم نے موصوف سے پوچھا کہ آپ ہمارے لیے کیا کر سکتے ہیں تو اُس نے ہمیں درج ذیل جواب دیا۔

میں ایک اے آئی لینگویج ماڈل ہوں جو مختلف کاموں میں آپ کی مدد کر سکتا ہے۔ مثا ل کے طور پر:

  • الفاظ اور تصورات کی تعریف یا تشریح بیان کرنا۔
  • مشکلوں کے حل کے لئے رہنمائی اور تجاویز فراہم کرنا۔
  • مختلف عناوین پر پر مشورے دینا۔ مثلاً رشتوں ناطوں کے معاملات، روزگار میں نمو کے مسائل ، اور ذاتی نمو۔
  • تاریخی واقعات اور سائنسی تصوارات کے متعلق معلومات فراہم کرنا۔ اور بھی بہت کچھ۔


دیگر ذرائع سے پتہ چلتا ہے کہ ان خدمات کے علاوہ بھی چیٹ بوٹ آپ کے لئے کافی کچھ کر سکتا ہے۔ حتیٰ کہ اگر آپ پروگرامنگ سے شغف رکھتے ہیں تو یہ آپ کی فرمائش پر پروگرامنگ کوڈ یا اسکرپٹ بھی لکھ سکتا ہے۔ یہ نا صرف کوڈ لکھتا ہے بلکہ ساتھ ساتھ اُس کی وضاحت بھی کرتا ہے۔ بس شرط یہ ہے کہ آپ اسے اچھی طرح سمجھا سکیں کہ آپ چاہتے کیا ہیں۔ اگر آپ اسے اپنی صلاحیتوں اور ذہانت کے ساتھ کمک پہنچائیں تو یہ آپ کے بہت سے کام آ سکتا ہے۔ آج کل لوگ اس کی اور دیگر پروگرامنگ لینگویجز کی مدد سے اپنے چھوٹے موٹے کام آٹو میٹ کرنے کا بھی کام لے رہے ہیں۔

اس کے علاوہ یہ آپ کی فرمائش اور اس سے منسلکہ متغیرات کے مطابق تحریر بھی لکھ سکتا ہے۔ البتہ اس پر آنکھیں بند کرکے بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔

زبانیں
چیٹ جی پی ٹی کئی ایک زبانوں میں فعال ہے اور اپنی خدمات فراہم کرتا ہے۔ تاہم ہماری محدود صلاحیت اردو اور انگریز ی تک محدود ہے۔ سو ہم انہی دو زبانوں میں تجربہ کر سکے۔ انگریزی کی حد تک تو اس کی کارکردگی کافی بہتر ہے لیکن گیسوئے اردو یہاں بھی منت پذیرِ شانہ ہیں بلکہ یہاں تو گیسوؤں کا کانوں تک پہنچنا بھی ابھی دشوار معلوم ہوتا ہے۔

ویسے موصوف میں خود اعتمادی بلا کی ہے ۔ جیسے ہماری شاعری کی فرمائش پر فوراً درج ذیل دو اشعار گھڑ کر سُنائے۔

ہمیشہ اس طرح سے تیرے دل کی حسرت میں رہتے ہیں
جہاں سے پہلے ہم رات کے ساحل پر رہتے تھے
جب تک ہی زندہ رہتے ہیں تو ہمیشہ یاد کرتے ہیں
تمہیں جہاں سے ہمیشہ چاہتے ہیں

یعنی فیس بک شعراء کی ہم سری کرنا موصوف کے لئے مشکل نہیں ہے۔

ان نام نہاد اشعار کی رومن اردو میں ٹرانس لٹریشن (نقلِ حرفی ) بھی ساتھ ساتھ فراہم کی۔ وہی رومن اردو جس سے ہم چڑتے ہیں۔ تاہم مثبت پہلو یہ ہے کہ ہم اس سے ٹرانس لٹریشن کا کام بھی لے سکتے ہیں۔ تجربے کے طور پر ہم نے انہی نام نہاد اشعار کو ہندی زبان میں ٹرانس لٹریٹ کرنے کی فرمائش کی جو موصوف نے بلا چوں وچراں پوری کر دی۔ ہندی ٹرانسلٹریشن کے معیار کے بارے میں البتہ ہم کچھ کہنے سے قاصر ہیں کہ ہم ہندی رسم الخط نہیں جانتے۔

جب ہم نے موصوف سے غالب کا شعر سنانے کی درخواست کی تو اول فول بکنے لگے۔ اس لئے ہم نے سوچا کہ فی الحال ان کی اردو کا امتحان نہ ہی لیا جائے تو بہتر ہے۔

چیٹ ہسٹری
اس چیٹ بوٹ کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ ایک تھریڈ میں دیے گئے اس کے سب جوابات گزشتہ سے پیوستہ ہوتے ہیں ۔ یعنی یہ آنکھیں بند کرکے جواب نہیں دیتا بلکہ اپنے پچھلے جوابات کو دھیان میں رکھتے ہوئے جوابات دیتا ہے۔ اس سے ہمیں وہ لطیفہ یاد آیا جس میں ہر اگلے سوال کا جواب پچھلے سوال سے مربوط تھا۔ لگے ہاتھ آپ بھی سن لیجے ۔

انٹرویور : آپ ہوائی جہاز میں سفر کر رہے ہیں ۔ جس میں 500 اینٹیں ہیں۔
آپ نے ایک اینٹ نیچے پھینک دی۔ باقی کتنی بچیں ؟

امیدوار: 499

انٹرویور: بالکل ٹھیک۔
ہاتھی کو تین اسٹیپ میں فریج میں کیسے رکھیں گے ؟

امیدوار: فرج کھولا۔ ہاتھی رکھا۔ فرج بند کر دیا۔

انٹرویور: بالکل صحیح۔ ہرن کو چار اسٹیپ میں فرج کیسے رکھیں گے۔

امیدوار: فرج کھولا۔ ہاتھی نکالا۔ ہرن کو ڈالا۔ فرج بند کیا۔

انٹرویور: ٹھیک ہے۔
شیر کی سالگرہ ہے۔ تمام جانور آئے ہیں۔ سوائے ایک کے۔ وہ کون سا جانور ہے؟

امیدوار: ہرن۔ کیونکہ وہ فرج میں ہے۔

انٹرویور: بالکل ٹھیک۔
ایک بوڑھی عورت نے ایک جھیل پار کرنی ہے جس میں مگر مچھ رہتے ہیں۔ وہ کیسے پار کرے؟

امیدوار: بے فکر ہو کر پار کر لے۔ سارے مگرمچھ شیر کی سالگرہ میں گئے ہوئے ہیں۔

انٹرویور: ہاں مگر جھیل پار کرتے ہوئے بوڑھی عورت پھر بھی مر گئی۔ بتائیں کیوں؟

امیدوار: میرا خیال ہے کہ وہ جھیل میں ڈوب گئی ہو گی ؟

انٹرویور: جی نہیں۔ اس کے سر پر اوپر سے وه اینٹ آ کر گری جو آپ نے ہوائى جہاز سے پھينکى تھی۔ ہمیں افسوس ہےکہ آپ سب سوالوں کے درست جواب نہیں دے سکے۔
😊
اگر آپ بوٹ سے ملنے والے کسی سوال کے جواب سےمطمئن نہیں ہوں تو دوبارہ سے جواب طلب کیا جا سکتا ہے۔ ممکن ہے کہ بہتر جواب ملے ، تاہم اس سے یہ بھی ہو سکتا ہےکہ چیٹ بوٹ کی خود اعتمادی زائل ہو جائے اور وہ ادھر اُدھر کی ہانکنے لگے۔

اختتامیہ
مختصر یہ کہ یہ جی پی ٹی چیٹ بوٹ ایک بہت کارامد چیز ہے اور اب تک کی مصنوعی ذہانت کے ثمرات میں ایک اہم اضافہ ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مستقبل قریب میں یہ ٹیکنالوجی دن بدن بہتر ہو تی جائے گی۔ اور اس کے فوائد عوام الناس کےلئے سود مند ثابت ہوں گے۔ فی الحال یہ عوام الناس کے مفت استعمال کےلئے دستیاب ہے۔ لیکن کوئی بعید نہیں ہے کہ بعد میں اس پر سبسکرپشن فیس لگا دی جائے۔

اس چیٹ بوٹ کا ایک ضمنی فائدہ یہ بھی ہے کہ آج کے دور میں جب انسان کو انسان سے بات کرنے کی فرصت نہیں ہے، یہ چیٹ بوٹ یقیناً عزلت نشینوں کا دیرینہ ہمدم و ہمنشیں ثابت ہو سکتا ہے۔



*******

غزل: ایک ضد تھی، مرا پندارِ وفا کچھ بھی نہ تھا ۔ عرفان صدیقی

غزل
 
 ایک ضد تھی، مرا پندارِ وفا کچھ بھی نہ تھا
ورنہ ٹوٹے ہوئے رشتوں میں بچا کچھ بھی نہ تھا

تھا بہت کچھ جو کوئی دیکھنے والا ہوتا
یوں کسی شخص کے چہرے پہ لکھا کچھ بھی نہ تھا

اب بھی چپ رہتے تو مجرم نظر آتے ورنہ
سچ تو یہ ہے کہ ہمیں شوقِ نوا کچھ بھی نہ تھا

یاد آتا ہے کئی دوستیوں سے بھی سوا
اک تعلق جو تکلف کے سوا کچھ بھی نہ تھا

سب تری دین ہے یہ رنگ، یہ خوشبو، یہ غبار
میرے دامن میں تو اے موجِ ہوا! کچھ بھی نہ تھا

اور کیا مجھ کو مرے دیس کی دھرتی دیتی
ماں کا سرمایہ بجز حرفِ دعا کچھ بھی نہ تھا

لوگ خود جان گنوا دینے پہ آمادہ تھے
اس میں تیرا ہُنر ہے اے دستِ جفا! کچھ بھی نہ تھا

سبز موسم میں ترا کیا تھا، ہوا نے پوچھا
اُڑ کے سوکھے ہوئے پتے نے کہا، کچھ بھی نہ تھا

عرفانؔ صدیقی


غزل: چھوڑ جانے پر پرندوں کی مذمت کی ہو ۔۔۔ احمد خلیل خان

 غزل 

چھوڑ جانے پر پرندوں کی مذمت کی ہو
تم نے دیکھا ہے کبھی پیڑ نے ہِجرت کی ہو

جھولتی شاخ سے چپ چاپ جدا ہونے پر
زرد پتوں نے ہواؤں سے شکایت کی ہو

اب تو اتنا بھی نہیں یاد کہ کب آخری بار
دل نے کچھ ٹوٹ کے چاہا، کوئی حسرت کی ہو

عمر چھوٹی سی مگر شکل پہ جھریاں اتنی
عین مکمن ہے کبھی ہم نے محبت کی ہو

ایسا ہمدرد تیرے بعد کہاں تھا جس نے
لغزشوں پر بھی میری کھل کے حمایت کی ہو

دل شکستہ ہے کوئی ایسا ہنر مند بتا
جس نے ٹوٹے ہوئے شیشوں کی مرمت کی ہو

شب کے دامن میں وہی نور بھریں گے احمد
جن چراغوں نے اندھیرے سے بغاوت کی ہو

احمد خلیل خان

 

chhoR-jany-pe-parindoN-ki-Ahmed-Khalil-Khan

 

غزل : جب بال و پر نہیں تو ہوا پر نہ جائیے ۔۔۔ عرفان صدیقی


غزل

جب بال و پر نہیں تو ہوا پر نہ جائیے
آندھی میں سیرِارض و سماء پر نہ جائیے

کیا شاندار لوگ ہیں دامن دریدہ لوگ
دل دیکھئے حضور، قبا پر نہ جائیے

کیجے نہ ریگ زار میں پھولوں کا انتظار
مٹی ہے اصل چیز، گھٹا پر نہ جائیے

کچھ اور کہہ رہا ہوں غزل کے حوالے سے
مطلب سمجھئے، طرز ادا پر نہ جائیے

آخر تو فیصلہ سر مقتل اُسی کا ہے
اس انتظامِ جرم و سزا پر نہ جائیے

دنیا میں اور بھی تو اشارے سفر کے ہیں
ہر بار اپنے دل کی صدا پر نہ جائیے

عرفان صدیقی

غزل: وہ آنکھ ہی نہیں کہ جو درد آشنا نہ ہو --- فرحان محمد خان

غزل

وہ آنکھ ہی نہیں کہ جو درد آشنا نہ ہو
اس دل پہ تف ہے جس میں کوئی دلربا نہ ہو

وہ عشق ہی نہیں کہ جو صبر آزما نہ ہو
ایسا بھی کیا کہ حسن میں ناز و ادا نہ ہو

ڈرتا ہوں اس کی آہ سے محشر بپا نہ ہو
ایسا حسیں کہ جس کو کوئی دیکھتا نہ ہو

چھونے کی آرزو ہو مگر حوصلہ نہ ہو
اللہ اس قدر بھی کوئی پارسا نہ ہو

اہلِ نظر کے واسطے دوزخ ہے دوستو
وہ زندگی کہ جس میں کوئی ابتلا نہ ہو

مارا ہوا ہے اس کا ہر اک تیسرا جوان
کہتے ہیں جس کو عشق، کہیں یہ وبا نہ ہو

سینے سے اٹھ رہی ہے جو دھڑکن کے نام پر
یہ بھی کسی حسین کی آوازِ پا نہ ہو

میں چاہتا ہوں عام ہو اس عشق کا رواج
محبوب کے لیے کوئی شرطِ وفا نہ ہو

باقی رہے گا خاک بھلا لطفِ عاشقی
معشوق میں حضور! جو خوئے جفا نہ ہو

دنیا پہ ٹوٹتی ہیں تو ٹوٹیں قیامتیں
پھیکا کبھی بھی کاش وہ رنگِ حنا نہ ہو

ہے داستانِ عشق کی رونق رقیب سے
میری دعا ہے عشق کبھی بے مزا نہ ہو

فرحان محمد خان

 

بشکریہ عاطف ملک بھائی

اردو ترجمہ : منے دی موج وچ ہنسنا

کچھ گیت اپنی شاعری اور نغمگی کے باعث برسوں دلوں پر راج کرتے ہیں۔ ایسا ہی ایک گیت جو مجھے ہمیشہ مسحور کرتا ہے وہ حدیقہ کیانی کا منے دی موج ہے۔

یہ گیت پہلی بار پی ٹی وی پر سُنا اور دیکھا۔ اس کی عکسی تشکیل بھی بہت خوبصورت انداز میں کی گئی تھی۔ پسِ پردہ موسیقی اور گلوکارہ کی آواز بھی خوب تھی ۔ یہ اُس زمانے کی بات ہے جب ٹیلی ویژن صرف پی ٹی وی تک محدود تھا۔ تب ہم کئی ایک چیز باخوشی بار بار دیکھ لیتے تھے اُن میں سے ایک یہ گیت بھی تھا۔ یہ گیت پنجابی زبان میں ہے اور غالباً کسی مقامی لہجے کی آمیزش سے کچھ مزید گداز ہو گیا ہے۔

نہ جانے کیوں اس گیت کی لفظیات سے یہ گمان ہوتا تھا کہ جیسے یہ گیت سننے میں اچھا لگتا ہے ویسے ہی مفہوم کے اعتبار سے بھی اچھا ہوگا۔ تاہم گیت کی زبان سے عدم واقفیت کے باعث ہمیں گیت کے مفاہیم تک رسائی نہیں تھی۔

نہ جانے کب سے دل میں پلتی یہ خواہش کہ اس گیت کے معنی جانے جائیں ایک دن کچھ دوستوں کے حلقے میں زبان پر آ گئی۔ خوش قسمتی سے اس حلقے میں ہمارے ایک بہت اچھے دوست اور بھائی جناب عبد القیوم چوہدری بھی موجود تھے اور انہوں نے ازراہِ محبت اس کام کا بیڑہ اُٹھایا اور بہت کم وقت میں اس کلام کا اچھا سا ترجمہ کرکے دیا۔ جب سے اس گیت کے معنی سمجھ آئے ہیں یہ گیت اور بھی اچھا لگنے لگا۔

ہم چوہدری عبد القیوم بھائی کے بے حد شکر گزار ہیں اور اُن کا کیا ہوا ترجمہ آپ کے اعلیٰ ذوق کی نذر کر رہے ہیں۔ اُمید ہے کہ آپ کو یہ گیت مع ترجمہ ضرور پسند آئے گا۔

منے دی موج وچ ہسنا، کھیڈنا
(من کی مستی میں ہنستے کھیلتے رہنا)

دل کی رکھنا کمّے کنّے
(دل کو کسی نا کسی کام میں مصروف کیے رکھنا)

میں نہ پر کِسے کی مندا نہیں بولنا
(لیکن کبھی کسی کو برا نہیں کہنا)

چنے دی چاننی کندے کنّے
(چاند کی چاندنی دیوار کے کنارے تک)

منے دی موج وچ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ساڈا کُجھ کمّ ہے کتّنا تُمبنا
(ہمارا یہی کام ہے کہ روئی کاتنا یا چھانٹنا)

ہور کُجھ کھیتِیاں چُگّنے دا
(یا کھیتوں میں کام کرنا)

گھر دے کمّ وچ آر نہ ہوندی اے
(گھر کا کام کاج کرنے میں کوئی شرم نہیں ہوتی)

دل کی رکھنا کمّے کنّے
(دل کو کسی نا کسی کام میں مصروف کیے رکھنا)

منے دی موج وچ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔

اُچّے اُچّے پربت سوہنیاں وادیاں
(اونچے اونچے پہاڑ اور خوبصورت وادیاں)

نِیلیاں ندِیاں ٹھنڈیاں نے
(شفاف پانی کی ندیاں ٹھنڈیاں ہیں)

سوہنِیاں بولیں پیارے لوکی
(خوبصورت لوگوں کی پیاری زبان)

رب دی رحمت وطنے کنّے
(خدا کی رحمت وطن کے لیے ہے)

منے دی موج وچ۔۔۔
۔۔۔۔۔

پنکھ پکھیرُو اُڈّدے جاون
(پرندے اڑتے جاتے ہیں)

گھر نِیاں یاداں آئِیاں نے
(اور گھر کی یادیں آ رہی ہے)

اساں پردیسیاں آس نہ کوئی
(ہم پردیسیوں کو اور کوئی آس نہیں ہے)

ربّ دُعائِیں سجناں کنّے
(خدا سے سجنوں کے لیے دعائیں ہی ہیں۔)

منے دی موج وچ۔۔۔

 ****** 

 

mane-di-moj

غزل: زندگی یوں ہوئی بسر تنہا ۔۔۔ گلزار

غزل

زندگی یوں ہوئی بسر تنہا
قافلہ ساتھ اور سفر تنہا

اپنے سائے سے چونک جاتے ہیں
عمر گزری ہے اس قدر تنہا

رات بھر باتیں کرتے ہیں تارے
رات کاٹے کوئی کدھر تنہا

ڈوبنے والے پار جا اترے
نقش پا اپنے چھوڑ کر تنہا

دن گزرتا نہیں ہے لوگوں میں
رات ہوتی نہیں بسر تنہا

ہم نے دروازے تک تو دیکھا تھا
پھر نہ جانے گئے کدھر تنہا

گلزار

 

گلزار ۔ شاعر از ہندوستان