[ہفتہ ٴ غزل] ۔ حوصلہ دید ہ ٴ بیدار کے سو جاتے ہیں ۔ لیاقت علی عاصم

غزل

حوصلہ دید ہ ٴ  بیدار کے سو جاتے ہیں
نیند کب آتی ہے تھک ہار کے سو جاتے ہیں

روز کا قصہ ہے یہ معرکہ  ٴ یاس و اُمید
جیت کر ہارتے ہیں، ہار کے سو جاتے ہیں

سونے دیتے ہیں کہاں شہر کے حالات مگر
ہم بھی سفّاک ہیں جی مار کے سو جاتے ہیں

چاہتے ہیں رہیں بیدار غمِ یار کے ساتھ
اور پہلو میں غمِ یار کے سو جاتے ہیں

ڈھیر ہو جاتی ہے وحشت کسی آغوش کے پاس
سلسلے سب رم و رفتار کے سو جاتے ہیں

جاگتے تھے تری تصویر کے امکان جن میں
اب تو رنگ بھی دیوار کے سو جاتے ہیں

لیاقت علی عاصم

[ہفتہ ٴ غزل] ۔ شب ِ تاریک میں لرزا ں شرار ِ زندگانی ہے ۔ سید عاطف علی

غزل

شب ِ تاریک میں لرزا ں شرار ِ زندگانی ہے
ترے غم کی رفاقت سے یہ عمر ِجاودانی ہے

مرا پیہم تبسم ہی مرے غم کی نشانی ہے
مرا دھیما تکلّم ہی مری شعلہ بیانی ہے

فقیہِ شہر کا اب یہ وظیفہ رہ گیا باقی،
امیر ِ شہر کی دہلیز پہ بس دُم ہلانی ہے

کوئی زنداں میں جب بھی نو گرفتارِ وفا آیا
مجھے ایسا لگا جیسے یہ میری ہی کہانی ہے

فغاں ہے خام تیری گر تجھے سودا ہے جلووں کا
کہ تو ناواقفِ رمزِ ِ ندائے لن ترانی ہے

سیاہی سے ترے گیسو کی پانی ہیں گھٹائیں بھی
زمیں کے آگے شرمندہ بلائے آسمانی ہے​

سید عاطف علی

[ہفتہ ٴ غزل] ۔ میں خموشی سے رات سوئی تھی ۔ بشریٰ اعجاز

غزل 

میں خموشی سے رات سوئی تھی
میرے پہلو میں بات سوئی تھی

اک بدن پالکی میں جاگتا تھا
اور ساری برات سوئی تھی

بسترِ شب  پہ آسماں اوڑھے
بے خبر کائنات سوئی تھی

اے پری زاد تیرے ہجرے میں
ایک عورت کی ذات سوئی تھی

اک طرف سائبان بیٹھا تھا 
ایک جانب قنات سوئی تھی

ڈوبنے لگ گئے کنارے بھی
پانیوں میں نجات سوئی تھی

جانے کس درد کا تذبذب تھا
ہونٹ جاگے  تھے بات سوئی تھی

ایک ٹھوکر سے جاگ اُٹھی تھی
راستے میں حیات سوئی تھی

مرگِ دائم تھا رت جگا بشریٰ
زندگی بے ثبات سوئی تھی

بشریٰ اعجاز

[ہفتہ ٴ غزل] ۔ آنکھ برسی ہے ترے نام پہ ساون کی طرح ۔ مرتضیٰ برلاس

آج کی معروف غزل 

آنکھ برسی ہے ترے نام پہ ساون کی طرح 
جسم سُلگا ہے تری یاد میں ایندھن کی طرح

لوریاں دی ہیں کسی قُرب کی خواہش نے مجھے
کچھ جوانی کے بھی دن گزرے ہیں بچپن کی طرح

اس بلندی سے مجھے تونے نوازا کیوں تھا
گر کے میں ٹوٹ گیا کانچ کے برتن کی طرح

مجھ سے ملتے ہوئے  یہ بات تو سوچی ہوتی
میں ترے دل میں سما جاؤں گا دھڑکن کی طرح

اب زلیخا کو نہ بدنام کرے گا کوئی 
اس کا دامن بھی دریدہ مرے دامن کی طرح

منتظر ہے کسی مخصوص سی آہٹ کے لئے
زندگی بیٹھی ہے دہلیز پہ برہن کی طرح

مرتضیٰ برلاس

[ہفتہ ٴ غزل] ۔ دن ہو کہ رات، کنجِ قفس ہو کہ صحنِ باغ ۔ انجم رومانی

غزل

دن ہو کہ رات، کنجِ قفس ہو کہ صحنِ باغ 
آلامِ روزگار سے حاصل نہیں فراغ

رغبت کسے کہ لیجئے عیش و طرب کا نام 
فرصت کہاں کہ کیجئے صہبا سے پُر ایاغ

ویرانہء حیات میں آسودہ خاطری
کس کو مِلا اس آہوئے رم خوردہ کا سُراغ

آثارِ کوئے دوست ہیں اور پا شکستگی
خوشبوئے زلفِ یار ہے اور ہم سے بے دماغ

کس کی جبیں پہ ہیں یہ ستارے عرق عرق
کس کے لہو سے چاند کا دامن ہے داغ داغ

کرتے ہیں کسبِ نور اسی تیرگی سے ہم 
انجمؔ ہیں دل کے داغ کہر ہائے شب چراغ

انجم رومانی

[ہفتہ ٴ غزل] ۔ اب ایسے چاک پر کوزہ گری ہوتی نہیں تھی ۔ شاہین عباس

غزل

اب ایسے چاک پر کوزہ گری ہوتی نہیں تھی
کبھی ہوتی تھی مٹی اور کبھی ہوتی نہیں تھی

بہت پہلے سے افسردہ چلے آتے ہیں ہم تو
بہت پہلے کہ جب افسردگی ہوتی نہیں تھی

ہم اِک ایسے زمانے میں بھی گزرے ہیں یہاں سے
یہ گھر ہوتے تھے لیکن یہ گلی ہوتی نہیں تھی

دیا پہنچا نہیں تھا، آگ پہنچی تھی گھروں تک
پھر ایسی آگ، جس سے روشنی ہوتی نہیں تھی

نکل جاتے تھے سر پر بے سر و سامانی لادے
بھری لگتی تھی گٹھری اور بھری ہوتی نہیں تھی

ہمیں یہ عشق  تب سے ہے کہ جب دن بن رہا تھا
شبِ ہجراں جب اِتنی سرسری ہوتی نہیں تھی

پرانے حیرتی تھے اور زمانوں سے وہیں تھے
پرانی خامشی تھی اور نئی ہوتی نہیں تھی

ہمیں جا جا کہ کہنا پڑتا تھا، ہم ہیں ، یہیں ہیں
کہ جب موجودگی ، موجودگی ہوتی نہیں تھی

بہت تکرار رہتی تھی بھرے گھر میں کسی سے 
جو شے درکار ہوتی تھی، وہی ہوتی نہیں تھی

شاہین عباس

[ہفتہ ٴ غزل] ۔ پندار کی ویران سرا میں نہیں رہتے ۔ ظہیر احمد ظہیر

غزل

پندار کی ویران سرا میں نہیں رہتے
ہم خاک پہ رہتے ہیں خلامیں نہیں رہتے

قامت بھی ہماری ہے ، لبادہ بھی ہمارا
مانگی ہوئی دستار و قبا میں نہیں رہتے

ہم کشمکشِ دہر کے پالے ہوئے انسان
ہم گریہ کناں کرب و بلا میں نہیں رہتے

خاشاکِ زمانہ ہیں ، نہیں خوف ہمیں کوئی
آندھی سے ڈریں وہ جو ہوا میں نہیں رہتے

ہم چھوڑ بھی دیتے ہیں کُھلا توسنِ دل کو
تھامے ہوئے ہر وقت لگامیں نہیں رہتے

روحوں میں اتر جاتے ہیں تیزاب کی صورت
لفظوں میں گھلے زہر صدا میں نہیں رہتے

احساس کے موسم کبھی ہوجائیں جو بے رنگ
خوشبو کے ہنر دستِ صبا میں نہیں رہتے

اونچا نہ اُڑو اپنی ضرورت سے زیادہ
تھک جائیں پرندے تو فضا میں نہیں رہتے

دستار بنے جاتے ہیں اب شہرِ طلب میں
کشکول کہ اب دستِ گدا میں نہیں رہتے

اس خانہ بدوشی میں خدا لائے نہ وہ دن
جب بچھڑے ہوئے یار دعا میں نہیں رہتے


ظہیر احمد ظہیر