ظہیر احمد ظہیرؔ کی خوبصورت غزل

غزل 


یہ طبیعت مجھے اپنا نہیں بننے دیتی
جیسے سب ہیں مجھے ویسا نہیں بننے دیتی

آنکھ ایسی ہے کہ دیکھے نہیں جاتے حالات
سوچ ایسی ہے کہ اندھا نہیں بننے دیتی

دُوراندر سے کہیں ایک اُبھرتی ہوئی چیخ
میرے احساس کو بہرا نہیں بننے دیتی

ظلم ایسا ہے کہ دنیا کی زبانیں خاموش 
یہ خموشی مجھے گونگا نہیں بننے دیتی

دلِ وحشی مجھے ہونے نہیں دیتا سرسبز
چشم ِ گریہ ہے کہ صحرا نہیں بننے دیتی​

دشت ایسا ہے کہ چھتنار شجر ہیں ہر گام
دھوپ ایسی ہے کہ سایا نہیں بننے دیتی

خاک ایسی ہے کہ ہر ذرہ طلبگار ِ نمو
رُت وہ ظالم کہ شگوفہ نہیں بننے دیتی

شہر ایسا ہے کہ تاحدِ نظر امکانات
بھیڑ ایسی ہے کہ رستہ نہیں بننے دیتی

حرمتِ خامہ وہ ضدی جو کسی قیمت پر 
سکہّء حرف کو پیسہ نہیں بننے دیتی

کیا قیامت ہے کہ اب میرے تصور کی تھکن
بادلوں میں کوئی چہرہ نہیں بننے دیتی

میں کسی اور کا بنتا تو منافق ہوتا 
یہ انا مجھ کو کسی کا نہیں بننے دیتی

ظہیر احمد ظہیرؔ

افسانہ : سلسلہ تکّلم کا

سلسلہ تکّلم کا
محمد احمدؔ
کِسی کی آواز پر اُس نے چونک کر دیکھا ۔ 
اُسے بھلا کون آواز دے سکتا ہے، وہ بھی اِ س محلے میں جہاں اُسے کوئی جانتا بھی نہیں تھا۔
اُسے دور دور تک کوئی شناسا چہرہ نظر نہیں آیا ۔ ایک جگہ کچھ بچے بیٹھے ہنس رہے تھے اور اس سے کچھ آگے ہوٹل پر لوگ بیٹھے ہوئے تھے ۔ پھر اُسے اس بات کا بھی یقین نہیں تھا کہ پکارنے والے نے اُسی کا نام پکارا ہے۔
یہ سوچتے ہوئے کہ شاید پکارنے والے نے اُس کے بجائے کسی اور کو پکارا ہے وہ آگے بڑھ گیا۔
باتوں کا سلسلہ جہاں سے ٹوٹا تھا وہاں سے تو نہیں جُڑ سکا کہ اس صوتی مداخلت نے اُس کے ذہن کی کئی پرتیں اُلٹ پلٹ کر رکھ دیں اور وہ باوجود کوشش کے یہ یاد نہ کر سکا کہ اس بے جا مداخلت سے پیشتر کیا بات ہو رہی تھی۔ تاہم چار چھ قدم آگے بڑھاتے ہی ذہن کے کسی گوشے سے ایک اور تصفیہ طلب معاملہ گفتگو کے دائرے میں آ دھمکا اور وہ اُس نئے موضوع کے ساتھ جھوجنے لگا۔

گفتگو کا یہ سلسلہ عرصہ دراز سے جاری تھا ۔ گفتگو کے اس سلسلے کا صدا کار بھی وہی تھا اور سامع بھی خود ہی تھا۔ یعنی گفتگو کے مخاطب اور خطیب کم از کم دو کرداروں کی شرط بھی پوری نہیں کرتے تھے۔ باہر کی دنیا شاید اس سلسلے کو خود کلامی پر محمول کرتی تاہم اُسے خود کلامی کی اصطلاح کچھ زیادہ پسند نہیں تھی۔

خود سے بات کرنے کی عادت اُسے کب پڑی اُسے یاد بھی نہیں تھا۔ ایک زمانے تک یہ عادت خود اُس سے بھی حجاب میں رہی لیکن پھر رفتہ رفتہ فطرتِ ثانی کی طرح عیاں ہونے لگی اور اُس نے جان لیا کہ اب اس کے بغیر گزارا نہیں ہے۔

وہ کوئی الگ تھلگ رہنے والا آدمی نہیں تھا ۔ مجلسی طبیعت کا نہ سہی لیکن دوست احباب میں اُس کی موجودگی بہت اہم گردانی جاتی تھی۔ وہ ہر طرح کے موضوع پر بات کر سکتا تھا۔ ہنسی مذاق سے لے کر سنجیدہ مذاکرے تک وہ کئی ایک موضوع پر ٹھیک ٹھاک درک رکھتا تھا اور بوقت ضرورت گفتگو میں شریک بھی رہتا تھا۔ جب تک یہ گفتگو مذہب سے سیاست اور حالاتِ حاضرہ سے کھیل کے میدانوں میں فراٹے بھرتی رہتی اُس کی ہر بات میں ایک رنگ ہوتا اور ہر تاثر بھرپور ہوتا ۔ تاہم گفتگو کے یہ رنگ اچانک ہی پھیکے پڑ جاتے جب موضوعات کے سیارچے اپنے مدار سے ہٹ کر اُس کی ذات کے مرکزے میں گھسنے کی کوشش کرتے۔اپنی ذات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے وہ ایک دم عربی سے عجمی ہو جاتا۔
گفتگو کا یہ سلسلہ عرصہ دراز سے جاری تھا ۔ گفتگو کے اس سلسلے کا صدا کار بھی وہی تھا اور سامع بھی خود ہی تھا۔ یعنی گفتگو کے مخاطب اور خطیب کم از کم دو کرداروں کی شرط بھی پوری نہیں کرتے تھے۔ باہر کی دنیا شاید اس سلسلے کو خود کلامی پر محمول کرتی تاہم اُسے خود کلامی کی اصطلاح کچھ زیادہ پسند نہیں تھی۔
ایسا بھی نہیں تھا کہ اُس کی ذات کی گپھا میں اندھیرے ہی اندھیرے ہوں یا ہمہ وقت کربناک ماضی کی چمگادڑیں یہاں سے وہاں اُڑتی اور ٹکراتی پھرتی ہوں۔ تاہم وہ اپنے من کی باتیں ہر کسی سے نہیں کر سکتا تھا۔ اِ سے آپ اُس کی عادت کہیں یا کچھ اور لیکن وہ اپنے قریب ترین دوستوں سے بھی اپنی ذات سے متعلق بہت کم ہی باتیں کرتا اور اُس کے قریب ترین لوگ بھی اُس کے احساسات سے بہت کم ہی واقف ہو پاتے۔

یوں تو وہ شروع ہی سے اپنے دل کی باتیں اپنے تک ہی رکھنا چاہتا تھا۔ لیکن جلد ہی وہ جان گیا کہ چڑھے ہوئے نالوں کو راستہ نہ ملے تو وہ آبادی میں در آتے ہیں اور پھر وہ تباہی ہوتی ہے کہ خدا کی پناہ۔ اُس کے احساسات اور اُس کے غم جب اُسے اندر ہی اندر جلانے لگتے تو کچھ باتیں بھانپ کی طرح اوپر اُٹھتی اور اُس کے لبوں کے روشن دان سے ہوتی ہوئی خود کو آزاد کرا لیتی۔ روشن دان سے اُٹھتی ہوئی یہ صوتی بھانپ جب باہر کی تازہ ہوا سے گلے ملتی تو تازگی کے جھرنے اُس کا لباس ہو جاتے اور نطق سے سماعت کا مختصر دورہ طے کرکے وہ پھر سے ایوانِ سماعت پر دستک دے دیتی ۔ یوں یہ صرصر اُس کے کانوں سے گزر کرجب ایک بار پھر سے اُس کے دل تک پہنچتی تو صبا کا روپ دھار چکی ہوتی۔ اس ان چاہے عمل سے جاگنے والا طمانیت کا احساس اُسے رفتہ رفتہ باقاعدہ خود کلامی کی دنیا میں لے آیا۔ تاہم اس کے لئے سب سے اہم شرط تنہائی تھی۔

شروع شروع میں جب وہ خود کلامی کرتے ہوئے دیکھا گیا تو لوگ حسبِ توقع حیران ہوئے اور بات استفسار تک بھی آئی ۔ تاہم وہ جلد ہی سنبھل گیا اور خودکلامی کو تنہائی سے مشروط کردیا۔ رفتہ رفتہ شہرِ ذات سے ملاقات کا یہ وقفہ مختصر ہوتے ہوتے رات کے کھانے کے بعد مختصر گشت تک محدود ہو گیا ۔ تاہم اُس نے اپنے لئے اس چہل قدمی کو لازمی کر لیا کہ اندر کی دنیا کو باہر کی دنیا کی سیر کرانا اُس کے لئے باعثِ طمانیت ہی نہ تھا ، نا گزیر بھی تھا۔

اگلے روز یہ معمہ بھی حل ہو گیا کہ گذشتہ دن اُسے پکارنے والا کون تھا۔ وہ کوئی شناسا نہیں تھا نہ ہی اُسے نام لے کر پکارا گیا تھا لیکن مخاطب کوئی اور نہیں صرف وہ ہی تھا۔

آج وہ اپنے اور صالحہ کے مابین کشیدگی کے بارے میں محوِ گفتگو تھا۔ اُس کے سامنے کٹہرے میں وہ خود کھڑا تھا اور کٹہرے میں کھڑے شخص کے سامنے بیٹھے منصف کی نشست بھی اُسی نے سنبھالی ہوئی تھی۔ عدالت کے اس ماحول میں کٹہرے میں کھڑے شخص پر سوالات کی بوچھاڑ ہو رہی تھی اور کٹہرے میں کھڑا شخص اپنے دفاع میں دلائل دینے کی کوشش کر رہا تھا۔ جج صاحب کافی غصے میں نظر آتے تھے اور کٹہرے میں کھڑا شخص مجرم نہ ہوتے ہوئے بھی ندامت میں ڈوبا نظر آتا تھا۔ قریب تھا کہ جج صاحب اپنا فیصلہ سناتے اور ملزم پر فردِ جرم عائد کرتے کہیں سے کسی نے اُسے پکارا۔ اِس اچانک آ پڑنے والی اُفتاد نے راہ چلتی عدالت کو منصف و ملزم سمیت یکایک ہوا میں تحلیل کر دیا اور وہ چونک کر آواز کی طرف متوجہ ہو گیا۔ ایک طرف کچھ بچے بیٹھے ہنس رہے تھے اور اس سے کچھ آگے ہوٹل پر لوگ بیٹھے ہوئے تھے ۔ اُسے پکارنے والے شاید اُس کے نام سے واقف نہیں تھے یا شاید اُنہیں اُس کے نام سے غرض ہی نہیں تھی۔ اُس کے ذہن کی اُلٹتی پلٹتی پرتوں میں جو آخری لفظ اُس کی شعوری سطح سے زائل ہوتا نظر آیا وہ قابلِ غور تھا۔ اور وہ لفظ تھا "پاگل!"۔ دور کہیں بچوں کے ہنسنے کی آواز آ رہی تھی۔

اُس شام وہ نہ جانے کیسے گھر پہنچا ۔ نہ جانے کتنے لفظ سینے میں ہی گھٹ کر مر گئے اور ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اُس کے دل میں مدفون ہو گئے۔ اُس کی حالت اس قدر غیر ہو رہی تھی کہ ناراض صالحہ اپنے ناراضگی تک بھول گئی اور اُس سے پوچھنے لگی۔ کیا ہوا ؟ آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے؟ 

ہاں ٹھیک ہے۔ اُس نے چہرے پر مسکراہٹ کا تار تار ماسک لگانے کی کوشش کی لیکن کلی طور پر ناکام رہا۔ وہ تو یوں بھی کچھ نہیں بتا پا تا تھا ۔ پھر آج کی بات۔
ہاں ٹھیک ہوں۔ اُس نے ایک بار پھر اضطراری حالت میں کہا۔ حالانکہ صالحہ کمرے سے کب کی جا چکی تھی اور کچن میں موجود فرج سے اُس کے لئے پانی نکال رہی تھی۔

اگلے دو چار دن وہ چہل قدمی کو نہیں گیا۔ ایسا نہیں تھا کہ وہ خود سے بات نہیں کرنا چاہتا تھا۔ اُس کے پاس تو ڈھیروں باتیں تھیں لیکن وہ اپنوں کی نظروں سے بچ کر غیروں کی نظروں میں تماشا نہیں بننا چاہتا تھا۔

پھر ایک دن ، اُسے ایک خیال سوجھا اور اس خیال کے آتے ہی وہ جیسے نہال ہو گیا۔ اُس روز دفتر سے واپسی پر وہ سیدھا موبائل مارکیٹ گیا اور وہاں سے ایک بلیو ٹوتھ ائیر پیس خریدا ۔ اور شام کے کھانے کے بعد جب وہ چہل قدمی کرنے نکلا تو اُس کے دائیں کان میں نیا بلیو ٹوتھ ائیر پیس جگمگا رہا تھا اور اُس کا موبائل سیٹ گھر پر تاروں سے جُڑا بجلی مستعار لے رہا تھا۔ اُس نے آج ایک نیا راستہ اختیار کیا اور انتہائی ذاتی نشریاتی رابطے پر دل سے منسلک ہو گیا۔ 

گھر سے کچھ دور آتے آتے عدالت کی کاروائی شروع ہو گئی تھی۔ آج بھی وہ کٹہرے میں کھڑا تھا اور جج صاحب کے سوالات کا جواب دے رہا تھا۔ آج البتہ جج صاحب اُس کے دلائل بغور سن رہے تھے اور زور زور سے سر ہلا رہے تھے۔ پھر جج صاحب مسکرائے اور اُسے با عزت بری کرنے کا فیصلہ سنایا۔ اُس کی انا اور خودداری کمرہ عدالت سے باہر اُس کے لئے پھول ہار لئے کھڑے تھے۔

"یہ آدمی خود سے باتیں کر رہا ہے؟" اچانک کہیں سے ایک آواز آئی۔
ارے "پاگل" یہ موبائل پر بات کر رہا ہے۔ دوسری آواز میں لاپرواہی تھی۔
آج اُسے لفظ پاگل کا استعمال بہت اچھا لگا۔
وہ مسکراتے ہوئے آگے بڑھ گیا ۔ اگلا زیرِ گفتگو سوال یہ تھا کہ صالحہ کے لئے کیا گفٹ خریدا جائے؟

******​

غزل ۔ ہوا چلے یا رُکے خوشنما سماں ہو جائے ۔ محمد احمدؔ



یہ غزل اردو محفل کے مشاعرے میں پیش کی تھی۔ آج قارئینِ بلاگ کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔ 

غزل

ہوا چلے یا رُکے خوشنما سماں ہو جائے
یہ سات رنگ کا آنچل جو بادباں ہو جائے

سُلگ رہا ہوں کئی دن سے اپنے کمرے میں
دریچہ کھولوں تو دنیا دھواں دھواں ہو جائے

بدل کے نام سُنا رکھی ہے اُسے ہر بات
یہ ایک بات بتا دوں تو رازداں ہو جائے

میں اپنے آپ کو چھوڑ آیا ہوں کہیں پیچھے
کچھ اور تیز چلوں میں تو کارواں ہو جائے

یہیں کہیں وہ مرے ساتھ تھا، میں سوچتا ہوں
یہاں گھڑی دو گھڑی کوئی سائباں ہو جائے

یہ انتشار ہے ترتیبِ نو نہ جان اسے
کہ کائنات کی ہر شے یہاں وہاں ہو جائے

سرشکِ غم کو تبسم کی سیپ میں رکھیے
کہ راز راز رہے، حالِ دل بیاں ہو جائے

پروں پہ تتلی کے پیغام لکھ کے بھیجوں میں
ہوا کا جھونکا کسی دن خبر رساں ہو جائے

جہاں کی رِیت ہے کُہرام مچنے لگتا ہے
کسی کو عشق ہو یا مرگِ ناگہاں ہو جائے

ابھی تو جسم مرا دھوپ کی امان میں ہے
پرائے سائے میں آ کر نہ بے اماں ہو جائے

ہے اس جہان کی ہر بات عام سی لیکن
جو سچے شعر میں ڈھل جائے داستاں ہو جائے
محمد احمدؔ

ضرورت ہے ایک مشترکہ ووٹر کی



مئی 2013 میں خاکسار نے ایک پوسٹ انتخابی اتحاد کی اخلاقی حیثیت تحریر کی تھی اور اس میں اس حیرانی کا اظہار مقصود تھا کہ صرف انتخاب میں فتح کے حصول کے لئے علیحدہ علیحدہ نظریات کی حامل دو سیاسی جماعتوں کے درمیان اتحاد کیونکر ہو سکتا ہے اورووٹر کے استفسار پر اُن کے پاس اس طرح کے اتحاد کا کیا جواز رہ جاتا ہے کہ جہاں سیٹ کی بات ہو نظریات کو گٹھری میں بند کرکے اسٹور میں پھینک دیا جائے۔

آج بھی دو پمفلیٹ ایسے ملے ہیں جن میں ایک ن۔ لیگ اور پی پی پی کے مشترکہ اُمیدوار کی طرف سے ہے تو دوسرا تحریکِ انصاف اور جماعتِ اسلامی کے اُمید وار کے وقتی اتحاد کی داستان لئے ہوئے ہے۔

آپ بھی درشن کیجے:


مکمل تصویر دیکھنے کے لئے کلک کیجے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ن ۔ لیگ اور پی پی پی نے تو مشترکہ اُمیدوار کھڑا کر دیا لیکن ان دونوں کا مشترکہ ووٹر کہاں سے آئے گا۔ ن ۔ لیگ اور پی پی پی ایک دوسرے کی مخالف جماعتیں ہیں سمجھ نہیں آتا کہ ووٹر کس دل سے اس اُمیدوار کو ووٹ دے گا۔

دوسری طرف جماعتِ اسلامی ہے کہ جو اسپیکر کے انتخاب میں تو اپنا ووٹ ن ۔ لیگ کے حق میں استعمال کرتی ہے اور کراچی میں تحریکِ انصاف کے ساتھ مشترکہ اُمیدوار کھڑے کر دیتی ہے۔ سمجھ نہیں آتا کہ جماعتِ اسلامی کا سیاسی قبلہ کہاں ہے۔ اور مفادات کی سیاست میں نظریاتی سیاست کہاں رہ گئی ہے۔

پاکستان میں انقلاب اور نئے پاکستان کی باتیں کرنے والے تو بہت ہیں لیکن دیکھا جائے تو یہ سب نظریاتی سیاست بس نام کی ہی ہے۔ ہاں ایک نظریہ ہے جو ہمہ وقت کارفرما نظر آتا ہے اور وہ ہے نظریہ ء ضرورت۔ 

غزل : مرے رات دن کبھی یوں بھی تھے

غزل​
مرے رات دن کبھی یوں بھی تھے، کئی خواب میرے دروں بھی تھے​
یہ جو روز و شب ہیں قرار میں، یہی پہلے وقفِ جنوں بھی تھے​
مرا دل بھی تھا کبھی آئینہ، کسی جامِ جم سے بھی ماورا​
یہ جو گردِ غم سے ہے بجھ گیا، اسی آئینے میں فسوں بھی تھے​
یہ مقام یوں تو فغاں کا تھا، پہ ہنسے کہ طور جہاں کا تھا​
تھا بہت کڑا یہ مقام پر، کئی ایک اس سے فزوں بھی تھے​
ابھی عقل آ بھی گئی تو کیا، ابھی ہنس دیئے بھی تو کیا ہوا​
ہمی دشتِ عشق نورد تھے، ہمی لوگ اہلِ جنوں بھی تھے​
یہ جو سیلِ غم سرِ چشمِ نم ہے رواں دواں کئی روز سے​
اِسے کیا خبر اسی دشت میں کئی خواب محوِ سکوں بھی تھے​
محمد احمدؔ​

اپنی کلاہ کج ہے اسی بانکپن کے ساتھ



ایک انٹرویو میں کسی نے جناب سراج الحق صاحب (امیر ِ جماعتِ اسلامی) سے پوچھا کہ آپ ٹوپی ٹیڑھی کیوں لگاتے ہیں تو سراج الحق صاحب نے جو جواب دیا وہ بڑا حیران کن تھا۔

انہوں نے کہا کہ بچپن میں جب وہ اسکول جاتے تھے تو اُن کے پاس پہننے کے لئے چپلیں نہیں تھیں۔ سو اسکول جاتے وقت اُن کی والدہ اُن کی ٹوپی زرا سی ٹیڑھی کردیا کرتیں کہ اس طرح دیکھنے والوں کی توجہ ٹوپی کی طرف رہے گی اور پیروں کی طرف کوئی نہیں دیکھے گا۔

سراج الحق صاحب نے کہا کہ جب سے ایسی عادت ہے کہ میں ٹیڑھی ٹوپی ہی لگاتا ہوں۔

سر پر ہوائے ظلم چلے سو جتن کے ساتھ
اپنی کلاہ کج ہے اسی بانکپن کے ساتھ

مجروح سلطان پوری

میں سوچتا ہوں کہ وہ کیسی عظیم ماں ہو گی کہ وسائل کی عدم دستیابی کے باوجود اُنہوں نے اپنے بچوں کی پڑھائی لکھائی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ آج سراج الحق صاحب جماعتِ اسلامی کے امیر ہیں اور میرا ذاتی خیال ہے کہ جماعتِ اسلامی میں اگے بڑھنے کے لئے پڑھا لکھا اور قابل ہونا ضروری ہے۔

آج ہماری قوم کا حال یہ ہےکہ بے شمار بچے وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود پڑھائی کے معاملے میں بالکل سنجیدہ نظر نہیں آتے نہ ہی اُن کے والدین کو اس بات کی کوئی خاص فکر ہوتی ہے۔ رہے کم وسائل والے لوگ تو اُن کے ہاں اس سوچ کا ہی فقدان ہے کہ پڑھائی لکھائی ہر بچے کے لئے ضروری ہے۔ اور پھر ایسی مائیں بھی ملک میں خال خال ہی ہوں گی کہ جو بچوں کی پڑھائی کی راہ میں آنے والی کسی رُکاوٹ کو خاطر میں نہ لائیں۔

کاش ہمارے وطن میں بھی تعلیم کی اہمیت کو سمجھا جائے اور اسناد اور ڈگریوں کے حصول کے بجائے تعلیم کو قابلیت کے حصول اور زندگی کو خوب سے خوب تر بنانے کا نسخہ سمجھا جائے۔ کاش۔۔۔!



باز آئے ہم تو ایسی بے کیف زندگی سے ۔ شکیل بدایونی

غزل

ساقی نظر سے پنہاں، شیشے تہی تہی سے
باز آئے ہم تو ایسی بے کیف زندگی سے

کس شوق، کس تمنّا، کس درجہ سادگی سے
ہم آپ کی شکایت کرتے ہیں آپ ہی سے

اے میرے ماہ کامل! پھر آشکارا ہو جا
اُکتا گئی طبیعت تاروں کی روشنی سے

نالہ کشو اُٹھا دو، آہ و فغاں کی رسمیں
دو دن کی زندگی ہے، کاٹو ہنسی خوشی سے

دامن ہے ٹکڑے ٹکڑے، ہونٹوں پہ ہے تبسّم
اک درس لے رہا ہوں پھولوں کی زندگی سے

آگے خدا ہی جانے انجامِ عشق کیا ہو
جب اے شکیلؔ اپنا یہ حال ہے ابھی سے

شکیلؔ بدایونی