غزل : مرے رات دن کبھی یوں بھی تھے

غزل​
مرے رات دن کبھی یوں بھی تھے، کئی خواب میرے دروں بھی تھے​
یہ جو روز و شب ہیں قرار میں، یہی پہلے وقفِ جنوں بھی تھے​
مرا دل بھی تھا کبھی آئینہ، کسی جامِ جم سے بھی ماورا​
یہ جو گردِ غم سے ہے بجھ گیا، اسی آئینے میں فسوں بھی تھے​
یہ مقام یوں تو فغاں کا تھا، پہ ہنسے کہ طور جہاں کا تھا​
تھا بہت کڑا یہ مقام پر، کئی ایک اس سے فزوں بھی تھے​
ابھی عقل آ بھی گئی تو کیا، ابھی ہنس دیئے بھی تو کیا ہوا​
ہمی دشتِ عشق نورد تھے، ہمی لوگ اہلِ جنوں بھی تھے​
یہ جو سیلِ غم سرِ چشمِ نم ہے رواں دواں کئی روز سے​
اِسے کیا خبر اسی دشت میں کئی خواب محوِ سکوں بھی تھے​
محمد احمدؔ​

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں