غزل
یہ طبیعت مجھے اپنا نہیں بننے دیتی
جیسے سب ہیں مجھے ویسا نہیں بننے دیتی
آنکھ ایسی ہے کہ دیکھے نہیں جاتے حالات
سوچ ایسی ہے کہ اندھا نہیں بننے دیتی
دُوراندر سے کہیں ایک اُبھرتی ہوئی چیخ
میرے احساس کو بہرا نہیں بننے دیتی
ظلم ایسا ہے کہ دنیا کی زبانیں خاموش
یہ خموشی مجھے گونگا نہیں بننے دیتی
دلِ وحشی مجھے ہونے نہیں دیتا سرسبز
چشم ِ گریہ ہے کہ صحرا نہیں بننے دیتی
دشت ایسا ہے کہ چھتنار شجر ہیں ہر گام
دھوپ ایسی ہے کہ سایا نہیں بننے دیتی
خاک ایسی ہے کہ ہر ذرہ طلبگار ِ نمو
رُت وہ ظالم کہ شگوفہ نہیں بننے دیتی
شہر ایسا ہے کہ تاحدِ نظر امکانات
بھیڑ ایسی ہے کہ رستہ نہیں بننے دیتی
حرمتِ خامہ وہ ضدی جو کسی قیمت پر
سکہّء حرف کو پیسہ نہیں بننے دیتی
کیا قیامت ہے کہ اب میرے تصور کی تھکن
بادلوں میں کوئی چہرہ نہیں بننے دیتی
میں کسی اور کا بنتا تو منافق ہوتا
یہ انا مجھ کو کسی کا نہیں بننے دیتی
ظہیر احمد ظہیرؔ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں