یہ غزل اردو محفل کے مشاعرے میں پیش کی تھی۔ آج قارئینِ بلاگ کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔
غزل
ہوا چلے یا رُکے خوشنما سماں ہو جائے
یہ سات رنگ کا آنچل جو بادباں ہو جائے
سُلگ رہا ہوں کئی دن سے اپنے کمرے میں
دریچہ کھولوں تو دنیا دھواں دھواں ہو جائے
بدل کے نام سُنا رکھی ہے اُسے ہر بات
یہ ایک بات بتا دوں تو رازداں ہو جائے
میں اپنے آپ کو چھوڑ آیا ہوں کہیں پیچھے
کچھ اور تیز چلوں میں تو کارواں ہو جائے
یہیں کہیں وہ مرے ساتھ تھا، میں سوچتا ہوں
یہاں گھڑی دو گھڑی کوئی سائباں ہو جائے
یہ انتشار ہے ترتیبِ نو نہ جان اسے
کہ کائنات کی ہر شے یہاں وہاں ہو جائے
سرشکِ غم کو تبسم کی سیپ میں رکھیے
کہ راز راز رہے، حالِ دل بیاں ہو جائے
پروں پہ تتلی کے پیغام لکھ کے بھیجوں میں
ہوا کا جھونکا کسی دن خبر رساں ہو جائے
جہاں کی رِیت ہے کُہرام مچنے لگتا ہے
کسی کو عشق ہو یا مرگِ ناگہاں ہو جائے
ابھی تو جسم مرا دھوپ کی امان میں ہے
پرائے سائے میں آ کر نہ بے اماں ہو جائے
ہے اس جہان کی ہر بات عام سی لیکن
جو سچے شعر میں ڈھل جائے داستاں ہو جائے
محمد احمدؔ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں