غزل ۔ کچھ نہیں آفتاب، روزن ہے ۔ محمد احمد

غزل

کچھ نہیں آفتاب، روزن ہے
ساتھ والا مکان روشن ہے

یہ ستارے چہکتے ہیں کتنے
آسماں کیا کسی کا آنگن ہے؟

چاندنی ہے سفیر سورج کی
چاند تو ظلمتوں کا مدفن ہے

آگ ہے کوہسار کے نیچے
برف تو پیرہن ہے، اچکن ہے

دائمی زندگی کی ہے ضامن
یہ فنا جو بقا کی دشمن ہے

یاد تارِ نفس پہ چڑیا ہے
وحشتوں کا شمار دھڑکن ہے

بھیگتا ہوں تمھاری یادوں میں
خط تمھارا مجھے تو ساون ہے

دیکھتا ہوں بچھڑنے والوں کو
خواب گویا کہ دور درشن ہے

نخلِ گُل ہو کسی کا مجھ کو کیا
مجھ کو تو خار و خس ہی گلشن ہے

تک رہا ہوں جہاں کو حیرت سے
مجھ میں جاگا یہ کیسا بچپن ہے

آپ مجھ کو ہی ڈھونڈتے ہوں گے
سب سے پتلی مری ہی گردن ہے

ہنس دیے میری بات سن کر وہ
مُسکرا کر کہا کہ بچپن ہے

احمدؔ اپنی مثال آپ ہوں میں
ہاں مِرا شعر، میرا درپن ہے

محمد احمدؔ

غزل ۔ ٹوٹے ہوئے دیے کو سنسان شب میں رکھا ۔ محمد احمدؔ

غزل

ٹوٹے ہوئے دیے کو سنسان شب میں رکھا
اُس پر مری زُباں کو حدِّ ادب میں رکھا

کس نے سکھایا سائل کو بھوک کا ترانہ
پھر کس نے لاکے کاسہ دستِ طلب میں رکھا

مفلس کی چھت کے نیچے کمھلا گئے ہیں بچّے
پھولوں کو لا کے کس نے چشمِ غضب میں رکھا

پروردگار نے تو تقویٰ کی بات کی تھی
تم نے فضیلتوں کو نام و نسب میں رکھا

دراصل تم سے مل کر میں خود سے مل سکوں گا
بس ایک ہی سبب ہے دار السبب میں رکھا

بس دل کی انجمن ہے ، یادوں کے نسترن ہیں
اب اور کیا ہے باقی ، اس جاں بہ لب میں رکھا

احمدؔ میں بات دل کی کہتا تو کس سے کہتا
نغمہ سکوت کا تھا شور و شغب میں رکھا

محمد احمدؔ​

بے دِلی کیا یونہی دن گزر جائیں گے ۔ جون ایلیا

غزل

بے دِلی کیا یونہی دن گزر جائیں گے
صرف زندہ رہے ہم تو مر جائیں گے

رقص ہے رنگ پر رنگ ہم رقص ہیں
سب بچھڑ جائیں گے سب بکھر جائیں گے

یہ خراباتیانِ خردِ باختہ
صبح ہوتے ہی سب کام پر جائیں گے

کتنی دلکش ہو تم کتنا دل جُو ہوں میں
کیا ستم ہے کہ ہم لوگ مر جائیں گے

ہے غنیمت کہ اسرار ہستی سے ہم
بے خبر آئے ہیں بے خبر جائیں گے

جونؔ ایلیا

مختصر نظم ۔۔۔ نیا دور، نئے طور ۔۔۔ محمد احمدؔ

نیا دور، نئے طور

یہ نیا زمانہ ہے
اس نئے زمانے میں
اب وہ سب نہیں ہوتا
وہ جو پہلے ہوتا تھا
پہلے دو فریقوں میں
ایک جھوٹا ہوتا تھا

محمد احمدؔ

زمیں زادے چلو باتیں کریں شہرِ تمنا کی

نظم

زمیں زادے چلو باتیں کریں شہرِ تمنا کی 
یہاں تو شام سے پہلے ہی سورج ڈوب جاتا ہے
یہاں ہر خواب سے پہلے ہی نیندیں چونک اُٹھتی ہیں
بہاریں یوں گزرتی ہیں کہ جیسے وقت سے ان کی کوئی ازلی  عداوت ہو
کوئی بادل نہیں رُکتا، ہوائیں بے مروت ہیں
ہوئی صدیاں کے آنکھوں میں کوئی سورج نہیں چمکا
کوئی شبنم نہیں اُتری،  کوئی موتی نہیں دمکا
چلو یہ تو ہماری کم نگاہی کی سزا ٹھہری
مگر ہم خواب نہ دیکھیں تو نیندیں بے ثمر اپنی
سماعت بے خبر اپنی، سزا  نا معتبر اپنی

زمیں زادے چلو باتیں کریں شہرِ تمنا کی
یہ باتیں جو سُلگتی ہیں مگر کرنیں نہیں بنتیں
انہیں روشن اگر کر پاؤ تو کتنے سخی  ٹھہرو
مگر کیا  کر سکو گے تم؟  مگر کیا کرسکیں گے ہم
کہ ہم اس شہر میں بے خواب راتوں کے حوالے ہیں
زمیں زادے  زمیں پر بسنے، والے تھکنے والے ہیں

شاعر :   نا معلوم

بہ شکریہ "یہ شام شام زندگی" برائے رومن ورژن

کچھ خانماں برباد تو سائے میں کھڑے ہیں ۔ رسا چغتائی

غزل

کچھ خانماں برباد تو سائے میں کھڑے ہیں
اس دور کے انساں سے تو یہ پیڑ بھلے ہیں

چیونٹی کی طرح رینگتے لمحوں کو نہ دیکھو
اے ہمسفرو! رات ہے اور کوس کڑے ہیں

پتھر ہیں تو رستےسے ہٹا کیوں نہیں دیتے
رہرو ہیں تو کیوں صورتِ دیوار کھڑے ہیں

میں، ہیچ سخن، ہیچ مداں، ہیچ عبارت
کہتا یوں تو کہتے ہیں کہ الفاظ بڑے ہیں

تاریخ بتائے گی کہ ہم اہلِ قلم ہی
آزادئ انساں کے لیے جنگ لڑے ہیں

رسا چغتائی

الگ تھلگ رہے کبھی، کبھی سبھی کے ہو گئے

غزل


الگ تھلگ رہے کبھی، کبھی سبھی کے ہو گئے
جنوں کا ہاتھ چُھٹ گیا تو بے حسی کے ہو گئے

طلب کی آنچ کیا بجھی، بدن ہی راکھ ہو گیا
ہوا کے ہاتھ کیا لگے، گلی گلی کے ہو گئے

بہت دنوں بسی رہی تری مہک خیال میں
بہت دنوں تلک ترے خیال ہی کے ہوگئے

چراغِ شام بجھ گیا تو دل کے داغ جل اُٹھے
پھر ایسی روشنی ہوئی کہ روشنی کے ہو گئے

سخن پری نے ہجر کو بھی شامِ وصل کر دیا
تری طلب سِوا ہوئی تو شاعری کے ہوگئے


محمد احمدؔ​