غزل ۔ کچھ نہیں آفتاب، روزن ہے ۔ محمد احمد

غزل

کچھ نہیں آفتاب، روزن ہے
ساتھ والا مکان روشن ہے

یہ ستارے چہکتے ہیں کتنے
آسماں کیا کسی کا آنگن ہے؟

چاندنی ہے سفیر سورج کی
چاند تو ظلمتوں کا مدفن ہے

آگ ہے کوہسار کے نیچے
برف تو پیرہن ہے، اچکن ہے

دائمی زندگی کی ہے ضامن
یہ فنا جو بقا کی دشمن ہے

یاد تارِ نفس پہ چڑیا ہے
وحشتوں کا شمار دھڑکن ہے

بھیگتا ہوں تمھاری یادوں میں
خط تمھارا مجھے تو ساون ہے

دیکھتا ہوں بچھڑنے والوں کو
خواب گویا کہ دور درشن ہے

نخلِ گُل ہو کسی کا مجھ کو کیا
مجھ کو تو خار و خس ہی گلشن ہے

تک رہا ہوں جہاں کو حیرت سے
مجھ میں جاگا یہ کیسا بچپن ہے

آپ مجھ کو ہی ڈھونڈتے ہوں گے
سب سے پتلی مری ہی گردن ہے

ہنس دیے میری بات سن کر وہ
مُسکرا کر کہا کہ بچپن ہے

احمدؔ اپنی مثال آپ ہوں میں
ہاں مِرا شعر، میرا درپن ہے

محمد احمدؔ

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں