غزل
خاک اُڑتی ہے اس جہان میں کیا
پھول کھلتے ہیں آسمان میں کیا
عشق تیرے خیال میں کیا ہے
زندگی ہے ترے گُمان میں کیا
میں جو حیرت زدہ سا رہتا ہوں
بات آتی ہے تیرے دھیان میں کیا
نیند آرام کر رہی ہے ابھی
تیری پلکوں کے سائبان میں کیا
کیا ہوئے وہ شکست خوردہ لوگ
آگئے سب تری امان میں کیا
تجھ سے یہ تیرے حاشیہ بردار
اور کہتے بھی میری شان میں کیا
پوچھتا ہے مکاں کا سناٹا
میں ہی رہتا ہوں اس مکان میں کیا
ہم ہیں خود آپ رو برو اپنے
اور ہیں خود ہی درمیان میں کیا
وہ جو کھڑکی کھلی سی رہتی ہے
جھانکتی ہے مرے مکان میں کیا
حال اپنا بھی کیا یہی ہو گا
ذکر آئے گا داستان میں کیا
جب کیے دُکھ بیاں اُسی سے کیے
بات ایسی ہے اس چٹان میں کیا
اچھے لگتے ہیں آن بان کے لوگ
جانے ہوتا ہے آن بان میں کیا
دل سے جب دل کلام کرتا ہے
لفظ آتے ہیں درمیان میں کیا
کیا ہوئے میرے خاندان کے لوگ
ایک میں ہی تھا خاندان میں کیا
جمع کیجے نہ درد و غم تو رساؔ
کیجیے اور اس جہان میں کیا
رساؔ چغتائی