غزل
ریوڑوں کی قطاروں میں گم ہوگئے دن کے رستے تو آنکھیں کھلی رہ گئیں
لوٹ کے گھر نہ آئے سدھائے ہوئے جب پرندے تو آنکھیں کھلی رہ گئیں
آڑوؤں کے وہ پودے جو آنگن میں تھے، اُن کی خوشبوئیں پھل پھول بکِنے لگے
جانے والے سمندر کے اُس پار سے گھر کو لوٹے تو آنکھیں کھلی رہ گئیں
میں نے بیوی کو جھڑکا تو خود میرا خوں مُتّحد ہو کے میرے مقابل ہوا
اپنی ماں کی طرف ایک دم ہوگئے میرے بچے، تو آنکھیں کھلی رہ گئیں
جو تلاشِ صفِ دشمناں کی مہم میں میرے ساتھ پھرتے رہے شام تک
شب کو دیکھے جو میں نے وہی گھات میں چند چہرے تو آنکھیں کھلی رہ گئیں
پربتوں گھاٹیوں کا سفر دائرہ تھا کہ اک واہمہ تھا یہ کُھلتا نہیں
جس جگہ ہم ملے تھے اسی موڑ پر آ کے بچھڑے تو آنکھیں کھلی رہ گئیں
دوپہر کا عمل، منجمد ساعتیں، آسماں پاؤں میں تھا، زمیں سر پہ تھی
اب کے پہلے سے انورؔ ذرا مختلف خواب دیکھے تو آنکھیں کھلی رہ گئیں
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں