غزل
میں کسی طور سُخن سازِ مثالی نہ بنا
میرؔ و غالبؔ تو کُجا مومنؔ و حالیؔ نہ بنا
آسمانوں کے مکیں میری زمینوں کو سجا
عرشِ بے مایہ پر فردوسِ خیالی نہ بنا
پُر ہوا جام سے کچھ پہلے مرا کاسہ ٔ عمر
اے خدا شُکر ہے میں ترا سوالی نہ بنا
سیلِ گریہ سے نہ رُک پائے گا خاشاکِ مژہ
بند مضبوط ہوں دریاؤں پہ جالی نہ بنا
محسن احسان ہے درویش طبیعت انساں
اُس کا در ، در ہی سمجھ، درگہہِ عالی نہ بنا
بہت ہی خوب غزل ہے۔
جواب دیںحذف کریں