یوں تو کہنے کو بہت لوگ شناسا میرے

غزل

یوں تو کہنے کو بہت لوگ شناسا میرے
کہاں لے جاؤں تجھے اے دلِ تنہا میرے

وہی محدود سا حلقہ ہے شناسائی کا
یہی احباب مرے ہیں، یہی اعدا میرے

میں تہِ کاسہ و لب تشنہ رہوں گا کب تک
تیرے ہوتے ہوئے ، اے صاحبِ دریا میرے

مجھ کو اس ابرِ بہاری سے ہے کب کی نسبت
پر مقدر میں وہی پیاس کے صحرا میرے

دیدہ و دل تو ترے ساتھ ہیں اے جانِ فراز
اپنے ہمراہ مگر خواب نہ لے جا میرے

احمد فراز

14 تبصرے:

  1. بہت عمدہ
    ویسے فراز صاحب ہمیں کوئی خاص پسند نہیں پر ان کی کوئی کوئی غزل لاجواب ہے اور یہ ان میں سے ہے

    جواب دیںحذف کریں
  2. واہ کیا خوبصورت غزل ہے، بہت شکریہ احمد صاحب۔

    جواب دیںحذف کریں
  3. اچھی بات اچھی ہوتی ہے خواہ بتانے والا بُرا ہو ۔ اسی طرح بُری بات بُری ہوتی ہے خواہ بتانے والا بہت اچھا ہو ۔ علی صاحب کی طرح مجھے بھی احمد فراز صاحب پسند نہيں رہے ليکن يہ اشعار اس وقت اچھے محسوس ہوئے ۔ ليکن شکر گزار آپ کا ہوں کہ آپ کی وساطت سے پڑھنے کو ملے

    جواب دیںحذف کریں
  4. علی صاحب،

    انتخاب کی پسندیدگی کا شکریہ!

    یوں تو پسند اپنی اپنی ہوتی ہے لیکن فراز صاحب تو ایک بڑے حلقے میں پسند کیے جاتے ہیں۔ اور مجھے تو فراز صاحب کا ہر کلام ایک سے بڑھ کر ایک لگتا ہے اور میں جب بھی پڑھتا ہوں سر دھنتا ہوں۔

    جواب دیںحذف کریں
  5. افتخار صاحب،

    ہم تو فراز صاحب کو بھی اچھوں بلکہ بہت اچھوں میں ہی شمار کرتے ہیں۔

    آپ کی توجہ کا بے حد شکریہ۔ ۔۔۔۔!

    جواب دیںحذف کریں
  6. بہت خوب، بہت پیاری غزل ہے۔۔

    جواب دیںحذف کریں
  7. کاشفی بھائی،

    بلاگ پر خوش آمدید،

    انتخاب آپ کو پسند آیا ہمیں اور کیا چاہیے۔

    خوش رہیے۔

    جواب دیںحذف کریں
  8. عمدہ انتخاب ۔ ویسے محمد احمد بھائی بلاگ بہت خوب صوت ہے ۔ ماشاء اللہ ۔

    جواب دیںحذف کریں
  9. @ukashah

    بلاگ پر خوش آمدید ۔۔۔۔!

    انتخاب کی پسندیدگی کا شکریہ۔۔۔۔!

    جواب دیںحذف کریں

  10. مرحوم فراز کے کچھ اشعار کمال کے ھین غالب کی غزلوں کی طرح

    جواب دیںحذف کریں
  11. پروفیسر ڈاکٹر محمد حسنین نقوی بی۔زیڈ۔یونیورسٹی ملتان

    جواب دیںحذف کریں
  12. بہت شکریہ پروفیسر صاحب! بلاگ پر آپ کی آمد اور تبصرہ میرے لئے باؑعثَ مسرت ہے۔

    جواب دیںحذف کریں