فنش باشندوں کی خوش باشی​

تحریر : محمد احمد​


فِن لینڈ کے باشندوں کو فنش یافنز کہا جاتا ہے۔ کہتے ہیں کہ فن لینڈ ایسے ممالک میں سرِ فہرست ہے کہ جہاں لوگ خوش باش رہتے ہیں۔ اور فن لینڈ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہ مسلسل پانچ سال خوش رہنے والے ممالک میں سرِ فہرست رہا ہے۔

فرینک مارٹیلا فِن لینڈ کے ایک ماہرِ نفسیات ہیں۔ ایک حالیہ آرٹیکل میں فرینک ہمیں بتاتے ہیں کہ اُن سے اکثر لوگ پوچھتے ہیں کہ آخر فنش باشندوں کے خوش رہنے کی وجوہات کیا ہیں۔ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے فرینک کہتے ہیں کہ دراصل ہم فنش شہری تین کام کبھی نہیں کرتے۔

فنش لوگ کبھی اپنے پڑوسیوں سے مقابلہ نہیں کرتے

فن لینڈ میں ایک مشہور مقولہ ہے کہ کبھی بھی اپنی خوشی کا مقابلہ کسی اور سے نہ کرو اور نہ ہی اپنی خوشیوں کی شیخی مارو۔

حیرت انگیز بات ہے کہ فنش لوگ اس مقولے پر دِل سے عمل کرتے ہیں۔ بالخصوص وہ مادی اشیاء اور دولت کی نمائش سے بہت گریز کرتے ہیں۔ ایک انتہائی امیر شخص کا ذکر کرتے ہوئے فرینک بتاتے ہیں کہ میں نے اسے دیکھا کہ وہ اپنے بچے کو خود اسٹرولر (بچوں کی گاڑی) میں بٹھا کر لے جا رہا تھا۔ حالانکہ وہ اگر چاہتا تو اپنے بچے کے لیے قیمتی سے قیمتی گاڑی خرید سکتا تھا۔ یا اس کے لیے ڈرائیور رکھ سکتا تھا۔ لیکن اتنی دولت ہونے کے باوجود اس نے پبلک ٹرانسپورٹ کے استعمال کو ترجیح دی۔ یہ چیز فنش باشندوں کو اور دُنیا سے ممتاز کرتی ہے۔

فِن لینڈ میں خوشی یہ ہے کہ آپ باقی سب جیسے لگیں۔ فرینک کہتے ہیں کہ ہمیں کامیابی سے زیادہ ان امور پر توجہ دینی چاہیے جو ہماری خوشی کا باعث بنتے ہیں۔

فنش باشندے فطرت کے ثمرات کو نظر انداز نہیں کرتے

87 فیصد فنش باشندے یہ سمجھتے ہیں کہ قدرتی مظاہر ان کے لیے اہم ہیں اور یہ انہیں ذہنی سکون، توانائی اور آرام پہنچانے کا باعث بنتے ہیں۔ فِن لینڈ میں ملازمین کو گرمیوں میں چار ہفتوں کی رخصت ملتی ہے، جس میں زیادہ تر فنش باشندے دیہاتوں کا رخ کرتے ہیں حتیٰ کہ بہت سے لوگ ایسے علاقوں میں بھی جاتے ہیں جہاں بجلی بھی نہیں ہوتی۔ ان علاقوں میں جا کر یہ لوگ قدرت سے بہت قریب ہو جاتے ہیں اور یہاں انہیں بے پناہ سکون اور طمانیت حاصل ہوتی ہے۔

فرینک کہتے ہیں کہ قدرت سے قریب رہ کر آپ میں صحت، اطمینان اور ذاتی نمو کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ جو بہت ہی انمول شے ہے۔

فنش لوگ اپنے سماج میں باہمی اعتماد کو مجروح نہیں ہونے دیتے

تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ جتنا بھروسہ اور اعتماد ایک ملک کے شہریوں کو ایک دوسرے پر ہوتا ہے اتنا ہی اس ملک کے باشندے خوش باش رہتے ہیں۔

2022 میں گم شدہ بٹووں کا ایک معاشرتی تجربہ (Lost wallet Experience)کیا گیا۔ اس تجربے میں دنیا بھر کے 16 شہروں میں 192 بٹوے دانستہ گرائے گئے کہ لوگوں کی دیانت داری کا اندازہ لگایا جا سکے۔ دیانت داری کے اس تجربے میں فن لینڈ کا دار الخلافہ ہیل سنکی پہلے نمبر پر رہا۔ اور ہیل سنکی میں پھینکے گئے بارہ میں سے گیارہ بٹوے واپس اُن کے مالک تک پہنچ گئے۔

فنش شہری ایک دوسرے پر بھروسہ کرتے ہیں اور دیانت داری کو اہمیت دیتے ہیں۔ فنش باشندے اگر اپنا لیپ ٹاپ لائبریری میں بھول جائیں یا اگر ان کا فون ٹرین میں رہ جائے تو اُنہیں یقین ہوتا ہے کہ اُن کی چیز اُنہیں واپس مل جائے گی۔

فن لینڈ میں اکثر بچے اسکول آنے جانے کے لیے پبلک بس استعمال کرتے ہیں اور بڑوں کی نگرانی کے بغیر ہی باہر کھیلتے ہیں۔

فرینک کہتے ہیں کہ معاشرے میں خوش باشی کو فروغ دینے کے لیے ہمیں چاہیے کہ باہمی اعتماد کو بڑھانے کی کوشش کریں۔ چھوٹے چھوٹے معاملات میں ایک دوسرے کی مدد کریں اور ایک دوسرے کا خیال رکھیں۔

اگر آپ کو فن لینڈ کی یہ باتیں پڑھ کر ساٹھ ، ستر یا اسی کی دہائی کا پاکستان یاد آ گیا تو آپ واقعی ٹھیک پہنچے۔ دیکھا جائے تو معاشرتی سکون اور اطمینان کے حساب سے یہ پاکستان کا سنہری دور تھا۔ لوگ اپنے معاملات سے کسی حد تک خوش تھے اور ایک دوسرے سے بے حد قریب تھے۔ ایک دوسرے کے دُکھ سُکھ میں شریک تھے اور ایک دوسرے کے کام آتے تھے۔ آج ہم سب ایک عجیب ہی افرا تفری کا شکار ہیں۔ ہر شخص کسی نہ کسی مسابقتی دوڑ کا گھوڑا بنا ہوا ہے۔ باہمی اعتماد اب ہم میں بالکل نہیں رہا۔ جرائم کی روک تھام کےلئے بنائے گئے ادارے اپنے مقاصد میں مکمل طور پر ناکام ہوگئے بلکہ کچھ ادارے جرائم کی آبیاری کے لئے ممد و معاون بھی ثابت ہوئے۔ نتیجتاً آج ہمارے شہری اپنے ہی گلی محلوں میں عدم تحفظ کا شکار ہیں اور حد تو یہ ہے کہ وہ کسی اجنبی سے بات کرتے ہوئے بھی ڈرنے لگے ہیں۔

ایسا نہیں ہے کہ آج کا پاکستان اچھے لوگوں سے بالکل ہی عاری ہو گیا ہے ۔ بلکہ آج بھی بہت سے اچھے لوگ موجود ہیں جو گاہے گاہے ہمیں بتاتے ہیں کہ ابھی بھی کہیں نہ کہیں اگلی شرافت کے نمونے پائے جاتے ہیں۔

یہ پچھلے محرم الحرام کی بات ہے۔ میں اپنی فیملی کے ساتھ حیدرآباد گیا تھا۔ وہاں میرا والٹ (بٹوا) بس میں گر گیا۔ اور مجھے اس بات کا احساس تک نہ ہوا۔ یہ والٹ کراچی سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان کو ملا۔ اور اُس نے والٹ میں موجود ایک ڈپازٹ سلپ سے میرا نمبر لے کر مجھ سے رابطہ کیا اور وہ والٹ مجھ تک پہنچانے کا بندو بست کیا۔ مجھے اس نوجوان سے مل کر بہت خوشی ہوئی ۔ اگر وہ نوجوان میرا والٹ مجھ تک نہ پہنچاتا تو مجھے اپنا شناختی کارڈ، ڈرائیونگ لائسنس، اور بہت سے دیگر کارڈز بنوانے میں بہت دقت کا سامنا ہوتا۔ لیکن الحمدللہ ، اس نوجوان کے طفیل میں ان سب پریشانیوں سے بچ گیا۔

سو آج بھی بہت سے لوگ ہمارے ہاں موجود ہیں۔ اور کچھ لوگ آج بھی بے غرض ہو کر بہت سے نیک کام کر رہے ہیں۔ اگر قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنا کام ٹھیک طرح سے کرتے رہیں تو راہِ راست سے بھٹکے ہوئے لوگوں کا قبلہ بھی بہت جلدی درست ہو جائے۔ اسی طرح عام لوگ بھی مقابلے بازی سے ہٹ کر اپنے ذاتی اہداف کے لئے محنت کریں اور ساتھ ساتھ انسانی اقدارکی پاسداری کرنا نہ بھولیں تو ہمارے معاشرہ بھی سکون اور آشتی کا گہوارہ بن جائے اور مجموعی سطح پر آسودگی اور طمانیت کو فروغ ملے۔

حوالہ: ربط

رسمی عبارات میں رومن اردو کا استعمال

ہم پاکستانیوں نے رومن اردو ایک مجبوری کے تحت اپنائی۔ یہ وہ وقت تھا جب کمپیوٹر اور انٹرنیٹ پر اردو رسم الخط موجود نہیں تھا۔ سو پاکستانی اردو زبان لکھنے کے لئے رومن رسم الخط استعمال کرنے لگے (یعنی انگریزی حروفِ تہجی کی مدد سے اردو لکھنے لگے)۔ اردو محفل اور دیگر اردو کمیونیٹیز کی ان تھک کوششوں کے باوجود اردو دنیا میں یونیکوڈ اردو کا چلن عام ہوتے ہوتے بہت وقت لگا۔ بلکہ یوں کہا جائے تو بے جا نہیں ہوگا کہ یونی کوڈ اردو کو صحیح معنوں میں قبول عام تب ملا جب نستعلیق فونٹ متعارف کروایا گیا۔
 

یہی حال موبائل کمیونیکیکیشن کے معاملے میں ہوا۔ شروع شروع میں جب موبائل ٹیکنالوجی نئی نئی آئی تو لوگ اردو لکھنے کے لئے رومن حروفِ تہجی سے کام چلانے لگے ۔ موبائل فون کا استعمال عام ہوا تو ایس ایم ایس پیغامات بہ کثرت استعمال ہونے لگے ۔ اس طرح ہماری اکثریت بالخصوص نوجوان رومن اردو روانی سے لکھنے لگے اور اُن کی یہ عادت ایسی پختہ ہوئی کہ موبائل فون پر اردو کی سہولت میسر آنے کے باوجود بھی وہ اپنے روز مرہ پیغامات رومن اردو میں ہی لکھتے رہے۔یہ چلن ایسا عام ہوا کہ اسے ہی معیار سمجھ لیا گیا اور اب اگلوں کی دیکھا دیکھی نئی نسل کے نوجوان بھی موبائل پر اردو لکھنے کے لئے رومن حروف ہی استعمال کیا کرتے ہیں ۔ حالانکہ ایک عرصہء دراز سے موبائل اور کمپیوٹر پر اردو لکھنے کی سہولت موجود ہے۔

رومن اردو لکھنے میں قباحت کیا ہے؟

یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر رومن اردو لکھنے میں قباحت کیا ہے؟

اس کے جواب میں ہم عرض کریں گے کہ رومن حروفِ تہجی میں اردو لکھنا ایسا ہی ہے جیسے انگریزی زبان کو اردو میں لکھنا۔ مثال کے طور پر۔

وی ہیو ناٹ بین دیئر فار سو مینی ڈیز۔
یا
سچ بی ہیوئیر ڈز ناٹ میک اینی سینس

ممکن ہے کے یہ جملے اردو پڑھ لینے والوں کی سمجھ آ بھی جائیں۔ لیکن دنیا اس بات پر کبھی راضی نہیں ہوگی کہ جب بھی انگریزی لکھی جائے ایسے ہی لکھی جائے۔ تو پھر کیا وجہ ہے کہ ہم اس بات پر راضی ہو گئے کہ جب بھی اردو لکھی جائے وہ رومن میں ہی لکھی جائے حالانکہ اردو زبان اپنا ایک الگ خوبصورت رسم الخط رکھتی ہے۔ اور اب ہر قسم کی ڈیوائسز پر اردو لکھنے کی سہولت بھی موجود ہے۔

اردو رسم الخط میں نوجوانوں کی عدم دلچسپی

اردو رسم الخط میں نوجوانوں کی عدم دلچسپی کے پیچھے کئی ایک عوامل کار فرما ہیں۔

سہل پسندی:

موبائل فون پر چیٹنگ اور سوشل میڈیا کے بے تحاشہ استعمال کی وجہ سے ہمارے نوجوان رومن رسم الخط میں اردو بہت روانی سے لکھنے لگے ہیں۔ اور اس طرح لکھنا اُن کے لئے بے حد آسان ہو چکا ہے بلکہ ایک پختہ عادت کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ سو جب اُن سے کہا جاتا ہے کہ وہ رومن اردو کے بجائے اردو رسم الخط کا استعمال کریں تو یہ اُن کے لئے مشکل کا باعث بنتا ہے اور خیالات کے تسلسل کو روانی کے ساتھ اردو میں لکھ لینا اُن کےلئے ایک دشوار عمل بن جاتا ہے۔ اور وہ اپنی سہل پسندی کے باعث بہت جلد اردو رسم الخط کو چھوڑ کر واپس رومن اردو پر پلٹ آتے ہیں۔ حالانکہ اگر یہ لوگ دلجمعی سے ایک دو ہفتے اردو رسم الخط لکھتے رہیں تو لکھائی میں روانی آ جائے گی اور پھر کبھی رومن اردو لکھنے کا خیال تک نہیں آئےگا۔

ناقص اردو:

اردو رسم الخط سے پہلو تہی کرنے کی ایک اور بنیادی وجہ نوجوانوں کا اپنی زبان اردو اور اس کے املے پر عبور نہ ہو نا ہے۔ ہمارے ہاں جب رومن اردو لکھی جاتی ہے تو اس کا کوئی قائدہ قانون نہیں ہوتا اور ہر شخص اپنی مرضی سے جو چاہتا ہے لکھتا ہے اور اس کے پڑھنے والے سمجھ بھی جاتے ہیں (ہے نا مزے کی بات)۔ لیکن اردو لکھتے ہوئے یہ سہولت نہیں ملتی۔ اردو میں آپ ناقص کو ناقس نہیں لکھ سکتے اور نہ ہی ضامن کو زامن یا ذامن لکھ سکتے ہیں۔ یہاں اردو لکھنے والوں کو ہر ہر لفظ کا درست املا یاد ہونا ضروری ہے ۔ اور اردو زبان پر کما حقہ گرفت نہ ہونے کے باعث ہمارے نوجوان اردو لکھنے کے بجائے رومن اردو کو ہی ترجیح دیتے ہیں۔

رسم الخط کی اہمیت سے نا واقفیت:

ہمارے بچےاردو رسم الخط کی اہمیت سے آگاہ نہیں ہیں۔ اگر ہم ترکی کی مثال لیں کہ جنہوں نے مصصفیٰ کمال پاشا جیسے نا عاقبت اندیش شخص کے دور میں اپنے رسم الخط سے ہاتھ دھو لیے، تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ ترکی کو اس کا کافی نقصان ہوا۔ ترکی نے جب اپنے رسم الخط کو چھوڑ کر رومن حروفِ تہجی پر اکتفا کر لیا تو وہ آہستہ آہستہ اپنے علمی اور ادبی ورثے سے لاتعلق ہوتے گئے۔ اور ایک وقت آیا کہ زبان کی عدم واقفیت کے باعث نئی نسل کے لئےاپنی ہی شاندار ماضی کی کتابیں اجنبی بن گئیں۔ ترکی کو اپنا رسم الخط چھوڑ کر رومن حروف کو اپنانے سے ممکن ہے کہ کچھ فائدے بھی پہنچے ہوں لیکن اگر طویل مدتی اثرات کا جائزہ لیا جائے تو اس کے نقصانات اس کے فوائد سے کہیں زیادہ بڑھ کر ثابت ہوئے۔

اگر ہمارے بچے بھی اپنے رسم الخط سے اسی طرح بے اعتنائی برتتے رہے تو خدانخواستہ ہمارا انجام بھی ترکی کے جیسا ہی ہوگا۔ اللہ ہمیں اس انجام سے محفوظ رکھے۔ اور ہمارے بچوں کو اردو رسم الخط کی اہمیت کو سمجھنے کے توفیق عطا فرمائے۔

کاروباری اداروں اور اشتہاروں میں رومن اردو کا استعمال

چلیےیہاں تک تو سمجھ آتا ہے کہ ہمارے بچے چند وجوہات اور کسل مندی کے باعث رومن اردو لکھنے پر مجبور ہیں۔ لیکن طرفہ تماشا یہ ہے کہ ہمارے ہاں بڑے بڑے کاروباری ادارے بھی رسمی اور غیر رسمی عبارات اور اشتہارات میں رومن اردو کا استعمال کرتے نظر آتے ہیں اور یہ بات کسی بھی طرح معقول نہیں ہے۔

ہمارے ہاں موبائل فون کمپنیاں اپنے صارفین کو جو پیغامات بھیجتی ہیں اُن کی اکثریت رومن اردو میں ہوتی ہے۔ اسی طرح کچھ کمپنیاں اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس تک پر رومن اردو ہی کو جگہ دیتی ہیں۔ حالانکہ یہ اُن کمپنیوں کا اپنے خریداروں سے رسمی مکالمہ ہے اور اس میں بے تکلفی کے نام پر بھی رومن اردو کی گنجائش نہیں ہے۔

اسی طرح ہمارے ہاں ٹی وی ، پرنٹ میڈیا اور دیگر ذرائع پر نظر آنے والے اشتہارات میں رومن اردو کا بے دریغ استعمال ہوتا نظر آتا ہے۔ ایک تو پہلے ہی انگریزی کی وجہ سے اردو کو اُس کا مقام نہیں ملتا۔ جو تھوڑی بہت جگہ اردو کی بن جاتی ہے اُس میں بھی یہ لوگ رومن اردو گھسا دیتے ہیں۔ یہ بات کسی بھی طرح گوارا نہیں ہے۔

مذکورہ اداروں کے پاس رومن اردو کے استعمال کا کوئی عذر موجود نہیں ہے۔ ان کے ہاں ایک سے ایک قابل شخص موجود ہوتا ہے اور اُن میں سے اکثر لوگ مختلف زبانوں پر عبور رکھتے ہیں۔ کمپنی کے پیغامات کوئی نو عمر نوجوان تو ترتیب دیتے نہیں ہیں کہ جنہیں صلاحیت اور قابلیت کے فقدان کا سامنا ہو۔ نہ ہی ان اداروں کے پاس تکنیکی صلاحیت والے لوگوں کی کمی ہے کہ اردو زبان لکھنے میں اُنہیں کسی سافٹ وئیر وغیرہ کی کمی محسوس ہو (حالانکہ آج کل تو آپ موبائل سے بھی با آسانی اردو لکھ لیتے ہیں)۔ یعنی کسی بھی طور پر ان کا کوئی بھی عذر قابلِ قبول نہیں ہے۔

بات دراصل ترجیحات کی ہے۔ پاکستان میں کاروبار کرنے والی مقامی اور غیر مقامی کمپنیوں کو چاہیے کہ وہ پاکستانی زبان کو بھی اہمیت دیں اور اس کو اپنی ترجیحات میں شامل کریں۔ تاکہ اس مٹی کا کچھ تو قرض ادا ہو سکے۔

محمد احمدؔ​
******​

رضوان بھائی کی جُرأتِ رِندانہ

جُرأت عموماً رندوں سے منسوب کی جاتی ہے کہ بعض اوقات وہ نشے میں ایسی بات کہہ جاتے ہیں جو انتہائی جُرأت طلب ہوتی ہے یا اُن سے ایسے افعال سرزد ہو جاتے ہیں کہ وہ جُرأت و بہادری دکھانے کے مرتکب قرار پاتے ہیں۔لیکن بیش تر اوقات ان کی یہ تمام تر جُرأت خمار کی مرہون ِمنت ہوا کرتی ہے ۔ جیسے ہی ان کا نشہ ہرن ہوتا ہے وہ بکری بن جاتے ہیں اور کہتے ہیں۔ ارے ! یہ میں نے کیا کر دیا۔ ایسی جُرأت کو جُرأت کہا تو جا سکتا ہے لیکن اس کی بنیاد پر کسی شخص کے کردار کو سراہا نہیں جا سکتا۔

اصل جُرأت مند شخص وہ ہوتا ہے جو جانتے بوجھتے اور تمام تر نفع و نقصان سے واقف ہوتے ہوئے جُرأت مندانہ عمل کرکے دکھاتا ہے۔ اور پھر اپنے فیصلے پر قائم رہتا ہے۔ حال ہی میں ایسی ہی جُرأت کا مظاہرہ دیکھنے میں آیا لیکن یہ جُرأت کسی رندِ خرابات نے نہیں دکھائی بلکہ یہ کام ایک زاہد شخص نے اللہ کی توفیق سے کر دکھایا۔

گزشتہ دنوں جب پاکستان اسپورٹس لیگ کا آٹھواں ٹورنامنٹ منعقد ہوا تب کچھ پی ایس ایل فرنچائززنے سٹے بازی اور جوئے کی کمپنیوں کے ساتھ سروگیٹ مارکیٹنگ کے تحت اشتہاری معاہدے کر لیے۔ چونکہ یہ سروگیٹ مارکیٹنگ تھی سو اس بات کی تفصیل عام لوگوں سے پوشیدہ تھی پھر کسی طرح یہ بات سوشل میڈیا پر کھل گئی۔ جس پر پی سی بی نے کہا کہا کہ یہ فرنچائز کا اپنا معاملہ ہے ہم دخل نہیں دے سکے۔

پاکستان کرکٹ ٹیم کے وکٹ کیپر محمد رضوان کو جب اس معاملے کی سنگینی کا احساس ہوا اور انہوں نے یہ جانا کہ وہ انجانے میں اللہ کے حرام کردہ جوئے اور سٹے بازی کے اشتہار اپنے لباس پر زیب تن کیے ہوئے ہیں تب انہوں نے انتہائی جُرأت سے کام لیتے ہوئے اپنی قمیص پر موجود اشتہار کو سادے ٹیپ سے چھپا دیا۔ بظاہر یہ ایک چھوٹا سا عمل تھا لیکن اس کے لئے بہت جُرأت کی ضرورت تھی کہ اس عمل سے محمد رضوان پی سی بی یا اپنی پی ایس ایل فرنچائز کی ناراضگی مول لے سکتے تھے اور جس کا اُنہیں پیشہ ورانہ اور مالی نقصان بھی ہو سکتا تھا۔ تاہم محمد رضوان بھائی نے ان سب باتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے وہی کیا جو ایک سچا مسلمان کیا کرتا ہے کہ اُس نے حکم خداوندی کے آگے سرِ تسلیم خم کیا اور باقی باتوں کی بالکل پرواہ نہیں کی۔

محمد رضوان کے اس عمل سے پہلے اگرچہ بات پوری طرح کھل چکی تھی تاہم غلط کو غلط کہنے کی جُرأت نہ تو کسی حکومتی عہدے دار کو ہوئی، نہ پی سی بی چیئرمین کو اور نہ ہی کسی فرنچائز کے مالک کو۔

محمد رضوان بیٹنگ کمپنی کا لوگو چھپاتے ہوئے
تصویر : بہ شکریہ ایکسپریس نیوز

تاہم جب محمد رضوان کے اس عمل کی باز گشت خبروں اور سوشل میڈیا میں سنائی دی تب چیئرمین پی سی بی جناب نجم سیٹھی صاحب نے بیان دیا اور کہا: "پی ایس ایل 8 ختم ہونے پر تمام معاہدوں پر نظر ثانی کریں گے،ہم نے فرنچائزز کو بھی لکھ دیا کہ اس معاملے کو بڑی باریک بینی سے دیکھیں، چاہے کتنا ہی منافع بخش کیوں نہ ہو ہم اپنے مذہب، ثقافت اور ملکی قوانین کیخلاف کوئی کام نہیں کریں گے، پیسہ ہی سب کچھ نہیں ہوتا

یعنی محمد رضوان نے اپنے جُرأت مندانہ فیصلے اور عمل سے ناصرف ایک طرف لوگوں کو یہ پیغام دیا کہ غلط غلط ہوتا ہے اور ہمیں کسی صورت اُس کے ساتھ نہیں کھڑنے ہونا چاہیے اور اُن کے اس عمل سے پی سی بی بھی حرکت میں آئی اور پی سی بی کی طرف سے اس بات کا عندیہ دیا گیا کہ آئندہ اس قسم کی مارکیٹنگ سے گریز کیا جائے گا۔

کسی نے سچ کہا ہے سانچ کو آنچ نہیں۔ 

*****


شٹر ڈاؤن ہڑتال کی افادیت

شٹر ڈاؤن ہڑتال کی افادیت

مملکتِ خداداد پاکستان میں شٹر ڈاؤن ہڑتال کوئی اجنبی شے نہیں ہے۔ ایک زمانہ ایسا بھی تھا جب ہڑتال اور کام کے دنوں میں مقابلہ ہوا کرتا تھا کہ دیکھیں کون آگے نکلتا ہے۔ الحمدللہ! اب وہ بات نہیں رہی ہے۔

رواج کے مطابق ہمارےہاں اکثر سیاسی اور کبھی کبھار مذہبی جماعتیں سرکار سے اپنے مطالبات منوانے کے لئے شٹر ڈاؤن ہڑتال کا اعلان کرتی ہیں اور پھر ہر ممکن کوشش کرتی ہیں کہ اُس روز کاروبار اور ٹرانسپورٹ وغیرہ بند رہے تاکہ سرکار کو یہ اندازہ ہو کہ لوگ ان جماعتوں کے ساتھ ہیں اور سرکار اُن کے مطالبات پر سنجیدگی سے غور کرے۔ ہڑتال کے باعث کاروبار کے ساتھ ساتھ زندگی کے دیگر معاملات بھی متاثر ہوتے ہیں ۔ بالخصوص تعلیمی ادارے ہڑتال کی وجہ سے بند رہتے ہیں اور بچوں کی تعلیم کا حرج ہوتا ہے۔ یہی ہڑتالیں کبھی کبھی پر تشدد بھی ہو جاتی ہیں کہ کچھ لوگ زبردستی کاروبار بند کروانے کی کوشش کرتے ہیں اور کبھی ایک سے زائد جماعتوں کا آپس میں تصادم بھی ہو جاتا ہے۔

ہڑتال کی ایک شکل پہیہ جام ہڑتال بھی ہے جس میں کوشش کی جاتی ہے کہ کسی بھی قسم کی کوئی گاڑی بالخصوص عوامی گاڑیاں بالکل نہ چلیں۔ اسی طرح کچھ لوگ بھوک ہڑتال بھی کرتے ہیں اور مطالبات پورے ہونے سے پہلے تک کچھ نہ کھانے کا اعلان کرتے ہیں اور صرف جوس وغیرہ پر گزارا کرکے سرکار پر احسان کرتے ہیں۔

بہر کیف، ہم بات کررہے تھے شٹر ڈاؤن ہڑتا ل کی۔ بظاہر تو شٹر ڈاؤن ہڑتا ل ٹھیک معلوم ہوتی کہ اگر سرکار کسی جماعت کے مطالبات پر کان نہیں دھر رہی تو اُسے ان مطالبات کی اہمیت کا اندازہ کروانے کے لئے کچھ تو کیا جائے ۔ تاہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر شٹر ڈاؤن ہڑتال کی افادیت ہے کتنی ۔ یا یہ کہ اس کی افادیت ہے بھی یا نہیں؟

جیسا کہ آپ سمجھ سکتے ہیں کہ شٹر ڈاؤن ہڑتال سے کاروبار بُری طرح متاثر ہوتا ہے اور ملک یا شہر معاشی طور پر ایک دن پیچھے چلا جاتا ہے۔ روز کمانے والے سمجھ سکتے ہیں کہ اگر وہ ایک دیہاڑی نہ لگائیں تو اُن کے معاشی معاملات پر کیا اثر پڑتا ہے۔ اسی طرح بچوں کی پڑھائی کا تسلسل بھی ٹوٹ جاتا ہے جو بہر صورت ایک بڑا نقصان ہے۔

ہمارے ہاں کم عمر نوجوان جو اسکول کالجوں میں پڑھتے ہیں یا کہیں نوکری کرتے ہیں، ہڑتال کے اعلان سے خوش ہوتے ہیں کہ اُنہیں ایک چھٹی مل جاتی ہے، تاہم اُن میں سے اکثرکو اندازہ نہیں ہوتا کہ ہڑتال کا فائدہ بہت کم اور نقصانات بہت زیادہ ہیں اور اس کے دور رس اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

سرکار کے نقطہء نظر سے دیکھا جائے تو اُسے شٹر ڈاؤن ہڑتال سے کوئی خاص نقصان نہیں ہوتا (بالخصوص جب ہڑتال ایک یا دو روز کی ہو) ۔ سرکار کے معاملات چلتے رہتے ہیں ۔ عوام کی تکلیف سے اُنہیں کوئی سروکار نہیں ہوتا ۔ بلکہ عوام کو تکلیف پہنچانا تو یوں سمجھیے کہ سرکار کا ہی ہاتھ بٹانا ہوا۔

ہاں البتہ ہڑتال کامیاب ہوجائے (یعنی حسبِ منشاء پورا دن کاروبارِ زندگی مفلوج رہے) تو ہڑتا ل کرنے والی جماعت کو اس سے فائدہ پہنچتا ہے ۔ اس سے وہ لوگ بھی جماعت کے نام اور کام سے واقف ہو جاتے ہیں جو پہلے اس سے واقف نہیں ہوتے، یعنی ہڑتال عوام میں شہرت کے حصول کے لئے معاون ثابت ہوتی ہے۔ اگر ہڑتال پر تشدد ہو تو پھر اس جماعت کا دبدبہ قائم ہو جاتا ہے اور لوگ اگلی بار نام سن کر ہی ہڑتال والے دن اپنے کاروبار بند کر دیتے ہیں۔ چونکہ ہڑتال کسی نہ کسی ایسے معاملے میں کی جاتی ہے جس سے ( بہ ظاہر) یہ تاثر جاتا ہے کہ یہ جماعت عوام کی فلاح چاہتی ہے تو کامیاب ہڑتا ل کے ردِ عمل کے طور پر عوام اُنہیں ووٹ دینے پر بھی مائل ہوتی ہے۔

اگر ہم ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کے سیاسی نعروں کو بغور دیکھیں تو ہمیں اندازہ ہوگا کہ یہ سب جماعتیں عوام کے مسائل سے بخوبی واقف ہیں اور اپنے نعروں میں انہی کا اعلان بارہا کرتی ہیں۔ تاہم یہ جماعتیں حکومت میں ہوں یا حزبِ مخالف میں، عوام کے مسائل پھر بھی حل نہیں ہوتے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ دراصل ان نعروں کا اصل مقصد عوامی حمایت حاصل کرنا ہوتا ہے اور ان جماعتوں کو عوام کے مسائل سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔

کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہڑتال کے پیچھے خود حکومت ملوث ہوتی ہے۔ جب کبھی سرکار کوئی ایسا فیصلہ کرنا چاہتی ہے کہ جسے خود سے کرتے ہوئے اُس کے پر جلتے ہوں (یا وہ کوئی دور از کار معاملہ ہوتا ہے لیکن اس میں حکومتی جماعت یا جماعتوں کا ذاتی فائدہ ہوتا ہے)۔ تب سرکار اپنی حلیف (یا بظاہر حریف) جماعتوں سے ان معاملات پر احتجاج، مظاہرے اور ہڑتالیں کرواتی ہے اور پھر نتیجےمیں "عوامی دباؤ" سے مجبور ہو کر وہ فیصلہ کرتی ہے۔

الغرض دیکھا جائے تو ان ہڑتالوں کا عوام کو بالواسطہ یا بلا واسطہ کوئی فائدہ نہیں پہنچتا ۔ اور یہ ہڑتالیں اُن کے معاشی اور سماجی معاملات میں نقصان دہ ہی ثابت ہوتی ہیں ، چاہے اُنہیں اس بات کا ادراک ہو یا نہ ہو۔

مخلص حکومت یا عوام دوست حکومت ( اگر کہیں وجود رکھتی ہو ) تو شٹر ڈاؤن ہڑتال کے معاشی اور سماجی نقصانات کو ذہن میں رکھتے ہوئے قانون سازی کر سکتی ہے کہ مختلف طبقات اپنے مطالبات سرکار تک کس طرح پہنچائیں اور سرکار کس طرح عوامی رائے کو اپنی پالیسیوں میں شامل کرنے کی سعی کرے۔

تاہم چونکہ فی الحال ایسا ہوتا نظر نہیں آتا تو با شعور آدمی کو چاہیے کہ ان ہڑتالوں سے لا تعلق رہے اور اپنے آنے والی نسلوں کو ان کے نقصانات سے آگاہ کرتا رہے۔

*****

افسانہ: سفرنامہ ٴ ابتلاء​

سفرنامہ ٴ ابتلاء​

از: محمد احمد​

afsana-safar-nama-e-ibtila

کبھی کبھی ہماری ترجیحات ہمیں ایسے فیصلے کرنے پر مجبور کرتی ہیں کہ عام زندگی میں اگر ہمیں موقع ملے تو ہم ایسا کبھی نہ کریں۔ مجھے ایک سفر درپیش تھا۔ ایک جنازے میں شرکت کے لئے میں ابھی ابھی بس میں سوار ہوا تھا۔ میرا مقامِ مقصود تین چار گھنٹے کی مسافت پر واقع ایک قریبی شہر تھا۔

مجھے نکلتے نکلتے دوپہر کا ایک بج چکا تھا اور میری کوشش تھی کہ جلد از جلد وہاں پہنچ جاؤں۔ ابھی اس بات کا تعین نہیں ہو سکا تھا کہ تدفین عصر میں ہوگی یا مغرب میں۔ جب میں بس اسٹاپ پر پہنچا تو مجھے متعلقہ بکنگ آفس میں براجمان شخص نے بتایا کہ کچھ دیر میں ایک کوچ (بس) آئے گی اس میں جگہ ہو تو آپ اس میں چلے جانا۔ ورنہ اگلی گاڑی ایک گھنٹے بعد آئے گی۔

جب بس پہنچی تو اُس میں سیٹ نہیں تھی۔ میں نے کنڈکٹر کو بتایاکہ مجھے یہ معاملہ درپیش ہے اور مجھے جلدی پہنچنا ہے۔ تو اُس نے مجھے کہا کہ سب سیٹیں پہلے سے بک ہیں۔ آپ اسٹول پر بیٹھ جاؤ۔

ہمارے ہاں اندرونِ شہر چلنے والی بسوں میں سیٹوں کے درمیان راہ داری میں پلاسٹک کے اسٹول رکھ کر لوگوں کو بٹھا دیا جاتا ہے اور جلدی پہنچنے کے لالچ یا مجبوری میں کئی ایک لوگ ان اسٹولوں پر بیٹھ بھی جاتے ہیں۔ کوئی اور وقت ہوتا تو شاید میں کبھی بھی اس بات کے لئے راضی نہیں ہوتا کہ میں اتنی دور کے سفر کے لئے ایسی غیر آرام دہ نشست کا انتخاب کروں۔ لیکن چونکہ وقت کا تقاضا تھا سو مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق میں ایک اسٹول پر بیٹھنے پر راضی ہو گیا۔

یا تو یہ پچھلے دنوں کی بے انتہا مصروفیات کے باعث تھا یا اس ناپسندیدہ فیصلے کا اثر کہ مجھے بس میں بیٹھتے ہی کمر میں درد کا سا احساس ہو نے لگا۔ حالانکہ ابھی تو مجھے بس میں سوار ہوئے چند منٹ ہی ہوئے تھے اور ابھی بس اسٹاپ سے چلی بھی نہیں تھی۔

ایک لمحے کے لئے خیال آیا کہ بس سے اُتر جاؤں اور اس کے بعد والی گاڑی میں سوار ہو جاؤں۔لیکن پھر یہی سوچ کر اس خیال کو جھٹک دیا کہ اس طرح کافی وقت ضائع ہو جائے گا۔ پھر جب کنڈکٹر کرایہ وصول کرنے آیا تو دل چاہا کہ اُس سے کہوں کہ اس انتہائی غیر آرام دہ سیٹ کے بھی اتنے ہی پیسے لے رہے ہو جتنے دوسری سیٹوں کے ہیں۔ لیکن یہ سوچ کر چپ رہا کہ یہ انتخاب تو میرا اپنا ہے اور پھر اس قسم کے پیشوں سے وابستہ لوگ کافی منہ پھٹ ہوا کرتے ہیں، سو خاموشی ہی بہترتھی۔

بس اب چل پڑی تھی اور میں دل ہی دل میں یہ دعا کر رہا تھا کہ جلد از جلد یہ سفر تمام ہو۔ مجھ سمیت آٹھ لوگ اسٹول پر بیٹھے تھے۔ لیکن باقی لوگوں کی باڈی لینگویج سے بالکل بھی نہیں لگ رہا تھا کہ وہ کسی غیر آرام دہ نشست پر بیٹھے ہوئے ہیں ۔ مجھے لگا کہ شاید میں اس معاملے میں کچھ زیادہ ہی حساس ہو رہا ہوں۔ تب مجھے یہ بھی خیال آیا کہ کچھ لوگ تو اس سے بھی بُری حالت میں زندگی گزارتے ہیں لیکن شکوہ لب پر نہیں لاتے۔ پھر خیال آیا کہ شاید یہ لوگ اس طرح کے سفر کے عادی ہیں، اور اس خیال سے میرے احساسِ ندامت میں کچھ کمی واقع ہوئی۔

مجھے یاد پڑتا ہے کہ زندگی میں ایک دو بار پہلے بھی میں نے اس طرح سفر کیا ہے ۔ لیکن آج یہ بات کچھ زیادہ ہی کَھل رہی ہے۔ یا شاید ڈھلتی عمر کے ساتھ اب قوتِ برداشت کچھ کم ہوگئی ہے۔ اکثر یہ بھی ہوتا ہے کہ ہم کسی تکلیف سے گزر جانے کے بعد اُسے بھول جاتے ہیں اور شاید یہ بھی خدا کا ہم پر احسان ہے۔

میں اسٹول پر بیٹھا پہلو بدل رہا تھا۔ میں نے اپنے جوتے اتار کر سائیڈ پر رکھ دیے اور اپنے پاؤں آگے والے اسٹول کے پائیدان پر ٹکا دیے۔ بے آرامی کے باعث میں مختلف انداز سے پہلو بدل بدل کر دیکھ رہا تھا کہ شاید کسی کل چین آ جائے لیکن ہر طرح سے ایک ہی جیسا حال تھا اور بے سہارا کمر بس کی رفتار کے باعث دباؤ اور تکلیف کا شکار تھی۔

بس اب اچھی خاصی رفتار سے چل رہی تھی۔ میرے دونوں اطراف کی سیٹوں پر موجود چاروں لوگ اونگھ رہے تھے۔بائیں طرف بیٹھے نوجوان نے اپنی پی کیپ کو اُتار کر گھمایا اور اُس کے پچھلے بند کو اپنی ٹھوڑی میں پھنسا کر اپنا منہ اور آنکھیں ڈھک لی تھیں۔ مجھے یہ دیکھ کر کچھ ہنسی بھی آئی۔ لیکن اِس وقت ہنسنے کا دل نہیں چاہ رہا تھا۔

کچھ لوگ ہینڈ فری لگائے بغیر سوشل میڈیا پر ویڈیوز وغیرہ دیکھ رہے تھے۔ اور طرح طرح کی آوازوں سے مجھے عجیب سی بے چینی ہو رہی تھی۔ کسی سونے والے نے ایک آدھ کی آواز کو کم بھی کروایا ۔ پھر آہستہ آہستہ یہ آوازیں از خود ماند ہو گئیں، اور بس کے بیشتر مسافر اونگھنے لگے۔

کمر کا درد اب آہستہ آہستہ بڑھ رہا تھا ۔ میں نے موبائل فون پر اپنی دلچسپی کا ایک آرٹیکل نکال کر پڑھنا شروع کر دیا۔ لیکن میں بمشکل تمام آدھی ہی تحریر پڑھ پایا اور بے چینی کے عالم میں پڑھنا معطل کر دیا۔

تیز رفتار بس کی کھڑکی سے ویران پہاڑیاں اور کہیں کہیں سبزہ نظر آ رہا تھا ۔ میں اس وقت بالکل فارغ بیٹھا تھا۔ مجھے پچھلے دنوں پڑھی ہوئی ایک کتاب یاد آئی کہ جس میں بتایا گیا تھا کہ تخلیقی کاموں سے وابستہ لوگوں کو دنیا و مافیہا سے بے خبر ہو کر روزانہ کچھ نہ کچھ وقت فارغ بیٹھنا چاہیے۔ تاکہ اُن کے ذہن کو ادھر اُدھر بھٹکنے کا موقع ملے۔ اور مشاہدے اور خیالات کے خمیر سے کوئی تخلیقی خیال جنم لے سکے۔

میرے لئے فارغ بیٹھنا بہت مشکل کام تھا۔ جب کبھی تھوڑی سی بھی فراغت ملتی تو نہ جانے کس طرح موبائل فون جیب سے نکل کر ہاتھ میں پہنچ جاتا۔ اور میں مختلف لوگوں کے بے سروپا پیغامات دیکھنے لگ جاتا۔ سوشل میڈیا کی ایپس کب کُھل جاتیں اور نہ جانے کتنا وقت وہاں کھپ جاتا، پتہ ہی نہ چلتا۔ کبھی کبھی تو ایسا بھی ہوتا کہ میں کسی کام سے موبائل فون نکالتا اور سوشل میڈیا کے کسی نوٹیفیکیشن کی اُنگلی پکڑ کر کہیں سے کہیں نکل جاتا ۔ اور مجھے یاد بھی نہ رہتا کہ میں نے کس کام سے موبائل نکالا تھا۔

لیکن آج تو نہ کسی تحریر میں دل لگ رہا تھا اور نہ ہی سوشل میڈیا کے کسی پلیٹ فارم پر۔ آج تو بس یہی خیال تھا کہ کسی طرح یہ وقت کٹے اورمیں اپنی منزل پر پہنچ جاؤں۔ بس اپنی رفتار سے چلی جا رہی تھی ۔میں یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ بس کی رفتار کم تھی۔ ہاں البتہ میرا انتظار کسی طرح کم نہیں ہو رہا تھا۔

مجھے یاد آیا کہ ماضی میں جب کبھی میں بس میں سفر کیا کرتا تھا تو میرے برابر بھی کوئی نہ کوئی شخص اسٹول پر آ کر بیٹھ جاتا تھا۔ مجھے اُس سے ہمدردی ضرور ہوتی تھی لیکن کبھی اتنی اخلاقی جرات نہیں ہو سکی کہ اپنی سیٹ اُسے دے کر اُس کی جگہ بیٹھ جاؤں۔ کسی نے ٹھیک ہی کہا ہے ، آپ کسی کی تکلیف اُس وقت تک کم نہیں کر سکتے ، جب تک کہ اُس کے حصے کی تکلیف برداشت کرنے پر راضی نہ ہو جائیں۔ مجھے اپنے پڑوسیوں سے کوئی گلہ نہیں تھا۔ یہ آرام دہ سیٹ اُن کا حق تھی اور میں اپنے مقدر یا انتخاب پر قانع تھا۔

بس کسی چھوٹے سے اسٹاپ پر رُکی تو اچانک کہیں سے کچھ خوانچہ فروش بس میں در آئے اور چپس، پیٹیز اور کولڈ ڈرنک کی آواز لگانے لگے۔ کچھ لوگ اُن سے چپس اور بوتلیں خرید رہے تھے۔ بظاہر یہ چپس ایک معروف برانڈ کے معلوم ہوتے تھے لیکن اُن پر نام کچھ اور تھا۔ اسی طرح پانی کی بوتلیں بھی اچھے برانڈز کے ملتے جُلتے نام لئے ہوئے تھیں۔ لیکن سفر میں سب چلتا ہے۔ میں اپنی پانی کی بوتل اسٹاپ سے ہی لے چکا تھا ۔ سو مجھے ان خوانچہ فروشوں سے کچھ لینا دینا نہیں تھا۔ تاہم چونکہ ہم اسٹول والے، راستے میں براجمان تھے سو مجھ سمیت سب اسٹول والوں کو خوانچہ فروشوں اور اصلی مسافروں کے درمیان وسیلے کا کام کرنا پڑ رہا تھا۔ ادھر سے چیز لے کر اُدھر پکڑاتے ، پھر اُدھر سے پیسے لے کر خوانچہ فروشوں کو دیتے ۔ پھر بقیہ پیسے اور نئی چیزوں کا تبادلہ ہوتا۔ اس سرگرمی سے کوئی فائدہ تو کیا پہنچتا البتہ کچھ دیر کے لئے درد کا احساس پس منظر میں چلا گیا۔ بس چلی تو کمر کی تکلیف نے واپس اپنی جگہ سنبھال لی اور پہلے سے زیادہ شدت سے اپنا احساس دلانے لگی۔

یوں لگ رہا تھا کہ جیسے بس کا یہ سفر کوئی قید با مشقت ہو اور قید کا یہ دورانیہ کسی طرح ختم ہی نہیں ہو رہا تھا اور کمر کی تکلیف جبری مشقت کی طرح نا قابلِ برداشت ہوتی جا رہی تھی۔ اس وقت زندگی اِس بس اور بس کے ماحول تک محدود ہو چکی تھی صرف ذہن کچھ کچھ آزاد تھا کہ ادھر اُدھر بھٹک سکے اور آنکھوں کو اجازت تھی کہ بس کی کھڑکیوں سے اُس طرف کے مناظر میں کوئی دلچسپی تلاش کر سکیں۔

بس کچھ نئے تعمیراتی پروجیکٹس کے پاس سے گزر رہی تھی۔ ایک قطعہِ زمین کو طرح طرح کے رنگا رنگ جھنڈوں اور بینرز سے سجایا گیا تھا ۔ ایک چھوٹی سی خوبصورت عمارت آفس کے لئے بنائی گئی تھی۔ یہاں لگے بڑے بڑے بینرز بے گھر لوگوں کو اپنے گھر کے خواب دکھا رہے تھے۔ اس غیر آباد زمین میں عارضی طور پر جنگل میں منگل اس لئے برپا کیا گیا تھا کہ اپنے گھر کے خواہش مند لوگ اس رنگ و روپ اور چکا چوند سے متاثر ہو کر اپنے پلاٹ بک کروا لیں۔

لیکن یہ سب گہما گہمی پروجیکٹ کے شروع میں ہی نظر آتی ہے۔ پھر آہستہ آہستہ جب زیادہ تر پلاٹ فروخت ہو جاتے ہیں ۔ تب یہ سب رونق آہستہ آہستہ ختم ہو جاتی ہے۔ اور ایک وقت آتا ہے جب یہ جگہ پھر سے بے آب و گیاہ ویرانے کی طرح نظر آتی ہے۔

ایسے میں اگر کوئی بھولا بھٹکا اپنا پلاٹ دیکھنے آ جائے تو وہ یہی سوچتا ہے کہ شاید یہاں یا شاید وہاں اُس کا پلاٹ تھا۔ حتیٰ کہ اُسے پلاٹ کا کوئی نام و نشان تک نظر نہیں آتا ، اور وہ مخمصے اور شکوک شبہات میں گھرا واپس لوٹ جاتا ہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے برسوں بعد قبرستان آنے والا اپنے کسی عزیز کی قبر ڈھونڈتا ہے اور سوچتا ہے کہ شاید یہاں تھی، یا شاید وہاں تھی۔ لیکن اسے یقین کی دولت میسر نہیں آتی۔

ایک آہ میرے منہ سے برآمد ہوئی۔ آہ کیا یہ تو ایک کراہ تھی۔ اُس شدید تکلیف کا احساس تھی جو بے آرامی کے باعث میری رگ رگ میں سرائیت کر چکی تھی۔ کاش میں کوئی درد کی گولی ہی کھالیتا۔ لیکن کیسے کھاتا۔ سفر میں نہ تو کوئی معالج تھا نہ کوئی دوا۔ یوں بھی یہ تکلیف کوئی تکلیف تھوڑی تھی۔ یہ تو بس بے آرامی کا روگ تھا اور اسے آرام سے ہی شفا ہونی تھی۔

اب تک غالباً دو تہائی سفر طے ہو چکا تھا۔ لیکن جیسے جیسے منزل قریب آ رہی تھی ۔ اسٹول پر بیٹھنا اور دشوار ہو رہا تھا ۔

مجھ سے آگے اسٹول پر بیٹھے آسمانی قمیض والے چاچا جی اب سو رہے تھے۔ ان کا کان مسلسل برابر والی سیٹ سے ٹکرا رہا رہا۔ لیکن انہیں کوئی ہو ش نہیں تھا۔ مجھے اُن پر اور خود پر حیرت ہوئی۔ شاید میرے محسوسات کچھ زیادہ ہی بڑھے ہوئے تھے۔ مجھ سے زیادہ عمر کے وہ بزرگ کس طرح اسٹول پر بیٹھے بیٹھے سو رہے تھے۔ اور میں تکلیف سے کراہ رہا تھا۔ پھر میں تو اس طرح سونے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ اگر میں کسی طرح سو بھی جاتا تو شاید تھوڑی ہی دیر میں کسی مسافر پر گر جاتا ۔ مجھے اپنی کم ہمتی پر افسوس بھی ہوا اور اس بات کا رشک بھی ہوا کہ میری ہی جیسی صورتِ حال میں میرے سے کہیں زیادہ عمر کا ایک شخص کتنے اطمینان سے سورہا ہے اور میں نہ جانے کیوں چھوئی موئی بنا ہوا ہوں۔

ایسا نہیں کہ میں نے اپنی توجہ ادھر اُدھر بانٹنے کی کوشش نہ کی ہو ۔ لیکن میرا دھیان کسی بھی جگہ نہ لگ سکا۔ مجھے اپنی خوراک بہتر کرنی چاہیے اور کچھ ورزش کو بھی معمول بنانا چاہیے،میں آگے کے لئے سوچنے لگا۔ انسان کو اتنا مضبوط تو ہونا چاہیے کہ مشکل وقت پڑنے پر با آسانی گزارا کر سکے اور چھوٹی چھوٹی تکالیف اُس کے لئے سوہانِ روح نہ بن جائیں۔ آج بھی میں ہمیشہ کی طرح ایک معمولی سا مشکل مرحلہ آنے پر آگے کے لئے خود سے عہد و پیمان کر رہا تھا۔ لیکن مجھے معلوم ہے کہ یہ سب عہد و پیمان مشکل کے رفع ہوتے ہی ذہن سے محو ہو جانے ہیں۔

باقی ماندہ مسافت مستقل کم ہو رہی تھی لیکن ساتھ ساتھ درد اب ناقابلِ برداشت ہوتا جا رہا تھا۔ درد کے ساتھ ساتھ مجھے بخار کی حرارت بھی محسوس ہو رہی تھی۔ شاید تھکن اور شدید تکلیف کے باعث مجھے بخار ہو رہا تھا۔ دھیان بٹانے کے لئے میں نے پھر کھڑکی سے باہر جھانکا ۔ بس ایک چنگی ناکہ پر رُکی ہوئی تھی۔ ڈرائیور چنگی کے پیسے دے کر رسید وصول کر رہا تھا۔ ہم دھیان دیں یا نہ دیں لیکن سرکار ہم سے کہیں نہ کہیں، کسی نہ کسی شکل میں ٹیکس لے رہی ہوتی ہے۔ اور ہم ٹیکس دینے کے اتنے عادی ہو گئے ہیں کہ ہمیں پتہ ہی نہیں چلتا کہ ہم چینی، پتی گھی ، آٹا غرض ہر چیز خریدتے ہوئے سرکار کو خراج دے رہے ہوتے ہیں۔ اور بدلے میں سرکار ہمیں محض طفل تسلیاں دینے اور اچھے مستقبل کے خواب دکھانے کے سوا کچھ نہیں کرتی۔

نہ جانے آج کیوں ہر بات مجھے منفیت کی طرف مائل کر رہی تھی حالانکہ میں خود اکثر لوگوں کو ہر بات کا مثبت پہلو تلاش کرنے کا مشورہ دیا کرتا ہوں۔ مجھے لگتا ہے کہ بس کا یہ سفر شاید اتنا تکلیف دہ نہیں تھا جتنا مجھے محسوس ہو رہا تھا ۔ شاید ایک بات تو یہ تھی کہ یہ سفر خوشی کا نہیں بلکہ غمی کا تھا اور یہ بھی ہے کہ کچھ دن ہوتے ہی آزمائش کے لئے ہیں۔

بس کی کھڑکی سے اب ویران پہاڑوں اور جنگلی پودوں کے ساتھ ساتھ اِکی دُکی عمارتیں بھی نظر آنا شروع ہو گئی تھیں۔ اور اِن عمارتوں اور چھوٹی چھوٹی دوکانوں کی تعداد آہستہ آہستہ بڑھ رہی تھیں۔ ہم غالباً شہر کے قریب پہنچ گئے تھے۔ یہ سب دیکھ کر مجھے کچھ تسلی ہوئی اور میں بس سے اُترنے کے لئے کمر باندھنے لگا۔ لیکن تکلیف کے باعث محاورتاً کمر باندھنا بھی دشوار ہو رہا تھا ۔ بخار بھی پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گیا تھا۔ میں نے سوچا کہ بس سے اُتر کر فوراً ہی کوئی درد کش دوا لے کر کھاؤں گا۔

لیکن جب بس رُکی تو میں بس سے اُتر کر رکشہ میں سوار ہوگیا ۔ اس دوران یہ اطلاع پہنچ چکی تھی کہ تدفین عصر کے وقت رکھی گئی ہے اور اس وقت عصر کا وقت اپنے آخر آخر پر تھا۔ میں نے فون کیا تو معلوم ہوا کہ نمازِ جنازہ ہو چکی ہے اور اب وہ لوگ قبرستان جا رہے ہیں۔ مجھے مشورہ ملا کہ میں براہِ راست قبرستان پہنچ جاؤں۔ میں نے رکشے والے کو مذکورہ قبرستان کا پتہ سمجھایا اور ہم تھوڑی ہی دیر میں قبرستان پہنچ گئے۔ رکشے والے کو فارغ کرکے جب میں قبرستان میں داخل ہوا تو مجھے نزدیک ہی تدفین کا عمل ہوتا دکھائی دیا۔

میں آگے بڑھ کر لوگوں میں شامل ہو گیا۔ بخار کی شدت اور تکلیف سے میری حالت غیر ہو رہی تھی۔ جنازے میں شریک کچھ شناسا چہروں سے آنکھوں ہی آنکھوں میں دعا سلام ہوئی تاہم میں نے فی الحال ملاقات کو موخر ہی رکھا۔

قبر کے اردگر دجمع لوگ ایک دوسرے کو احکامات و ہدایات دے رہے تھے کوئی کچھ منگوا رہا تھا تو کوئی احتیاط کی صدا لگا رہا تھا ۔ جب میّت کو قبر میں لٹایا جانے لگا تو میرے دل میں شدید خواہش پیدا ہوئی کہ میّت کی جگہ میں لیٹ جاؤں، چاہے اُس کے لئے مجھے قبر میں ہی لیٹنا پڑے۔ لیکن میں نے خود کو سنبھالا اور لواحقین میں سے ایک نڈھال شخص کو سہارا دینے کے لئے آگے بڑھ گیا۔

 

******

ایک دن چیٹ جی پی ٹی کے ساتھ


کچھ دنوں سے ہر طرف چیٹ جی پی ٹی کا شہرہ سننے میں آ رہا تھا۔ ادھر اُدھر سے ملنے والی معلومات کے تحت یہ ایک آٹومیٹک چیٹ بوٹ ایپلیکیشن تھی اور ہر قسم کے سوالات کے جوابات بہ احسن و خوبی دینے کی لئے بنائی گئی تھی۔

آج جب مجھے ایک دوسرے شہر کا سفر درپیش تھا اور چار پانچ گھنٹے سفر میں گزرنے والے تھے، میں نے سوچا کیوں نہ سفر کے دوران ملنے والا فاضل وقت چیٹ جی پی ٹی کو سمجھنے اور کچھ تجربات کے لیے وقف کیا جائے۔ اس مقصد کو ذہن میں رکھتے ہوئے میں نے چیٹ جی پی ٹی کے تعارف اور فیچرز سے متعلق کچھ یوٹیوب ویڈیوز پہلے سے فون میں ڈاؤن لوڈ کر کے رکھ لیں تاکہ دوران سفر موبائل ڈیٹا پر بوجھ ڈالے بغیر یہ ویڈیوز با آسانی دیکھ سکوں۔

سفر شروع ہوا تو کچھ ضروری اور کچھ غیر ضروری برقی پیغامات سے فارغ ہوتے ہی میں نے ان ویڈیوز کو ایک ایک کرکے دیکھنا شروع کر دیا۔ ان ویڈیوز سے یہ پتہ چلا کہ یہ چیٹ بوٹ اوپن اے آئی نامی ادارے نے مصنوعی ذہانت یعنی آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے ایک ماڈل پر تیار کیا ہے ۔ یہ اب تک کے چیٹ سافٹ وئیرز میں سب سے بہتر ہے اور اس کی کارکردگی انتہائی حیرت انگیز ہے۔ یہ بہت سے سوالات کے جوابات حیران کن حد تک درست دیتا ہے اور اِسے بالخصوص مکالمے کے لئے تیار کیا گیا ہے ۔ اگر آپ ٹیکنالوجی کی طرف میلان رکھتے ہیں تو یہ آپ کا بہترین رفیق ثابت ہو سکتا ہے۔

سائن اپ
ویڈیوز دیکھ کر ایسا اشتیاق پیدا ہوا کہ فوراً سائن اپ کیا ۔ سائن اپ کے لئے یہ آپ کے ای میل اور فون نمبر کا طالب ہوگا۔ یعنی یہاں بھی اپنا ذاتی ڈیٹا دیے بغیر دال نہیں گلنے والی۔ اور یہ کہ جو بھی آپ کی گفتگو یعنی کنورسیشن روبوٹ (یا بوٹ )سے ہونی ہے وہ ڈیٹا بھی اس ٹیکنالوجی کو بہتر کرنے کےلئے استعمال ہوگا۔ اس لئے ذاتی نوعیت کی معلومات اسے فراہم کرنا مناسب نہیں ہے۔

لاگن
جب آپ لاگن ہوتے ہیں تو یہ روبوٹ آپ سے پوچھتا ہے کہیں آپ روبوٹ تو نہیں ہو۔

کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا؟

حالانکہ ہماری چال ڈھال سے اس قسم کا کوئی شبہ ہونا ممکن نہیں ہے۔ بہر کیف دفعِ شر کے لئے ہم نے اُنہیں بتایا کہ ہم روبوٹ نہیں ہیں ۔ بلکہ جیتے جاگتے (آپ سوتے جاگتے بھی کہہ سکتے ہیں) انسان ہیں۔

تعارفِ باہمی
لاگن ہونے کے بعد جب چیٹ بوٹ ہم سے مکالمے پر آماد ہ ہوا تو ہم بھی بے تکلف ہو کر گفتگو کرنے لگے۔ یوں سمجھیے کہ تنہا مسافر کو ہمسفر مل گیا۔ ابتداء میں ہم نے چیٹ ونڈو میں اردو میں سلام لکھا۔ سلام کے جواب کے ساتھ ہی چیٹ جی پی ٹی نے عربی میں ہی ہماری خبر لینا شروع کر دی۔ اور ہم نے با مشکل اس عربی عبارت کے انگریزی ترجمے کی فرمائش کرکے اپنی گلو خلاصی کا بند و بست کیا۔ یعنی ترجمے کی فرمائش کے ساتھ ہی موصوف کو پتہ چل گیا کہ ہماری عربی سلام دعا سے آگے نہیں بڑھنے والی۔ باقی گفتگو انگریزی زبان میں ہوئی کہ اُن کی اردو ہماری انگریزی سے بھی بدتر تھی۔

بے تکلف گفتگو کے اس سیشن میں ہم نے سوالات کا تانتا باندھ دیا۔ پہلے تو چیٹ بوٹ سے اسی کے متعلق تفصیل پوچھی کہ موصوف ہیں کیا چیز ؟ پسِ پردہ کیا ٹیکنالوجی استعمال ہوئی ہے۔ ٹیکنالوجی اوپن سورس ہے یاصرف ہمارا ڈیٹا اینٹھنے کے لئے ہی پبلک چیٹ کا آپشن دیا گیا ہے۔ اس گفتگو سے چیٹ بوٹ کے متعلق کافی آگاہی ملی ۔ چیٹ بوٹ کی سمائی اور حدود کی بابت بھی گفتگو رہی۔ جب ہم نے پوچھا کہ کیا ہم آپ پر (یعنی آپ سے ملنے والی معلومات پر ) بھروسا کر سکتے ہیں تو بڑی دیانتداری سے جواب دیا کہ ہم پر بھروسہ مت کرنا بلکہ کسی بھی معلومات پر یقین کرنے یا آگے پھیلانے سے پہلے کراس چیک ضرور کر لینا۔ یعنی : جاگتے رہنا، میرے پر نہ رہنا۔

چیٹ باٹ کی خدمات
جب ہم نے موصوف سے پوچھا کہ آپ ہمارے لیے کیا کر سکتے ہیں تو اُس نے ہمیں درج ذیل جواب دیا۔

میں ایک اے آئی لینگویج ماڈل ہوں جو مختلف کاموں میں آپ کی مدد کر سکتا ہے۔ مثا ل کے طور پر:

  • الفاظ اور تصورات کی تعریف یا تشریح بیان کرنا۔
  • مشکلوں کے حل کے لئے رہنمائی اور تجاویز فراہم کرنا۔
  • مختلف عناوین پر پر مشورے دینا۔ مثلاً رشتوں ناطوں کے معاملات، روزگار میں نمو کے مسائل ، اور ذاتی نمو۔
  • تاریخی واقعات اور سائنسی تصوارات کے متعلق معلومات فراہم کرنا۔ اور بھی بہت کچھ۔


دیگر ذرائع سے پتہ چلتا ہے کہ ان خدمات کے علاوہ بھی چیٹ بوٹ آپ کے لئے کافی کچھ کر سکتا ہے۔ حتیٰ کہ اگر آپ پروگرامنگ سے شغف رکھتے ہیں تو یہ آپ کی فرمائش پر پروگرامنگ کوڈ یا اسکرپٹ بھی لکھ سکتا ہے۔ یہ نا صرف کوڈ لکھتا ہے بلکہ ساتھ ساتھ اُس کی وضاحت بھی کرتا ہے۔ بس شرط یہ ہے کہ آپ اسے اچھی طرح سمجھا سکیں کہ آپ چاہتے کیا ہیں۔ اگر آپ اسے اپنی صلاحیتوں اور ذہانت کے ساتھ کمک پہنچائیں تو یہ آپ کے بہت سے کام آ سکتا ہے۔ آج کل لوگ اس کی اور دیگر پروگرامنگ لینگویجز کی مدد سے اپنے چھوٹے موٹے کام آٹو میٹ کرنے کا بھی کام لے رہے ہیں۔

اس کے علاوہ یہ آپ کی فرمائش اور اس سے منسلکہ متغیرات کے مطابق تحریر بھی لکھ سکتا ہے۔ البتہ اس پر آنکھیں بند کرکے بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔

زبانیں
چیٹ جی پی ٹی کئی ایک زبانوں میں فعال ہے اور اپنی خدمات فراہم کرتا ہے۔ تاہم ہماری محدود صلاحیت اردو اور انگریز ی تک محدود ہے۔ سو ہم انہی دو زبانوں میں تجربہ کر سکے۔ انگریزی کی حد تک تو اس کی کارکردگی کافی بہتر ہے لیکن گیسوئے اردو یہاں بھی منت پذیرِ شانہ ہیں بلکہ یہاں تو گیسوؤں کا کانوں تک پہنچنا بھی ابھی دشوار معلوم ہوتا ہے۔

ویسے موصوف میں خود اعتمادی بلا کی ہے ۔ جیسے ہماری شاعری کی فرمائش پر فوراً درج ذیل دو اشعار گھڑ کر سُنائے۔

ہمیشہ اس طرح سے تیرے دل کی حسرت میں رہتے ہیں
جہاں سے پہلے ہم رات کے ساحل پر رہتے تھے
جب تک ہی زندہ رہتے ہیں تو ہمیشہ یاد کرتے ہیں
تمہیں جہاں سے ہمیشہ چاہتے ہیں

یعنی فیس بک شعراء کی ہم سری کرنا موصوف کے لئے مشکل نہیں ہے۔

ان نام نہاد اشعار کی رومن اردو میں ٹرانس لٹریشن (نقلِ حرفی ) بھی ساتھ ساتھ فراہم کی۔ وہی رومن اردو جس سے ہم چڑتے ہیں۔ تاہم مثبت پہلو یہ ہے کہ ہم اس سے ٹرانس لٹریشن کا کام بھی لے سکتے ہیں۔ تجربے کے طور پر ہم نے انہی نام نہاد اشعار کو ہندی زبان میں ٹرانس لٹریٹ کرنے کی فرمائش کی جو موصوف نے بلا چوں وچراں پوری کر دی۔ ہندی ٹرانسلٹریشن کے معیار کے بارے میں البتہ ہم کچھ کہنے سے قاصر ہیں کہ ہم ہندی رسم الخط نہیں جانتے۔

جب ہم نے موصوف سے غالب کا شعر سنانے کی درخواست کی تو اول فول بکنے لگے۔ اس لئے ہم نے سوچا کہ فی الحال ان کی اردو کا امتحان نہ ہی لیا جائے تو بہتر ہے۔

چیٹ ہسٹری
اس چیٹ بوٹ کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ ایک تھریڈ میں دیے گئے اس کے سب جوابات گزشتہ سے پیوستہ ہوتے ہیں ۔ یعنی یہ آنکھیں بند کرکے جواب نہیں دیتا بلکہ اپنے پچھلے جوابات کو دھیان میں رکھتے ہوئے جوابات دیتا ہے۔ اس سے ہمیں وہ لطیفہ یاد آیا جس میں ہر اگلے سوال کا جواب پچھلے سوال سے مربوط تھا۔ لگے ہاتھ آپ بھی سن لیجے ۔

انٹرویور : آپ ہوائی جہاز میں سفر کر رہے ہیں ۔ جس میں 500 اینٹیں ہیں۔
آپ نے ایک اینٹ نیچے پھینک دی۔ باقی کتنی بچیں ؟

امیدوار: 499

انٹرویور: بالکل ٹھیک۔
ہاتھی کو تین اسٹیپ میں فریج میں کیسے رکھیں گے ؟

امیدوار: فرج کھولا۔ ہاتھی رکھا۔ فرج بند کر دیا۔

انٹرویور: بالکل صحیح۔ ہرن کو چار اسٹیپ میں فرج کیسے رکھیں گے۔

امیدوار: فرج کھولا۔ ہاتھی نکالا۔ ہرن کو ڈالا۔ فرج بند کیا۔

انٹرویور: ٹھیک ہے۔
شیر کی سالگرہ ہے۔ تمام جانور آئے ہیں۔ سوائے ایک کے۔ وہ کون سا جانور ہے؟

امیدوار: ہرن۔ کیونکہ وہ فرج میں ہے۔

انٹرویور: بالکل ٹھیک۔
ایک بوڑھی عورت نے ایک جھیل پار کرنی ہے جس میں مگر مچھ رہتے ہیں۔ وہ کیسے پار کرے؟

امیدوار: بے فکر ہو کر پار کر لے۔ سارے مگرمچھ شیر کی سالگرہ میں گئے ہوئے ہیں۔

انٹرویور: ہاں مگر جھیل پار کرتے ہوئے بوڑھی عورت پھر بھی مر گئی۔ بتائیں کیوں؟

امیدوار: میرا خیال ہے کہ وہ جھیل میں ڈوب گئی ہو گی ؟

انٹرویور: جی نہیں۔ اس کے سر پر اوپر سے وه اینٹ آ کر گری جو آپ نے ہوائى جہاز سے پھينکى تھی۔ ہمیں افسوس ہےکہ آپ سب سوالوں کے درست جواب نہیں دے سکے۔
😊
اگر آپ بوٹ سے ملنے والے کسی سوال کے جواب سےمطمئن نہیں ہوں تو دوبارہ سے جواب طلب کیا جا سکتا ہے۔ ممکن ہے کہ بہتر جواب ملے ، تاہم اس سے یہ بھی ہو سکتا ہےکہ چیٹ بوٹ کی خود اعتمادی زائل ہو جائے اور وہ ادھر اُدھر کی ہانکنے لگے۔

اختتامیہ
مختصر یہ کہ یہ جی پی ٹی چیٹ بوٹ ایک بہت کارامد چیز ہے اور اب تک کی مصنوعی ذہانت کے ثمرات میں ایک اہم اضافہ ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مستقبل قریب میں یہ ٹیکنالوجی دن بدن بہتر ہو تی جائے گی۔ اور اس کے فوائد عوام الناس کےلئے سود مند ثابت ہوں گے۔ فی الحال یہ عوام الناس کے مفت استعمال کےلئے دستیاب ہے۔ لیکن کوئی بعید نہیں ہے کہ بعد میں اس پر سبسکرپشن فیس لگا دی جائے۔

اس چیٹ بوٹ کا ایک ضمنی فائدہ یہ بھی ہے کہ آج کے دور میں جب انسان کو انسان سے بات کرنے کی فرصت نہیں ہے، یہ چیٹ بوٹ یقیناً عزلت نشینوں کا دیرینہ ہمدم و ہمنشیں ثابت ہو سکتا ہے۔



*******

غزل: ایک ضد تھی، مرا پندارِ وفا کچھ بھی نہ تھا ۔ عرفان صدیقی

غزل
 
 ایک ضد تھی، مرا پندارِ وفا کچھ بھی نہ تھا
ورنہ ٹوٹے ہوئے رشتوں میں بچا کچھ بھی نہ تھا

تھا بہت کچھ جو کوئی دیکھنے والا ہوتا
یوں کسی شخص کے چہرے پہ لکھا کچھ بھی نہ تھا

اب بھی چپ رہتے تو مجرم نظر آتے ورنہ
سچ تو یہ ہے کہ ہمیں شوقِ نوا کچھ بھی نہ تھا

یاد آتا ہے کئی دوستیوں سے بھی سوا
اک تعلق جو تکلف کے سوا کچھ بھی نہ تھا

سب تری دین ہے یہ رنگ، یہ خوشبو، یہ غبار
میرے دامن میں تو اے موجِ ہوا! کچھ بھی نہ تھا

اور کیا مجھ کو مرے دیس کی دھرتی دیتی
ماں کا سرمایہ بجز حرفِ دعا کچھ بھی نہ تھا

لوگ خود جان گنوا دینے پہ آمادہ تھے
اس میں تیرا ہُنر ہے اے دستِ جفا! کچھ بھی نہ تھا

سبز موسم میں ترا کیا تھا، ہوا نے پوچھا
اُڑ کے سوکھے ہوئے پتے نے کہا، کچھ بھی نہ تھا

عرفانؔ صدیقی