شٹر ڈاؤن ہڑتال کی افادیت

شٹر ڈاؤن ہڑتال کی افادیت

مملکتِ خداداد پاکستان میں شٹر ڈاؤن ہڑتال کوئی اجنبی شے نہیں ہے۔ ایک زمانہ ایسا بھی تھا جب ہڑتال اور کام کے دنوں میں مقابلہ ہوا کرتا تھا کہ دیکھیں کون آگے نکلتا ہے۔ الحمدللہ! اب وہ بات نہیں رہی ہے۔

رواج کے مطابق ہمارےہاں اکثر سیاسی اور کبھی کبھار مذہبی جماعتیں سرکار سے اپنے مطالبات منوانے کے لئے شٹر ڈاؤن ہڑتال کا اعلان کرتی ہیں اور پھر ہر ممکن کوشش کرتی ہیں کہ اُس روز کاروبار اور ٹرانسپورٹ وغیرہ بند رہے تاکہ سرکار کو یہ اندازہ ہو کہ لوگ ان جماعتوں کے ساتھ ہیں اور سرکار اُن کے مطالبات پر سنجیدگی سے غور کرے۔ ہڑتال کے باعث کاروبار کے ساتھ ساتھ زندگی کے دیگر معاملات بھی متاثر ہوتے ہیں ۔ بالخصوص تعلیمی ادارے ہڑتال کی وجہ سے بند رہتے ہیں اور بچوں کی تعلیم کا حرج ہوتا ہے۔ یہی ہڑتالیں کبھی کبھی پر تشدد بھی ہو جاتی ہیں کہ کچھ لوگ زبردستی کاروبار بند کروانے کی کوشش کرتے ہیں اور کبھی ایک سے زائد جماعتوں کا آپس میں تصادم بھی ہو جاتا ہے۔

ہڑتال کی ایک شکل پہیہ جام ہڑتال بھی ہے جس میں کوشش کی جاتی ہے کہ کسی بھی قسم کی کوئی گاڑی بالخصوص عوامی گاڑیاں بالکل نہ چلیں۔ اسی طرح کچھ لوگ بھوک ہڑتال بھی کرتے ہیں اور مطالبات پورے ہونے سے پہلے تک کچھ نہ کھانے کا اعلان کرتے ہیں اور صرف جوس وغیرہ پر گزارا کرکے سرکار پر احسان کرتے ہیں۔

بہر کیف، ہم بات کررہے تھے شٹر ڈاؤن ہڑتا ل کی۔ بظاہر تو شٹر ڈاؤن ہڑتا ل ٹھیک معلوم ہوتی کہ اگر سرکار کسی جماعت کے مطالبات پر کان نہیں دھر رہی تو اُسے ان مطالبات کی اہمیت کا اندازہ کروانے کے لئے کچھ تو کیا جائے ۔ تاہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر شٹر ڈاؤن ہڑتال کی افادیت ہے کتنی ۔ یا یہ کہ اس کی افادیت ہے بھی یا نہیں؟

جیسا کہ آپ سمجھ سکتے ہیں کہ شٹر ڈاؤن ہڑتال سے کاروبار بُری طرح متاثر ہوتا ہے اور ملک یا شہر معاشی طور پر ایک دن پیچھے چلا جاتا ہے۔ روز کمانے والے سمجھ سکتے ہیں کہ اگر وہ ایک دیہاڑی نہ لگائیں تو اُن کے معاشی معاملات پر کیا اثر پڑتا ہے۔ اسی طرح بچوں کی پڑھائی کا تسلسل بھی ٹوٹ جاتا ہے جو بہر صورت ایک بڑا نقصان ہے۔

ہمارے ہاں کم عمر نوجوان جو اسکول کالجوں میں پڑھتے ہیں یا کہیں نوکری کرتے ہیں، ہڑتال کے اعلان سے خوش ہوتے ہیں کہ اُنہیں ایک چھٹی مل جاتی ہے، تاہم اُن میں سے اکثرکو اندازہ نہیں ہوتا کہ ہڑتال کا فائدہ بہت کم اور نقصانات بہت زیادہ ہیں اور اس کے دور رس اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

سرکار کے نقطہء نظر سے دیکھا جائے تو اُسے شٹر ڈاؤن ہڑتال سے کوئی خاص نقصان نہیں ہوتا (بالخصوص جب ہڑتال ایک یا دو روز کی ہو) ۔ سرکار کے معاملات چلتے رہتے ہیں ۔ عوام کی تکلیف سے اُنہیں کوئی سروکار نہیں ہوتا ۔ بلکہ عوام کو تکلیف پہنچانا تو یوں سمجھیے کہ سرکار کا ہی ہاتھ بٹانا ہوا۔

ہاں البتہ ہڑتال کامیاب ہوجائے (یعنی حسبِ منشاء پورا دن کاروبارِ زندگی مفلوج رہے) تو ہڑتا ل کرنے والی جماعت کو اس سے فائدہ پہنچتا ہے ۔ اس سے وہ لوگ بھی جماعت کے نام اور کام سے واقف ہو جاتے ہیں جو پہلے اس سے واقف نہیں ہوتے، یعنی ہڑتال عوام میں شہرت کے حصول کے لئے معاون ثابت ہوتی ہے۔ اگر ہڑتال پر تشدد ہو تو پھر اس جماعت کا دبدبہ قائم ہو جاتا ہے اور لوگ اگلی بار نام سن کر ہی ہڑتال والے دن اپنے کاروبار بند کر دیتے ہیں۔ چونکہ ہڑتال کسی نہ کسی ایسے معاملے میں کی جاتی ہے جس سے ( بہ ظاہر) یہ تاثر جاتا ہے کہ یہ جماعت عوام کی فلاح چاہتی ہے تو کامیاب ہڑتا ل کے ردِ عمل کے طور پر عوام اُنہیں ووٹ دینے پر بھی مائل ہوتی ہے۔

اگر ہم ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کے سیاسی نعروں کو بغور دیکھیں تو ہمیں اندازہ ہوگا کہ یہ سب جماعتیں عوام کے مسائل سے بخوبی واقف ہیں اور اپنے نعروں میں انہی کا اعلان بارہا کرتی ہیں۔ تاہم یہ جماعتیں حکومت میں ہوں یا حزبِ مخالف میں، عوام کے مسائل پھر بھی حل نہیں ہوتے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ دراصل ان نعروں کا اصل مقصد عوامی حمایت حاصل کرنا ہوتا ہے اور ان جماعتوں کو عوام کے مسائل سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔

کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہڑتال کے پیچھے خود حکومت ملوث ہوتی ہے۔ جب کبھی سرکار کوئی ایسا فیصلہ کرنا چاہتی ہے کہ جسے خود سے کرتے ہوئے اُس کے پر جلتے ہوں (یا وہ کوئی دور از کار معاملہ ہوتا ہے لیکن اس میں حکومتی جماعت یا جماعتوں کا ذاتی فائدہ ہوتا ہے)۔ تب سرکار اپنی حلیف (یا بظاہر حریف) جماعتوں سے ان معاملات پر احتجاج، مظاہرے اور ہڑتالیں کرواتی ہے اور پھر نتیجےمیں "عوامی دباؤ" سے مجبور ہو کر وہ فیصلہ کرتی ہے۔

الغرض دیکھا جائے تو ان ہڑتالوں کا عوام کو بالواسطہ یا بلا واسطہ کوئی فائدہ نہیں پہنچتا ۔ اور یہ ہڑتالیں اُن کے معاشی اور سماجی معاملات میں نقصان دہ ہی ثابت ہوتی ہیں ، چاہے اُنہیں اس بات کا ادراک ہو یا نہ ہو۔

مخلص حکومت یا عوام دوست حکومت ( اگر کہیں وجود رکھتی ہو ) تو شٹر ڈاؤن ہڑتال کے معاشی اور سماجی نقصانات کو ذہن میں رکھتے ہوئے قانون سازی کر سکتی ہے کہ مختلف طبقات اپنے مطالبات سرکار تک کس طرح پہنچائیں اور سرکار کس طرح عوامی رائے کو اپنی پالیسیوں میں شامل کرنے کی سعی کرے۔

تاہم چونکہ فی الحال ایسا ہوتا نظر نہیں آتا تو با شعور آدمی کو چاہیے کہ ان ہڑتالوں سے لا تعلق رہے اور اپنے آنے والی نسلوں کو ان کے نقصانات سے آگاہ کرتا رہے۔

*****

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں