مجھے یہ جستجو کیوں ہو کہ کیا ہوں اور کیا تھا میں ۔ انور شعور

غزل

مجھے یہ جستجو کیوں ہو کہ کیا ہوں اور کیا تھا میں
کوئی اپنے سوا ہوں  میں، کوئی اپنے سوا تھا میں

نہ جانے کون سا آتش فشاں تھا میرے سینے میں
کہ خالی تھا بہت  پھر بھی دھمک کر پھٹ پڑا تھا میں

تو کیا میں نے نشے میں واقعی یہ گفتگو کی تھی
مجھے خود بھی نہیں معلوم تھا جو سوچتا تھا میں

خود اپنے خول میں گُھٹ کر نہ رہ جاتا تو کیا کرتا
یہاں اک بھیڑ تھی جس بھیڑ میں گم ہو گیا تھا میں

نہ لُٹنا میری قسمت  ہی میں  تھا لکھا ہوا ورنہ
اندھیری رات تھی اور بیچ رستے میں کھڑا تھا میں

گزرنے کو تو مجھ پر بھی عجب اک حادثہ گزرا
مگر اُس وقت جب صدموں کا عادی ہوچکا تھا میں

میں کہتا تھا سُنو سچائی تو خود ہے صلہ اپنا
یہ نکتہ اکتسابی تھا مگر سچ بولتا تھا میں

تجھے تو دوسروں سے بھی اُلجھنے میں تکلّف تھا
مجھے تو دیکھ، اپنے آپ سے اُلجھا ہوا تھا میں

خلوص و التفات و مہر، جو ہے، اب اُسی سے ہے
جسے پہلے نہ جانے کس نظر سے دیکھتا تھا میں

جو اَب یوں میرے گردا گرد ہیں، کچھ روز پہلے تک
اِنہی لوگوں کے حق میں کس قدر صبر آزما تھا میں

بہت خوش خلق تھا میں بھی مگر یہ بات جب کی ہے
نہ اوروں ہی سے واقف تھا، نہ خود کو جانتا تھا میں

انور شعورؔ


نشست بند ، اردو اور چالان


ہماری اردو میں انگریزی اس بُری طرح گُھسی ہوئی ہے کہ چاہیں بھی تو اُسے نکالا نہیں جا سکتا۔ لیکن بات یہ ہے کہ دراصل حکم (زبان) تو اُسی کا چلتا ہے کہ جو بالا دست ہو۔ انگریز نے جو ترقی کی اُسے ہم بڑی خوشی سے اپناتے گئے ساتھ ساتھ اُس ترقی کے ساتھ در آنے والی نئی اصطلاحات بھی ہمارے روز مرہ میں شامل ہوتی گئیں۔

بہت سی نئی چیزیں ہم تک انگریزوں سے براہِ راست اور کچھ انگریزوں کی وساطت سے پہنچی ۔ سو اُن کے نام اور اُن سے متعلقہ اصطلاحات انگریزی میں ہی ہمارے ہاں رواج پا گئیں۔ اسی لئے ہمارے پاس فریج، کُولر، ہیٹر، واشنگ مشین ، جوسر، بلینڈرز اور اسی قسم کی بے تحاشہ اشیا کے لئے کوئی اردو نام نہیں ہیں۔

اب بات یہاں تک آگئی کہ ہمارے ہاں بھی کوئی نئی چیز ایجاد ہو تو اُس کا نام انگریزی میں ہی رکھا جاتا ہے۔(یہ الگ بات کہ ایسی نوبت ہی شاذ ہی کبھی آتی ہے)۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو کہ انگریزی نام سے بین الاقوامی توجہ حاصل کرنے کی کوشش کی جائے اور دوسری بات یہ ہے کہ اردو نام والی چیزوں کو ہمارے اپنے معاشرے میں ہی قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا۔

اردو وکی پیڈیا والوں نے کافی کوشش کی انگریزی اصطلات کی اردو کاری کی جائے اور اُنہوں نے اس سلسلے میں شبانہ روز مشقت کرکے کئی بھانت بھانت کی اصطلاحات بھی متعارف کروائیں ۔ لیکن یہ تراکیب زیادہ تر عربی سے اخذ کردہ تھیں سو اردو دان طبقے کے لئیے بہت اجنبی اور مشکل ثابت ہوئیں اور اہلِ اردو میں اُنہیں کوئی خاص قبولِ عام نہیں ملا۔ یوں بھی جس کا نام بچپن میں پپو یا مُنّا پڑ جائے ۔ آپ لاکھ چاہیں لیکن لوگ اُسے صلاح الدین کہنے پر راضی نہیں ہوتے۔ تاہم ہم اردو وکی پیڈیا والوں کے کام کے معترف ہیں کہ جس نوعیت کا کام ان لوگوں نے کیا وہ بہت عرق ریزی اور پتہ مارنے والا کام ہے اور اس کی جتنی ستائش کی جائے کم ہے۔

خیر ہم بات کیا کرنا چاہ رہے تھے اور بات کہاں نکل گئی۔ ہم تو بات کرنا چاہ رہے تھے گاڑی کی سیٹ بیلٹ کی، کہ جس کے لئے ہم نے عنوان میں نشست بند کی اصطلاح شامل کی ہے۔ سیٹ بیلٹ کو اردو میں بھی سیٹ بیلٹ ہی کہا جاتا ہے اور نشست بند کے نام سے کوئی اسے نہیں پہچانتا۔ اگر آپ کو زیادہ ہی اردو بولنے کا خبط ہے تو آپ اسے سیٹ پٹّہ کہہ سکتے ہیں ، شاید کہ لوگوں کے ذہن میں اُتر جائے آپ کی بات۔


بہرکیف تو ہم یہ بتا رہے تھے کہ ہمارے پاس ایک عدد گاڑی ہے کہ جس کے ہونے سے ہمارے روایت پسند ہونے کے ایسے ٹھوس ثبوت ملتے ہیں کہ جدّت کو پانی بھرنے کا موقع تک نہیں ملتا۔ کُہنہ روایت کی علمبردار ہماری اس گاڑی میں سیٹ بیلٹ کچھ اس قسم کے واقع ہوئے تھے کہ جیسے اڑیل گائے ہوتی ہے یعنی رسی پکڑ کر کھینچتے رہیے اور وہ ایک انچ نہیں ہلتی ۔ تاہم ہم یہ نہیں جانتے تھے۔ یعنی نہ تو ہمیں اس بات کا اندازہ تھا کہ ہماری گاڑی کی سیٹ بیلٹ ہمارے شانہ و شکم کے اطراف حمائل ہونے میں دلچسپی نہیں رکھتی اور نہ خود ہمیں کبھی اس افعی ِ سُوت و آہن کو خود پر سوار کرنے کا خیال آیا۔

لیکن پھر ایک روز لب سڑک ایک سفید پوش شخص سے ملاقات ہوئی جس نے ہمارے سیٹ بیلٹ کے بارے میں خیالات تبدیل کرنے کا ڈول ڈالا۔ اور ٹھیک اُسی وقت ہم نے سفید پوشوں کے بارے میں اپنے خیالات تبدیل کرنے کی داغ بیل ڈالی۔ موصوف نے ہمارے ہاتھ میں ایک پرچہ تھماتے ہوئے ہمارا پروانہء ڈرائیونگ (شکر ہے کہ ہم شاعری نہیں کررہے کہ شاعری میں تو عربی اور ہندی الفاظ کے مابین اضافت بھی ناقدوں کو نہیں بھاتی چہ جائیکہ انگریزی اور اردو کا بے جوڑ رشتہ بنایا جائے۔ ) ضبط کر لیا۔ خیر ہمیں یاد آیا کہ اس قسم کے پرچوں کے لئے لوگ باگ چالان کا لفظ استعمال کرتے ہیں اور یہ بھی یاد آیا کہ پروانہء ڈرائیونگ کی بحالی کے لئے دامے درمے سُخنے کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ خیر یہ تو تھی سفید پوشوں سے پہلی ملاقات لیکن نوشتہء دیوار یہ نہیں بتاتا تھا کہ:

ع-      ابھی آغازِ محبت ہے گیا کچھ بھی نہیں

خیر چالان ہونے کے بعد ہمیں یہ خیال آیا کہ سیٹ بیلٹس سے ربط و ضبط استوار کرنے میں آخر حرج ہی کیا ہے۔ تب جا کر ہمیں پتہ چلا کہ سیٹ بیلٹ تو قلتِ استعمال سے اتنی تنہائی پسند ہو گئی ہیں کہ اپنے خول سے باہر آنے کو ہی تیار نہیں ہیں۔ پھر ہم نے ٹیڑھی انگلی سے سیٹ بیلٹ نکالنے کی کوشش کی تو انگلی شانوں تک ٹیڑھی ہو گئی لیکن گھی یعنی سیٹ بیلٹ باہر نہیں نکلا۔ پھر جب ہم نے اس کام کے لئے چاروں ہاتھوں پیروں کی  طاقت آزمائی تو سیٹ بیلٹ طوعاً و کرہاً اپنے خول سے برامد ہو گئی۔ ہم ابھی خوش ہونے کا ارادہ ہی کر رہے تھے کہ ہمیں اندازہ ہوا کہ سیٹ بیلٹ جو کھینچنے پر باہر آ گئی ہے اب واپس اپنے خول میں جانے کا ارادہ نہیں رکھتی بلکہ ارادہ کیا اہلیت تک نہیں رکھتی۔ جب ہم نے یہ سیٹ بیلٹس مکینک کو دکھائی تو اُس نے ہاتھ جوڑ لیے اور ہم سے وعدہ کیا کہ نہ جانے کو ن سے بازار جب اُس کا جانا ہوگا تو وہ ہمارے لئے سیٹ بیلٹ کا جوڑا لے آئے گا۔ بات آئی گئی ہوئی اور ہم پھر سے اپنی دنیا میں کھو گئے۔

اگلی بار جب سفید پوشوں سے واسطہ پڑا تو ہم نے بڑے فخر سے کہا کہ بھائی سیٹ بیلٹ خراب ہے کیسے لگائیں۔ جواب ملا کہ سیٹ بیلٹ تو بنوانی چاہیے آپ کو سب کام چھوڑ کر ، کیو ں نہیں بنوائی! ہم نے اپنے چہرے میں مسکینیت کے سارے رنگ بھر کر بڑی لجاجت سے سفید پوش ہرکارے کے طرف دیکھا تو اُسے ترس آ گیا۔ کہنے لگا۔ " ابھی تو خیر چالان ہو گا لیکن یہ لٹکی ہوئی سیٹ بیلٹ اُٹھا کر شانے اور سینے پر سجا لیا کرو"۔ ہم نے کہا "لیکن اس طرح تو سیفٹی کا اصل مقصد پورا نہیں ہو سکے گا"۔ اس پر سفید پوش نے ہمیں کچھ اس طرح گھورا کہ جیسے عزرائیل اپنے کلائنٹ کو گھورا کرتے ہیں۔ کہنے لگے "سیفٹی کو کون پوچھتا ہے!!!"۔

خیر اُن کے پڑھائے ہوئے سبق کا نتیجہ یہ ہوا کہ آج تک سیٹ بیلٹس نہیں بن سکیں اور ہم ٹریفک سارجنٹس کو دیکھ کر اپنے سیٹ بیلٹ اس طرح اپنے سینے پر پھیلاتے ہیں کہ جس طرح پہلے زمانے کی بہوئیں سُسر کو دیکھ کر بہ عجلت تمام گھونگٹ نکال لیا کرتی تھیں۔

ع -      مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہو گئیں


نظم ۔ راہ مسدود ہے ۔ محمد احمد

راہ مسدود ہے 

ہر طرف کتنی چھوٹی بڑی گاڑیاں
آڑی ٹیڑھی پھنسی بیچ چوراہے پر
ڈرائیور* پان کی پیک منہ میں لئے
گالیاں دے رہے ہیں ہوا میں کسی 
دوسرے ڈرائیور کا تصوّر کیے

پان کی پیک، بس کا دھواں 
ڈرائیور کے غلاظت بھرے 
منہ سے اُگلی ہوئی گالیاں
جُز تعفّن نہیں کچھ، نہیں کچھ یہاں

نظم مفقود ہے
راہ مسدود ہے

اُس کو جانے کی جلدی تھی 
اُس نے غلط راہ لی
اُس کی جلدی کا عفریت 
کتنے ہی لوگوں کے معمول کو کھا گیا
اب سبھی گاڑیاں  
راستے میں پھنسی ہیں 
کئی ہاتھ ہارن سے چمٹے ہوئے ہیں
مگر کوئی بڑھ کر کہاں دیکھتا ہے
کہ سُلجھاؤ کا  راستہ ہے کہاں

سوچ مفقو د ہے
راہ مسدود ہے

محمد احمدؔ

نوٹ: انگریزی لفظ ڈرائیور کو فاعلن کے وزن پر باندھا گیا ہے  جو اپنے اصل تلفظ سے زیادہ قریب ہے۔ 


غزل ۔ دل کی بساط کیا تھی نگاہ جمال میں ۔ سیماب اکبر آبادی

غزل

دل کی بساط کیا تھی نگاہ جمال میں
اک آئینہ تھا ٹوٹ گیا دیکھ بھال میں

دنیا کرے تلاش نیا جام جم کوئی
اس کی جگہ نہیں مرے جام سفال میں

آزردہ اس قدر ہوں سراب خیال سے
جی چاہتا ہے تم بھی نہ آؤ خیال میں

دنیا ہے خواب حاصل دنیا خیال ہے
انسان خواب دیکھ رہا ہے خیال میں

اہل چمن ہمیں نہ اسیروں کا طعن دیں
وہ خوش ہیں اپنے حال میں ہم اپنی چال میں

سیمابؔ اجتہاد ہے حسن طلب مرا
ترمیم چاہتا ہوں مذاق جمال میں

سیمابؔ اکبر آبادی

نئے چراغ جلاؤ کہ روشنی کم ہے ۔۔۔ شاہد صدیقی

غزل

یہ کیا ستم ہے کہ ، احساسِ درد بھی کم ہے
شبِ فراق ستاروں میں روشنی کم ہے

اک ایسی موجِ کرم تھی نگاہِ ساقی میں
کہ اس کے بعد سے طوفانِ تشنگی کم ہے

قریب و دور سے آتی ہے آپ کی آواز
کبھی بہت ہے، غمِ جستجو ، کبھی کم ہے

عروجِ ماہ کو انساں سمجھ گیا لیکن
ہنوز عظمتِ انساں سے آگہی کم ہے

تمام عمر ترا انتظار کرلیں گے
مگر یہ رنج رہے گا کہ زندگی کم ہے

نہ ساتھ دیں گی یہ دم توڑتی ہوئی شمعیں
نئے چراغ جلاؤ کہ روشنی کم ہے

شاہد صدیقی
حیدر آباد۔ ہندوستان 
1911 ~ 1962ء

بشکریہ صابر علی سیوانی




ارے! خواب تو دیکھ

غزل

دن بھلے جیسا کٹے، سانجھ سمے خواب تو دیکھ
چھوڑ تعبیر کے خدشوں کو، ارے! خواب تو دیکھ

جھونپڑی میں ہی بنا اپنے خیالوں کا محل
گو پُرانا ہے بچھونا !تُو نئے خواب تو دیکھ

تیرا ہر خواب مسّرت کی بشارت لائے
سچ ترے خواب ہوں اللہ کرے، خواب تو دیکھ

دل شکستہ میں ہوا، جب بھی مِرا دل ٹوٹا
حوصلے آگے بڑھے، کہنے لگے، خواب تو دیکھ

تجھے وہ بات بھی آئے گی سمجھ یار مرے
جو ہے ادراک کی سرحد سے پرے، خواب تو دیکھ

گتھیاں ساری سُلجھ جائیں کہ ہوں اور سِوا
تو ذرا ہاتھ بڑھا، تھام سِرے، خواب تو دیکھ

نیند کے خواب ترے خوف کے گھر ہیں بھی تو کیا
نیند کو چھوڑ تو جب صبح اُٹھے خواب تو دیکھ

محمد احمدؔ


انتخابِ نثر ۔۔۔ گر تو می خواہی کہ باشی خوش نویس​

گر تو می خواہی کہ باشی خوش نویس​

ایک فارسی شعر ہے
گر تو می خواہی کہ باشی خوش نویس
می نویس و می نویس و می نویس
(اگر تو چاہتا ہے کہ اچھا لکھنے والا بن جائے تو لکھتا رہ، لکھتا رہ لکھتا رہ)​

یہ شعر اگرچہ خطاطی کی مشق کے زمرے میں نقل کیا جاتا ہے مگر آج میں اس کے ایک اور پہلو پر لکھنے کی جسارت کروں گا۔میں اس شعر میں خوش نویس کو خطاط کے معنوں میں نہیں بلکہ مصنف کے معنوں میں لیتا ہوں اور اسی نسبت سے چند گزارشات پیش کروں گا۔

آج کے انٹرنیٹ کے دور میں آپ کوئی بھی کام کرنا چاہتے ہیں تو گوگل پر جائیں اور اپنا مطلوبہ کام لکھیں۔اس کے لیے آپ کو مواد مطالعہ، ٹیٹوریل اور یہاں تک کہ قدم بہ قدم رہنمائی کی دستاویزات کی ایک لمبی فہرست مل جائے گی۔ اور اگر آپ لگن اور محنت کا حوصلہ رکھتے ہیں تو آپ چاہے اس کام میں مہارت حاصل نہ بھی کر سکیں بہت حد تک آپ اس کے بنیادی اصولوں سے شناسائی حاصل کر لیں گے۔کبھی آپ نے سوچا ہے یہ کیونکر ممکن ہوا۔اکثر لوگ اس کی وجہ انٹرنیٹ اور ٹیکنالوجی قرار دیں گے۔مگر انٹرنیٹ نے تو صرف اس کی فراہمی آسان بنائی ہے۔ اس کا اصل سبب لکھنے کی عادت ہے۔

ہمارے ہاں بڑے بڑے حکیم گزرے ہیں جن کی حکمت کی داستانیں جی ہاں داستانیں نہ کہ واقعات سن کر عقل دنگ رہ جاتی ہے۔حکمت کے یہ کمالات اور مجرب نسخے وہ اپنے ساتھ لے گئے۔اور ان میں سے چند ایک نسخے جب انگریز کے ہاتھ لگے تو اس نے ان کو میڈیکل سائنس بنا دیا اور ایلو پیتھی کی بنیاد رکھی۔آج ہم اس علم کے لیے ان کے دست نگر ہیں۔

آج ہم یہ سنتے ہیں کہ ہمارے موسیقار گھرانے دم توڑ رہے ہیں اور میڈیا بھی آئے دن ایسے ہی کسی گھرانے کی کسمپرسی کا رونا رو رہا ہوتا ہے۔مگر کبھی ان موسیقاروں نے اپنے گھرانے سے آگے بھی سوچا ہے۔ کبھی انہوں نے اپنے اس علم کو لکھ کر محفوظ کیا ہے۔ یہی علم جب انگریز کے ہاتھ لگا تو اس نے موسیقی پر کتابیں لکھیں، موسیقی سکھانے کے ادارے بنا ڈالے اور آج کسی غیر ملک سے حاصل کردہ ڈگری ہمارے میڈیا میں موسیقار ہونے کے لیے شرط اول ہے۔

آپ کسی بھی ممکنہ علم کا نام لکھ کر گوگل پر سرچ کریں اور جو فہرست ملتی ہے اس کا جائزہ لیں۔99 فیصد نتائج آپ کو انگریز کی کاوش نظر آئے گی کیونکہ وہ کوئی بھی کام کرتا ہے اس کو لکھ لیتا ہے۔لکھنے کے لیے اس کا عالم یا بہت پڑھا لکھا ہونا بھی ضروری نہیں۔انگریزی میں ایک اصطلاح (DIY(Do it yourself استعمال ہوتی ہے۔تجربے کے طور پر آپ گوگل میں یہ اصطلاح لکھ کر سرچ کریں۔دنیا کا شاید ہی کوئی ایسا کام ہو جو اس زمرے میں شامل نہ ملے۔اس زمرے میں لکھنے والے کوئی ماہر کاریگر نہیں بلکہ عام لوگ ہیں جو اگر کسی کام کو خود سے مکمل کرتے ہیں تو "آپ خود کریں" کے زمرے میں اس کو لکھ دیتے ہیں۔اور اگر آپ اس کو پڑھیں تو معلوم ہو گا اس میں سے بیشتر چیزیں آپ خود کرتے ہیں مگر کبھی آپ کو لکھنے کا خیال نہیں آیا۔

یہ لکھنے کی عادت کا ہی ثمر ہے کہ آج معمولی سے معمولی کام کے لیے ہم انگریز مصنف کے محتاج ہیں۔ اس لیے میری آپ سب سے درخواست ہے کہ چاہے غلط سلط، ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں لکھیں مگر لکھیں ضرور۔کیونکہ اگر آپ اچھا لکھاری بننا چاہتے ہیں تو:
می نویس و می نویس ومی نویس​

واصف حسین
اصل تحریر کا ربط