افسانہ : سفید بھیڑ

سفید بھیڑ
محمداحمد​

کلیِم کو نہ جانے کیا تکلیف ہے۔
وہ اُن لوگوں میں سے ہے جو نہ خود خوش رہتےہیں نہ دوسروں کو رہنے دیتے ہیں۔ 
18 تاریخ ہو گئی ہے اور مجھے ہر حال میں 25 سے پہلے پہلے احمر کی فیس جمع کروانی ہے۔ پیسوں کا بندوبست بھی سمجھو کہ ہوگیا ہے لیکن بس ایک کانٹا اٹکا ہوا ہے اور وہ ہے کلیم۔ 

امداد حسین کے روز فون آ رہے ہیں ۔ وہ ہر روز پوچھتا ہے کہ میرے کام کا کیا بنا ۔ اب میں اُسے کیا کہوں کہ کلیم اُس کی فائل پر سانپ بنا بیٹھا ہے۔ کم بخت نہ خود چین سے جیتا ہے اور نہ ہمیں جینے دیتا ہے۔


میں ایک سرکاری محکمے میں ملازم ہوں ۔ آپ کو تو پتہ ہے کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہ کتنی ہوتی ہے۔ یہ تو وہ چادر ہے کہ سر پر اوڑھو تو پیر تو کیا گھٹنے تک کھل جاتے ہیں۔ اوپر سے یہ ایمانداری کا ٹھیکیدار ہم پر مسلط ہو گیا تھا ۔ بندہ آخر کرے تو کیا کرے۔ ارے بھئی اوپر تو بندہ جب جواب دے گا تب دے گا، یہاں تو سکون سے جینے دو۔ 

امداد حسین ایک کنٹریکٹر ہے ، جو سرکاری اداروں میں ٹھیکے پر محتلف نوعیت کے کام کرتا ہے۔ وہ اس میدان کا پرانا کھلاڑی ہے سو جانتا ہے کہ سرکاری محکمے سے کام کیسے لیا جاتا ہے اور کس طرح کا کام کرکے دیا جاتا ہے۔ افسر سے لے کر چپراسی تک سب کو کیسے خوش رکھا جائے یہ امداد حسین اچھی طرح سمجھتا ہے۔ پھر ہم تو کہتے ہیں کہ اچھا آدمی وہی ہوتا ہے جو مل مِلا کر کھائے اور امداد حسین سب کی خدمت کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتا۔ 

کلیم ہمارے ہاں بطور سروئیر کام کرتا ہے۔ بلکہ کام بھی کیا کرتا ہے اُلٹا کام روک کر بیٹھ جاتا ہے۔ میں تو ایک چھوٹا سا ملازم ہوں اُس سے تو بڑے بڑے افسر تنگ ہیں لیکن نہ جانے کیا اڑچن ہے کہ اُس کا پتّہ ابھی تک صاف نہیں کر سکے ۔ 

بہر حال ماجرہ کچھ یوں ہے کہ امداد حسین کے ایک بڑے پروجیکٹ کی ادائیگی ہمارے محکمے کی طرف سے ہونی ہے اور چونکہ یہ حتمی ادائیگی ہے سو اُس سے پہلے پروجیکٹ سروے رپورٹ اور سٹسفکشن نوٹ کا تیار ہونا ضروری ہے۔ یوں تو سب دستاویزات تیار ہیں لیکن کلیم بطور سروئیر اُس پر دستخط کرنے پر راضی نہیں ہے ۔ اُس کے حساب سے پروجیکٹ پر غیر معیاری مٹیریل استعمال کیا گیا ہے اور معاہدے کی بہت سی شقوں کو سراسر نظر انداز کر دیا گیا ہے ۔ اس الو کے پٹھے سے کوئی یہ پوچھے کہ سرکاری محکمے میں کام ایسے نہیں ہوگا تو کیسے ہوگا۔ اب مسئلہ یہ آن کھڑا ہوا ہے کہ سروئیر کے دستخط کے بغیر ادائیگی ممکن نہیں ہے ۔ 

میں کلیم سے خود بھی ملا اور اُسے سمجھایا کہ بھائی تیرے باپ کا کیا جا رہا ہے اُلٹا کچھ نہ کچھ مل ہی جائے گا تیرے بچوں کے ہی کام آئے گا۔ لیکن اُس کی کھوپڑی میں بُھس بھرا ہے۔ سمجھنے کے بجائے وہ اُلٹا مجھے لیکچر دینے لگا۔ اُس کی بکواس سننے کی تاب مجھ میں نہیں تھی سو اُس پر لعنت بھیج کر چلا آیا لیکن یہ بات میرے دل میں پھانس کی طرح چبھ گئی ۔

جیسا کہ میں نے بتایا کہ مجھے ہر حال میں 25 تاریخ تک احمر کی فیس جمع کروانی ہے اور تنخواہ میں سے اتنی بڑی رقم نکالنا ممکن نہیں ہے۔ میں نے احمر کو ایک بہت ہائی اسٹینڈرڈ کے اسکول میں داخل کروایا ہے یہ شہر کی معروف اسکول چین ہے اور کیمبرج سسٹم سے وابستہ ہے۔ گو کہ اس کی فیس اور دیگر اخراجات میری آمدنی سے لگّا نہیں کھاتے لیکن بچوں کے مستقبل پر تو سمجھوتہ نہیں کیا جاسکتا ۔ میں اپنے بیٹے کو کامیاب دیکھنا چاہتا ہوں اور گلی محلے میں بنے دو دو ٹکے کے اسکول میں پڑھ کر تو یہ ممکن نہیں ہے۔ 

کلیم کو ہی دیکھ لو ، سالے نے مر کھپ کے انجینیرنگ کی ڈگری لی ۔ اس کا باپ اس کی فیس دے دے کر مر گیا ۔ اب وہی حرکت یہ بے وقوف بھی کر رہا ہے ۔ یعنی وہی تھرڈ کلاس نوکری اوپر سے ایمانداری کا بخار ۔مزے کی بات یہ ہے کہ اب اس کے بچے دو کمرے کے اسکول میں پڑھ رہے ہیں ۔ اِن لوگوں کی نسلیں ایسے ہی ذلیل ہوتی رہیں گی لیکن عقل نہیں آئے گی۔ 

*****​

بہرحال حل تو ہر مسئلے کا موجود ہوتا ہے۔ بس تلاش کرنے والا ہونا چاہیے۔ سو میں نے کچھ ہمت کی اور حل نکل ہی آیا ۔
میرا پلان سادہ سا تھا۔ آج صبح میں گاڑی کے بجائے بائیک لے کر نکلا۔ دفتر آنے کے لئے میں گاڑی استعمال کرتا ہوں لیکن گھر کے چھوٹے موٹے کاموں کے لئے بائیک استعمال کرتا ہوں۔ لیکن آج چونکہ 'اسپیشل ڈے' تھا سو آج بائیک پر آنا ضروری تھا ۔ ہاں البتہ کچھ جلدی نکلنا پڑا کہ 'شکار' پر جانے کے لئے جلدی ہی نکلنا ہی پڑتا ہے۔ 

سیاہ شیشے والے سُرخ ہیلمیٹ میں میری شناخت صرف ایک بائیکر کی حیثیت سے ہی ہو سکتی تھی۔ میرا وقت کا اندازہ بھی ٹھیک ہی نکلا۔ بامشکل دو چار منٹ انتظار کرنے پر مجھے وہ گھر سے نکلتا نظر آ یا ۔ اُس نے سفید قمیض پہنی ہوئی تھی اور اُس کا نیلا ہیلمیٹ بائیک کی ٹنکی پر رکھا ہوا تھا ۔ اندھا کیا چاہے ، دو آنکھیں۔ دو گلیاں کراس کرنے کے بعد ہم مین روڈ پر آگئے یہاں ٹریفک کی رفتار نسبتاً زیادہ تھی۔ میں اُس کی بائیک کے پیچھے تھا۔ موقع مناسب دیکھ کر میں نے ایکسیلریٹر پر دباؤ بڑھایا اور تیزی سے اُس کی بائیک کے عین پیچھے پہنچ کر اپنا اگلا وہیل اُس کے پچھلے وہیل پر ٹچ کرتے ہوئے بائیں طرف ہلکا سا جھٹکا دے دیا۔ 

وہ نہ جانے کن خیالوں میں کھویا ہوا تھا کہ میرا ہلکا سا اشارہ بھی اُس کے لئے کافی رہا۔ اُس کی گاڑی جھولتی ہوئی آگے چلتے چھوٹے ٹرک سے ٹکرائی اور اُس کا سر ٹرک کے دیسی ساختہ ڈھالے سے ٹکرا گیا۔ تاہم 'اس کام ' میں 'ناتجربے کاری ' کے باعث میں بھی سڑک پر گر گیا۔ یہ اچھا ہوا کہ میرا ہیلمیٹ نہیں اُترا۔ چونکہ میں باقاعدہ زخمی نہیں ہوا تھا سو آنے والے ہمدردوں اور تماش بینوں کی ساری توجہ 'اُس' کی طرف ہی تھی اور یہ موقع میرے لئے غنیمت تھا۔ میں لنگڑاتا ہوا اُٹھا اور کپڑے جھاڑنے کے بجائے بائیک پر بیٹھ کر تقریباً اُڑنے کی رفتار سے نکل گیا۔ شاید کچھ لوگ مجھے آواز دے رہے تھے لیکن میں نے مُڑ کر نہیں دیکھا۔ یوں ہمارے ہاں اس صورتحال میں یہ سب کوئی نئی بات نہیں تھی۔ کسے پتہ تھا کہ یہ ایکسیڈینٹ اتفاقی نہیں تھا۔ میری بائیک کی چھوٹی سی نمبر پلیٹ پر لتھڑی مٹی بھی کسی کے لئے نئی بات نہیں ہوگی کہ موٹر سائیکل کا نمبر پڑھ لینا کبھی آسان نہیں ہوتا۔ 

باقی 'سیٹنگ' مشکل نہیں ہے۔ کلیم کی غیر موجودگی میں الطاف صاحب کسی نہ کسی طرح ایڈیشنل چارج لے ہی لیں گے اور پھر امداد حسین سمیت ہم سب کا ہی بیڑہ پار لگ جائے گا کہ اصل کانٹا تو نکل ہی گیا ہے۔ 

*****​

آپ سوچتے ہوں گے کہ میں بھی کیسا سفاک ہوں، کتنا ظالم ہوں۔ لیکن سچی بات تو یہ ہے کہ میں اتنا بُرا بھی نہیں ہوں۔ اگر کلیم اتنی ہٹ دھرمی نہیں دکھاتا تو نوبت یہاں تک نہیں پہنچتی۔ کلیم کے ساتھ جو بھی ہوا اُس کا دکھ مجھے بھی تھا تاہم اس میں قصور سراسر کلیم ہی کا تھا۔ ایکسیڈینٹ کے دوسرے دن اپنا فرض سمجھتے ہوئے میں نے اُس کے لئے ایک قیمتی اور حسین پھولوں کا گلدستہ بنوایا اور کلیم سے ملنے ہسپتال پہنچا ۔ آخر کو وہ میرا دفتری ساتھی تھا ۔ 

میں پہنچا تو کلیم دواؤں کے زیرِ اثر سویا ہوا تھا۔ یہ اچھا ہی ہوا کہ شاید اُس وقت کلیم سے آنکھیں ملانا اور بات کرنا میرے لئے اتنا آسان نہیں ہوتا۔ میں نے کلیم کی اہلیہ سے اُس کی خیریت پوچھی۔ اُس کے صرف سر پر ہی چوٹ لگی تھی اور کچھ ٹانکے وغیرہ آئے تھے ۔ باقی جسم متاثر نہیں ہوا تھا۔ 

رسمی کلمات کے بعد میں نے اجازت چاہی اور چلتے وقت ایک معقول رقم کا لفافہ اُس کی اہلیہ کے ہاتھ میں تھما دیا کہ کلیم کے علاج معالجے میں خرچ کر لیں اور اُسے کچھ کہنے کی مہلت دیے بغیر نیچے اُتر آیا۔ سچی بات تو یہ ہے کہ ایسے وقت پر مالی سہارا بڑا اہم ہوتا ہے۔ یہ بات البتہ دگر ہے کہ مجھے بھی یہ کام کرکے کافی سہارا ملا اور اگر مجھے کوئی پچھتاوا تھا بھی تو وہ رفع ہو گیا۔ 

ہسپتال کے مین گیٹ سے نکل کر میں باہر آیا تو امداد حسین گاڑی میں میرا منتظر تھا۔ امداد حسین کو تو یہ تک نہیں پتہ تھا کہ کلیم کے اس حال پر پہنچنے کی ایک وجہ وہ بھی ہے۔ تاہم کلیم کے ایکسیڈینٹ کا سُن کر امداد حسین نے پیشگی ہی وہ پیسے دے دیے تھے، جو اگر کلیم کو دیے جاتے تو وہ کبھی نہ لیتا۔ بے وقوف جو ہوا۔ 

ویسے میں سوچتا ہوں کہ کلیم خوش قسمت ہی تھا ورنہ ایکسیڈینٹ میں تو لوگ جان سے بھی چلے جاتے ہیں۔

*****​

یاد آتے رہنا بس ۔۔۔

غزل

یاد آتے رہنا بس
دل دُکھاتے رہنا بس

اور کام کیا تم کو
آزماتے رہنا بس

دل پہ گرد کتنی ہو
چمچماتے رہنا بس

زندگی یہی تو ہے
مسکراتے رہنا بس

حالِ دل رہے دل میں
گنگناتے رہنا بس
سیکھنا ہر اچھی بات
اور سکھاتے رہنا بس

بات بات پر ہنسنا
اور ہنساتے رہنا بس

دل شکستہ کوئی ہو
دل بڑھاتے رہنا بس

دل کے ساز پر اکثر
گیت گاتے رہنا بس

محمد احمدؔ​

افسانہ : موم کی مریم ۔ جیلانی بانو

موم کی مریم

جیلانی بانو


"موم کی مریم" جیلانی بانو ہی کا نہیں، اردو افسانے کا بھی ایک آبرو مند نمائندہ ہے۔ جیلانی بانو 1935ء میں حیدرآباد دکن میں پیدا ہوئیں، جہاں ان کے والد شاعر حیرت بدایونی بہ سلسلۂِ ملازمت مقیم تھے۔ دسمبر 1953ء میں پہلا افسانہ لکھا۔ اس کے بعد سے آج تک مسلسل لکھ رہی ہیں اور پاکستان اور بھارت کے معروف ادبی رسائل لے لئے لکھتی ہیں۔ افسانوں کا پہلا مجموعہ "روشنی کے مینار" 1958ء میں شائع ہوا۔ اس کے بعد دو اور مجموعے "نروان" اور نغمے کا سفر" شائع ہوئے۔ تین ناولٹ "جگنو اور ستارے" 1964ء میں اور ایک ناول "ایوانِ غزل" 1977ء میں شائع ہوا۔ متعدد ڈرامے بھی لکھے۔ "موم کی مریم" پہلی مرتبہ رسالہ اور ادب لطیف (لاہور) میں چھپا تھا۔


آج بھی اندھیرے میں لیٹا میں خیالی ہیولوں سے کھیل رہا تھا۔

اور جب بھی اندھیرا چھا جاتا ہے۔ تم نہ جانے کہاں سے نکل آتی ہو۔ جیسے تم نے تاریکی کی کھوکھ سے ہی جنم لیا ہو۔ اور مجبورا مجھے جلے ہوئے سگریٹ کی راکھ کی طرح تمہیں بھی زمین پر جھٹک دینا پڑتا ہے۔

میں نے کبھی تمہارے سامنے ہاتھ نہیں پھیلائے۔ کبھی تمہارے اوپر نظمیں نہیں لکھیں۔ کبھی تمہاری یاد میں تارے نہیں گنے۔ پھر کیوں تمہیں یاد کئے جاؤں۔۔۔۔۔؟

زندگی میں تم سے اتنی دور رہا کہ کبھی اس رنگ و بو کے سیلاب میں غرق نہ ہو سکا جو تمہارے چاروں طرف پھیلا ہوا تھا۔ ہمارے بیچ میں جھوٹی عقیدت اور مضحکہ خیز احترام کی خلیج حائل رہی۔ پھر آج تم اپنی آہوں اور سسکیوں سے کون سے دبے ہوئے جذبے جگانا چاہتی ہو۔۔۔۔۔؟

آج صبح عائشہ کے خط سے مجھے تمہاری موت کی خبر مل چکی ہے مگر میں اس موت پر اظہار افسوس نہ کر سکا۔ روزانہ جانے کتنے بادل بنا برسے گزر جاتے ہیں۔ کتنے نغے ساز کے اندر ہی دم توڑ دیتے ہیں۔ کتنے انسان ایک لمحہ کی خوشی ڈھونڈتے ڈھونڈتے مر جاتے ہیں۔ پھر تمہاری موت تو میرے سامنے کتنی بار ہو چکی ہے۔ اگر مادی طور پر تم چلتی پھرتی نظر آتی تھیں۔ بالکل اسی طرح جیسے آج میرے کمرے میں آ بیٹھی ہو۔

جب سے عائشہ کا خط پڑھا ہے میرے خیالات کٹی ہوئی پتنگ کی طرح ڈولتے پھرتے ہیں اور نہ جانے کیوں بہت سی دھندلی دھندلی یادیں جھلملانے لگی ہیں اور اندھیرے اجالے میں بہت سے چہرے غلط ملط ہو گئے ہیں۔

مگر اس وقت تمہارے خیالی وجود سے باتیں نہیں کر رہا ہوں کیوں کہ تمہاری جانی پہچانی سسکیاں مجھ کو تمہاری موجودگی کا یقین دلا رہی ہیں تو میں اسے واہمہ کیسے تصور کر سکتا ہوں۔۔۔۔۔؟

تمہارا اور اندھیرے کا ہمیشہ کا ساتھ رہا ہے۔ تم زندگی بھر جہاں جہاں بھی گئیں چراغ گل ہوتے گئے۔ تاریکی کے حلقے تمہیں اپنے گھیرے میں اسیر کئے رہے۔ جس طرح مریم کی تصویر کے گرد مصور نے نورل کا ہالہ کھینچ دیا ہے۔ عصمت، تقدس اور معصومیت کی لکیریں جن کے اندر پاک مریم کی روح کو محصور کر دیا گیا ہے۔
اس وقت بھی جب تمہارے سیاہ مستقبل کی طرح کمرے میں تاریکی چھائی ہوئی ہے۔ تمہارے آنسو یوں چمک رہے ہیں۔ جیسے پر پرامید بحرین نے دریا کی سطح پر چراغوں کی قطار چھوڑ دی ہو۔ میرے کمرے میں تمہارے آنسوؤں نے اجالے کی امید قائم کر رکھی ہے۔۔۔۔۔ ہم مشرق کے مرد صدیوں سے اپنی عیش گاہوں میں تمہارے اشکوں سے چراغاں مناتے آئے ہیں۔۔۔۔۔

تمہارے متعلق لوگوں نے جو کہانیاں مشہور کر رکھی تھیں وہ بالکل سطحی تھیں اور اسی لئے میں نے حقیقت کی سطح پر اتر کر تمہیں سمجھنا چاہا تھا۔۔۔۔۔ تم کیا تھیں! اماوس کی رات کو ٹوٹنے والا ایک ستارہ جو اپنی آخری جھلک سے بہت سے دلوں میں امید کی کرن چمکا کر غائب ہو جائے۔۔۔۔۔ ایک تند لہر جو اپنے زعم میں ساحل کے پرخچے اڑا دینے کے ساتھ خود بھی مٹ گئی ہو۔

آج جب تم اپنے گناہوں کی لمبی فہرست سمیت خود ہی میرے کمرے میں آ گئی ہو۔ تو مجھے اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ تم ایک عام سی لڑکی ہونے کے باوجود دوسروں سے کس قدر مختلف تھیں۔ تم ایک مسحور کرنے والا جادو بن گئیں تھیں۔ جو کتنے ہی خریداروں کو خرید لایا۔ مگر سونگھا ہوا پھول سمجھ کر سب واپس چلے گئے۔

دوکان دار کے نزدیک وہ چیز کتنی حقیر ہو جاتی ہے جسے گاہک الٹ پلٹ کر پھر دوکان پر رکھ جائے۔۔۔۔۔ شیشے کے کیس میں بند رہنے والی گڑیا۔۔۔۔۔ آج تم اتنی صاف صاف باتیں سن کر حیران کیوں ہو رہی ہو۔ جبکہ تم نے اپنے آس پاس کے شیش محل چکنا چور کر ڈالے تھے۔ اور سماج کی کھینچی ہوئی لکیروں پر چلنے سے انکار کر دیا تھا۔ ایک بار تم سب لڑکیوں کو آنگن میں دھماچوکڑی مچاتے دیکھ کر امی نے کہا تھا۔

"اونہہ، مت روکو نگوڑی ماریوں کو۔۔۔۔۔ کنواری لڑکیاں برساتی چڑیاں ہوتی ہیں۔ کون جانے کل کس کا ڈولا دروازے پر کھڑا ہو گا۔۔۔۔۔"

اس وقت اخبار پڑھتے پڑھتے میں نے تمہاری زندگی کا پورا فلم دیکھ ڈالا تھا۔ جب تم کسی ناصر یا شاہد کلرک سے بیاہی جاؤ گی اور آنسو پونچھتی ڈولے میں سوار کرائی جاؤ گی۔ پھر ہر سال ایک نئے منے کی پیدائش میں اضافہ ہوتا رہے گا۔ اور ساتویں یا آٹھویں ننھے کی پیدائش پر تپ دق کا شکار ہو کر مر جاؤ گی۔ ہر لڑکی انہی لکیروں پر دوڑتی آئی ہے۔ مگر تم نے اپنی انفرادیت کا ایک دوسرا راستہ ڈھونڈنا چاہا جس کی سزا میں موت اور زندگی تم پر حرام ہو گئی۔

تم منجھلے چچا کی دسویں یا گیارہویں اولاد تھیں۔۔۔۔۔ پھر نامراد لڑکی۔۔۔۔۔

"اونہہ، لڑکی ہے تو کیا ہوا نصیب اچھے ہوں۔ لڑکے کون سا فیض پہنچاتے ہیں۔۔۔۔۔ ماں باپ کی موت پر آنسو بہانے والی بیٹی ہی تو ہوتی ہے۔"

اور اپنی موت کے نوحہ گر کے پیدا ہوتے ہی کسی نے تمہیں خوش آمدید نہ کہا۔

اپنے ارد گرد کے اس ماحول نے تمہیں زیادہ حساس بنا دیا۔ حقارت کی نظروں نے خودی کا احساس بیدار کیا اور تم نے کچھ کرنے اور کچھ پانے کی قسم کھا لی۔ تمہارے متعلق بدنامیاں اور سرگوشیاں بڑھتی چلی گئیں۔ جاہل، بددماغ، بدصورت اور مغرور۔ دن بھر تمہیں انہی خطابوں سے یاد کیا جاتا ہے مگر تم ایک ننھی چڑیا کی طرح اترا اترا کر کہتی رہیں۔۔۔۔۔ جو میرے پاس ہے وہ رانی کے محل میں بھی نہیں۔

اسی انانیت پسندی سے تم ایک ایسا شعر بن گئیں جس کے غالب کے شارحین کی طرح ہر ایک نے الگ معنی نکالنے چاہے مگر پھر بھی بہت کم حقیقت کی تہہ تک پہنچ سکے۔

اور میں نے بہت دور ہو کر بھی تمہیں سمجھنا چاہا۔ یہ سچ ہے کہ میں نے دوسرے مردوں کی طرح تمہاری دوشیزگی کی جانب ہاتھ نہیں بڑھایا۔ کبھی اس قدر نزدیک نہیں آیا کہ تمہارے تنفس کی رفتار سے کوئی راز پا سکوں۔ پھر بھی میں نے اس شعر پر کافی ریسرچ کی۔ دماغی لیبارٹی میں دو سال تک تجربے کئے مگر کچھ بھی سمجھ نہ سکا۔

ایک بار مجھے اپنی جانب جھکتے دیکھ کر تم تنے کہا تھا۔

"احمد بھائی! میں آپ کی بہت عزت کرتی ہوں اور یہ نہیں چاہتی کہ کوئلوں کی دلالی میں آپ بھی اپنے ہاتھ کالے کر بیٹھیں۔۔۔۔۔" مگر یہ کتنا بڑا خزینہ ہے کہ تم نے بہت سوں کو کوئلوں کی دلالی سے بچانے کی خاطر اپنے منہ پر کالک مل لی تھی تاکہ ان کے سفید دامن سیاہی سے ملوث نہ ہوں۔۔۔۔۔ تم میری بہت عزت کرتی تھیں۔۔۔۔۔ ایک نوجوان مرد کی، جو تمہارے ذرا سے سہارے پر آگے بڑھنا چاہتا تھا۔۔۔۔۔ جس نے تمہاری اٹھارہ سال کی زندگی میں مسلسل فریب دئیے تھے، جس نے تمہیں منزل کے قریب لا کر بھٹکا تھا۔ بدنامی کی کوٹھڑی میں دھکیل کر ہر دروازہ بند کر دیا تھا۔ پھر تم نے اپنی رہی سہی عزت کی دھجیاں بکھیر ڈالیں اور بیچ چوراہے، اپنے سب ظاہری لباس اتار ڈالے۔ وہ تو خیر ہوئی کہ تم میری عزت کرتی رہیں اور میں تمہیں سمجھنے میں اتنا منہمک ہو گیا کہ جذبات کے انجکشن قطعی بے اثر ہو گئے ورنہ ممکن تھا ایک دن میری خودداری اور عزت تمہارے قدموں میں پڑی بخشش کی طلبگار ہوتی اور تم اطہر کی طرح مجھے ایک چٹان پر چھوڑ کر کہتیں۔

"میں نے تمہیں پانے کے لئے بہت سی ٹھوکریں کھائیں مگر تمہارے چھونے سے پہلے اتنی بلندی پر پہنچ گئی کہ جب تم وہاں پہنچے میں سراب بن چکی تھی۔"

گھبراؤ نہیں۔ تم نے یہ الفاظ اطہر یا ریاض سے خود نہیں کہے۔ مگر آج تک تم نے کون کون سی باتیں زبان سے ادا کی ہیں، تم تو اس گونگی کی طرح ہو جسے اپنا مفہم ہمیشہ عملی طور پر سمجھانا پڑتا ہے۔

صرف اٹھارہ سال کی زندگی میں تم نے اتنی باتیں کیسے کہہ لیں!

بظاہر تم کتنی معمولی لڑکی تھیں۔ چھوٹے چھوٹے کاندھوں تک لہراتے ہوئے بال جن کی باریک باریک آوارہ لٹیں چہرے کے گرد ہالہ سا بنائے کانپتی رہتیں۔ معمولی سا قد، دبلا پتلا دھان پان جسم جیسے تیز ہوا کے جھونکے بھی تمہیں اڑا کر لے جائیں گے۔ جیسے تمہاری جانب ہاتھ بھی بڑھایا تو چھوئی موئی کی طرح کملا جاؤ گی۔ ایک واہمہ سی، ایک ادھورا خاکہ۔ کتنے ہلکے ہلکے تھے تمہارے خد و خال۔ پتلے خمیدہ لب، جو ہمیشہ سرمہری سے بند رہتے۔ ہر چیز کو تجسس سے دیکھنے والی ہمدرد آنکھیں جو اپنے سارے گناہ آشکار کرنے کو تیار رہتیں اور اسی خیال سے بات کرتے وقت بار بار بند ہو جاتیں تا کہ ان کی گہرائیوں کا کوئی پتہ نہ لگا سکے اور لمحہ لمحہ بدلنے والا رنگ، جو کبھی شعلے کی طرح دہکنے لگتا، کبھی راکھ کی طرح سیلا پڑ جاتا۔

اور جب باتیں کرتیں تو تمہارے خدوخال میں کوئی تبدیلی نہ آتی۔ کتنی مشکل بات تھی تمہارے چہرے سے کسی بات کا اندازہ لگانا۔

اس معمولی شکل و صورت ہی نے تو تمہیں گھر میں ایک ناقابل التفات چیز بنا دیا تھا۔ اپنی خوبصورت سعادت مند بہنوں کے مقابلے میں تمہاری کوئی قدر و قیمت نہ تھی۔ خرید و فروخت کے اس بازار میں صرف اچھی صورت والی لڑکی ہی فائدہ اٹھاتی ہے۔۔۔۔۔ اور یہ خیال چچا اور چچی کے لئے سوہانِ روح تھا۔

مجھے آج سے تین سال پہلے والی جاڑوں کی ایک صبح یاد آ رہی ہے۔

تم اس وقت نہا کر آئی تھیں۔ نسرین اور عائشہ کے ساتھ صحن میں بیٹھی، سویئٹر کا ایک نمونہ بنا بنا کر ادھیڑ رہی تھیں۔ نومبر کی لطیف دھوپ آنگن میں بکھری ہوئی تھی۔ چچی نیچے بیٹھی نئے لحافوں میں دھاگے پرو رہی تھی۔ اس وقت تمہارے گلابی ڈوپٹے، بھیگے بال اور نکھرے ہوئے رنگ کو دیکھ کر بھی مجھے کوئی شعر یاد نہیں آیا، کوئی تشبیہ دماغ میں نہیں ابھری۔ عائشہ، نسرین اور فرزانہ کے فروزاں حسن نے وہاں تمہارے چراغ کو ٹمٹمانے نہیں دیا۔۔۔۔۔ کتنی کمتر تھیں تم اپنی مغرور اور اپنے حسن پر خود ہی مر مٹنے والی بہنوں کے حلقے میں۔۔۔۔۔ اس وقت میں نے سوچا تھا کہ حسن کے اس جھمگٹ میں تمہاری کہانی کتنی مختصر اور پھیکی ہو گی۔

انہی دنوں میں مسلسل بیکاری نے مجھے نئی نئی راہوں سے واقف کر دیا تھا۔ اور گھر سے بہت دور ایک ہڑتال کے سلسلے میں گرفتار ہوا تھا۔ تو عائشہ کا خط پڑھ کر پہلی دفعہ تمہاری جانب متوجہ ہوا تھا۔۔۔۔۔ تم لڑکیوں کو خط لکھنے کو بھی تو کوئی بات نہیں ملتی۔ عائشہ کے خط بھی اسی کی طرح خوبصورت اور معصوم ہوتے جن میں وہ ابا کی ناراضگی سے لے کر خاندان کی اہم تقریبوں میں آنے والی عورتوں کے کپڑے، زیوروں کے ڈیزائن اور اسکول کی سہیلیوں کے رومان تک۔۔۔۔۔ سب کا تفصیل کے ساتھ ذکر کرتی۔ ساتھ ہی وہ مجھے بھی ایسا ہی مزیدار لمبا خط لکھنے کی ہدایت کرتی۔۔۔۔۔ میری بےوقوف بہن نہیں جانتی تھی کہ میں رومانوں، سرگوشیوں اور رنگینیوں کی دنیا سے کتنی دور تھا۔ مگر وہ میری مسلسل خاموشی کے باوجود ایک ہنگامہ پرور گھر کے کمرے میں بیٹھی، باربار منہ پر جھک آنے والے لٹوں کو پیچھے جھٹک کر لکھتی رہی۔۔۔۔۔ آپ نے ایک اور خبر سنی بھائی جان؟ قدسیہ کے یہاں چھوٹی خالہ امجد بھائی کا پیغام لے کر گئیں تو قدسیہ نے خود آ کر ان سے کہہ دیا کہ وہ امجد سے شادی نہیں کرے گی۔

سنا ہے چچا ابا زہر کھانے والے ہیں اور سارے خاندان میں تھو تھو ہو رہی ہے۔

اس دن بہت دنوں کے بعد جیل کی تنہا کھوٹڑی میں مسکرا سکا۔ اس دلیرانہ جرات پر میں نے غائبانہ طور پر تمہاری پیٹھ ٹھونکی تھی اور کہا تھا کہ جس خول میں ہم اپنے آپ کو لپیٹے ہوئے ہیں وہ جگہ جگہ سے ٹوٹ رہا ہے۔ جی چاہا کہ فورا چچا ابا کو زہر کی ایک شیشی بھیج دوں تاکہ وہ صرف ارادہ کر کے ہی نہ رہ جائیں۔ تم پھر ایک بار میرے سامنے آئی تھیں۔ جھنجھلا کر سویئٹر ادھیڑتی ہوئی۔

پھر میں اس واقعے کو بھول گیا۔ عائشہ اپنے خطوں میں لکھتی رہی کہ تمہارا اور ریاض کا رومان چل رہا ہے۔۔۔۔۔ اپنی صفائی میں کچھ کہنے کی کوشش مت کرو۔ مجھے معلوم ہے کہ تم نے اپنی محبت کو کامیاب بنانے کی کتنی کوشش کی۔ لیکن ریاض تمہارے ہاں کا لے پالک تھا۔ تمہارے دسترخوان کے جھوٹے ٹکڑوں پر پلا تھا۔ پھرچچا ابا کو اس کی سن گن ملی تو ریاض گھر ہی سے نہیں شہر ہی سے نکال دیا گیا۔ اور تم نے بڑے تحمل سے محبت کی اس لاش کو دل کے قبرستان میں دفن کر دینا چاہا۔۔۔۔۔ لیکن شاید ایسا نہ ہو سکا۔ کیوں کہ مردار کھانے والے گدھ، جو ایسے موقعوں کی تلاش میں مارے مارے پھرتے ہیں، اس لاش کو باہر کھینچ لائے۔ جی بھر کے اس سے لطف اٹھایا اور پھر اسے چیر پھاڑ کر رکھ دیا۔ تمہاری بیماری کو بڑے خوفناک معنی پہنائے گئے۔ یعنی یہ سب ریاض کی امانت کو ٹھکانے لگانے کے بہانے ہیں اور تم اپنے کمرے ہی میں نہیں پڑی رہتیں بلکہ ریاض کے ساتھ فرار ہو چکی ہو۔

یہ باتیں میں نے بہت دور بیٹھ کر سنیں اور ہر بات کو یقین کے خانے میں ڈالتا گیا۔ یہ کوئی ناقابل یقین بات بھی تو نہ تھی۔ بقول عائشہ کے تم اپنی اہمیت کا احساس دلانے کا فیصلہ کر چکی تھیں اور تم نے ساری دنیا کو ٹھکرا کے اپنی من مانی کرنے کا عزم کر لیا تھا۔۔۔۔۔ پھر تم جیسی محبت کی ماری لڑکیاں اس سے زیادہ اپنی اہمیت کا کیا ثبوت دے سکتی ہیں۔۔۔۔۔؟

اس کے بعد جب میں رہا ہو کر گھر آیا تو تم وقت کا ایک اہم موضوع بن چکی تھیں یا عائشہ کے الفاظ میں کچھ کر دکھانے کی دھن میں اپنا رہا سہا وقار بھی کھو بیٹھی تھیں۔

اس دوران میں تم اپنے ماسٹر سے بھی محبت کر چکی تھیں جو تمہیں پڑھانے آتا تھا۔ ایک سیدھا سادھا، خطرناک حد تک شریف انسان، جو اپنی مظلومی اور بےچارگی ظاہر کر کے دوسروں سے رحم کی بھیک مانگتا تھا۔

پہلے اس نے تمہیں شرافت اور عزت کے سبق پڑھائے۔ اپنی بےچارگی اور دکھ کے افسانے سنائے۔ اس کی محبوبہ نے اسے دھوکہ دیا تھا۔ محض غربت کی وجہ سے اسے ٹھکرا دیا تھا (یہ محبوباؤں کے دھوکہ دینے کا دکھڑا بھی کتنا فرسودہ ہو چکا۔) پھر اس کی پیاسی دنیا میں تم نے اپنی ہمدردی کے چند قطرے برسانے چاہے۔ اپنے طرزِ عمل سے اس کا دکھ کم کرنا چاہا۔ اپنے غم کی کہانی بھی اسے سنا ڈالی۔۔۔۔۔ پھر کورس کی کتابوں کو ایک جانب سمیٹ کر تسلی اور تسکین کے سبق پڑھائے جانے لگے۔

پھر تمہارا ماسٹر بیمار ہو گیا اور چچا ابا نے دوسرا ماسٹر رکھنا چاہا تو تم نے پڑھنے سے انکار کر دیا۔ تم اس ماسٹر سے پڑھنا چاہتی تھیں اور اس کی مزاج پرسی کے لئے اس کے گھر جانے پر مصر تھیں۔

یہ ساری باتیں گھر کے چھوٹے بچوں تک نے مجھے سنائیں۔ میں کیسے یقین کر لوں کہ تمہیں اس ماسٹر سے محبت نہیں تھی، صرف ہمدردی تھی۔ یہ انسانیت کا جذبہ ہی تھا جو تمہیں ایک رات چپکے سے اٹھا کر ماسٹر کے گھر لے گیا اور جب تم ابھی دروازہ ہی کھٹکٹھا رہی تھیں کہ چچا ابا کے ڈنڈے کی ضرب سے بےہوش ہو گئیں۔

پھر مہینوں گھر والے تمہارے سائے سے بھی اچھوتوں کی طرح بچتے پھرے۔ گھر کی لمبی لمبی ناک والی عورتوں نے خاندان میں نکلنا چھوڑ دیا۔ چچا ابا نے وقت سے پہلے پنشن لے لی اور سارے خاندان میں کھڑی ہو کر تم نے اپنی ماں سے کہا کہ امی جو میرا جی چاہے گا کروں گی یا پھر آپ لوگ مجھے مار ڈالئے۔ پھر سب نے دوسری بات سے اتفاق کر لیا۔ یعنی تم مار ڈالی گئیں۔ سب نے تم پر فاتحہ پڑھا۔ لیکن شمیم ماموں اس فاتحے میں شریک نہیں ہوئے تھے۔ رفتہ رفتہ دوسرا زخم بھی بھرنے لگا پھر شمیم ماموں کی نازبرداریوں نے اسے مٹا ڈالا تھا۔۔۔۔۔ وہ تم پر بے حد مہربان تھے۔ عائشہ کہتی تھی۔

"شمیم ماموں کی عذرا تو قدسیہ کی کلاس فیلو ہے۔ جیسی ان کی لڑکی ویسی قدسیہ، پھر کیسے ایک لڑکی کو گھل گھل کر مر جانے دیں۔" شمیم ماموں مدتوں سے اپنی بیوی بچوں سے قطع تعلق کر کے اکیلی زندگی گزار رہے تھے۔ صرف اتنی سی بات پر کہ ان کی بیوی کبھی اچھی طرح ساڑھی نہ باندھ سکیں۔

ایک بار مجھے عائشہ نے لکھا تھا کہ تم بہترین ساڑھی باندھنے پر اسکول میں انعام لے چکی ہو۔ وہ اپنے بچوں کو چھوڑ کر تمہیں سیر کرانے لئے جاتے، تمہارے صدقے میں سارا گھر سینما دیکھتا، پکنک پر جاتا۔ تم کوئی اعلیٰ ڈگری لینا چاہتی تھیں اور چچا ابا تمہیں تنہا ہاسٹل میں چھوڑنے پر تیار نہ تھے۔ اس لئے بیچارے شمیم، اپنی وکالت کے بےشمار اہم کام چھوڑ کے، بارہ بارہ بجے رات تک فارسی اور اردو شاعروں کا کلام پڑھاتے اور عشق و تصوف میں ڈوبے ہوئے اشعار کا مطلب تم سے پوچھتے۔

سب کے ٹھکرائے جانے سے پہلے تم خود ہی کسی سے بات کرنا پسند نہ کرتی تھیں۔ دن بھر پلنگ پر اوندھی پڑی نہ جانے کیا سوچا کرتیں۔ کوئی بات نہ کرتا تو شکایت نہ کرتیں۔ شمیم ماموں سر پر ہاتھ پھیرتے تو منع نہ کرتیں۔ ہاتھ پکڑ کے موٹر میں بٹھا دیتے تو بیٹھ جاتیں۔ ممکن ہے تم سے ان کی ویران زندگی نہ دیکھی گئی ہو اور انسانیت کے تقاضے نے مجبور کر دیا ہو۔ مگر تمہاری یہ روش کتنی تعجب خیز تھی۔ ممانی کو اپنا مستقبل خطرے میں نظر آنے لگا اور سب کی سوالیہ نگاہیں پھر تمہارے چہرے پر گڑ گئیں۔۔۔۔۔ ایک رات جب شمیم ماموں تمہیں پڑھا رہے تھے۔ کمرے میں کچھ شور سا ہوا پھر پھر تم بغیر ڈوپٹے کے بھاگتی ہوئی کمرے میں آئیں اور پلنگ پر گر کر رونے لگیں۔

چچی نے تمہارے کمزور جسم پر اپنی دانست میں بڑے زوردار دھموکے رسید کئے اور بہت سی مرغیاں کڑکڑانے لگیں۔ جواب میں سسکیاں روک کے تم نے بڑی مشکل سے کہا۔

"میں دھر بھی جاؤں سب مجھی کو برا کہتے ہیں۔ مجھے کیا معلوم تھا وہ اتنا کمینہ۔"
اور مجھے ہنسی آ گئی۔۔۔۔۔ کوئی مرد ماموں نہیں ہوتا، ماسٹر نہیں ہوتا، شریف نہیں ہوتا، صرف کمینہ ہوتا ہے۔ جو عورت سے سب کچھ لینے کے بعد بھی اسے جھلملاتے آنسوؤں کے علاوہ کچھ نہیں دے سکتا۔

شمیم ماموں نے سوچا ہو گا کہ اگر ریاض یا ماسٹر تمہیں کوئی امانت نہ دے سکے تو وہ کیوں نہ اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھو لیں۔ جبکہ وہ کسی رشتے ناتے سے تمہارے فرضی ماموں بھی بنے ہوئے تھے۔

پھر تو ان کی بیوی نے شہر بھر میں یہ خبر عام کر دی کہ تم چاہو تو بیوی بچوں والے بوڑھے مردوں کو بھی بھٹکا سکتی ہو۔ پھر کسی میوزیم میں رکھی ہوئی لاکھوں سال پرانی ممی کی طرح تم ایک نمائش کی چیز بن گئیں۔ لمبی لمبی چھتوں کو پھلانگتی ہوئی یہ بات سارے شہر کا گشت لگا کر تمہارے ماتھے پر چپ گئی۔ عورتیں اور لڑکیاں دور دور سے بچے کولھوں پر ٹکاتے، ناک پر انگلیاں رکھے تمہیں دیکھنے کو آتیں۔ مردوں کی محفلوں میں بلند قہقہوں اور فحش گالیوں کے درمیان تمہارا نام آ جاتا تو خود بھی اس لٹنے والے باغ میں جانے کو طبیعت مچل اٹھتی۔

اطہر اسی مالِ غنیمت کی امید میں آیا تھا۔

میرا چھوٹا بھائی جو اپنی آوارگی کے سبب حوالات تک ہو آیا تھا۔ کالج سے نکال دیا گیا تھا۔ اور متفقہ طور پر یہ طے ہو گیا تھا کہ اسے کوئی اپنی بیٹی نہ دے گا۔ متوسط طبقے کا ایک بےکار نوجوان جس سے لب لوگ مایوس ہو گئے تھے۔

باہر کی تفریحوں کے علاوہ اور بھی کئی لڑکیوں کو جھانسہ دے چکا تھا بلکہ راحت کے متعلق تو مشہور ہے کہ صرف اطہر کی وجہ سے اس کے شوہر نے اسے چھوڑ دیا ہے اور ہو میکے میں دن گزار رہی ہے۔

مگر اتنے سیاہ کارناموں کے باوجود تمہاری جانب سے مایوس نہ لوٹا۔

ساری دنیا سے دھتکارا ہوا بےرحم، منہ پھٹ، چیخ چیخ کر باتیں کرنے والا اطہر، جسے ابا روز گھر سے نکال دیتے، امی کوسنے دیتی اور عائشہ اپنی قسمت پر صبر کر کے بیٹھ جاتی۔۔۔۔۔ اگر بہنوں کے بھائی قابل فخر نہ ہوں تو وہ کتنی بدنصیب نظر آتی ہیں۔ خوبصورت کماؤ بھائیوں کے بھروسے پر ہی تو وہ کتنی ہی ناکوں کو اپنے سامنے رگڑوا سکتی ہیں۔ عائشہ کی ساری توجہ مجھ پر مرکوز ہو گئی تھی۔ لڑکیوں کے لئے میری خشک اور بےربط زندگی میں بھی کوئی کشش نہ تھی۔ مگر پھر بھی میری شخصیت کو گھر میں کافی اہمیت دی جاتی تھی۔

تمہاری بارگاہ میں اطہر کو کیسے شرفِ نیاز بخشا گیا۔ یہ بات سب کے لئے حیران کن تھی۔ وہ تو صرف اپنے خوبصورت جسم اور بےباک لہجے سے معرکے سر کرتا تھا اور تم نے ہمیشہ بجھے ہوئے دل اور بیمار ذہن تلاش کئے تھے۔

یہاں پر مجھے اپنی پچھلی ریسرچ بیکار معلوم ہوئی اور اسے اٹھا کر پھینکنے سے پہلے میں نے تم سے راہ رسم بڑھانا چاہی۔ مجھے گھر میں رہنے کا اتفاق بہت کم ہوتا۔ خصوصاً تم سے تو کبھی بےتکلفی سے بات بھی نہ کر سکا تھا۔ اس لئے ایک گھر میں رہنے کے باوجود ہم بہت دور رہتے تھے۔ تم ہمیشہ مجھ سے چھپنا چاہتیں کیوں کہ پہلے دن ہماری ملاقات نے بڑی تلخ فضا پیدا کر دی تھی۔ اس دن ہماری ملاقات ناشتے کی میز پر ہوئی تھی۔ تم شاید میری سنجیدگی کی بات عائشہ سے پہلے ہی سن چکی تھیں اور مجھ تک اپنے کارنامے پہنچانے سے گریز کر رہی تھیں۔ احتیاط سے سر پر پلو ڈالے، نظریں جھکائے یوں بیٹھی تھیں جیسے کسی پادری کے سامنے اپنے گناہوں کا اعتراف کرنے آئی ہو۔ عائشہ نے میری جانب بڑی بامعنی نظروں سے دیکھ کر کہا تھا۔

"بھائی جان! دیکھیے یہ ہیں قدسیہ۔۔۔۔۔ عائشہ کی طنزیہ نظروں کو تم نے بیچ میں سے ہی پکڑ لیا اور ہونٹوں پر زبان پھیر کر شکستہ لہجے میں کہا۔۔۔۔۔ "تو احمد بھائی جان مجھے پہلے سے ہی جانتے ہیں؟"

اور تم چائے کی پیالی رکھ کر اٹھ گئی تھیں۔

پھر برسات کی ایک شام کو ہلکی ہلکی رم جھم نے موسم بڑا پرکیف بنا دیا تھا۔ بہت دیر تک فیض کی "نقشِ فریادی" پڑھنے کے بعد میں حسبِ عادت سگریٹ کے دھوئیں سے خیالی ہیولے بنا رہا تھا۔

عائشہ، پروین، چھوٹی بھابی اور فرزانہ قریب بیٹھی کیرم کھیل رہی تھیں اور کسی فلم پر زوردار بحث کر رہی تھیں۔ جس میں ایک ہیرو دو لڑکیوں سے محبت کرتا ہے اور ڈائریکٹر ہر بار اس محبت کو سچی محبت بنانے پر مصر ہے۔ عائشہ کے خیال میں یہ محبت کی توہین تھی یا ہیرو کی ابوالہوسی۔

تم ان کے قریب والی کرسی پر بیٹھی، سیاہ ساٹن کے ایک ٹکڑے پر ننھے ننھے آئینے ٹانک رہی تھیں۔ جن کی بہت سی شعاعوں نے مل کر تمہارے چہرے پر مشعلیں سی جلا دی تھیں۔

اپنی رائے کو زیادہ وزنی بنانے کے لئے عائشہ نے مجھ سے پوچھا۔

"آپ بتائیے بھائی جان! کیا محبت ایک بار سے زیادہ کی جا سکتی ہے۔؟"

اور میں نے بلا سوچے سمجھے کہہ دیا "قدسیہ سے پوچھو۔"

تمہارے ہاتھ کام کرتے کرتے رک گئے۔ چہرے پر جلتی ہوئی مشعلیں بجھ گئیں اور تم گہری شکایت آمیز نظروں سے مجھے دیکھتی ہوئی کمرے سے باہر چلی گئیں۔ بھابی اور پروین آہستہ آہستہ ہنسنے لگیں۔ فرزانہ بات کو ٹالنے کے لئے گنگنانے لگی اور عائشہ نے داد طلب نگاہوں سے مجھے دیکھا۔ پھر میں نے اس خوبصورت شام کا زرتار لباس نوچ کر پھینک دیا۔ رم جھم کا شور مچانے والی بوندیں آنسوؤں کے دھارے بن گئیں فیض کے دل نشیں شعر ہاتھ ملا کر مجھ سے رخصت ہو گئے اور کمرے میں اندھیرا بڑھنے لگا۔

"آج موسم کتنا خوشگوار ہے۔!"

"ہونہہ۔"

"جی چاہ رہا ہے کہیں باہر گھومنے جاؤں۔"

"تو جائیے۔۔۔۔۔" تم حسبِ عادت مختصر جواب دے رہی تھیں۔

"مگر کوئی ساتھ چلنے والا جو نہیں۔ اطہر نے وعدہ کیا تھا مگر نہیں آیا۔ کتنا غیر ذمہ دار اور جھوٹا ہو گیا ہے یہ لڑکا۔"

جان بوجھ کر اطہر کی برائی کر کے میں نے تمہارے چہرے پر کچھ ڈھونڈا۔ تمہاری آنکھیں سامنے کھلی ہوئی کتاب پر تھیں اور ہاتھ ٹیبل کلاتھ کی شکنیں درست کرنے میں مصروف۔ پھر بڑے طنز کے ساتھ تم نے کہا۔

"اتنے سہانے موسم میں تو وہ کسی بار میں بےہوش پڑے ہوں گے۔ آپ لوگ تو انہیں اچھی طرح جانتے ہیں نا۔"

یہ تم کہہ رہی تھیں۔ تم، جس کے متعلق مشہور تھا کہ سارے خاندان کی عزت جوتے کی ناک پر اچھال کر تم اطہر سے شادی کرو گی، سب سے چھپا کر اسے روپے دیتی ہو۔ وہ شراب پی کر آتا ہے تو اس کی پردہ پوشی کرتی ہو۔ اتنے برے انسان پر تمہاری یہ عنایتیں کیوں تھیں جبکہ پچھلی زندگی میں کئی قابلِ اعتبار مرد تمہیں دھوکا دے چکے تھے۔

تمہارے متعلق پھیلی ہوئی بدنامیوں کے درمیان مجھے اپنی یہ رائے بڑی مضحکہ خیز لگی، اسے میں نے اپنے دماغ سے کھرچ دیا۔ تم سب کے لئے ناقابلِ فہم بن گئی تھیں۔ بھول بھلیوں کے پیچیدہ راستوں کی طرح تم نے اپنے گرد مکر و فریب کے جو جال بچھا رکھے تھے۔ انہیں دیکھ کر مجھے تم سے نفرت ہو تئی۔ پھر ایک دن بڑی سوچ بچار کے بعد میں کچھ حواس باختہ سا تمہارے کمرے میں آیا۔

"میں تمہارے متعلق کچھ جاننا چاہتا ہوں قدسیہ، اگر تم مجھے اجازت دو تو۔۔۔۔۔ تو۔۔۔۔۔" اپنی گھبراہٹ پر میں خود متعجب تھا۔ اس دن تمہارے چہرے پر پہلی بار میں نے ڈر کی پرچھائیاں دیکھیں۔ جن پر حیرانی غالب تھی۔ تم یوں کھڑی ہو گئیں جیسے شمیم ماموں تم پر جھپٹنا چاہتے ہیں۔ تم نے ڈوپٹے کو سینے پر سنبھال کر کہا۔

"آپ بھی مجھے جاننا چاہتے ہیں احمد بھائی! میں آپ کی بہت عزت کرتی ہوں۔ پھر آپ کیوں کوئلوں کی دلالی میں اپنے ہاتھ کالے کرنا چاہتے ہیں۔" اور تم پیچھے دیکھے بغیر باہر بھاگ گئیں تھیں۔

ان ہی دنوں اتفاق سے مجھے ایک خط ہاتھ لگا جو تم نے ریاض کو لکھا تھا مگر اسے بھیج نہ سکی تھیں یا شاید اسے بھیجنے کو لکھا ہی نہ ہو۔ کیوں کہ یہ صرف تمہاری روح کی پکار تھی، جس کو ریاض جیسا بےوقوف انسان کبھی نہ سمجھ سکتا۔ اس کی محبت میں تمہاری برتری اور پرستش کا جذبہ غالب تھا۔ اور تم اسے روح کی بلندی کبھی نہ دے سکتی تھیں۔ بارش بہت زوروں کی ہو رہی تھی۔ اور دریچوں سے نیچے گرنے والے قطروں کو بچے ہاتھوں میں روک کر بہت خوش ہو رہے تھے۔ اتنے میں بھابی کا چھوٹا بچہ راشد ناؤ بنوانے کے لئے ایک کاغذ لے کر آیا۔ یہ نیلے کاغذ پر لکھا ہوا ایک لمبا چوڑا خط تھا۔ نیچے تمہارے بہت ہی بگڑے ہوئے دستخط۔ وہ خط راشد تمہاری اٹیچی نے نکال کر لایا تھا۔ اپنی شرافت کا ثبوت دینے کے لئے میں نے اسے واپس رکھوانا چاہا مگر ایک بار پڑھنے سے باز نہ رہ سکا۔

میری جانب ملامت آمیز نظروں سے نہ دیکھو۔۔۔۔۔ ان دنوں میں تم پر ریسرچ کر رہا تھا۔ بیسویں صدی کا ایک نکما انٹلیکچوئل۔۔۔۔۔ تمہارا یہ خط بہت سی ڈھکی چھپی باتوں کو سامنے لے آیا اور میری رائے پھر ڈگمگانے لگی۔

اس خط میں ریاض کو لکھا تھا کہ بچپن سے تم نے ہر دل میں اپنے لئے حقارت اور نفرت پائی اور صرف کسی کی نظر میں برتری حاصل کرنے کا یہ جذبہ ہی تمہیں ریاض کی جانب لے گیا۔ جو تمہاری طرح سب کی جانب سے دھتکارا ہوا دوسرا فرد تھا۔ ریاض کی نیازمندی اور احساس کمتری نے اسے گہرا کر دیا۔ اور گھروالوں کی مخالفت نے اسے جنگل میں لگی ہوئی آگ کی طرح بھڑکا دیا۔ پھر تم نے ہر قیمت ادا کر کے ریاض کو پا لینے کا تہیہ کر لیا۔ مگر ریاض کے قدم اس دشوار راستے پر لڑکھڑا گئے۔ ابا کی ایک ڈانٹ پر محبت اچھل کر دور جا پڑی اور وہ اپنا بوریا بستر سمیٹ کر بھاگ گیا۔

خط کے آخر میں تم نے اسے خوب ذلیل کیا تھا۔۔۔۔۔ بزدل، تو سمجھتا ہے اس طرح تو نے اپنی محبت کو رسوائی سے بچا کر میری لاج رکھ لی۔ مگر ابھی ہماری محبت شروع ہی کہاں ہوئی تھی، پہلے ہی میری عزت کون سے جھنڈے پر چڑھی بیٹھی تھی۔ میں وہ دے ہی نہ سکی جو میری زندگی کا بلند ترین آدرش ہے۔۔۔۔۔ کاش میں تجھے اس بلندی پر پہنچا سکتی جہاں تک خود میرا ہاتھ بھی نہ جا سکا۔ اب میری روح اس وسیع سمندر میں اس تنکے کو تلاش کرتی پھرے گی۔

تو اب تم اس تنکے کی تلاش میں خوفناک چٹانوں سے ٹکرا رہی تھیں۔ تم۔۔۔۔۔ جو موم کی مورتی کی طرح اپنے خالق کے تخیل کی گرمی سے پگھل سکتی تھیں کسی کی تیز نگاہوں سے سلگ سکتی تھیں، پھر اپنے چاروں طرف چھائی ہوئی بھیانک آگ میں تمہارے قدم کیسے نہیں ڈگمگاتے۔۔۔۔۔؟

دوسرے دن میں نے اطہر کو تمہارے سامنے خوب ڈانٹا۔

"کل تم مجھ سے وعدہ کرنے کے بعد کیوں نہیں آئے؟ کبھی تو تمہیں اپنے وعدے کا خیال کرنا چاہیے۔ میں یہاں انتظار میں بیٹھا رہا اور بقول قدسیہ جناب کسی بار میں پڑے رہے۔"

اطہر کے بیساختہ قہقہے رک گئے اور وہ یوں خاموش ہو گیا جیسے میں نے اسے پھانسی کا حکم سنایا ہو۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ بڑا پشیمان سا میرے پاس آیا۔

"اور اس نے میرے متعلق کیا کہا؟ اسے میری عادتوں کی خبر ہے؟ کیا اس نے میری شکایت کی تھی؟ وہ بہت رنجیدہ ہو گی۔۔۔۔۔؟" زندگی میں آج پہلی بار میں نے اطہر کو شرمندہ دیکھا تھا تو وہ بھی کسی کی شکایت سننے تیار تھا اس سے متاثر ہو سکتا تھا۔

"یہ تو نئی نئی بات ہے۔ جبکہ تم ہمیشہ سے فریب دیتے آئے ہو اور قدسیہ ہمیشہ سے فریب کھاتی آئی ہے۔"

"آپ بھی ایسا سمجھتے ہیں بھائی جان!" اس نے شکایت آمیز لہجے میں کہا۔

قدسیہ کے بگڑنے میں اس کا کوئی قصور نہیں ہے وہ بہت بدنصیب لڑکی ہے لیکن میں یہ چاہتا ہوں کہ اگر اسے کچھ نہ دے سکوں تو اس کی بدنامیوں میں اضافے کا سبب بھی نہ بنوں۔ میں سچ مچ بہت برا ہوں اور قدسیہ کو فریب دے کر بھی نقصان ہی میں رہوں گا۔"

وہ باہر چلا گیا اور ایک بار پھر تم میرے سامنے نئی گتھیاں لئے آ گئیں اطہر کون سا راستہ اختیار کر رہا تھا!

وہ بے رحم انسان جو اپنے مفاد کے آگے کسی پر رحم نہ کر سکتا تھا۔۔۔۔۔ تم مجھے ایک کسوٹی نظر آئیں جس پر سونا اور پیتل دونوں واضح شکل میں چمک اٹھتے ہیں۔

دو گناہوں کے اتصال سے اتنا پاک جذبہ بھی وجود میں آتا ہے۔"

پھر تمہاری کہانی کا باقی حصہ میں خود نہ دیکھ سکا، میری مصروفیتیں مجھے کلکتہ کھینچ کر لے گئیں اور وہاں مجھے آندھیرا کے علاقوں میں جانا پڑا اور آندھیرا کی بیدار زندگی اور پرجوش سرگرمیوں نے تمہاری محبت کی نیم مردہ رینگتی ہوئی کہانی بھلا دی اور گھر میں ہونے والے یہ چھوٹے چھوٹے حادثے ذہن کے کسی کونے تھک کر سو گئے۔

ایک بار عائشہ نے لکھا کہ اطہر کی مسلسل نافرمانیوں کے سبب ابا نے اسے عاق کر دیا ہے اور وہ گھر سے چلا گیا ہے اور معلوم ہوا کہ تم اچانک گھر سے غائب ہو گئیں اور کسی نے ایک بار مجھے بتایا کہ تم دونوں اب لکھنؤ میں رہتے ہو۔ چچا ابا اب تمہیں گھر بلانے پر تیار نہیں ہیں۔

اس سے آگے کی کہانی مجھے کسی نے نہیں سنائی مگر اس بات کا منتظر رہا کہ اب اطہر اپنا الو سیدھا کرنے ممبئی لے جائے گا۔ جہاں کئی برسوں تک ٹھوکریں کھانے کے بعد میں تمہیں ایک دن کسی فلم میں دیکھوں گا۔ ہیروئن کے پیچھے، ایکسٹراؤں میں کولھے مٹکاتے ہوئے کوئی آوارہ سا گیت تمہارے لبوں پر ہو گا، جو تمہارے مصنوعی چہرے، چھاتیوں، پنڈلیوں اور کمر کی نمائش کرے گا۔ تم ایک جھوٹ کا خول ہو گی۔ سولائڈ کی گڑیا جس کی ہر جنبش دوسروں کے تابع ہوتی ہے اور تم اپنی خودداری کی لاش پر ناچ رہی ہو گی۔

ایک حد سے زیادہ جذباتی لڑکی کے تخیل کی اڑآن ہمیشہ یوں ہی کھائیوں میں گر کے دم توڑ دیتی ہے۔

مجھے تم دونوں کے نام سے نفرت ہو گئی۔ عائشہ نے ایک بار لکھا بھی تھا کہ قدسیہ وہاں کسی پرائیویٹ اسکول میں نوکر ہو گئی ہے۔ اطہر بیمار ہے اور وہ دونوں بڑی تکلیف کے دن گزار رہے ہیں۔

لیکن میں نے بڑی سختی سے اسے لکھ دیا کہ میں اب قدسیہ کے متعلق کچھ سننا نہیں چاہتا۔

اطہر کی تبدیلی جتنی نفرت انگیز تھی اتنی ہی حیرت انگیز بھی تھی۔۔۔۔۔ وہ کسی کی شادی کی خبر سن کر مذاق اڑایا کرتا تھا۔ ایک ہی راگ مسلسل لوگ کیسے سنے جاتے ہیں۔ میں تو دو ہی دن میں پاگل ہو جاؤں گا۔"

پھر اس نے دو سال تک اس راگ کو کیسے سنا!

امی اپنی قسمت کو رو کر بیٹھ رہیں۔ ان کی زندگی کے دونوں کڑوے پھل گئے۔ میں تو خیر اپنی خطرناک زندگی سے کوئی فیض نہ پہنچا سکتا تھا۔

مگر ابا بھی یہ برداشت نہ کر سکے کہ اطہر کی قسمت اچانک پلٹا کھائے اور وہ کوئی اچھی ملازمت حاصل کر لے۔

پھر امی کے آنسوؤں نے ابا سے خط لکھوا ہی دئیے جس میں اطہر کو اپنی خاندانی عزت اور بےشمار دولت کا واسطہ دیا گیا تھا اور تمہیں اطہر کی محبت کا۔۔۔۔۔ اور آج عائشہ نے لکھا ہے۔

بھائی جان! آپ قدسیہ سے نفرت کرتے ہے۔ آئندہ اس کے متعلق کوئی بات نہیں ہو گی جو میں آپ کو سناؤں گی آج اطہر بھائی کو ابا تنہا گھر لے آئے ہیں۔ قدسیہ معمولی بیماری سے مر چکی ہے۔"

تم زندگی بھر میری عزت کرتی رہیں اور میں تم سے نفرت کرتا رہا۔ یہ ہم دونوں کی اپنی ذہنیت کا قصور ہے۔ ادھر منہ کرو۔۔۔۔۔ تمہاری آنکھوں میں چمکتے ہوئے آنسو کیا کہہ رہے ہیں؟

کیا سچ مچ تم کسی معمولی بیماری سے مر گئیں! اس چھوٹی سی بیماری کو اپنے نازک جسم پر نہ سہہ سکیں اور اس بیماری کا علاج کسی سے نہ ہو سکا، اطہر سے بھی نہیں۔ مجھ سے بھی نہیں جو تم سے نفرت کرتا رہا۔

تمہیں اپنی شکست پر آنسو نہیں بہانا چاہیئں کیوں کہ تم نے اطہر کو وہ تحفہ دے دیا۔ جس کے لئے تم زندگی بھر سرگرداں رہیں اور چپ چاپ اندھیرے میں کھو گئیں۔۔۔۔۔ اور اب تمہاری روندی ہوئی سسکیاں اور جھلملاتے آنسو ہی مجھے تمہاری موجودگی کا احساس دلاتے ہیں۔۔۔۔۔ تم آج گھٹی گھٹی آہوں اور پیتے ہوئے آنسوؤں سے اس کمرے میں میرے لئے اپنی عزت کا تحفہ لے کر آئی ہو۔۔۔۔۔ مگر میں اس کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتا کہ جلے ہوئے سگریٹ کو ایش ٹرے میں پھینک کر تمہارے خیال کو بھی ذہن سے جھٹک دوں۔۔۔۔۔

******

ٹائپنگ:  ملک بلال بھائی - اردو محفل
بشکریہ : اردو محفل

ظہیر احمد ظہیرؔ کی خوبصورت غزل

غزل 


یہ طبیعت مجھے اپنا نہیں بننے دیتی
جیسے سب ہیں مجھے ویسا نہیں بننے دیتی

آنکھ ایسی ہے کہ دیکھے نہیں جاتے حالات
سوچ ایسی ہے کہ اندھا نہیں بننے دیتی

دُوراندر سے کہیں ایک اُبھرتی ہوئی چیخ
میرے احساس کو بہرا نہیں بننے دیتی

ظلم ایسا ہے کہ دنیا کی زبانیں خاموش 
یہ خموشی مجھے گونگا نہیں بننے دیتی

دلِ وحشی مجھے ہونے نہیں دیتا سرسبز
چشم ِ گریہ ہے کہ صحرا نہیں بننے دیتی​

دشت ایسا ہے کہ چھتنار شجر ہیں ہر گام
دھوپ ایسی ہے کہ سایا نہیں بننے دیتی

خاک ایسی ہے کہ ہر ذرہ طلبگار ِ نمو
رُت وہ ظالم کہ شگوفہ نہیں بننے دیتی

شہر ایسا ہے کہ تاحدِ نظر امکانات
بھیڑ ایسی ہے کہ رستہ نہیں بننے دیتی

حرمتِ خامہ وہ ضدی جو کسی قیمت پر 
سکہّء حرف کو پیسہ نہیں بننے دیتی

کیا قیامت ہے کہ اب میرے تصور کی تھکن
بادلوں میں کوئی چہرہ نہیں بننے دیتی

میں کسی اور کا بنتا تو منافق ہوتا 
یہ انا مجھ کو کسی کا نہیں بننے دیتی

ظہیر احمد ظہیرؔ

افسانہ : سلسلہ تکّلم کا

سلسلہ تکّلم کا
محمد احمدؔ
کِسی کی آواز پر اُس نے چونک کر دیکھا ۔ 
اُسے بھلا کون آواز دے سکتا ہے، وہ بھی اِ س محلے میں جہاں اُسے کوئی جانتا بھی نہیں تھا۔
اُسے دور دور تک کوئی شناسا چہرہ نظر نہیں آیا ۔ ایک جگہ کچھ بچے بیٹھے ہنس رہے تھے اور اس سے کچھ آگے ہوٹل پر لوگ بیٹھے ہوئے تھے ۔ پھر اُسے اس بات کا بھی یقین نہیں تھا کہ پکارنے والے نے اُسی کا نام پکارا ہے۔
یہ سوچتے ہوئے کہ شاید پکارنے والے نے اُس کے بجائے کسی اور کو پکارا ہے وہ آگے بڑھ گیا۔
باتوں کا سلسلہ جہاں سے ٹوٹا تھا وہاں سے تو نہیں جُڑ سکا کہ اس صوتی مداخلت نے اُس کے ذہن کی کئی پرتیں اُلٹ پلٹ کر رکھ دیں اور وہ باوجود کوشش کے یہ یاد نہ کر سکا کہ اس بے جا مداخلت سے پیشتر کیا بات ہو رہی تھی۔ تاہم چار چھ قدم آگے بڑھاتے ہی ذہن کے کسی گوشے سے ایک اور تصفیہ طلب معاملہ گفتگو کے دائرے میں آ دھمکا اور وہ اُس نئے موضوع کے ساتھ جھوجنے لگا۔

گفتگو کا یہ سلسلہ عرصہ دراز سے جاری تھا ۔ گفتگو کے اس سلسلے کا صدا کار بھی وہی تھا اور سامع بھی خود ہی تھا۔ یعنی گفتگو کے مخاطب اور خطیب کم از کم دو کرداروں کی شرط بھی پوری نہیں کرتے تھے۔ باہر کی دنیا شاید اس سلسلے کو خود کلامی پر محمول کرتی تاہم اُسے خود کلامی کی اصطلاح کچھ زیادہ پسند نہیں تھی۔

خود سے بات کرنے کی عادت اُسے کب پڑی اُسے یاد بھی نہیں تھا۔ ایک زمانے تک یہ عادت خود اُس سے بھی حجاب میں رہی لیکن پھر رفتہ رفتہ فطرتِ ثانی کی طرح عیاں ہونے لگی اور اُس نے جان لیا کہ اب اس کے بغیر گزارا نہیں ہے۔

وہ کوئی الگ تھلگ رہنے والا آدمی نہیں تھا ۔ مجلسی طبیعت کا نہ سہی لیکن دوست احباب میں اُس کی موجودگی بہت اہم گردانی جاتی تھی۔ وہ ہر طرح کے موضوع پر بات کر سکتا تھا۔ ہنسی مذاق سے لے کر سنجیدہ مذاکرے تک وہ کئی ایک موضوع پر ٹھیک ٹھاک درک رکھتا تھا اور بوقت ضرورت گفتگو میں شریک بھی رہتا تھا۔ جب تک یہ گفتگو مذہب سے سیاست اور حالاتِ حاضرہ سے کھیل کے میدانوں میں فراٹے بھرتی رہتی اُس کی ہر بات میں ایک رنگ ہوتا اور ہر تاثر بھرپور ہوتا ۔ تاہم گفتگو کے یہ رنگ اچانک ہی پھیکے پڑ جاتے جب موضوعات کے سیارچے اپنے مدار سے ہٹ کر اُس کی ذات کے مرکزے میں گھسنے کی کوشش کرتے۔اپنی ذات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے وہ ایک دم عربی سے عجمی ہو جاتا۔
گفتگو کا یہ سلسلہ عرصہ دراز سے جاری تھا ۔ گفتگو کے اس سلسلے کا صدا کار بھی وہی تھا اور سامع بھی خود ہی تھا۔ یعنی گفتگو کے مخاطب اور خطیب کم از کم دو کرداروں کی شرط بھی پوری نہیں کرتے تھے۔ باہر کی دنیا شاید اس سلسلے کو خود کلامی پر محمول کرتی تاہم اُسے خود کلامی کی اصطلاح کچھ زیادہ پسند نہیں تھی۔
ایسا بھی نہیں تھا کہ اُس کی ذات کی گپھا میں اندھیرے ہی اندھیرے ہوں یا ہمہ وقت کربناک ماضی کی چمگادڑیں یہاں سے وہاں اُڑتی اور ٹکراتی پھرتی ہوں۔ تاہم وہ اپنے من کی باتیں ہر کسی سے نہیں کر سکتا تھا۔ اِ سے آپ اُس کی عادت کہیں یا کچھ اور لیکن وہ اپنے قریب ترین دوستوں سے بھی اپنی ذات سے متعلق بہت کم ہی باتیں کرتا اور اُس کے قریب ترین لوگ بھی اُس کے احساسات سے بہت کم ہی واقف ہو پاتے۔

یوں تو وہ شروع ہی سے اپنے دل کی باتیں اپنے تک ہی رکھنا چاہتا تھا۔ لیکن جلد ہی وہ جان گیا کہ چڑھے ہوئے نالوں کو راستہ نہ ملے تو وہ آبادی میں در آتے ہیں اور پھر وہ تباہی ہوتی ہے کہ خدا کی پناہ۔ اُس کے احساسات اور اُس کے غم جب اُسے اندر ہی اندر جلانے لگتے تو کچھ باتیں بھانپ کی طرح اوپر اُٹھتی اور اُس کے لبوں کے روشن دان سے ہوتی ہوئی خود کو آزاد کرا لیتی۔ روشن دان سے اُٹھتی ہوئی یہ صوتی بھانپ جب باہر کی تازہ ہوا سے گلے ملتی تو تازگی کے جھرنے اُس کا لباس ہو جاتے اور نطق سے سماعت کا مختصر دورہ طے کرکے وہ پھر سے ایوانِ سماعت پر دستک دے دیتی ۔ یوں یہ صرصر اُس کے کانوں سے گزر کرجب ایک بار پھر سے اُس کے دل تک پہنچتی تو صبا کا روپ دھار چکی ہوتی۔ اس ان چاہے عمل سے جاگنے والا طمانیت کا احساس اُسے رفتہ رفتہ باقاعدہ خود کلامی کی دنیا میں لے آیا۔ تاہم اس کے لئے سب سے اہم شرط تنہائی تھی۔

شروع شروع میں جب وہ خود کلامی کرتے ہوئے دیکھا گیا تو لوگ حسبِ توقع حیران ہوئے اور بات استفسار تک بھی آئی ۔ تاہم وہ جلد ہی سنبھل گیا اور خودکلامی کو تنہائی سے مشروط کردیا۔ رفتہ رفتہ شہرِ ذات سے ملاقات کا یہ وقفہ مختصر ہوتے ہوتے رات کے کھانے کے بعد مختصر گشت تک محدود ہو گیا ۔ تاہم اُس نے اپنے لئے اس چہل قدمی کو لازمی کر لیا کہ اندر کی دنیا کو باہر کی دنیا کی سیر کرانا اُس کے لئے باعثِ طمانیت ہی نہ تھا ، نا گزیر بھی تھا۔

اگلے روز یہ معمہ بھی حل ہو گیا کہ گذشتہ دن اُسے پکارنے والا کون تھا۔ وہ کوئی شناسا نہیں تھا نہ ہی اُسے نام لے کر پکارا گیا تھا لیکن مخاطب کوئی اور نہیں صرف وہ ہی تھا۔

آج وہ اپنے اور صالحہ کے مابین کشیدگی کے بارے میں محوِ گفتگو تھا۔ اُس کے سامنے کٹہرے میں وہ خود کھڑا تھا اور کٹہرے میں کھڑے شخص کے سامنے بیٹھے منصف کی نشست بھی اُسی نے سنبھالی ہوئی تھی۔ عدالت کے اس ماحول میں کٹہرے میں کھڑے شخص پر سوالات کی بوچھاڑ ہو رہی تھی اور کٹہرے میں کھڑا شخص اپنے دفاع میں دلائل دینے کی کوشش کر رہا تھا۔ جج صاحب کافی غصے میں نظر آتے تھے اور کٹہرے میں کھڑا شخص مجرم نہ ہوتے ہوئے بھی ندامت میں ڈوبا نظر آتا تھا۔ قریب تھا کہ جج صاحب اپنا فیصلہ سناتے اور ملزم پر فردِ جرم عائد کرتے کہیں سے کسی نے اُسے پکارا۔ اِس اچانک آ پڑنے والی اُفتاد نے راہ چلتی عدالت کو منصف و ملزم سمیت یکایک ہوا میں تحلیل کر دیا اور وہ چونک کر آواز کی طرف متوجہ ہو گیا۔ ایک طرف کچھ بچے بیٹھے ہنس رہے تھے اور اس سے کچھ آگے ہوٹل پر لوگ بیٹھے ہوئے تھے ۔ اُسے پکارنے والے شاید اُس کے نام سے واقف نہیں تھے یا شاید اُنہیں اُس کے نام سے غرض ہی نہیں تھی۔ اُس کے ذہن کی اُلٹتی پلٹتی پرتوں میں جو آخری لفظ اُس کی شعوری سطح سے زائل ہوتا نظر آیا وہ قابلِ غور تھا۔ اور وہ لفظ تھا "پاگل!"۔ دور کہیں بچوں کے ہنسنے کی آواز آ رہی تھی۔

اُس شام وہ نہ جانے کیسے گھر پہنچا ۔ نہ جانے کتنے لفظ سینے میں ہی گھٹ کر مر گئے اور ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اُس کے دل میں مدفون ہو گئے۔ اُس کی حالت اس قدر غیر ہو رہی تھی کہ ناراض صالحہ اپنے ناراضگی تک بھول گئی اور اُس سے پوچھنے لگی۔ کیا ہوا ؟ آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے؟ 

ہاں ٹھیک ہے۔ اُس نے چہرے پر مسکراہٹ کا تار تار ماسک لگانے کی کوشش کی لیکن کلی طور پر ناکام رہا۔ وہ تو یوں بھی کچھ نہیں بتا پا تا تھا ۔ پھر آج کی بات۔
ہاں ٹھیک ہوں۔ اُس نے ایک بار پھر اضطراری حالت میں کہا۔ حالانکہ صالحہ کمرے سے کب کی جا چکی تھی اور کچن میں موجود فرج سے اُس کے لئے پانی نکال رہی تھی۔

اگلے دو چار دن وہ چہل قدمی کو نہیں گیا۔ ایسا نہیں تھا کہ وہ خود سے بات نہیں کرنا چاہتا تھا۔ اُس کے پاس تو ڈھیروں باتیں تھیں لیکن وہ اپنوں کی نظروں سے بچ کر غیروں کی نظروں میں تماشا نہیں بننا چاہتا تھا۔

پھر ایک دن ، اُسے ایک خیال سوجھا اور اس خیال کے آتے ہی وہ جیسے نہال ہو گیا۔ اُس روز دفتر سے واپسی پر وہ سیدھا موبائل مارکیٹ گیا اور وہاں سے ایک بلیو ٹوتھ ائیر پیس خریدا ۔ اور شام کے کھانے کے بعد جب وہ چہل قدمی کرنے نکلا تو اُس کے دائیں کان میں نیا بلیو ٹوتھ ائیر پیس جگمگا رہا تھا اور اُس کا موبائل سیٹ گھر پر تاروں سے جُڑا بجلی مستعار لے رہا تھا۔ اُس نے آج ایک نیا راستہ اختیار کیا اور انتہائی ذاتی نشریاتی رابطے پر دل سے منسلک ہو گیا۔ 

گھر سے کچھ دور آتے آتے عدالت کی کاروائی شروع ہو گئی تھی۔ آج بھی وہ کٹہرے میں کھڑا تھا اور جج صاحب کے سوالات کا جواب دے رہا تھا۔ آج البتہ جج صاحب اُس کے دلائل بغور سن رہے تھے اور زور زور سے سر ہلا رہے تھے۔ پھر جج صاحب مسکرائے اور اُسے با عزت بری کرنے کا فیصلہ سنایا۔ اُس کی انا اور خودداری کمرہ عدالت سے باہر اُس کے لئے پھول ہار لئے کھڑے تھے۔

"یہ آدمی خود سے باتیں کر رہا ہے؟" اچانک کہیں سے ایک آواز آئی۔
ارے "پاگل" یہ موبائل پر بات کر رہا ہے۔ دوسری آواز میں لاپرواہی تھی۔
آج اُسے لفظ پاگل کا استعمال بہت اچھا لگا۔
وہ مسکراتے ہوئے آگے بڑھ گیا ۔ اگلا زیرِ گفتگو سوال یہ تھا کہ صالحہ کے لئے کیا گفٹ خریدا جائے؟

******​

غزل ۔ ہوا چلے یا رُکے خوشنما سماں ہو جائے ۔ محمد احمدؔ



یہ غزل اردو محفل کے مشاعرے میں پیش کی تھی۔ آج قارئینِ بلاگ کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔ 

غزل

ہوا چلے یا رُکے خوشنما سماں ہو جائے
یہ سات رنگ کا آنچل جو بادباں ہو جائے

سُلگ رہا ہوں کئی دن سے اپنے کمرے میں
دریچہ کھولوں تو دنیا دھواں دھواں ہو جائے

بدل کے نام سُنا رکھی ہے اُسے ہر بات
یہ ایک بات بتا دوں تو رازداں ہو جائے

میں اپنے آپ کو چھوڑ آیا ہوں کہیں پیچھے
کچھ اور تیز چلوں میں تو کارواں ہو جائے

یہیں کہیں وہ مرے ساتھ تھا، میں سوچتا ہوں
یہاں گھڑی دو گھڑی کوئی سائباں ہو جائے

یہ انتشار ہے ترتیبِ نو نہ جان اسے
کہ کائنات کی ہر شے یہاں وہاں ہو جائے

سرشکِ غم کو تبسم کی سیپ میں رکھیے
کہ راز راز رہے، حالِ دل بیاں ہو جائے

پروں پہ تتلی کے پیغام لکھ کے بھیجوں میں
ہوا کا جھونکا کسی دن خبر رساں ہو جائے

جہاں کی رِیت ہے کُہرام مچنے لگتا ہے
کسی کو عشق ہو یا مرگِ ناگہاں ہو جائے

ابھی تو جسم مرا دھوپ کی امان میں ہے
پرائے سائے میں آ کر نہ بے اماں ہو جائے

ہے اس جہان کی ہر بات عام سی لیکن
جو سچے شعر میں ڈھل جائے داستاں ہو جائے
محمد احمدؔ