تضمین بر کلامِ حضرتِ ولی دکنی - ظریفانہ کلام

حضرتِ ولی دکنی کا یہ مشہور و معروف شعر تو آپ نے سُنا ہی ہوگا۔

راہِ مضمونِ تازہ بند نہیں
تا قیامت کھلا ہے بابِ سخن

خاکسار کی جانب سے اس کے دونوں مصرعوں پر (ظریفانہ) تضمین پیش ہے۔
اُمید ہے احباب کو پسند آئے گی۔ 

وہ جو شادی سے پہلے کہتا تھا 
اُس کو یکسانیت پسند نہیں
اُس کی بیوی نے کر دیا ثابت
"راہِ مضمونِ تازہ بند نہیں"


کچھ تو کہیے وہ اُس سے کہتا تھا​
لفظ مہکیں، کھُلے کتابِ سخن​
اُس کو شادی کے بعد علم ہوا​
"تا قیامت کھُلا ہے بابِ سخن"​

محمد احمدؔ

نظم : منظر سے پس منظر تک


کھڑکی پر مہتاب ٹکا تھا
رات سنہری تھی
اور دیوار پہ ساعت گنتی
سَوئی سَوئی گھڑی کی سُوئی
چلتے چلتے سمت گنوا کر غلطاں پیچاں تھی
میں بھی خود سے آنکھ چُرا کر
اپنے حال سے ہاتھ چھڑا کر
برسوں کو فرسنگ بنا کر
جانے کتنی دور چلا تھا 
جانے کس کو ڈھونڈ رہا تھا
دھندلے دھندلے چہرے کیسے رنگ رنگیلے تھے
پیلے پیلے پھول تھے، آنچل نیلے نیلے تھے
کیا چمکیلی آنکھیں ، کیسے خواب سجیلے تھے
لیکن آنکھیں نم تھیں، منظر سِیلے سیلے تھے
اک چہرہ تھا روشن جیسے چاند گھٹاؤں میں
اک مسکان تھی جیسے بکھریں رنگ فضاؤں میں
منظر منظر تکتا جاتا ، چلتا جاتا میں
اِ س منظر سے اُس منظر تک بڑھتا جاتا میں
اک تصویر کو رُک کر دیکھا ، رُک نہیں پایا میں
اِس کھڑکی سے اُس آنگن تک جھُک نہیں پایا میں
جیسے اُس شب چلتے رہنا قسمت ٹھیری تھی
میرے تعاقب میں 
یادوں کی پچھل پیری تھی

محمد احمدؔ

​ہے جس کے ہاتھ میں پتھر اُسے گماں بھی نہیں​ ۔ جمال احسانی

غزل

​ہے جس کے ہاتھ میں پتھر اُسے گماں بھی نہیں​
کہ فکرِ آئینہء جسم و جاں، یہاں بھی نہیں​
جو بات تیری نظر میں ہے اور مرے دل میں​
اگر زباں پہ نہ آئے تو رائیگاں بھی نہیں​
اب اُس نے وقت نکالا ہے حال سُننے کو​
بیان کرنے کو جب کوئی داستاں بھی نہیں​
وہ دل سے سرسری گزرا، کرم کیا اُس نے​
کہ رہنے کا متحمل تو یہ مکاں بھی نہیں​
زمین پیروں سے نکلی تو یہ ہوا معلوم​
ہمارے سر پہ کئی دن سے آسماں بھی نہیں​
سفر میں چلتے نہیں عام زندگی کے اُصول​
وہ ہم قدم ہے مرا جو مزاج داں بھی نہیں​
نہیں پسند کوئی بے توجہی اُس کو ​
اور اپنے چاہنے والوں پہ مہرباں بھی نہیں​
مرے ہی گھر میں اندھیرا نہیں ہے صرف جمالؔ​
کوئی چراغ فروزاں کسی کے ہاں بھی نہیں​
جمالؔ احسانی

ہم صحرا ہیں اور جل تھل ہیں، ہیں دریا اور پایاب ہیں ہم


غزل
خاکسار کی ایک طرحی غزل

ہم اپنی حقیقت کس سے کہیں، ہیں پیاسے کہ سیراب ہیں ہم
ہم صحرا ہیں اور جل تھل ہیں، ہیں دریا اور پایاب ہیں ہم

اب غم کوئی، نہ سرشاری، بس چلنے کی ہے تیاری
اب دھوپ ہے پھیلی آنگن میں، اور کچی نیند کے خواب ہیں ہم

ہاں شمعِ تمنّا بجھ بھی گئی، اب دل تِیرہ، تاریک بہت
اب حدّتِ غم، نہ جوشِ جنوں، اے دشتِ طلب! برفاب ہیں ہم

یہ تنہائی، یہ خاموشی، تارا بھی نہیں اِس شام کوئی
کچھ داغ سمیٹے سینے میں، تنہا تنہا مہتاب ہیں ہم

ہم جس میں ڈوب کے اُبھرے ہیں، وہ دریا کیسا دریا تھا؟
یہ کیسا اُفق ہے جس کی اتھاہ گہرائی میں غرقاب ہیں ہم

ہم مثلِ شرر ہیں ، جگنو ہیں، ہم تِیرہ شب کے آنسو ہیں
ہم نجمِ سحر، ہم رشکِ قمر، ہاں ہر صورت شب تاب ہیں ہم

اک حزن و ملال کا سیلِ بلا، سب خواب بہا کر لے بھی گیا
پھر پھول کھلے من آنگن میں، پھر دیکھ ہمیں شاداب ہیں ہم

لاکھوں ہم جیسے ملتے ہیں،  نایاب نہیں ہیں ہم احمدؔ
ہاں اُن کے لئے، جو دل سے ملے، وہ جانتے ہیں، کمیاب ہیں ہم

محمد احمدؔ

افسانہ : جامِ سفال


جامِ سفال
محمد احمدؔ​

شاید کوئی اور دن ہوتا تو حنیف بس میں بیٹھا سو رہا ہوتا۔لیکن قسمت سے دو چھٹیاں ایک ساتھ آ گئیں تھیں ۔ پہلا دن تو کچھ گھومنے پھرنے میں گزر گیا ، دوسرا پورا دن اُس نے تقریباً سوتے جاگتے گزارا ۔ آج بس میں وہ ہشاش بشاش بیٹھا تھا اور بس کی کھڑکی سے لگا باہر کے نظارے دیکھ رہا تھا۔ باہر کے مناظر وہی روز والے تھے۔ وہی افرا تفری، وہی لوگوں کی بے چینی اور ایک دوسرے سے آگے نکل جانے کی ان تھک دوڑ ۔

اُس کی سیٹ کے بالکل سامنے بس میں وہ جنگلہ لگا ہوا تھا جو بس کے زنانہ اور مردانہ حصے میں حدِ فاصل کا کام کرتا تھا ۔ صنفِ نازک کے لئے مختص حصے میں اس وقت صرف دو خواتین موجود تھیں۔ ایک کچھ عمر رسیدہ سیاہ برقعے میں ملبوس ، اور دوسری ایک نوجوان لڑکی۔ حنیف بے خیالی میں لڑکی کا جائزہ لینے لگا۔ وہ ایک عام سی لڑکی تھی، جو شاید اپنے موبائل میں کوئی گیم کھیل رہی تھی ۔ رنگت مناسب تھی اور ناک نقشہ بھی ٹھیک ہی تھا ۔ اُسے پہلی نظر میں وہ لڑکی اچھی لگی۔ شاید وہ لڑکی واقعی اچھی تھی یا پھر یہ جاذبیت محض صنفِ مخالف کے لئے فطری کشش کے باعث تھی۔ بہرکیف وہ گاہے گاہے اُسے دیکھ رہا تھا اور نظارہ تسلسل اور تعطل کی کڑیوں سے مل کر قسط وار ڈرامے کی تمثیل ہوا جاتا تھا۔

بس سُست رفتاری سے رواں دواں تھی اور تھوڑے تھوڑے فاصلے پر موجود بس اسٹاپ پر لوگ بس میں اُتر اور چڑھ رہے تھے۔ ایسے ہی کسی اسٹاپ پر بس رُکی تو خواتین کے حصے میں دو نئے مسافر سوار ہوئے۔ ایک نوجوان لڑکی اور شاید اُس کا کمسن بھائی ۔ حنیف کے پاس تو یوں بھی کوئی مشغولیت نہیں تھی سو اُس نے نگاہوں نگاہوں میں اس نئی آنے والی ہستی کا بھی استقبال کیا اور کمسن بھائی پر بھی اچٹتی سے نظریں ڈالی۔ نئی آنے والی لڑکی خوش شکل تھی۔ رنگ گندمی اور آنکھیں سیاہ اور بڑی بڑی۔ پہلے سے موجود لڑکی کی طرح نئی آنے والی لڑکی کی نشست بھی کچھ اس طرح تھی کہ جیسے وہ حنیف سے ہی مخاطب ہوں تاہم ایک کی دلچسپی موبائل اور دوسری کی چھوٹے بھائی کی طرف ہی نظر آتی تھی۔ نئی آنے والی لڑکی بڑی ادا سے اپنے بھائی سے ہلکی پھلکی باتیں کر رہی تھی اور اُس کے صبیح چہرے پر مسکراہٹ ایسے ہی آویزاں تھی جیسے چودھویں کا چاند آسمان پر ٹکا نظر آتا ہے۔

حنیف بڑی محویت سے نئی آنے والی لڑکی کو دیکھ رہا تھا کہ اُسے خیال آیا کہ اس طرح ایک ٹُک کسی لڑکی کی طرف دیکھنا مناسب نہیں ہے۔ اُس نے ادھر اُدھر دیکھا تو اُسے وہ لڑکی نظر آئی جو پہلے سے بس میں موجود تھی اور اپنے موبائل گیم میں کسی مرحلے میں ناکام ہونے پر جھنجھلاہٹ کا شکار نظر آ رہی تھی۔

پہلے والی لڑکی کو پھر سے دیکھنے پر اُسے احساس ہوا کہ اس کی رنگت کافی گہری ہے اور اس سانولے پن کے باوجود اُس نے گہرے رنگ کا ہی لباس پہنا ہوا ہے۔ یہ خیال شاید اُسے اس لئے بھی آیا کہ اب اس کے سامنے نووارد خوش شکل لڑکی بھی موجود تھی اور اس دانستہ یا نادانستہ تقابلی جائزے میں حنیف کی مددگار ثابت ہو رہی تھی۔ سانولی لڑکی کا ناک نقشہ بھی ایسا نہیں تھا کہ جسے قابلِ ستائش کہا جا سکے ۔ ناک متناسب تھی البتہ چھوٹی چھوٹی آنکھیں چہرے کے حساب سے کچھ عجیب سی لگ رہی تھیں۔ اس کے برعکس نوارد لڑکی، ہر لحاظ سے خوبصورتی کی مثال تھی۔ رنگت نکھری ہوئی، چہرہ صباحبت سے بھرپور، سیاہ آنکھیں ایسی با رونق کہ ایک دنیا ان میں آباد نظر آتی ۔ اس پر مستزاد یہ کہ لباس بھی دیدہ زیب اور سلیقے سے زیب تن کیا ہوا۔
"ان دونوں کا تو کوئی مقابلہ ہی نہیں ہے ۔" حنیف نے دل میں سوچا۔
ابھی وہ اسی اُدھیڑ بُن میں تھا کہ بس ایک اسٹاپ پر رُکی اور خوبرو لڑکی اپنے بھائی کو لئے بس سے اُتر گئی اور بس رُکے بغیر اپنی منزل کی طرف روانہ ہوگئی ۔
اگر وہ بس ڈرائیور ہوتا تو یقیناً رُک کر اُس لڑکی کو جاتا ہوا دیکھتا یہاں تک کہ وہ نظروں سے اوجھل ہو جاتی ۔ یہ بس والے شاید ان چیزوں سے اسی لئے بے نیاز ہوتے ہیں کہ اگر وہ ایسے نہ ہوں تو ڈرائیونگ کرنا ہی مشکل ہو جائے۔ اپنی سوچ پر وہ خود ہی مسکر ادیا۔

مسکراہٹ نے آنکھیں میچیں تو اُسے بس میں کچھ اندھیرے کا سا احساس ہوا۔ صبح صبح جب سورج چڑھ رہا ہوتو اندھیرے کا احساس کیسا ؟ یقیناً بس میں اندھیرا نہیں تھا ۔ البتہ وہ روشنی اب بس میں نہیں تھی جس میں وہ کچھ دیر پہلے دیدہ زیب مناظر دیکھ رہا تھا۔ اگر ویرانی کے لفظ کی شدت کو دس گنا بڑھا دیا جائے تو کہا جا سکتا تھا کہ بس اب ویران تھی اور شاید صرف اُس کے لئے ہی ویران تھی۔ اُس نے گھبرا کر بس کی کھڑکی سے باہر دیکھنا شروع کر دیا۔ منظر ایک کے پیچھے ایک بھاگے جا رہے تھے ۔ گویا بارہا دیکھی ہوئی کوئی فلم پردہ ء سیمیں پر دکھائی جا رہی ہو۔ سارے منظر رٹے رٹائے ، دیکھے بھالے۔ وہی لوگ ، وہی افراتفریح اور وہی روز کے چھوٹے چھوٹے جھگڑے۔ اگر اس فلم کا کوئی نام ہوتا تو یقیناً "یکسانیت" ہی ہوتا ۔ وہی یکسانیت کہ جس کے ہاتھوں بیزار ہو کر انسان کہہ اُٹھتا ہے کہ تنوع ہی زندگی کا اصل لطف ہے۔

کچھ دیر بعد یہی رہوارِ تنوع اُسے پھر بس میں لے آیا۔ بس میں در آنے والا اندھیرا اب کافی حد تک معدوم ہو چُکا تھا اور دھیمے سُروں کے نغمے سماعت میں جگہ بنانے میں کامیاب ہو رہے تھے۔ اُس نے سامنے دیکھا تو پہلے سے موجود موبائل سے اُلجھتی لڑکی اب مسکرا رہی تھی ۔ شاید موبائل گیم کا وہ سانپ جو اپنی ہی دم سے متصادم ہو کر فنا کے لمحے سے جا ملتا تھا ، اُسے کامیابی کے مزید ایک زینے تک پہنچانے میں کامیاب ہو گیا تھا۔ چھوٹی سی کامیابی اُس کے چہرے پر بڑی مسکراہٹ لے آئی تھی اور اس مسکراہٹ نے اس کا چہرہ پُر نور کر دیا تھا۔ شاید کوئی بد ذوق ہوتا تو کہتا کہ یہ تو موبائل کی روشنی ہے جو اُس کے چہرے پر منعکس ہو رہی ہے لیکن کوئی کہتا بھی تو حنیف مشکل ہی اُس کی بات ماننے پر آمادہ ہوتا۔ عام سے خد و خال والی وہی لڑکی اب حنیف کو بہت اچھی لگ رہی تھی ۔ گویا وہ خود بھی سانپ اور سیڑھی کے کھیل میں سو کے خانے میں آ موجود ہوا ہو۔
"چلنا بھئی ۔۔۔ ! نصیر آباد والے" بس کنڈکٹر کرخت آواز میں اُس کے اسٹاپ پر پہنچنے کی اطلاع دے رہا تھا ۔ لیکن کنڈکٹر کی یہ پُکار صدا بہ صحرا ہوئی جاتی تھی ۔

عشق میں کتنا نام کمایا جا سکتا ہے ۔ عباس تابشؔ

غزل

پانی آنکھ میں بھر کر لایا جاسکتا ہے
اب بھی جلتا شہر بچایا جا سکتا ہے

ایک محبت اور وہ بھی ناکام محبت
لیکن اس سے کام چلایا جا سکتا ہے

دل پر پانی پینے آتی ہیں امیدیں
اس چشمے میں زہر ملایا جا سکتا ہے

مجھ بدنام سے پوچھتے ہیں فرہاد و مجنوں
عشق میں کتنا نام کمایا جا سکتا ہے

یہ مہتاب یہ رات کی پیشانی کا گھاؤ
ایسا زخم تو دل پر کھایا جا سکتا ہے

پھٹا پرانا خواب ہے میرا پھر بھی تابش
اس میں اپنا آپ چھپایا جا سکتا ہے

عباس تابشؔ

ناخداؤ! تمھیں خدا پوچھے​

غزل​

ڈوبتی ناؤ تم سے کیا پوچھے
ناخداؤ! تمھیں خدا پوچھے​

کس کے ہاتھوں میں کھیلتے ہو تم
اب کھلونوں سے کوئی کیا پوچھے​

ہم ہیں اس قافلے میں قسمت سے
رہزنوں سے جو راستہ پوچھے​

!ہے کہاں کنجِ گل ، چمن خورو
کیا بتاؤں اگر صبا پوچھے​

اٹھ گئی بزم سے یہ رسم بھی کیا
ایک چپ ہو تو دوسرا پوچھے ​

لیا قت علی عاصم​

بھولتے کو گوگل کا سہارا

بھولتے کو گوگل کا سہارا
ٹیکنالوجی رحمت یا۔۔۔ ​

یوں تو ہم ٹیکنالوجی کو رحمت ہی سمجھتے ہیں ۔ لیکن کبھی کبھی گمان ہوتا ہے کہ یہ ہمیں ناکارہ کرنے کے لئے ہی بنائی گئی ہے۔

جب سے ہم ایم ایس ورڈ پر لکھنے لگے ہیں تب سے ہاتھ سے لکھنا اتنا مشکل لگتا ہے کہ پوچھیں مت۔ پھر نہ لکھنےکی وجہ سے تحریر بھی کافی سے زیادہ شکستہ ہوتی جا رہی ہے۔ سو جب کبھی ہماری تحریر لوگوں کے محدود ذہنوں میں سما نہیں پاتی تو ہم کھسیانے ہو کر کہتے ہیں ۔ خط لکھیں گے چاہے مطلب کچھ نہ ہو۔۔۔ 

پھر ایم ایس ورڈ نے اسپیلنگ چیک کی سہولت فراہم کی تو ہم نے اسپیلنگ پر توجہ کم سے کم کردی۔ بس مطلوبہ لفظ کی ملتی جلتی شکل فراہم کرتے اور کہتے "بوجھو تو جانیں" اب چونکہ ٹیکنالوجی کی یہ سہولیات برسوں کی محنت سے وجود میں آئی ہیں تو ہمیشہ ہماری اس قسم کی حرکت کو ٹیکنالوجی کے وجود کے لئے خطرہ سمجھا جاتا اور حتی الامکان کوشش کرکے ہماری پہیلی بوجھ لی جاتی ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ٹیکنالوجی کا ٹیکہ بیٹھ گیا اور ہمارا بھٹہ۔

کچھ عرصہ اور گزرا تو ہماری یادداشت کا ٹھیکہ گوگل نے سنبھال لیا ۔ ہم نے پھر "ایزی فیل " کیا اور نتیجتاً گوگل کے بغیر بات چیت کے گھوڑے دوڑانا ہمارے لئے دشوار ہو گیا۔ آج ہم فلک شیر بھائی سے خبرِ تحیرِ عشق سُن والی بے مثال غزل کا ذکر کر رہے تھے تو شاعرکا نام یاد نہیں آرہا تھا ۔ بس یہ یاد آیا کہ شاعر اورنگ آباد کے مقیم تھے اور اس بات کو اپنے نام کے ساتھ لکھنے میں فخر محسوس کیا کرتے تھے۔ پھر گئے گوگل پر اور اُسے لفظ "اورنگ آبادی" کا چارہ ڈالا ۔ گوگل بھیا جھٹ کہنے لگے "سراج اورنگ آبادی؟" ۔ بس پھر کیا تھا گوگل بھیا کو وہیں چھوڑا اور اُلٹے قدم محفل پہنچے تاکہ جملہ مکمل کرکے فلک شیر بھائی کو روانہ کر سکیں۔

ٹیکنالوجی اگر واقعی رحمت ہے تو ہم دن بہ دن ناکارہ کیوں ہوتے جار ہے ہیں؟ یہ ہماری سمجھ نہیں آتا۔ اللہ ہمارے حال پر رحم کرے۔ آپ بھی دعا کیجے گا۔

اجمل سراج کی دو خوبصورت غزلیں



کیا ضروری ہے یہی نالہ و فریاد رہے
ہم تجھے بھول بھی سکتے ہیں،تجھے یاد رہے

یہ خوبصورت شعر اجمل سراج کا ہے۔ اجمل سراج شہرِ کراچی کے خوش فکر سخنور ہیں اور شاعری میں اپنا نمایاں اسلوب رکھتے ہیں۔ اُن کی شاعری  کی کھیتی معنی آفرینی اور تازہ کاری سے  لہلہاتی نظر آتی ہے۔  چھوٹی چھوٹی باتوں کو  بڑا بنا دینے کا فن اُنہیں خوب آتا ہے۔ اُن کا مشہورِ زمانہ شعر دیکھیے:

اُس نے پوچھا تھا کیا حال ہے
اور میں سوچتا رہ گیا۔۔۔


اجمل سراج کی دو خوبصورت غزلیں آج احباب کے ذوقِ مطالعہ کی نظر کی جا رہی ہیں۔ 

طویل بھی ہے فقط صبر آزما ہی نہیں
یہ رات جس میں ستاروں کا کچھ پتا ہی نہیں

نگاہِ دل کو جو رنگِ ثبات سے بھر دے
ابھی وہ پھول کسی شاخ پر کھلا ہی نہیں

جو دیکھتا ہے ،کسی کو نظر نہیں آتا
جو جانتا ہے، اُسے کوئی جانتا ہی نہیں

نظر جہان پہ ٹھہرے تو کس طرح ٹھہرے
اس آئنے میں کوئی عکسِ دل رُبا  ہی نہیں

لئے پھرا ہوں نہ جانے کہاں کہاں اِس کو
مگر یہ دل ہے کہ وہ راہ بھولتا ہی نہیں

وہ خواب ہوں جو کسی کو نظر نہیں آتا
وہ آئنہ ہوں جسے کوئی دیکھتا ہی نہیں

سُنا ہے ہجر بہت بے قرار کرتا ہے
ہمارے ساتھ تو ایسا کبھی ہوا ہی نہیں

******
یہ خطّہء  آراستہ، یہ شہرِ جہاں تاب
آ جائے گا ایک روز یہ ساحل بھی تہہِ آب

تصویرِ عمل، ذوقِ سفر، شوقِ فنا دیکھ
اک موج کہ ساحل کی طلب میں ہوئی سیماب

شاید یہ کوئی ریز ہ ٴ دل ہے کہ سرِ چشم
مانندِ مہ وہ مہر چمکتا ہے تہہِ آب

اک عمر ہوئی پستیِ ظلمت میں پڑا ہوں
دیکھو مجھے میں  ہوں وہی ہم قریہ ٴ مہتاب

دنیا تو نہیں ہے مگر آغوشِ طلب میں
اک بھولی ہوئی  شکل ہے کچھ ٹوٹے ہوئے خواب

جُز دیدہ ٴ دل کون تجھے دیکھ سکے ہے
محروم تری دید سے ہے منبر و محراب

اے ناظرِ ہر ذرّہ تری ایک نظر کو
آنکھیں ہیں سو بے نور ہیں، دل ہے سو ہے بے تاب

اجمل سراج

دل میں وحشت جگا رہی ہوگی - عبید الرحمٰن عبیدؔ

غزل

دل میں وحشت جگا رہی ہوگی
خواہشِ نا رسا رہی ہوگی

وہمِ دستک بُلا رہا ہوگا
در پہ وحشی ہوا رہی ہوگی

یہ جو کارِ نفس کی تہمت ہے
جانے کس کی دعا رہی ہوگی

یہ  جو آرام سا ہے کچھ دل کو
درد کی انتہا رہی ہوگی

بے بسی کی دریدہ چادر میں
بھولی بِسری وفا رہی ہوگی

ہم بھی  روٹھے ہوئے ہیں کچھ اُس سے
زندگی بھی خفا رہی ہوگی

ارتقا میں عبیدؔ بس حائل
اپنی سرکش انا رہی ہوگی

ؔعبید الرحمٰن عبید

ناصح (ایک افسانہ)

ناصح 

 از محمداحمدؔ
بات مولوی صاحب کی بھی ٹھیک تھی۔ واقعی کم از کم ایک بار تو سمجھانا چاہیے ایسے لوگوں کو جو دوسروں کی حق تلفی کرتے ہیں یا دوسروں کا مال ناحق کھاتے ہیں۔ لیکن نہ جانے کیا بات تھی کہ مولوی صاحب یہ بات خطبے میں کبھی نہیں کہتے تھے ہاں جب کبھی بیٹھے بیٹھے کسی چوری چکاری کا ذکر آئے تب وہ یہ بات ضرور کہتے ۔ خطبے میں تو وہ ایسی مشکل مشکل باتیں کرتے کہ اُس کے تو سر پر سے ہی گزر جاتیں اور وہ گردن ہلا کر رہ جاتا کہ مولوی صاحب جو بھی کہہ رہے ہیں ٹھیک ہی کہہ رہے ہوں گے آخر کو اتنا علم ہے اُن کے پاس۔

وہ سوچتا کہ ایسے لوگوں کو کیسے سمجھایا جاسکتا ہے جو اچانک سے آ دھمکتے ہیں اور بندوق کے زور پر لوگوں کی نقدی اور قیمتی اشیاء لے کر یہ جا اور وہ جا ہوجاتے ہیں۔ اب بھلا اُن سے کون کہے کہ بھیا ذرا دو گھڑی رُک کر ہماری بات ہی سُن لو۔ اور جب شیطان اُن کے دماغ میں گھسا ہوا ہو تو اُنہیں اچھے بھلے کی کیا خاک سمجھ آئے گی۔ 

اُسے پچھلے مہینے کا وہ واقعہ یاد آیا جب ایک دن اُس کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا۔ رات ساڑھے دس گیارہ بجے وہ اپنی موٹر بائیک پر گھر جا رہا تھا کہ دو لڑکے ایک موٹر سائیکل پر آئے اور اُس کا راستہ روک دیا۔ لامحالہ اُسے رُکنا پڑا ۔وہ بھی سمجھ گیا کہ یہ کیا معاملہ ہو سکتا ہے اور ہوا بھی وہی۔ اُن میں سے ایک کے ہاتھ میں پستول تھا اور وہی دیرینہ مطالبہ ہونٹوں پر، گالیوں کی بوچھار اپنی جگہ تھی۔ اُس نے جھٹ موبائل فون اور جیب میں جتنے بھی پیسے تھے وہ نکال کر اُن کے ہاتھ پر رکھ دیے ۔ جان ہے تو جہان ہے۔ اُسے گھی کے اشتہار والی وہی بات یاد آگئی جو پہلی بار دادی جان کے منہ سے سُنی تھی۔ بکتا جھکتا گھر آگیا ۔ 

پھر چار چھ دن میں زندگی معمول پر آگئی۔ اب کے اُس نے پہلے سے بھی سستا موبائل خریدا تھا ۔ وہ راستہ البتہ اُس نے چھوڑ دیا ۔اب وہ دوسرے راستے سے آیا جایا کرتا ، یہ راستہ کچھ طویل تھا لیکن پر رونق تھا ۔ حالانکہ اُسے معلوم تھا کہ رونق اور ویرانی سے بھی ان لُٹیروں کو کوئی سرو کار نہیں تھا۔ اُنہیں کون سے کوئی روکنے ٹوکنے والا تھا جو وہ بارونق اور سنسان علاقوں میں تمیز کرتے۔

اب بھلا میں اُنہیں کیسے سمجھا سکتا ہوں ۔ اُس نے تصور میں مولوی صاحب سے کہا ۔ لیکن پھر خیال آیا کہ مولوی صاحب تو مسجد میں رہ گئے اور وہ سوچتے سوچتے گھر تک پہنچ گیا ۔ سب باتیں اپنی جگہ لیکن مولوی صاحب کی بات اُس کے دل کو لگی تھی۔ واقعی جب تک کسی کو سمجھانے والا کوئی نہ ہو، وہ راہِ راست پر کیسے آئے گا۔ پھر چور ڈاکو کون سے سب کے سامنے اپنے کارناموں کا اقرار کرتے پھرتے ہیں کہ اُن کا ماجرہ سن کر اُن کو سمجھا یا جائے۔ 

سوچتے سوچتے نہ جانے کیسے اُس کے دماغ میں ایک ترکیب آ ہی گئی۔ وہ اس وقت کا انتظار کرنے لگا کہ جب اگلے روز ظہر کے درس کے بعد اُس کی مولوی صاحب سے ملاقات ہونی تھی۔ وہ اپنے ذہن میں ان باتوں کو ترتیب دے رہا تھا ۔ آخر کو مولوی صاحب کو سمجھانا بھی تو تھا۔

اللہ اللہ کرکے وہ وقت بھی آ ہی گیا جب اُس نے مولوی صاحب کو اپنی تجویز پیش کرنی تھی۔ نماز ہوئی پھر درس شروع ہوا۔ مولوی صاحب روز کی طرح کسی کتاب میں سے کچھ واقعات سُنا رہے تھے اور لوگ سر جھکائے سُن رہے تھے۔ نہ جانے سُن رہے تھے یا باقی لوگ بھی اُس کی طرح اپنی اپنی سوچوں میں کھوئے ہوئے تھے۔ درس ختم ہوا تو دعا ہوئی ۔ دعا بھی وہی روز والی ہی تھی شاید یہ دعائیں پوری ہوتیں تو نئی دعائیں مانگی جاتیں۔ 

جب سب لوگ مولوی صاحب سے مصافحہ کرکے چلے گئے تو وہ ذرا کھسک کر مولوی صاحب کے قریب ہو گیا۔ اور تھوڑا سا ہمت کرکے کہنے لگا۔
"مولوی صاحب کل آپ بات کر رہے تھے نا کہ لوگوں کو سمجھانا چاہیے ۔خاص طور پر اُن کو جو چوری چکاری کرتے ہیں اور لوگوں کی حق تلفی کرتے ہیں۔ " ہلکی سے ہکلاہٹ کے بعد وہ روانی سے بولنے لگا۔
"ہاں ہاں" ۔ مولوی صاحب کے لہجے میں تحیّر نمایا ں تھا۔
"تو مولوی صاحب میرے ذہن میں ایک ترکیب آئی ہے۔ " اُس کی آنکھیں مولوی صاحب کے چہرے پر ٹکی تھیں۔ اور مولوی صاحب ایسے حیران ہوئے جا رہے تھے کہ جیسے طلسم ہوش ربا کا کوئی منظر اُن کے سامنے زندہ ہو گیا ہو۔
"ہاں بولو! " مولوی صاحب نے کھر کھراتی آواز میں کہا۔
"مولوی صاحب! میں چاہتا ہوں کہ آپ ان چوروں کے نام ایک خط لکھ دیں اور اُس خط میں اُن کو سمجھائیں کہ یہ چوری اور ڈکیتی وغیرہ بہت ہی بُری بات ہے۔ اور جوبھی اس بارے میں اللہ رسول کا حکم ہے وہ سب خط میں لکھ دیں۔ " مولوی صاحب کچھ حیرانی اور کچھ مسکراہٹ کے ساتھ اُس دیکھ رہے تھے۔
"اچھا ! لیکن یہ خط اُنہیں پہنچائے گا کون؟" مولوی صاحب نے اپنی دانست میں بڑا اچھا نکتہ اُٹھایا۔
"آپ ایسا کریں کہ ایک دفعہ اُن کے نام خط لکھ لیں۔" اُس نے اپنا سوچا ہوا منصوبہ آشکار کرنا شروع کیا۔ "پھر ہم اُس خط کی بہت ساری کاپیاں کروا کر جمعے کے دن بانٹ دیں گے۔ جس جس کو یہ کاپی ملے وہ مزید دس کاپیاں کروا کر اپنے جاننے والے لوگوں میں بانٹ دے۔ " وہ سانس لینے کو رُکا۔
"پھر جب خدانخواستہ کسی کے ساتھ چوری ڈکیتی کا واقعہ پیش آئے تو وہ یہ خط اُن ڈاکوؤں کو تھما دے۔" اُس نے ایک گہری سانس لی۔
مولوی صاحب تحیر اور تبسم کے ہنڈولے پر جھول رہے تھے۔
کچھ توقف کے بعد مولوی صاحب نے بامشکل اپنی مسکراہٹ پر قابو پایا اور اُسے خط لکھنے کی یقین دہانی کروا دی۔ آج وہ کافی مطمئن تھا۔

اگلے دو چار دن وہ کسی کام سے شہر سے باہر رہا سو مولوی صاحب سے ملاقات نہیں ہو سکی۔ اس دوران جمعہ بھی آ کر گزر گیا۔ اتوار والے روز وہ پھر مولوی صاحب کے سامنے بیٹھا تھا ۔
"مولوی صاحب ! وہ خط لکھ دیا آپ نے؟" مولوی صاحب نے اُس کی طرف ایسے دیکھا جیسے پوچھ رہے ہوں کہ کیا واقعی لکھنا تھا۔
"اگر نہیں لکھا تو اب لکھ دیں۔" یہاں خامشی کا مطلب نیم رضا مندی سمجھنا اُس کے لئے دشوار ہو رہا تھا۔
"اچھا !!! چلو آج رات کو لکھ دوں گا۔" مولوی صاحب نے ہار مانتے ہوئے کہا۔

اگلے روز مولوی صاحب نے تہہ کیا ہوا ایک کاغذ اُس کے ہاتھ میں تھما دیا۔ اپنے منصوبے کو مجسم ہوتا دیکھ کر اُسے بڑی خوشی ہوئی اور وہ اس خوشی میں یہ بھی پوچھنا بھول گیا کہ جمعے کے روز اس خط کی کاپیاں تقسیم کرنے کے لئے مولوی صاحب نے کیا اقدام کیا اور کیا اسے بھی اس سلسلے میں کچھ کرنا ہوگا۔

بہرکیف اپنی حد تک آج وہ مطمئن تھا ۔ مولوی صاحب کا چوروں کے نام لکھا خط اُس کی جیب میں تھا اب جیسے ہی کبھی اُس کی اس قماش کے لوگوں سے ملاقات ہوتی باقی کا کام آسان ہی تھا۔ جمعے کے روز علاقے کے بیشتر لوگوں تک یہ خط پہنچ ہی جانا تھا۔ 

دو چار روز ایسے ہی گزر گئے ۔ اس جمعے مولوی صاحب کسی اور مسجد میں خطبہ دینے گئے تھے اور یہاں کی ذمہ داری موذّن صاحب کی تھی۔ سو اُس دن خط کی تقسیم کی اُمید رکھنا بے کار تھی ۔ بہرکیف وہ تو اس بات پر ہی مطمئن تھا کہ اب وہ اپنے حصے کا فرض نبھا سکتا ہے۔ رہے علاقے کے باقی لوگ ۔ تو وہ جانیں اور مولوی صاحب جانیں۔

جب سے خط اُس کی جیب میں آیا تھا اُس کے طور اطوار بدل گئے تھے۔ اب اگر رات گئے بھی اُسے کہیں جانا پڑتا تو وہ گھبراتا نہیں تھا ۔ بلکہ اب تو اکثر وہ گھر واپسی پر اُس رستے کا انتخاب کرتا جو سنسان اور چھوٹا تھا۔ اُسے اندازہ بھی نہیں ہوا کہ کب اُس کے دل میں یہ خواہش پیدا ہو گئی کہ جلد سے جلد کوئی بد قماش شخص اُس سے ٹکرائے تو وہ اُسے خط تھما سکے اور اپنا فرض پورا کر سکے۔ وہ رات گئے تاریک راستوں میں نکل جاتا۔ جہاں کہیں اُسے کوئی مشکوک شخص نظر آتا وہ اپنی رفتار ہلکی کر لیتا ۔ لیکن ایسا لگتا تھا کہ چوروں ڈکیتوں نے تو اُس کی طرف دیکھنا بند ہی کر دیا تھا۔ خط اُس کی جیب میں ہمہ وقت موجود رہتا اور وہ دھڑلے سے پورے شہر میں گھومتا رہتا۔

پھر ایک روز اُس کی یہ تمنا بھی پوری ہوگئی لٹیروں نے آخر اُسے روک ہی لیا۔ اُس کے چہرے پر عجیب سی خوشی تھی ۔ اُس نے اپنے جیب سے پیسے نکالتے ہوئے نوٹوں کے بیچ خط اس طرح اٹکا دیا کہ منتقلی میں خط کے گرنے کا سوال ہی نہیں تھا۔ گھر پہنچا تو بہت مطمئن تھا۔ دل میں یہی خیال تھا کہ کل سویرے ہی مولوی صاحب کو بتاؤں گا کہ اُس نے اپنی ذمہ داری نبھا دی ہے۔

اگلی صبح جب وہ گھر سے نکلا تو ایک عجیب سا خوف اُ سے محسوس ہوا ، جسے وہ کوئی نام نہیں دے سکا۔ جب وہ اُس مقام پر پہنچا جہاں کل رات اُس کی لٹیروں سے ملاقات ہوئی تھی تو وہ ایک لمحے کے لئے رُکا۔ سڑک کے کنارے تہہ کیا ہوا ایک کاغذ پڑا ہوا تھا ۔ وہ بہت تیزی سے موٹر سائکل سے اُترا اور کاغذ اُٹھا کر جھاڑنے لگا۔ اگلے ہی لمحوں میں وہ کا غذ اُس کی جیب میں تھا ،اپنی مستقل جگہ پر۔ اب وہ پھر سے خود کو ہلکا پھلکا محسوس کرنے لگا ، اُسے مختصر اور سنُسان راستوں کی عادت جو ہو گئی تھی۔

*******​

میٹر شارٹ



آج کی صبح بڑی خوشگوار تھی، مطلع ابر آلود  تھا اور ہلکی ہلکی پھوار دھرتی کے دکھتے سینے  پر پھائے رکھ رہی تھی۔  جب میں دفتر جانے کے لئے نکلا تو ایک بہت خوبصورت گیت لبوں پر تھا۔ ہوا میں رقص کرتی بارش کی چھوٹی چھوٹی سی بوندوں میں بلا کا  ترنم تھا بالکل ایسے ہی جیسے گیتوں میں نغمگی ہوتی  ہے۔ الفاظ اور احساسات جس قدر ہم آہنگ ہو جائیں گیتوں کی چاشنی اُتنی ہی بڑھ جاتی ہے۔ چھوٹی چھوٹی شرارتی بوندیں  ہوا میں اور گیت کے مسکراتے مصرعے میرے ہونٹوں پر رقصاں تھے (جنہیں صرف میں ہی سُن سکتا تھا)۔ کسی نے صحیح کہا  ہے کہ خوشی ایک احساس کا نام ہے چاہو تو اُسے محسوس کرو اور چاہو  تو اس احساس سے اجنبی ہو جاؤ۔ 

بارش بڑی عجیب شے ہوتی ہے یہ ہر نشّے کو فزوں تر کر دیتی ہے۔  آپ خوش ہوں تو بارش آپ کی خوشی کو سرخوشی میں بدل سکتی ہے اور آپ غمگین ہوں تو یہی بارش کے قطرے آپ کے آنسو بن کر ساری دنیا بھگونے پر تُل جاتے ہیں۔ غمگساری کی اس سے بڑی مثال شاید ہی دنیا میں کہیں ملے۔  تاہم  ایسے ہمدم اور ایسے غمگسار صرف احساس رکھنے والوں کے ہی نصیب میں آتے ہیں۔  یوں تو سبھی  لوگ کسی نہ کسی حد تک حساس ہوتے ہیں لیکن  کچھ لوگ اپنی خوشیوں اور غم کو سیلیبریٹ کرنا سیکھ لیتے ہیں۔   اگر آپ زندگی میں ان چیزوں کو اہمیت نہیں دیتے تو بھی کوئی بات نہیں۔  زندگی دو جمع دو چار کرکے بھی گزاری جا سکتی ہے۔ 

بہرکیف ، آج  اس اچھے موسم کے طفیل  خیال آیا کہ شعر و نغمہ  سے ہماری  وابستگی کی بابت  کچھ باتیں ہی ہو جائیں۔ اسے اتفاق ہی کہیے کہ اوائل عمری میں ہی  کافی گیت اور نغمے  سُنے ۔ یہ نغمے زیادہ تر اِدھر اُدھر سنے۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ مونگ پھلی والا بھی ٹیپ ریکارڈ  چلائے بغیر آگے نہیں بڑھتا تھا۔ پھر شوق ہو چلا تو خود سے بھی ریکارڈڈ گیت سننے کا اہتمام کیا۔ ہندوستانی (اردو یا ہندی  جو بھی آپ کہنا پسند کریں) اور پاکستانی گیت سنے۔ فلمی اور غیر فلمی ہر طرح کے۔  غزلیات بھی بہت سنیں،  انوپ جلوٹا  سے جگجیت سنگھ تک،  مہدی حسن  سے غلام علی  تک، اقبال بانو سے گلبہار بانو تک ،  نیرہ نور سے ٹینا ثانی تک، یہاں تک کہ سلمان علوی اور  سجاد علی کی غزلیات بھی۔  وقت  گزرنے کے ساتھ ساتھ  احساس ہو ا کہ  ہمیں موسیقی سے زیادہ شاعری سے اُنسیت ہے ۔ اکثر پورے پورے نغمے یاد ہو گئے،  کئی کئی  غزلیں ازبر ہو گئیں۔ جب  کبھی ساز و آواز کا سامان ناپید  ہوتا  تب بھی   ذہن میں موجود  ریکارڈ   سے محظوظ  ہونے کا موقع ہمہ وقت موجود رہتا۔  پھر شاعری پڑھنے کا شوق بھی ساتھ ساتھ چلتا رہا۔ اس قدر شاعری سننے اور پڑھنے سے  ذہن کی  غنائیت اورنغمگی سے شناسائی سی ہو گئی اور شاعری کے لئے درکار "میٹر" ذہن میں استوار ہو  گیا۔  سو جب کبھی کسی نغمے کا آہنگ متاثر ہوتا نظر آتا  تو اندازہ ہو جاتا۔  شاید یہی وجہ رہی کہ جب ہم نے شاعری کی کوشش کی تو بہت زیادہ دشواری پیش نہیں آئی اور آہنگ سے متعلق معاملات باآسانی نمٹ گئے ۔ اگر غلطیاں ہوئی بھی تو تکنیکی لاعلمی یا تلفظ کی غلطیوں کے باعث۔  اور ان دو چیزوں کا سیکھنا تو عمر بھر چلتا ہی رہتا ہے۔ 

اس سلسلے میں ہم اس لئے بھی خوش نصیب رہے کہ جب ہم نے گیت سماعت کرنے شروع کیے توعہدِ حاضر سے زیادہ عہدِ قدیم میں دلچسپی لی سو بہت اعلیٰ پائے کے شعراء کو اس میدان میں مصروفِ عمل پایا۔ ان گیت نگاروں کے گیت عمومی شاعری کے معیار کے نہیں تو اُن سے کم تر بھی نہیں تھے۔  ان اعلیٰ گیت نگاروں میں مجروح سلطان پوری، مجاز، ساحر لدھیانوی،  اندیور، حسرت جے پوری، شکیل بدایونی، کیفی اعظمی، آنند بخشی، انجان، جاں نثار اختر، ندا فاضلی اور آگے چل کر گلزار اور جاوید اختر جیسے قادر الکلام لوگ شامل رہے۔ پاکستانی گیت کم اورغزلیں زیادہ سُنی جو زیادہ تر معروف شعراء کے کلام سے انتخاب کی گئیں تھیں۔ پاکستانی  پرانے گیت بھی سنے جو اپنی مثال آپ تھے۔  پھر گانے والوں نے تو میر وغالب کے کلام کو بھی نہیں بخشا اور اکثر نے حق بھی ادا کیا۔

گو کہ یہ شوق یقیناً وقت کے زیاں کا باعث بھی رہا ہوگا تاہم کچھ نہ کچھ تو سیکھ ہی لیا۔لیکن اب کبھی شومیء قسمت سے نئے ہندی گیت سننے کا اتفاق ہو جائے تو خیال  آتا ہے کہ یہ کس قسم کے گانے ہیں اور یہ کون سے گیت نگار ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ فلمی گیتوں کو غیر اخلاقی اور سوقیانہ خیال کیا جاتا تھا اور کسی حد تک یہ بات درست بھی تھی۔ تاہم  آج کل کے گانوں  کے لئے غیراخلاقی اورسوقیانہ قسم کے الفاظ بھی استعمال کیے جائیں تو بھی "حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا"  والی بات ہوگی۔  نہ آوازیں اچھی ہیں  نہ شاعری۔ بلکہ اُسے شاعری کہنا بھی شاعری کی سخت توہین ہے۔ یہی گلہ ایک بار ہم نے اپنے ایک دوست سے کیا تو کہنے لگے کہ یہ گانے سننے والے نہیں دیکھنے والے ہیں۔ اس بات کا ہمارے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ صد شکر کہ ہم نے یہ گانے نہیں سُنے ورنہ اگر ہم نے یہ گانے سُنے ہوتے تو یقیناً ہمارا ہی نہیں شاعری کا بھی "میٹر شارٹ" ہو جاتا۔

 نوٹ: گیت نگاروں کو یاد کرنے کے لئے ویب سرچ سے مدد لی گئی ہے۔  نیز یہ کہ  ناموں میں تقدیم و تاخیر و مرتبہ وغیرہ کو ملحوظِ خاطر نہیں رکھا جا سکا ہے۔