​ہے جس کے ہاتھ میں پتھر اُسے گماں بھی نہیں​ ۔ جمال احسانی

غزل

​ہے جس کے ہاتھ میں پتھر اُسے گماں بھی نہیں​
کہ فکرِ آئینہء جسم و جاں، یہاں بھی نہیں​
جو بات تیری نظر میں ہے اور مرے دل میں​
اگر زباں پہ نہ آئے تو رائیگاں بھی نہیں​
اب اُس نے وقت نکالا ہے حال سُننے کو​
بیان کرنے کو جب کوئی داستاں بھی نہیں​
وہ دل سے سرسری گزرا، کرم کیا اُس نے​
کہ رہنے کا متحمل تو یہ مکاں بھی نہیں​
زمین پیروں سے نکلی تو یہ ہوا معلوم​
ہمارے سر پہ کئی دن سے آسماں بھی نہیں​
سفر میں چلتے نہیں عام زندگی کے اُصول​
وہ ہم قدم ہے مرا جو مزاج داں بھی نہیں​
نہیں پسند کوئی بے توجہی اُس کو ​
اور اپنے چاہنے والوں پہ مہرباں بھی نہیں​
مرے ہی گھر میں اندھیرا نہیں ہے صرف جمالؔ​
کوئی چراغ فروزاں کسی کے ہاں بھی نہیں​
جمالؔ احسانی

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں