اجمل سراج کی دو خوبصورت غزلیں



کیا ضروری ہے یہی نالہ و فریاد رہے
ہم تجھے بھول بھی سکتے ہیں،تجھے یاد رہے

یہ خوبصورت شعر اجمل سراج کا ہے۔ اجمل سراج شہرِ کراچی کے خوش فکر سخنور ہیں اور شاعری میں اپنا نمایاں اسلوب رکھتے ہیں۔ اُن کی شاعری  کی کھیتی معنی آفرینی اور تازہ کاری سے  لہلہاتی نظر آتی ہے۔  چھوٹی چھوٹی باتوں کو  بڑا بنا دینے کا فن اُنہیں خوب آتا ہے۔ اُن کا مشہورِ زمانہ شعر دیکھیے:

اُس نے پوچھا تھا کیا حال ہے
اور میں سوچتا رہ گیا۔۔۔


اجمل سراج کی دو خوبصورت غزلیں آج احباب کے ذوقِ مطالعہ کی نظر کی جا رہی ہیں۔ 

طویل بھی ہے فقط صبر آزما ہی نہیں
یہ رات جس میں ستاروں کا کچھ پتا ہی نہیں

نگاہِ دل کو جو رنگِ ثبات سے بھر دے
ابھی وہ پھول کسی شاخ پر کھلا ہی نہیں

جو دیکھتا ہے ،کسی کو نظر نہیں آتا
جو جانتا ہے، اُسے کوئی جانتا ہی نہیں

نظر جہان پہ ٹھہرے تو کس طرح ٹھہرے
اس آئنے میں کوئی عکسِ دل رُبا  ہی نہیں

لئے پھرا ہوں نہ جانے کہاں کہاں اِس کو
مگر یہ دل ہے کہ وہ راہ بھولتا ہی نہیں

وہ خواب ہوں جو کسی کو نظر نہیں آتا
وہ آئنہ ہوں جسے کوئی دیکھتا ہی نہیں

سُنا ہے ہجر بہت بے قرار کرتا ہے
ہمارے ساتھ تو ایسا کبھی ہوا ہی نہیں

******
یہ خطّہء  آراستہ، یہ شہرِ جہاں تاب
آ جائے گا ایک روز یہ ساحل بھی تہہِ آب

تصویرِ عمل، ذوقِ سفر، شوقِ فنا دیکھ
اک موج کہ ساحل کی طلب میں ہوئی سیماب

شاید یہ کوئی ریز ہ ٴ دل ہے کہ سرِ چشم
مانندِ مہ وہ مہر چمکتا ہے تہہِ آب

اک عمر ہوئی پستیِ ظلمت میں پڑا ہوں
دیکھو مجھے میں  ہوں وہی ہم قریہ ٴ مہتاب

دنیا تو نہیں ہے مگر آغوشِ طلب میں
اک بھولی ہوئی  شکل ہے کچھ ٹوٹے ہوئے خواب

جُز دیدہ ٴ دل کون تجھے دیکھ سکے ہے
محروم تری دید سے ہے منبر و محراب

اے ناظرِ ہر ذرّہ تری ایک نظر کو
آنکھیں ہیں سو بے نور ہیں، دل ہے سو ہے بے تاب

اجمل سراج

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں