مظفر حنفی کی دو نظمیں

نئے نظریے کی تخلیق   


کانچ کی رنگین ٹؤٹی چوڑیوں کو
آئینے کے تین ٹکڑوں  میں 
کسی بھی ڈھنگ سے رکھ دو
نیا خاکہ بنے گا
جس میں اک ترکیب ہوگی
لاکھ جھٹکے دیجئے
ہر بار یہ ترکیب اک ترکیبِ نو میں ہی ڈھلے گی
جب بھی کچھ ٹوٹے ہوئے لوگوں میں
اپنے تجرباتِ خام کے قصّے چھڑیں گے
اِک نظریہ جنم لے گا


صورِ اسرافیل   


اب تو بستر کو جلدی سے تہہ کر چکو
لقمہ ہاتھوں میں ہے تو اسے پھینک دو
اپنے بچوں کی جانب سے منہ پھیر لو
اس گھڑی بیویوں کی نہ پرواہ کرو
راہ میں دوستوں کی نظر سے بچو
اس سے پہلے کے تعمیل میں دیر ہو
سائرن بج رہا ہے چلو دوستو


*******

ہم یوں تمہارے پاؤں پہ اے جانِ جاں گرے ۔ قیس فریدی

غزل


ہم یوں تمہارے پاؤں پہ اے جانِ جاں گرے
جیسے کسی غریب کا خستہ مکاں گرے

مانا کہ اے ہوا تُو نہیں گن سکی مگر
دیکھا تو ہوگا پات کہاں سے کہاں گرے

پہلے ہی زخم زخم ہے دھرتی کا انگ انگ
پھر کیا ضرور ہے کہ یہاں آسماں گرے

یُوں صحنِ تیرگی میں پڑی چاند کی کرن
جیسے خموش جھیل میں سنگِ گراں گرے

ہم قیسؔ ، اپنی بھوک مٹانے کے واسطے 
صیّاد کا تھا جال جہاں پر وہاں گرے

قیس فریدی

چراغ دینے لگے گا دھواں نہ چھو لینا ۔ عرفان صدیقی

غزل 


چراغ دینے لگے گا دھواں  نہ چھو لینا
تو میرا جسم کہیں میری جاں نہ چھو لینا

زمیں چُھٹی تو بھٹک جاؤگے خلاؤں میں
تم اُڑتے اُڑتے کہیں آسماں نہ چھو لینا

نہیں تو برف سا پانی تمھیں جلا دے گا
گلاس لیتے ہوئے اُنگلیاں نہ چھو لینا

ہمارے لہجے کی شائستگی کے دھوکے میں
ہماری باتوں کی گہرائیاں نہ چھو لینا

اُڑے تو پھر نہ ملیں گے رفاقتوں کے پرند
شکایتوں سے بھری ٹہنیاں نہ چھو لینا

مروٓتوں کو محبت نہ جاننا، عرفان
تم اپنے سینے سے نوکِ سناں نہ چھو لینا

عرفان صدیقی


میں کسی طور سُخن سازِ مثالی نہ بنا ۔ محسن احسان

غزل


میں کسی طور سُخن سازِ مثالی نہ بنا
میرؔ و غالبؔ تو کُجا مومنؔ و  حالیؔ نہ بنا

آسمانوں کے مکیں میری زمینوں کو سجا
عرشِ بے مایہ پر فردوسِ خیالی نہ بنا

پُر ہوا جام سے کچھ پہلے مرا کاسہ ٔ عمر
اے خدا شُکر ہے میں ترا سوالی نہ بنا

سیلِ گریہ سے نہ رُک پائے گا خاشاکِ مژہ
بند مضبوط ہوں دریاؤں پہ جالی نہ بنا

محسن احسان ہے درویش طبیعت انساں
اُس کا در ، در ہی سمجھ، درگہہِ  عالی نہ بنا

محسن  احسان

ریوڑوں کی قطاروں میں گم ہوگئے دن کے رستے تو آنکھیں کھلی رہ گئیں

غزل


ریوڑوں کی قطاروں میں گم ہوگئے دن کے رستے تو آنکھیں کھلی رہ گئیں
لوٹ کے گھر نہ آئے سدھائے ہوئے جب پرندے تو آنکھیں کھلی رہ گئیں

آڑوؤں کے وہ پودے جو آنگن میں تھے، اُن کی خوشبوئیں پھل پھول بکِنے لگے
جانے والے سمندر کے اُس پار سے گھر کو لوٹے تو آنکھیں کھلی رہ گئیں

میں نے بیوی کو جھڑکا تو خود میرا خوں مُتّحد  ہو کے میرے مقابل ہوا
اپنی ماں کی طرف ایک دم ہوگئے میرے بچے، تو آنکھیں کھلی رہ گئیں

جو تلاشِ صفِ دشمناں کی مہم میں میرے ساتھ پھرتے رہے شام تک
شب کو دیکھے جو میں نے وہی گھات میں چند چہرے تو آنکھیں کھلی رہ گئیں

پربتوں گھاٹیوں کا سفر دائرہ تھا کہ اک واہمہ تھا یہ کُھلتا نہیں
جس جگہ ہم ملے تھے اسی موڑ پر آ کے بچھڑے تو آنکھیں کھلی رہ گئیں

دوپہر کا عمل، منجمد ساعتیں، آسماں پاؤں میں تھا، زمیں سر پہ تھی
اب کے پہلے سے انورؔ ذرا مختلف خواب دیکھے تو آنکھیں کھلی رہ گئیں

انور جمال

جانے ہم کون ہیں؟


جانے ہم کون ہیں؟

جانے کب سے
مجھے یاد بھی تو نہیں جانے کب سے
ہم اک ساتھ گھر سے نکلتے ہیں
اور شام کو
ایک ہی ساتھ گھر لوٹتے  ہیں
مگر ہم نے اک دوسرے سے
کبھی حال پرسی نہیں کی
نہ اک دوسرے کو
کبھی نام لے کر مخاطب کیا
جانے ہم کون ہیں؟ 

جون ایلیا