پسِ مرگِ تمنا کون دیکھے


غزل


پسِ مرگِ تمنا کون دیکھے
مرے نقشِ کفِ پا کون دیکھے

کوئی دیکھے مری آنکھوں میں آکر
مگر دریا میں صحرا کون دیکھے

اب اس دشتِ طلب میں کون آئے
سرابوں کا تماشہ کون دیکھے

اگرچہ دامنِ دل ہے دریدہ
دُرونِ نخلِ تازہ کون دیکھے

بہت مربوط رہتا ہوں میں سب سے
مری بے ربط دُنیا کون دیکھے

شمارِ اشکِ شمعِ بزم ممکن
ہمارا دل پگھلتا کون دیکھے

میں کیا دیکھوں کہ تم آئے ہو ملنے
کھلی آنکھوں سے سپنا کون دیکھے

میں جیسا ہوں، میں ویسا تو نہیں ہوں
مگر جیسا ہوں ویسا کون دیکھے

محمد احمدؔ


تیری ہنسی کا راز


خوشی اورغم انسان کی زندگی کا حصہ ہیں بلکہ شاید یوں کہنا زیادہ بہتر ہوگا کہ انسان کی زندگی ہی خوشی اور غم سے عبارت ہے۔ یوں تو آنسو غم اور ہنسی خوشی کی نمائندگی کرتی ہے لیکن جب جب صورتحال پیچیدہ ہوتی ہے یہ دونوں ایک دوسرے کے فرائض بھی سنبھال لیتے ہیں۔

پہلے پہل جب صدر زرداری منصبِ صدارت پر متمکن ہوئے تھے تو مسکراہٹ اُن کے چہرے پر کھیلتی رہتی تھی یہ مسکراہٹ اس قدر دلنشیں واقع ہوئی تھی کہ اُنہیں دیکھ کر ٹوتھ پیسٹ کے اشتہاربھی شرماجاتے تھے۔ لیکن جب اُنہوں نے دیکھا کہ شاید اس ملک میں، وہ اکیلے ہی مسکرا رہے ہیں اور خلقت درج ذیل شعر کی مجسم تصویر نظر آنے لگی ہےتو اُنہوں نے نمائش کے اوقات میں واضح کمی کا اہتمام کیا۔

آنسو مرے تو خیر وضاحت طلب نہ تھے
تیری ہنسی کا راز بھی دُنیا پہ فاش ہے
محسن نقوی

بات کچھ ایسی آگئی تھی کہ ہم بھی ہنسی خوشی موضوع سے سرک گئے بہرکیف ذکر ہو رہا تھا اُس صورتحال کا جب آنسو خوشی اور ہنسی بے بسی کی ترجمانی کرتی ہے۔ہمارے ملک کی صورتحال بھی کچھ ایسی ہی ہوگئی ہے ۔ روز روز کی گریہ وزاری آخر کہاں تک ممکن ہے سو مملکتِ خداداد کے عوام ڈھیٹ ہوگئے ہیں۔ بے حس کہوں گا تو شاید لینے کے دینے پڑ جائیں سو ڈھیٹ ہی ٹھیک ہے کیونکہ ڈھٹائی میں جو مزا ہے وہ بے حسی میں کہاں۔ سو اب ہم بھی بات بات پر ہنستے ہیں اور مسکراتے ہیں کہ

کچھ نہ کچھ ہوتی ہے تسکین زیادہ نہ سہی
درد بڑھتا ہے تو ہنستا ہی چلا جاتا ہوں

یہی کچھ آج صبح بھی ہوا جب ہم ٹی وی پر شہ سرخیاں دیکھ رہے تھے تو دو خبروں پر بڑی ہنسی آئی۔پہلی خبر وزیرِ اعظم صاحب کی مشترکہ مفاد کونسل کے اجلاس میں شرکت کے بارے میں تھی اور دوسری صدر صاحب کی عالمی توانائی کانفرنس میں پاکستان کی نمائندگی کی۔

مشترکہ مفاد کونسل کا نام سُن کر نیا کچھ نہیں لگا بلکہ ایسا محسوس ہوا کہ ہماری سیاست اور ایوان کو اُن کی صحیح پہچان مل گئی۔ صدر صاحب کے بارے میں بھی خیال آیا کہ وہ عالمی توانائی کانفرنس میں کس منہ سے شرکت کر رہے ہیں اور پاکستان کی نمائندگی کیونکر ممکن ہو سکے گی۔ بہرحال ہم ہنس کر رہ گئے کہ ہم اس کے علاوہ کریں تو کیا کریں۔


پھر ترا وقتِ سفر یاد آیا



یہ کراچی کی مصروف ترین سڑک شاہراہِ فیصل ہے۔ شام کا وقت ہے اور دو طرفہ ٹریفک بھرپور انداز میں رواں دواں ہے۔ بس اسٹاپ پر کھڑےلوگ اپنی متوقع سواریوں کا انتظار کررہے ہیں ۔

بس اسٹاپ کے ساتھ ہی ٹریفک پولیس کے دو اہلکار بڑی مستعدی کے ساتھ ٹریفک کے نظم و نسق کا کام کررہے ہیں۔ اُن کی کوشش ہے کہ بسیں اسٹاپ سے بالکل لگ کر رکیں اور کوئی بھی شخص گاڑی کو سڑک کے عین درمیان میں روک کر سواریاں چڑھانے یا اُتارنے کی کوشش نہ کرے۔ غرض یہ کہ کسی بھی طرح ٹریفک کی روانی میں خلل واقع نہ ہو۔ ٹریفک کے ان اہلکار کو دیکھ کر ہرگز گمان نہیں ہوتا کہ یہ وہی سرکاری اہلکار ہیں جن سے فرض شناسی اور پیشہ ورانہ دیانت کی اُمید رکھنا بھی بے وقوفی سمجھی جاتی ہے۔

آج سڑک کے کنارےزرا زرا سے فاصلے پر رینجرز اور پولیس کے اہلکار بھی اسلحے سے لیس چاق و چوبند کھڑے ہیں۔ اچانک آنے والی سمت سے ٹریفک میں کمی کے آثار نظر آتے ہیں ، پھر اکا دکا گاڑیاں بھی غائب ہوجاتی ہیں۔ اب شاہراہِ فیصل پر حالتِ جنگ کا سا منظر نظر آرہا ہے۔ سڑک سنسنان ہے اور رینجرز کے اہلکار رائفل کی نوک سے اسٹاپ پر کھڑے عوام کو سڑک سے پرے سروس روڈ پر دھکیل رہے ہیں۔ کچھ لوگ دبے لفظوں میں قانون کے رکھوالوں سے تکرار بھی کر رہے ہیں لیکن اُنہیں اپنے فرائضِ منصبی کی بجا آوری کے علاوہ کچھ یاد نہیں کیونکہ آج عوام کے محبوب رہنما اس سڑک سے گزرنے والے ہیں ۔

ابھی ابھی ایک ٹریفک اہل کار جس کی موٹر سائیکل پر نیلے رنگ کی وارننگ لائٹ نصب ہے برق رفتاری کے ساتھ سڑک سے گزرا ہے ۔ یہ روڈ کلیرنس کی جانچ پڑتا ل کے لئے ہے۔ اب بے شمار گاڑیاں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں اور اسلحے سے لیس گزر رہی ہیں انہی کے درمیان دو یا تین سیاہ مرسڈیز بھی ہیں۔ انہیں مہنگے ترین برانڈ کی گاڑیوں میں غریب عوام کے محبوب رہنما عوام کی دعائیں سمیٹتے گزرہے ہیں۔

شاہانہ سواریوں کے گزرجانے کے بعد سڑک کو پھر سے عام ٹریفک کے لئے کھول دیا گیا ہے۔ ٹریفک میں گھنٹوں پھنسے ہوئے لوگ پلک جھپکتے میں اپنی منزل پر پہنچنا چاہ رہے ہیں کچھ لوگوں نے جلدی کے چکر میں اپنی گاڑیاں ٹریفک میں آڑھی ٹیڑھی پھنسا دی ہیں۔ ٹریفک بُری طرح جام ہے لیکن ٹریفک پولیس کے فرض شناس اہلکاروں کا کہیں نام و نشان نہیں ہے۔


ہاتھی کے دانت



کہتے ہیں کسی بھی ملک و ملت کی ترقی اور تنزلی، اُس کی خوشحالی یا بدحالی، اس کی قیادت پر منحصر ہوتی ہے۔ اگر قیادت اچھی ہو تو ملک و قوم ترقی کرتے ہیں نہیں تو وہی ہوتا ہے جو نہیں ہونا چاہیے۔

قیادت کیسی ہو اس کے بارے میں دنیا میں بہت کچھ کہا گیا ہے لیکن علامہ اقبال نے بڑا سادہ سا نسخہ پیش کردیا ہے۔

نگہ بلند، سخن دلنواز، جاں پُر سوز
یہی ہے رختِ سفر میرِ کارواں کے لئے

اگر ہم پاکستان کے رہبرانِ ملت کو دیکھیں تو اُن میں یہ تمام اوصافِ جمیلہ بدرجہ اتم موجود ہیں۔ نگاہ ہمارے لیڈر کی بلند ہے۔ بلند بھی اتنی کہ وزارتِ عظمٰی سے نیچے ہی نہیں اُترتی ۔ سخن دلنوازی بھی موجود ہے خاص طور پر اگر خطاب عوام سے ہو اور مخاطب بھی عوام ہی ہوں، مخالفین نہ ہوں ۔ اب رہ جاتی ہے "جاں پر سوز" کی بات تو اس کڑے معیار پر بھی ہمارے قائدین پورے پورے اُترتے ہیں بلکہ گردن گردن غرق ہیں۔ ہمارے لیڈرز کا کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب اُن کا دل خون کے آنسو نہ روتا ہویا جب عوام کے غم میں اُن کے پیٹ میں مروڑ نہ اُٹھتے ہوں۔

اگر کسی کو ہمارے ان رہبرانِ ملت کے اخلاص میں زرا بھی شبہ ہو تو وہ ناقدین ہمارے ان قائدین کے عوامی خطابات سنیں ضرور افاقہ ہوگا ۔ اُنہیں پتہ چلے گا کہ ہمارے رہبرانِ ملت کو عوام کے دکھ درد کا کتنا زیادہ احساس ہے اور عوام کی فلاح کے لئے اُن کے پاس کتنے بہترین منصوبے ہیں جو مخالفین کی بلاجواز مزاحمت کی وجہ سے پایائے تکمیل کو نہیں پہنچ پاتے ۔ ملکی سلامتی اور خود مختاری اُن کی اولین ترجیح ہے اور وہ ملکی وقار اور سالمیت پر سودے بازی کو گناہ سے بھی بد تر سمجھتے ہیں۔

گو کہ ہمارے تمام رہبرانِ ملت علامہ اقبال کی وضع کردہ کسوٹی پر پورے اُترتے ہیں بلکہ کچھ اس سے بھی سوا ہیں لیکن پھر بھی نہ جانے کیوں ملک و ملت کی حالت کچھ اور ہی ہے۔ یہ بات ہماری سمجھ نہیں آئی، ہمیں کیا یہ بات تو منیر نیازی کی بھی سمجھ نہیں آئی جس کا اظہار اُنہوں نے یوں کیا ہے۔

منیر اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے
کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ

سمجھ نہیں آتا کہ اتنے مخلص رہبرانِ ملت کی مو جودگی کے باوجود بھی آخر کیوں

پاکستان کا ہر دور تاریخ کا نازک ترین دورہوتا ہے۔
ساری عمر عوام کا رونا رونے والے عوامی مسائل پر تب ہی کیوں زور دیتے جب اُن کی اپنی جماعت پر انگشت نمائی ہوتی ہے۔
حکومت سے علیحدگی کے لئے بھی اُسی وقت کا انتخاب کیوں کیا جاتا ہے جب آپ کے وزراء کو برطرف کردیا جائے یا آپ کی جماعت پر کڑی تنقید کی جائے۔
ملکی سلامتی اور وقار کی باتیں کرنے والے حکومتی اور حزبِ اختلاف کے لیڈرز جس وقت ہنس کے ہنس وائسرائے پاکستان سے باتیں کرتے ہیں تب ملکی سلامتی اور وقار جیسی چیزیں کہاں ہوتی ہیں۔
مہنگائی، بے روزگاری، تعلیمی معیاراور عوامی فلاح کے موضوعات پر اسمبلیوں میں چپ سادھ لینے والے لوگ مائیکروفون ہاتھ آتے ہی غریب آدمی کی کمر ٹوٹنے کا رونا کیوں روتے ہیں۔
تعلیمی اداروں میں سیاست کے نام پر نوجوان نسل کا مستقبل تباہ کرنے والوں کے اپنے بچے ملک سے باہر کیوں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔

یہ اور ایسے انگنت سوالات ہیں جن کا جواب دینے والا کوئی نہیں ہے اور آگے بھی کوئی آثار نہیں، لیکن تحسین ہے ہمارے رہبرانِ ملت کے لئے کہ آج بھی اُن کا ماضی بے داغ ہے اور مستقبل تابناک۔ اور میں اور آپ اُن کے جلسوں میں کھڑے نعر وں پر نعرے لگا رہے ہیں کہ ایسے پُر خلوص لیڈرز قسمت والوں کو ہی ملتے ہیں۔

نہ جانے کس خیال کی رو میں اس تحریر کا عنوان "ہاتھی کے دانت" رکھ دیا ورنہ ہم تو صرف ہاتھی کے دانت کے بارے میں اتنا ہی جانتے ہیں کہ

"ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور"

حالانکہ ہم اس تحریر کا عنوان "سال کی آخری جلی کٹی تحریر" بھی رکھ سکتے تھے۔



کہیں تھا میں، مجھے ہونا کہیں تھا


غزل


کہیں تھا میں، مجھے ہونا کہیں تھا
میں دریا تھا مگر صحرا نشیں تھا

شکست و ریخت کیسی، فتح کیسی
کہ جب کوئی مقابل ہی نہیں تھا

ملے تھے ہم تو موسم ہنس دیئے تھے
جہاں جو بھی ملا، خنداں جبیں تھا

سویرا تھا شبِ تیرہ کے آگے
جہاں دیوار تھی، رستہ وہیں تھا

ملی منزل کسے کارِ وفا میں
مگریہ راستہ کتنا حسیں تھا

جلو میں تشنگی، آنکھوں میں ساحل
کہیں سینے میں صحرا جاگزیں تھا

محمد احمدؔ

تجاہلِ عارفانہ



ایک گدھابہت آرام و اطمینان کے ساتھ ایک سبزہ زار میں گھاس چر رہا تھا۔ اچانک اُسے دور جھاڑیوں میں کسی بھیڑیئے کی موجودگی کا شائبہ گزرا ، لیکن یہ گمان ایک لحظہ بھر کے لئے بھی نہ تھا ، گدھے نے اسے اپنا وہم قیاس کیا اور پھر سے ہری ہری گھاس کی طرف متوجہ ہوگیا۔ کچھ دیر بعد اُسے کچھ دور جھاڑیوں میں سرسراہٹ محسوس ہوئی وہ ایک لمحے کے لئے چونکا پھر اپنے وہم پر مسکرا دیا اور اطمینان سے گھاس سے لطف اندوز ہوتا رہا۔ زرا توقف کے بعد اُسے پھر سے جھاڑیوں میں ہلچل محسوس ہوئی بلکہ اب تو اُسے بھیڑیا نظر بھی آگیا لیکن اُسے اب بھی یقین نہیں آیا اور خود کو وہمی اور شکی ہونے پر ملامت کرنے لگا اور گھاس چرتا رہا۔ گدھا وہم و یقین کی اسی کشمکش میں مبتلا رہا اُس نے کئی بار بھیڑیئے کو اپنی جانب بڑھتا دیکھا لیکن ہر بار اسے اپنا وہم خیال کیا حتی کہ بھیڑیے نے گدھے پر حملہ کردیا اور چیر پھاڑ کر نے لگا تو گدھا چیخ کر بولا" بھیڑیا ہی ہے ! بھیڑیا ہی ہے"، لیکن تب تک بہت دیر ہو چکی تھی۔

آپ میں سے بہت سوں نے یہ کہانی ضرور سُنی ہوگی اور جنہوں نے نہیں سُنی وہ بھی اب تک اس سے ملتی جلتی کہانیوں کے عادی ضرور ہو گئے ہوں گے۔ ہمارے اربابِ اختیار کے وہ بیانات اب ہمارے روز مرہ میں شامل ہو گئے ہیں جن میں سامنے کے واقعات پر انجان بن کر تحقیقاتی کمیٹی بنا دی جاتی ہے، ایسی کمیٹی جس کی رپورٹ طلب کرنے والا کوئی نہیں ہوتا۔

جس زمانے میں امریکہ اور اُس کے حواریوں نے پاکستانی علاقوں میں ڈرون حملے شروع کئے تھے اُس وقت بھی ایسی ہی تشویش کا اظہار کیا جاتا تھا جو یقین سے زیادہ گمان پر دلالت کرتی ۔ کبھی امریکی حملوں کو حکومت اپنی کاروائی بتاتی تو کبھی بوکھلاہٹ میں ملکی سالمیت اور خود مختار ی پر بیانات داغے جاتے۔ اس قسم کے بیانات دینے والوں کے نزدیک ملکی سالمیت اور خود مختاری کیا معنی رکھتی ہے اس کا اندازہ اُن کے انداز سے بخوبی ہو ہی جاتا ہے۔ یہاں "بھیڑیئے" کی موجودگی کا علم تو سب کو ہی تھا لیکن
اس سلسلے میں جس "تجاہل ِ عارفانہ "سے کام لیا جاتا رہا اُس کا واقعی کوئی جواب نہیں۔

یہ وہ وقت تھا جب بھیڑیا دور جھاڑیوں میں تھا اور لیکن پھر ایک وقت وہ آیا کہ ڈرون حملے معمول کا حصہ بن گئے ۔ یعنی اب ڈرون حملے ملکی سلامتی اور خود مختاری کے لئے خطرہ نہیں رہے۔ اللہ اللہ خیر صلا۔ نیوز چینل کچھ کھلے اور کچھ دبے انداز میں ڈرون حملوں کی رپورٹنگ کرتے رہے لیکن گھسے پٹے بیانات سے جان البتہ چھوٹ گئی۔

اب پھر سے ہمارے صدر اور وزیرِ اعظم نیٹو فورسز کی پاکستان کے فضائی حدود کی خلاف ورزی بلکہ پاکستانی چیک پوسٹ پر حملے پر بھی کچھ ایسی ہی تشویش ظاہر کر رہے ہیں جو گدھے کو بھیڑیئے کی جانب سے رہی۔ تشویش اور تحقیقات کا حکم ! ایسی تحقیقات جن کی رپورٹ طلب کرنے والا کوئی نہیں۔

نہ جانے ایسا کب تک چلتا رہے گا اور نہ جانے ایسے کب تک چل سکے گا، کیونکہ ہمارا حال سب کے سامنے عیاں ہے اور ایسے حال والوں کے انجام کی پیش گوئی اقبال کے اس شعرسے بہتر کون کرسکتا ہے۔

تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے
ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات

اس ضعف اور کمزوری کا سدِ باب کرنے والا تو فی الحال کوئی نظر نہیں آتا لیکن اگر اس کے سدِّ باب کی کوشش نہیں کی گئی تو انجام بھی منطقی ہی ہوگا جس پر کسی کو شکایت نہیں ہوئی چاہیے۔




تاج سر پہ رکھا ہے، بیڑیاں ہیں پاؤں میں


غزل


روز، اک نیا سورج ہے تری عطاؤں میں
اعتماد بڑھتا ہے صبح کی فضاؤں میں

شاید ان دیاروں میں خوش دلی بھی دولت ہے
ہم تو مسکراتے ہی گھر گئے گداؤں میں

بھائیوں کے جمگھٹ میں، بے ردا ہوئیں بہنیں
اور سر نہیں چھپتے ماؤں کی دعاؤں میں

بارشیں تو یاروں نے کب کی بیچ ڈالی ہیں
اب تو صرف غیرت کی راکھ ہے ہواؤں میں

سُونی سُونی گلیاں ہیں، اُجڑی اُجڑی چوپالیں
جیسے کوئی آدم خور، پھر گیا ہو گاؤں میں

جب کسان کھیتوں میں دوپہر میں جلتے ہیں
لوٹتے ہیں سگ زادے کیکروں کی چھاؤں میں

تم ہمارے بھائی ہو، بس زرا سی دوری ہے
ہم فصیل کے باہر ، تم محل سراؤں میں

خون رسنے لگتا ہے اُن کے دامنوں سے بھی
زخم چھپ نہیں سکتے، ریشمی رداؤں میں

دوستی کے پردے میں، دشمنی ہوئی اتنی
رہ گئے فقط دشمن اپنے آشناؤں میں

امن کا خدا حافظ۔ جب کے نخل زیتوں کا

شاخ شاخ بٹتا ہے بھوکی فاختاؤں میں


ایک بے گناہ کا خوں، غم جگا گیا کتنے
بٹ گیا ہے اک بیٹا، بے شمار ماؤں میں

بے وقار آزادی، ہم غریب ملکوں کی
تاج سر پہ رکھا ہے، بیڑیاں ہیں پاؤں میں

خاک سے جدا ہوکر اپنا وزن کھو بیٹھا
آدمی معلق سا رہ گیا خلاؤں میں

اب ندیم منزل کو ریزہ ریزہ چنتا ہے
گھر گیا تھا بےچارہ کتنے رہنماؤں میں

احمد ندیم قاسمی