غزل
کہیں تھا میں، مجھے ہونا کہیں تھا
میں دریا تھا مگر صحرا نشیں تھا
شکست و ریخت کیسی، فتح کیسی
کہ جب کوئی مقابل ہی نہیں تھا
ملے تھے ہم تو موسم ہنس دیئے تھے
جہاں جو بھی ملا، خنداں جبیں تھا
سویرا تھا شبِ تیرہ کے آگے
جہاں دیوار تھی، رستہ وہیں تھا
ملی منزل کسے کارِ وفا میں
مگریہ راستہ کتنا حسیں تھا
جلو میں تشنگی، آنکھوں میں ساحل
کہیں سینے میں صحرا جاگزیں تھا
محمد احمدؔ
بہت ہی خوب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جتنا خوبصورت بلاگ اس سے زیادہ پراثر شاعری
جواب دیںحذف کریںسلام بھائی بہت اچھی شاعری..
جواب دیںحذف کریںبہت شکریہ تانیہ رحمان
جواب دیںحذف کریںوسیم صاحب،
جواب دیںحذف کریںرعنائیِ خیال پر خوش آمدید،
غزل آپ کو پسند آئی یہ میری خوش بختی ہے. اُمید ہے آتے رہیں گے.
بہت خوب۔
جواب دیںحذف کریںملی منزل کسے کارِ وفا میں
مگریہ راستہ کتنا حسیں تھا
بہت شکریہ جاوید اقبال صاحب،
جواب دیںحذف کریںکہیں تھا میں، مجھے ہونا کہیں تھا
جواب دیںحذف کریںمیں دریا تھا مگر صحرا نشیں تھا
شکست و ریخت کیسی، فتح کیسی
کہ جب کوئی مقابل ہی نہیں تھا
سویرا تھا شبِ تیرہ کے آگے
جہاں دیوار تھی، رستہ وہیں تھا
واہ۔ بہت خوب
ہمیشہ کی طرح بہت اچھا لکھا ہے احمد۔
بہت شکریہ فرحت صاحبہ!
جواب دیںحذف کریں۔