کہیں تھا میں، مجھے ہونا کہیں تھا


غزل


کہیں تھا میں، مجھے ہونا کہیں تھا
میں دریا تھا مگر صحرا نشیں تھا

شکست و ریخت کیسی، فتح کیسی
کہ جب کوئی مقابل ہی نہیں تھا

ملے تھے ہم تو موسم ہنس دیئے تھے
جہاں جو بھی ملا، خنداں جبیں تھا

سویرا تھا شبِ تیرہ کے آگے
جہاں دیوار تھی، رستہ وہیں تھا

ملی منزل کسے کارِ وفا میں
مگریہ راستہ کتنا حسیں تھا

جلو میں تشنگی، آنکھوں میں ساحل
کہیں سینے میں صحرا جاگزیں تھا

محمد احمدؔ

8 تبصرے:

  1. بہت ہی خوب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جتنا خوبصورت بلاگ اس سے زیادہ پراثر شاعری

    جواب دیںحذف کریں
  2. وسیم صاحب،

    رعنائیِ خیال پر خوش آمدید،

    غزل آپ کو پسند آئی یہ میری خوش بختی ہے. اُمید ہے آتے رہیں گے.

    جواب دیںحذف کریں
  3. بہت خوب۔

    ملی منزل کسے کارِ وفا میں
    مگریہ راستہ کتنا حسیں تھا

    جواب دیںحذف کریں
  4. کہیں تھا میں، مجھے ہونا کہیں تھا
    میں دریا تھا مگر صحرا نشیں تھا

    شکست و ریخت کیسی، فتح کیسی
    کہ جب کوئی مقابل ہی نہیں تھا

    سویرا تھا شبِ تیرہ کے آگے
    جہاں دیوار تھی، رستہ وہیں تھا

    واہ۔ بہت خوب
    ہمیشہ کی طرح بہت اچھا لکھا ہے احمد۔

    جواب دیںحذف کریں