[ہفتہ ٴ غزل] ۔ فہمِ آدابِ سفر اہلِ نظر رکھتے ہیں ۔ راحیل فاروق

غزل 

فہمِ آدابِ سفر اہلِ نظر رکھتے ہیں
رکھتے ہیں ذوقِ نظر، زادِ سفر رکھتے ہیں

زندگی حسن پہ واری ہے تو آیا ہے خیال
منزلوں کو یہی جذبے تو امر رکھتے ہیں

شعلۂ  شمعِ کم افروز کو بھڑکاؤ کہ آج
چند پروانے ہواؤں کی خبر رکھتے ہیں

ایک پتھرائے ہوئے دل کا بھرم قائم ہے
کہتے پھرتے ہیں کہ لوہے کا جگر رکھتے ہیں

اس کے لہجے کا وہ ٹھہراؤ غضب کی شے ہے
جانے دل کو یہ دل آزار کدھر رکھتے ہیں؟

پاس رکھا کیے پندارِ جنوں کا راحیلؔ
آج دہلیز سے اٹھتے ہوئے سر رکھتے ہیں

راحیل ؔفاروق

[ہفتہ ٴ غزل] ۔ تعریف غزل کی۔ ٢

تعریف غزل کی ۔ ٢

بات پھر وہیں سے شروع ہوتی ہے  کہ مروجہ تعریف کے مطابق غزل کے لغوی معنی ہیں "عورتوں سے باتیں کرنا" یا "عورتوں کی باتیں کرنا" تاہم آج کی غزل کے موضوعات بہت متنوع ہو گئے ہیں ۔غزل ہر شعر میں نئے موضوع، معنی آفرینی اور ندرتِ بیان کے ایسے شاہکار کی طلبگار ہوتی ہے کہ جس کی نظیر بامشکل ملے اور اسے چند گنے چنے رومانوی موضوعات تک محدود رکھنا غزل کی فضا کو محبوس کرنے کے مترادف سمجھا جاتا ہے۔ 

  ہماری رائے میں  محبوب سے گفتگو جس وارفتگی اور لگاوٹ کی متقاضی ہے اُس کے لئے  غزل سے زیادہ موزوں تر نظم ہے۔ پیہم گفتگو جو ماحول  چاہتی ہے وہ غزل کے فرد فرد مضامین  سے  زیادہ نظم فراہم کر سکتی ہے۔ نظم شعراء کو جذبات کے بہاؤ  ، شیفتگی  اور لگاؤ  کے اظہار کے لئے جو  فضا  دیتی ہے وہ غزل میں بالعموم نظر نہیں آتی۔  نظم کا تسلسل شاعر کو تمہید سے اختتام تک  اپنی بات کو با آسانی کہنے  میں آسانی فراہم کرتا ہے ۔ کچھ مسلسل غزلیات البتہ اس سے مستثنیٰ ہیں۔ 

غزل کی تعریف کو نظم پر منطبق کرنے کی ہماری جسارت شاید آپ کو کچھ بے جا معلوم ہو تاہم یہ ایک خیال ہے اور اس سے اختلاف  بہرکیف کیا جا سکتا ہے۔ 

ہمارے زاویہء نظر  سے اگر دیکھا جائے تو کئی ایک رومانی شعراء نے اپنے جذبات کے اظہار کے لئے  نظم کا سہارا لیا ہے۔ سرِ دست ہم یہاں جاوید صبا کی دو نظم نما غزلیں یا غزل نما نظمیں پیش کر رہے ہیں ۔ اس کلام کو اگر آپ نظم نہ بھی کہنا چاہیں تو مسلسل غزل کہے بغیر چارہ نہ ہوگا۔ 

 کون ہو کیا ہو یہ نہیں معلوم
یورپی ہو کہ ایشیائی ہو
ہو اِسی آب و گِل کی پروردہ 
یا پرستاں سے اُڑ کے آئی ہو
کس نے گُوندھی ہے آگ میں مٹی
کیسی ترکیبِ کیمیائی ہو
ایسی آنکھیں کہیں نہیں دیکھیں
تم یہ آنکھیں کہاں سے لائی ہو
بنتِ حوا ہو یا پری زادی
یا کسی سلطنت کی شہزادی
کس کو بیداد کرنے نکلی ہو 
کس کو برباد کرنے نکلی ہو
اے جمالِ جمالِ دل آرا 
حسن کی آخری دوائی ہو
حشر ساماں ہو آئینے کے لئے 
تم قیامت نہیں تباہی ہو

جاوید صبا

چپ چپ اداس اداس نظر آ رہی ہو تم
بیٹھے بٹھائے جانے کہاں کھو گئی ہو تم
ہونٹوں پہ اک خموش تبسم کی چاپ ہے 
آنکھیں بتا رہی ہیں بہت بولتی ہیں تم
شاید روا روی میں کوئی بات کر گیا
کہنا یہ چاہتا تھا کہ اچھی لگی ہو تم
اے جانِ بے فراق کسی کے فراق میں 
میں نے سنا ہے زہر تلک کھا چکی ہو تم
محفل میں جس سے بات ہوئی تھی وہ تم نہ تھی
خلوت میں میری جان کوئی دوسری ہو تم
انگڑائیوں میں نیند میں آنکھوں میں خواب میں
کوئی نہیں تمہی ہو، تمہی ہو، تمہی ہو، تم

جاوید صبا

جاوید صبا کے علاوہ  فارحہ نگارینہ کے نام لکھی جون کی یہ نظم بھی ہمارے خیال کی تائید کرتی ہے۔ 

تم نے مجھ کو لکھا ہے، میرے خط جلا دیجیئے
مجھ کو فکر رہتی ہے آپ انہیں گنوا دیجیئے
آپ کا کوئی ساتھی دیکھ لے تو کیا ہو گا
دیکھیے میں کہتی ہوں یہ بہت بُرا ہو گا

میں بھی کچھ کہوں تم سے اے مری فروزینہ
زشکِ سروِ سیمینا
اے بہ نازُکی مینا
اے بہ جلوہ آئینہ 
میں تمہارے ہر خط کو لوحِ دل سمجھتا ہوں
لوحِ دل جلا دوں کیا 
سطر سطر ہے ان کی، کہکشاں خیالوں کی
کہکشاں لُٹا دوں کیا 
جو بھی حرف ہے ان کا ، نقشِ جانِ شیریں ہے
نقشِ جاں مٹا دوں کیا
ان کا جو بھی نقطہ ہے، ہے سوادِ بینائی
میں انہیں گنوا دوں کیا
لوحِ دل جلا دوں کیا
کہکشاں لُٹا دوں کیا 
نقشِ جاں مٹا دوں کیا

مجھ کو ایسے خط لکھ کر اپنی سوچ میں شاید
جرم کر گئی ہو تم
اور خیال آنے پر اس سے ڈر گئی ہو تم
جُرم کے تصور میں گر یہ خط لکھے تم نے
پھر تو میری رائے میں جُرم ہی کئے تم نے
اے مری فروزینہ! 
دل کی جانِ زرّینا!
رنگ رنگ رنگینا!
بات جو ہے وہ کیا ہے 
تم مجھے بتاؤ تو 
میں تمہیں نہیں سمجھا
تم سمجھ میں آؤ تو
جُرم کیوں کیےتم نے
خط ہی کیوں لکھے تم نے؟ 

جون ایلیا

علاوہ ازیں اختر شیرانی نے بھی اپنی یکے بعد دیگرے معشوقاؤں سے مخاطب ہونے کے لئے نظم یا مسلسل غزل کا ہی انتخاب کیا ہے جسے اردو شاعری جاننے والےجانتے ہیں۔ 

ویسے ہمارا یہ مطالبہ نہیں ہے کہ غزل کی تعریف کو بدل دیا جائے تاہم اس تعریف کو ترقی دینے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ 

[ہفتہ ٴ غزل] ۔ دیوار پر لکھ دیا گیا ہے ۔ نوید صادق

غزل

دیوار پر لکھ دیا گیا ہے
یہ شہر، شکست آشنا ہے

تصویر میں جو دِکھا رہے ہو
کیا واقعی ایسا ہو چکا ہے

دنیا، گھر۔۔۔ مسئلے بہت ہیں
انسان پناہ مانگتا ہے

بس چار دِشائیں خالی کردو
جنگل نے مطالبہ کیا ہے

تم بھی شاید بھٹک گئے ہو
یہ اور کہیں کا راستہ ہے

کچھ رنگ کُھلے ہیں پیرہن کے
کچھ شام کی سیر کا نشہ ہے

بہتر ہے کہ ہم کہیں چلے جائیں
اس شہر میں یوں بھی اپنا کیا ہے

وہ شام، وہ ہم، وہ تم۔۔۔ زمانہ
دورانیہ مختصر رہا ہے

کچھ ٹھیک سے گفتگو نہیں کی
کچھ عجلت نے پھنسا دیا ہے

خاموش کیوں ہو نوید صادق؟
پھر کوئی کہیں چلا گیا ہے!

نوید صادق

[ہفتہ ٴ غزل] ۔ اگر ناکامیِ دل پر کوئی الزام آجائے ۔ ادب دوست

غزل

اگر ناکامیِ دل پر کوئی الزام آجائے
میری خوئے ملامت کو ذرا آرام آجائے

جنوں زادوں کا صحرا سے اگر پیغام آجائے
لبِ دریا سے بھی واپس یہ تشنہ کام آجائے

سبھی کردار بوجھل ہو گئے میری کہانی کے
الہٰی جتنی جلدی ہو سکے انجام آجائے

مگر تم دیکھ لو ! حالت ہمارے جیسی ہوتی ہے
جب اپنی آئی پر یہ گردشِ ایام آجائے

کہ پھر تو داد دینی چائیے محرومیِ دل کی 
اگر مقتل سے بھی ، عاشق کوئی ناکام آجائے

گواہی آخری ہچکی پہ دے دوں ؟ تم نہیں قاتل
یہ جاں ویسے بھی جانی ہے ، کسی کے کام آجائے

ادب دوست

[ہفتہ ٴ غزل] ۔ سات رنگوں کے شامیانے ہیں ۔ بشیر بدر

غزل 

سات رنگوں کے شامیانے ہیں
دل کے موسم بڑے سُہانے ہیں

کوئی تدبیر بھولنے کی نہیں
یاد آنے کے سو بہانے ہیں

دل کی بستی ابھی کہاں بدلی
یہ محلے بہت پرانے ہیں

حق ہمارا نہیں درختوں پر
یہ پرندوں کے آشیانے ہیں

علم و حکمت سیاست و مذہب
اپنے اپنے شراب خانے ہیں

دھوپ کا پیار خوبصورت ہے
آگ کے پھول بھی سُہانے ہیں

بشیر بدر

[ہفتہ ٴ غزل] ۔ تُو نہیں تو زندگی میں اور کیا رہ جائے گا ۔ افتخار امام صدیقی

آج کی معروف غزل 

تُو نہیں تو زندگی میں اور کیا رہ جائے گا
دور تک تنہائیوں کا سِلسلہ رہ جائے گا

درد کی ساری تہیں، اور سارے گزرے حادثے
سب دھواں ہو جائیں گے، اک واقعہ رہ جائے گا

یُوں بھی  ہو گا، وہ مجھے دل سے بُھلا دے گا مگر
یہ بھی ہو گا خود اُسی میں اِک خلا رہ جائے گا

دائرے اِنکار کے ، اِقرار کی سرگوشیاں
یہ اگر ٹوٹیں کبھی تو فاصلہ رہ جائے گا

افتخار امام صدیقی

[ہفتہ ٴ غزل] ۔ ہر اک سیلِ بلا، ایک اک شناور سامنے ہے ۔ افتخار عارف

غزل 

ہر اک سیلِ بلا، ایک اک شناور سامنے ہے
کنارے ہوں مگر سارا سمندر سامنے ہے

اک آئینہ اور اتنے مسخ چہرے اور بہ یک وقت
بجھی جاتی ہیں آنکھیں اب وہ منظر سامنے ہے

نہیں معلوم اب اس خواب کی تعبیر کیا ہو
میں نرغے میں ہوں اور جلتا ہوا گھر سامنے ہے

سوالِ حرمتِ میزانِ بے توقیر کے بعد 
جو زیرِ آستیں تھا اب وہ خنجر سامنے ہے

ابھی جو اہتمامِ جشنِ فردا میں مگن تھی
وہی خلقِ خدا حیران و ششدر سامنے ہے

افتخار عارف