غزل: ایک ضد تھی، مرا پندارِ وفا کچھ بھی نہ تھا ۔ عرفان صدیقی

غزل
 
 ایک ضد تھی، مرا پندارِ وفا کچھ بھی نہ تھا
ورنہ ٹوٹے ہوئے رشتوں میں بچا کچھ بھی نہ تھا

تھا بہت کچھ جو کوئی دیکھنے والا ہوتا
یوں کسی شخص کے چہرے پہ لکھا کچھ بھی نہ تھا

اب بھی چپ رہتے تو مجرم نظر آتے ورنہ
سچ تو یہ ہے کہ ہمیں شوقِ نوا کچھ بھی نہ تھا

یاد آتا ہے کئی دوستیوں سے بھی سوا
اک تعلق جو تکلف کے سوا کچھ بھی نہ تھا

سب تری دین ہے یہ رنگ، یہ خوشبو، یہ غبار
میرے دامن میں تو اے موجِ ہوا! کچھ بھی نہ تھا

اور کیا مجھ کو مرے دیس کی دھرتی دیتی
ماں کا سرمایہ بجز حرفِ دعا کچھ بھی نہ تھا

لوگ خود جان گنوا دینے پہ آمادہ تھے
اس میں تیرا ہُنر ہے اے دستِ جفا! کچھ بھی نہ تھا

سبز موسم میں ترا کیا تھا، ہوا نے پوچھا
اُڑ کے سوکھے ہوئے پتے نے کہا، کچھ بھی نہ تھا

عرفانؔ صدیقی


غزل: چھوڑ جانے پر پرندوں کی مذمت کی ہو ۔۔۔ احمد خلیل خان

 غزل 

چھوڑ جانے پر پرندوں کی مذمت کی ہو
تم نے دیکھا ہے کبھی پیڑ نے ہِجرت کی ہو

جھولتی شاخ سے چپ چاپ جدا ہونے پر
زرد پتوں نے ہواؤں سے شکایت کی ہو

اب تو اتنا بھی نہیں یاد کہ کب آخری بار
دل نے کچھ ٹوٹ کے چاہا، کوئی حسرت کی ہو

عمر چھوٹی سی مگر شکل پہ جھریاں اتنی
عین مکمن ہے کبھی ہم نے محبت کی ہو

ایسا ہمدرد تیرے بعد کہاں تھا جس نے
لغزشوں پر بھی میری کھل کے حمایت کی ہو

دل شکستہ ہے کوئی ایسا ہنر مند بتا
جس نے ٹوٹے ہوئے شیشوں کی مرمت کی ہو

شب کے دامن میں وہی نور بھریں گے احمد
جن چراغوں نے اندھیرے سے بغاوت کی ہو

احمد خلیل خان

 

chhoR-jany-pe-parindoN-ki-Ahmed-Khalil-Khan

 

غزل : جب بال و پر نہیں تو ہوا پر نہ جائیے ۔۔۔ عرفان صدیقی


غزل

جب بال و پر نہیں تو ہوا پر نہ جائیے
آندھی میں سیرِارض و سماء پر نہ جائیے

کیا شاندار لوگ ہیں دامن دریدہ لوگ
دل دیکھئے حضور، قبا پر نہ جائیے

کیجے نہ ریگ زار میں پھولوں کا انتظار
مٹی ہے اصل چیز، گھٹا پر نہ جائیے

کچھ اور کہہ رہا ہوں غزل کے حوالے سے
مطلب سمجھئے، طرز ادا پر نہ جائیے

آخر تو فیصلہ سر مقتل اُسی کا ہے
اس انتظامِ جرم و سزا پر نہ جائیے

دنیا میں اور بھی تو اشارے سفر کے ہیں
ہر بار اپنے دل کی صدا پر نہ جائیے

عرفان صدیقی

غزل: وہ آنکھ ہی نہیں کہ جو درد آشنا نہ ہو --- فرحان محمد خان

غزل

وہ آنکھ ہی نہیں کہ جو درد آشنا نہ ہو
اس دل پہ تف ہے جس میں کوئی دلربا نہ ہو

وہ عشق ہی نہیں کہ جو صبر آزما نہ ہو
ایسا بھی کیا کہ حسن میں ناز و ادا نہ ہو

ڈرتا ہوں اس کی آہ سے محشر بپا نہ ہو
ایسا حسیں کہ جس کو کوئی دیکھتا نہ ہو

چھونے کی آرزو ہو مگر حوصلہ نہ ہو
اللہ اس قدر بھی کوئی پارسا نہ ہو

اہلِ نظر کے واسطے دوزخ ہے دوستو
وہ زندگی کہ جس میں کوئی ابتلا نہ ہو

مارا ہوا ہے اس کا ہر اک تیسرا جوان
کہتے ہیں جس کو عشق، کہیں یہ وبا نہ ہو

سینے سے اٹھ رہی ہے جو دھڑکن کے نام پر
یہ بھی کسی حسین کی آوازِ پا نہ ہو

میں چاہتا ہوں عام ہو اس عشق کا رواج
محبوب کے لیے کوئی شرطِ وفا نہ ہو

باقی رہے گا خاک بھلا لطفِ عاشقی
معشوق میں حضور! جو خوئے جفا نہ ہو

دنیا پہ ٹوٹتی ہیں تو ٹوٹیں قیامتیں
پھیکا کبھی بھی کاش وہ رنگِ حنا نہ ہو

ہے داستانِ عشق کی رونق رقیب سے
میری دعا ہے عشق کبھی بے مزا نہ ہو

فرحان محمد خان

 

بشکریہ عاطف ملک بھائی

اردو ترجمہ : منے دی موج وچ ہنسنا

کچھ گیت اپنی شاعری اور نغمگی کے باعث برسوں دلوں پر راج کرتے ہیں۔ ایسا ہی ایک گیت جو مجھے ہمیشہ مسحور کرتا ہے وہ حدیقہ کیانی کا منے دی موج ہے۔

یہ گیت پہلی بار پی ٹی وی پر سُنا اور دیکھا۔ اس کی عکسی تشکیل بھی بہت خوبصورت انداز میں کی گئی تھی۔ پسِ پردہ موسیقی اور گلوکارہ کی آواز بھی خوب تھی ۔ یہ اُس زمانے کی بات ہے جب ٹیلی ویژن صرف پی ٹی وی تک محدود تھا۔ تب ہم کئی ایک چیز باخوشی بار بار دیکھ لیتے تھے اُن میں سے ایک یہ گیت بھی تھا۔ یہ گیت پنجابی زبان میں ہے اور غالباً کسی مقامی لہجے کی آمیزش سے کچھ مزید گداز ہو گیا ہے۔

نہ جانے کیوں اس گیت کی لفظیات سے یہ گمان ہوتا تھا کہ جیسے یہ گیت سننے میں اچھا لگتا ہے ویسے ہی مفہوم کے اعتبار سے بھی اچھا ہوگا۔ تاہم گیت کی زبان سے عدم واقفیت کے باعث ہمیں گیت کے مفاہیم تک رسائی نہیں تھی۔

نہ جانے کب سے دل میں پلتی یہ خواہش کہ اس گیت کے معنی جانے جائیں ایک دن کچھ دوستوں کے حلقے میں زبان پر آ گئی۔ خوش قسمتی سے اس حلقے میں ہمارے ایک بہت اچھے دوست اور بھائی جناب عبد القیوم چوہدری بھی موجود تھے اور انہوں نے ازراہِ محبت اس کام کا بیڑہ اُٹھایا اور بہت کم وقت میں اس کلام کا اچھا سا ترجمہ کرکے دیا۔ جب سے اس گیت کے معنی سمجھ آئے ہیں یہ گیت اور بھی اچھا لگنے لگا۔

ہم چوہدری عبد القیوم بھائی کے بے حد شکر گزار ہیں اور اُن کا کیا ہوا ترجمہ آپ کے اعلیٰ ذوق کی نذر کر رہے ہیں۔ اُمید ہے کہ آپ کو یہ گیت مع ترجمہ ضرور پسند آئے گا۔

منے دی موج وچ ہسنا، کھیڈنا
(من کی مستی میں ہنستے کھیلتے رہنا)

دل کی رکھنا کمّے کنّے
(دل کو کسی نا کسی کام میں مصروف کیے رکھنا)

میں نہ پر کِسے کی مندا نہیں بولنا
(لیکن کبھی کسی کو برا نہیں کہنا)

چنے دی چاننی کندے کنّے
(چاند کی چاندنی دیوار کے کنارے تک)

منے دی موج وچ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ساڈا کُجھ کمّ ہے کتّنا تُمبنا
(ہمارا یہی کام ہے کہ روئی کاتنا یا چھانٹنا)

ہور کُجھ کھیتِیاں چُگّنے دا
(یا کھیتوں میں کام کرنا)

گھر دے کمّ وچ آر نہ ہوندی اے
(گھر کا کام کاج کرنے میں کوئی شرم نہیں ہوتی)

دل کی رکھنا کمّے کنّے
(دل کو کسی نا کسی کام میں مصروف کیے رکھنا)

منے دی موج وچ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔

اُچّے اُچّے پربت سوہنیاں وادیاں
(اونچے اونچے پہاڑ اور خوبصورت وادیاں)

نِیلیاں ندِیاں ٹھنڈیاں نے
(شفاف پانی کی ندیاں ٹھنڈیاں ہیں)

سوہنِیاں بولیں پیارے لوکی
(خوبصورت لوگوں کی پیاری زبان)

رب دی رحمت وطنے کنّے
(خدا کی رحمت وطن کے لیے ہے)

منے دی موج وچ۔۔۔
۔۔۔۔۔

پنکھ پکھیرُو اُڈّدے جاون
(پرندے اڑتے جاتے ہیں)

گھر نِیاں یاداں آئِیاں نے
(اور گھر کی یادیں آ رہی ہے)

اساں پردیسیاں آس نہ کوئی
(ہم پردیسیوں کو اور کوئی آس نہیں ہے)

ربّ دُعائِیں سجناں کنّے
(خدا سے سجنوں کے لیے دعائیں ہی ہیں۔)

منے دی موج وچ۔۔۔

 ****** 

 

mane-di-moj

غزل: زندگی یوں ہوئی بسر تنہا ۔۔۔ گلزار

غزل

زندگی یوں ہوئی بسر تنہا
قافلہ ساتھ اور سفر تنہا

اپنے سائے سے چونک جاتے ہیں
عمر گزری ہے اس قدر تنہا

رات بھر باتیں کرتے ہیں تارے
رات کاٹے کوئی کدھر تنہا

ڈوبنے والے پار جا اترے
نقش پا اپنے چھوڑ کر تنہا

دن گزرتا نہیں ہے لوگوں میں
رات ہوتی نہیں بسر تنہا

ہم نے دروازے تک تو دیکھا تھا
پھر نہ جانے گئے کدھر تنہا

گلزار

 

گلزار ۔ شاعر از ہندوستان

 

نظم: گنتی

نظم: گنتی

یہ آٹھ پہروں شمار کرنا
کہ سات رنگوں کے اس نگر میں
جہات چھ ہیں
حواس خمسہ،
چہار موسم،
زماں ثلاثہ،
جہان دو ہیں
خدائے واحد!
یہ تیرے بے انت وسعتوں کے
سفر پر نکلے ہوئے مسافر
عجیب گنتی میں کھوگئے ہیں۔

سید مبارک شاہ

بشکریہ محمد تابش صدیقی بھائی