نظم : ضد نہیں کیجیے ۔۔۔ شاہین مفتی

ضد نہیں کیجے

زندگی کی دعائیں نہیں دیجئیے
ضد نہیں کیجئیے
اپنی تشنہ لبی کا تقاضہ تھا یہ
پانیوں کے سفر پر چلیں جس گھڑی
ساحلوں پر کوئی بھی ہمارا نہ ہو
اجنبی دیس کی ملگجی شام کے آسمانوں پہ کوئی ستارہ نہ ہو
کشتئ عمر کو بادبانوں کا کوئی سہارا نہ ہو
حلقہء موج میں کوئی آواز جو آ کے پیچھا کرے
مُڑ کے تکنا بھی ہم کو گوارا نہ ہو
اِس سمندر کا کوئی کنارہ نہ ہو

اب ہمارا تعاقب نہیں کیجئیے
ڈوبنے دیجئیے
ضد نہیں کیجئیے

شاہین مفتی 

بشکریہ نعیم رضوان ۔ فیس بک

 

حضرتِ انسان اور ہم یعنی بُلبُلِ بے تاب بقلم خود​

حضرتِ انسان اور ہم یعنی بُلبُلِ بے تاب بقلم خود​

نہ جانے اس کے پیچھے کیا راز ہے لیکن سچی بات یہ ہے کہ حضرت انسان کو ہم سے شروع سے ہی کچھ پرخاش سی ہے۔ سو اس نے ہمیشہ اس پرخاش پر لبیک کہا اور ہماری چونچ میں دم کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا ۔ یعنی خود اشرف المخلوقات ہو کر بھی ہم سے چونچ لڑانے پر تُلا رہا اور یہ بھی نہ سوچا کہ بھلا میں انس کہاں، جانور غریب کہاں۔۔! انسانوں میں بھی بالخصوص شعراء ہم سے ٹھیک ٹھاک بیر رکھا کرتے ہیں۔

یہی دیکھ لیجے کہ ہماری اوائل عمری میں ہی انسان نے ہمیں مشقِ ستم بنا لیا تھا۔ ہوا یوں کہ ایک سبز بخت نے انسانوں کے بچوں کے لئے نظم لکھنے کے نام پر بلبل کے ایک سادہ و معصوم بچے پر خوب ستم ڈھائے۔ اور علی االاعلان سب کو اپنے کارنامے بھی بتائے۔ لیکن انسانوں میں سے کوئی ایک بھی اس معصوم طفلِ بُلبُل سے ہمدردی کرنے والا نہیں ملا۔
جناب فرماتے ہیں:

بلبل کا بچہ ،کھاتا تھا کھچڑی
پیتا تھا پانی


صحافت کی دنیا میں یہ بات مشہور ہے کہ کتا اگر انسان کو کاٹ لے تو یہ کوئی خبر نہیں ہے کہ انسان اکثر و بیشتر کتوں سے کٹوانے کا سامان کر ہی لیتا ہے لیکن اگر انسان کتے کو کاٹ لے تو یہ ایک خبر ہے۔ اب اگر اسی فارمولے کو سامنے رکھتے ہوئے مذکورہ شاعری کو دیکھیں تو اس نظم میں کوئی خاص بات نہیں ہے۔

ارے بھائی بُلبل کا بچہ کھچڑی ہی تو کھا رہا تھا ۔ کوئی ڈائنامائٹ تو نہیں چبا رہا تھا کہ آپ یوں سیخ پا ہو گئے۔ اب اگر آپ کے گھر میں کھچڑی کے علاوہ کچھ بنتا ہی نہیں ہے تو اُس میں بلبل کے بچے کا کیا قصور ! پھر پانی پینے کی بھی اس قدر تشہیر ہو رہی ہے کہ خدا کی پناہ! نہ جانے وہ کون سا پانی پی گیا کہ بستی والوں کو قحط سالی کا سامنا کرنا پڑ گیا۔

آگے فرماتے ہیں:

گاتا تھا گانے
میرے سرہانے


اب بھلا بتائیے آپ کون سا میر صاحب ہیں کہ آپ کے سرہانے آہستہ بولا جائے۔ بے چارہ بچہ اگر گانا گا رہا ہےتو گانے دیجیے۔ اگر زیادہ ہی تنگ ہو رہے ہیں تو تکیہ سرہانے سے اُٹھا کر پائنتی پر رکھ لیجے۔ لیکن نہیں! آپ نے تو یہ بات دل میں ہی رکھ لی اور موقع کی تاک میں گھات لگا کر بیٹھ گئے۔

مزید فرماتے ہیں:

اک دن اکیلا بیٹھا ہوا تھا
میں نے اُڑایا، واپس نہ آیا


لیجے پست ہمتی دیکھیے کہ ایک معصوم بلبل کے بچے کو گھیرنے کے لئے بھی جناب نے اُس کے اکیلے ہونے کا انتظار کیا۔ اور ہُش کرکے اُڑا دیا۔ اب آپ یہ نہ کہیے گا کہ ہُش کرنے کا تذکرہ شاعر نے نہیں کیا۔ جس طرح کچھ چیزیں زیبِ داستان کے لئے بڑھائی جاتی ہیں ویسے ہی کچھ چیزیں حذف بھی کر دی جاتی ہیں۔

پھر اس پر مستزاد یہ کہ اُسے اُڑا کر اُس کی واپسی کا انتظار بھی کر رہے ہیں۔ بغیر بجلی کے اتنے اچھے اچھے گانے سُننے سے محروم جو ہوگئے۔ لیکن وہ واپس نہیں آنے والا۔ بھلا وہ کیوں واپس آئے؟ کھچڑی کھانے؟ اور اِس من و سلویٰ کے بھی اُسے طعنے سُننے کو ملیں۔ نہیں بھئی نہیں! قریب ہی ایک جگہ چڑا اور چڑیا رہتے ہیں۔ ایک بھلا مانس چاول کا دانہ لے آتا ہے ایک دال کا دانہ لے آتی ہے، کھچڑی تو وہاں بھی مل جائے گی ۔ بس اُن سے دوستی گاٹھ لیں گے۔ کم از کم جیسے بھی ہیں، اپنے تو ہیں۔

ایک اور شاعر کچھ اس طرح رقم طراز ہیں:

میں چمن میں کیا گیا گویا دبستاں کھل گیا
بلبلیں سن کر مرے نالے غزل خواں ہو گئیں


اب بتائیے۔ بھئی آپ چمن میں گئے ہی کیوں؟ بچپن سے آپ نے "ہم پھول چمن میں آتے ہیں" کی رٹ لگائی ہوئی ہے اور نہ جانے کیا کیا عزائم ہیں آپ کے ، اس کے پیچھے۔ نہ آپ چمن میں جاتے نہ ہی پنڈورہ باکس میرا مطلب ہے دبستاں یا وہ جو بھی تھا، کُھلتا۔

پھر اُس پر زعم یہ کہ بلبلیں ان کی دھائیں دھائیں سن کر غزلخواں ہوئیں۔ بھول گئے وہ وقت جب بچپن ہی سے آپ بلبل کے بچے کے گانے سنا کرتے تھے ۔ کیا یہ بھی میں یاد دلاؤں کہ آپ کی طبیعت میں موزونیت بھی بے چارے جلاوطن بلبل کے بچے کے مرہونِ منت ہے۔ ورنہ فعلن فعولن کے چوکھٹوں میں الفاظ بٹھانا آپ کے بس کی بات ہرگز نہیں تھی۔ لیکن آپ نے احسان ماننے کے بجائے احسان فراموشی کو وتیرہ بنایا اور ہمیشہ کی طرح ہر اچھے کام کا کریڈٹ لینے پر کمر بستہ و سینہ کشاد ہو گئے۔

ایک اور صاحب فرماتے ہیں:

یہ آرزو تھی تجھے گل کے روبرو کرتے
ہم اور بلبل بے تاب گفتگو کرتے


اب بھلا بتائیے، افئیر آپ کا چل رہا ہے اور آپ ہمیں بلا وجہ گھسیٹ رہے ہیں ۔ اور اپنی زوجہء ناکردہ سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں کہ دل یہ چاہتا ہے کہ تمہیں گل کے رو برو بٹھائیں اور ہم بلبلِ بے تاب سے گفتگو کریں۔

؂ تمہیں اٹکھیلیاں سوجھی ہیں ہم بے زار بیٹھے ہیں۔

اب یہ بھی کسی کو کیا پتہ کہ ہماری اور گُل کے عشق کی داستان اتنی تھی نہیں کہ جتنی اُسے شاعروں نے رگڑا ہے۔ بلکہ سچی بات تو یہ ہے کہ یہ لوگ :

؂ اپنے غموں پہ روتے ہیں لے کر کسی کا نام


خیر، ہم کیوں کسی کی غیبت کریں ، کچھ شاعر اچھے بھی ہوتے ہیں اور ہر حال میں حقیقت کو ہی مقدم جانتے ہیں۔ جیسے کہ یہ ایک شعر ہے:

چمن میں نہ بلبل کا گونجے ترانہ
یہی باغبان چمن چاہتا ہے


کیا سچی بات ہے۔ لیکن جو شعر میرا "موسٹ فیورٹ" ہے وہ کچھ یوں ہے:

سنا ہے کہ دلی میں الو کے پٹھے
رگ گل سے بلبل کے پر باندھتے ہیں


اور اسے دلی کے علاوہ بھی کئی ایک شہروں کے نام بدل بدل کر پڑھنےمیں مزہ آتا ہے۔ رگِ گل سے بلبل کے پر باندھنے کا تو خیر نہ جانے کیا مطلب ہے لیکن پہلا مصرع ہی ایسا کامل ہے کہ دوسرے کا خیال ہی نہیں آتا۔

بہر کیف،

کہنی سنی معاف!

از قلم:
بلبل ِ بے تاب

جیسے دفتر میں کسی شخص کو تنخواہ ملے۔۔۔ عمیر نجمی

غزل

ایک تاریخ مقرر پہ تو ہر ماہ ملے
جیسے دفتر میں کسی شخص کو تنخواہ ملے

رنگ اکھڑ جائے تو ظاہر ہو پلستر کی نمی
قہقہہ کھود کے دیکھو تو تمہیں آہ ملے

جمع تھے رات مرے گھر ترے ٹھکرائے ہوئے
ایک درگاہ پہ سب راندۂ درگاہ ملے

میں تو اک عام سپاہی تھا حفاظت کے لئے
شاہ زادی یہ ترا حق تھا تجھے شاہ ملے

ایک اداسی کے جزیرے پہ ہوں اشکوں میں گھرا
میں نکل جاؤں اگر خشک گزر گاہ ملے

اک ملاقات کے ٹلنے کی خبر ایسے لگی
جیسے مزدور کو ہڑتال کی افواہ ملے

گھر پہنچنے کی نہ جلدی نہ تمنا ہے کوئی
جس نے ملنا ہو مجھے آئے سر راہ ملے

عمیر نجمی

حوصلے دیدہء بیدار کے سو جاتے ہیں ۔۔۔ لیاقت علی عاصم


غزل

حوصلے دیدہ ٴ بیدار کے سو جاتے ہیں
نیند کب آتی ہے تھک ہار کے سو جاتے ہیں

چاہتے ہیں رہیں بیدار غمِ یار کے ساتھ
اور پہلو میں غمِ یار کے سو جاتے ہیں

روز کا قصہ ہے یہ معرکہ ٴ یاس و اُمید
جیت کر ہارتے ہیں، ہار کے سو جاتے ہیں

ڈھیرہوجاتی ہے وحشت کسی آغوش کے پاس
سلسلے سب رم و رفتار کے سو جاتے ہیں

سونے دیتے ہیں کہاں شہر کے حالات مگر
ہم بھی سفاک ہیں جی مار کے سو جاتے ہیں

لیاقت علی عاصمؔ

نمکین غزل : اُڑاتے روز تھے انڈے پراٹھے

نمکین غزل

اُڑاتے روز تھے انڈے پراٹھے
پر اب کھاتے ہیں ہر سنڈے پراٹھے

یہاں ہم کھا رہے ہیں چائے روٹی
وہاں کھاتے ہیں مسٹنڈے پراٹھے

ترستے لقمہ ٴ تر کو ہیں اب تو
وہ کیا دن تھے کہ تھے فن ڈے، پراٹھے

کہا بیگم رعایت ایک دن کی
پکا لیجے گا اِس منڈے پراٹھے

کہا بیگم نے ہے پرہیز بہتر
بہت کھاتے ہو مُسٹنڈے پراٹھے

زمانہ یاد ہے اسکول والا
کہ جب کھاتے تھے تم ڈنڈے، پراٹھے

کئی فرمائشیں مانی ہیں میں نے
بنے بیگم کے ہتھکنڈے، پراٹھے

چلو احمد ؔ منگائیں گرم چائے
ہوئے جاتے ہیں سب ٹھنڈے پراٹھے

محمد احمدؔ

افسانہ: فریاد کی لے​

فریاد کی لے​
از محمد احمدؔ​

وہ اِس وقت ذہنی اور جسمانی طور پر بالکل مستعد تھا۔ بس انتظار تھا کہ مولوی صاحب سلام پھیریں اور وہ نماز ختم کرکے اپنا کام شروع کر دے۔ اُس نے اپنے ذہن میں اُن لفظوں کو بھی ترتیب دے لیا تھا جو اُس نے حاضرینِ مسجد سے مخاطب ہو کر کہنا تھے۔ جیسے ہی مولوی صاحب نے سلام پھیر ااُس نے بھی تقریباً ساتھ ساتھ ہی سلام پھیرا اور ایک جھٹکے سے اُٹھا لیکن عین اُس وقت کہ جب اُس کو کھڑا ہو کر اپنی فریاد لوگوں تک پہنچانی تھی اُس کی قمیص کا دامن اُسی کے پاؤں تلے آ گیا اور ایک دم سے اُٹھنے کی کوشش کے باعث دامن چاک سے لے کر کافی اُوپر تک پھٹ گیا۔ ابھی وہ قمیص کا جائزہ ہی لے رہا تھا کہ ہال کے دوسرے کنارے سے ایک آواز سُنائی دی۔

"میرے بھائیو! میں اور میرے گھر والے تین روز سے ۔۔۔۔" رُندھی ہوئی آواز میں شروع ہوا یہ جملہ بیچ راستے میں ہی دم توڑ گیا۔ اِس وقت کسی غیر متوقع "حریف" سے ٹکراؤ کا اُسے خیال تک نہیں تھا۔ اُس نے دیکھا کہ ہال کے دوسرے دروازے کے پاس ایک خستہ حال لڑکے نے حاضرین کو متوجہ کیا لیکن وہ جملہ مکمل کیے بغیر ہی رونے لگا ابھی وہ اس نئے سائل کی ڈرامے بازی کو سمجھنے کی کوشش ہی کر رہا تھا کہ اچانک فریاد کرنے والا لڑکا جو اپنا جملہ مکمل کرنے کے بجائے رونے لگا تھا لوگوں کو پھلانگتے ہوئے بھاگنا شروع ہو گیا۔

نہ جانےاُسے کیا ہوا کہ اُس نے بھی نئے سائل کے پیچھے دوڑ لگا دی، کہ جیسے عین "دھندے" کے وقت پہنچ کر اُس کے حریف نے اُسے دعوتِ پیکار دے دی ہو اور پھر میدانِ جنگ سے فرنٹ ہو گیا ہو۔ اور جیسے اب اُس کی پہلی ذمہ داری ہی یہ ہو کہ پسپا ہوتے دشمن کو قریب ہی کہیں چھاپ لے اور پھر ایک ایک کرکے سارے بدلے چُکائے۔

صورتِ حال اب یہ تھی کہ آگے آگے خستہ حال نوجوان لڑکا روتا جاتا اور دوڑتا جاتا تھا اور وہ اُس کے پیچھے پیچھے ایک غیر ارادی تعاقب میں دوڑ رہا تھا ۔ دوڑتے دوڑتے اُس نے سوچا بھی کہ جب نیا لڑکا دوڑ ہی گیا تھا تو اُسے اپنا کام شروع کرنا چاہیے تھا بجائے اِس کے کہ وہ اُس کے پیچھے اپنا وقت برباد کرنے آگیا۔ لیکن یہ سوچ بھی اُس کے قدم روکنے کا حیلہ نہ بن سکی اور وہ اندھا دھند دوڑتا رہا۔

مختلف چھوٹی چھوٹی گلیوں سے گزر کر مفرور سائل ایک گھر کے دروازے میں داخل ہونا ہی چاہتا تھا کہ اُس نے اُسے جا ہی لیا ۔ اُس کی گرفت میں آکر مفرور لڑکا شدید پریشانی کا شکار نظر آتا تھا اور اُسے سمجھ نہیں آتا تھا کہ اُس کا اندھا دھند تعاقب کرنے والا یہ شخص کون تھا اور آخر اُس سے ایسا کیا قصور ہوا تھا کہ اُسے نجات ملنے کا کوئی امکان ہی نظر نہیں آتا تھا۔
"کون ہے بے تو؟؟؟" اُس نے حقارت سے لڑکے سے پوچھا
"میں ! میں!" لڑکے کو کچھ سمجھ نہیں آیا کہ اس اچانک آ پڑنے والی اُفتاد سے کیسے نمٹا جائے۔
پھر شاید اُسے ہی خیال آیا کہ وہ ضرورت سے زیادہ ہی جارح ہو رہا ہے تو اُس نے اپنے لہجے کو کچھ بہتر بناتے ہوئے پوچھا" مسجد میں کیا کرنے آیا تھا؟"
"وہ ، میں۔۔۔! مجھے پیسے چاہیےتھے" لڑکے نے ہکلاتے ہوئے بتانا شروع کیا۔
"ہمارے پاس کچھ نہیں ہے کھانے کو ، پیسے بھی نہیں ہیں" وہ سسکتا جاتا اور بتاتا جاتا۔
"میں نے۔۔۔۔ میری امی نے، میرے بھائی نے ۔۔۔ ہم نے کچھ نہیں کھایا " رو رو کر لڑکے کا بُرا حال تھا اور اُس کی سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ یہ سوال جواب کیوں کر رہا ہے۔
"تین دن سے ہمیں پانی کے علاوہ کچھ نہیں ملا، میں نے سوچا مسجد میں جا کر ۔۔ جیسے دوسرے لوگ ۔۔۔ " لڑکا پھر دھاڑیں مار مار کر رونے لگا۔
اُس کے ہونٹوں سے سارے سوال غائب ہو گئے تھے اور آنکھوں میں آنسو چمک رہے تھے۔
پھر اچانک اُس نے آگے بڑھ کر لڑکے کو گلے سے لگا لیا، اور پھر وہ دونوں رونے لگے ۔ جیسے جیسے اُن کا کوئی مر گیا ہو۔ لیکن اُن کا اس دنیا میں تھا ہی کون جو مرتا۔ اور اُن کا کوئی ہوتا تو کیا وہ اس طرح روتے؟
وہ روتے جاتے اور ایک دوسرے کو بھینچتے جاتے کہ جیسےکوئی سالوں برسوں بعد ملا ہو اور اس بات کا یقین ہی نہ آ رہا ہو کہ ملن کا لمحہ واقعی آن پہنچا ہے۔
آس پاس جمع ہوتے بچوں کو دیکھ کر اُسے کچھ ہوش آیا۔ اُس نے لڑکے کو خود سے جدا کیا اور ہتھیلیوں کی پشت سے آنسو پوچھتے ہوئے بولا ۔ "میرے ساتھ آ" اور اُس کا ہاتھ پکڑکر چلنے لگا۔
سائل لڑکا میکانیکی انداز میں اُس کے ساتھ ساتھ چلنے لگا ۔ راستے میں وہ دونوں بالکل خاموش تھے۔کہتے بھی تو کیا۔
اُن کا یہ مختصر سفر ایک چھوٹے سے ہوٹل پر ختم ہوا اور اُس نے لڑکے کو ہوٹل پر ایک تخت پر لا کر بٹھا دیا۔ ادھر اُدھر دیکھنے پر اُسے ایک پانی کا ڈرم نظر آیا۔ اُس نے ڈرم سے پانی جگ میں نکالا اور منہ دھونے لگا۔ منہ ہاتھ دھو کر اُس نے ایک جگ اور بھرا اور لڑکے کو بُلا کر اُس کا منہ بھی دھلوا دیا۔
کچھ تازہ دم ہو کر وہ پھر سے تخت پر بیٹھے تو بیرا اُن کے سر پر نازل ہو چکا تھا۔ "ہاں اُستاد ! کیا لاؤں؟"
"ایک دال فرائی لے آ اور روٹی گرم لانا ۔ " اُس نے بیرے کو دیکھا اور سوچتے ہوئے کہا۔
کچھ ہی دیر میں بیرا کھانا لے آیا۔ کھجور کے پتوں سے بنی رکابی میں تندور کی تازہ روٹیاں اور اسٹیل کی پلیٹ میں چنے کی دال ، فرائی کی ہوئی۔ سائل لڑکے کے آنسو اب تک تھم گئے تھے لیکن اُس کا چہرہ سُرخ ہو رہا تھا۔ اُس نے لڑکے کی طرف دیکھا اور کھانے کی طرف اشارہ کرکے کہا "گرو ، ہو جا شروع۔۔۔!"

لڑکے نے جھجکتے ہوئے ایک نوالہ بنایا اور دال کی پلیٹ سے چھیڑ چھاڑ کرتے ہوئے اپنے منہ میں رکھ لیا۔ نوالے کے منہ میں جاتے ہی اُس کی ساری جھجک رُخصت ہوگئی اور وہ بے صبری سے کھانا کھانے لگا۔ اُسے کوئی خاص بھوک نہیں تھی لیکن لڑکے کا ساتھ دینے کے لئے وہ بھی چھوٹے چھوٹے نوالے لیتا رہا۔


کھانا ختم ہونے پر اُس نے بیرے کو آواز دے کر چائے منگوائی اور مسجد سے فرار اختیار کرنے والے سائل کی طرف متوجہ ہوا۔

"تم مسجد سے بھاگ کیوں گئے تھے۔ "وہ اب تو سے تم پر آ گیا۔
لڑکے نے اُس کی طرف دیکھا اور پھر نظریں جھکا کر کہا "مجھے شرم آگئی تھی۔ میں نے، میرے خاندان والوں نے کسی نے بھی کبھی کسی سے کچھ نہیں مانگا۔ اگر حالات اس قدر خراب نہ ہوتے تو شاید میں مسجد میں اس غرض سے آنے کی ہمت بھی نہ کر پاتا۔"
"شرم ! " اُس نے حیرت اور غصے سے لڑکے کی طرف دیکھا۔
"تمھیں کیوں شرم آ ئی!" اُس کی آواز غیض سے بھرّا رہی تھی۔
"شرم تو تمھارے پڑوسیوں کو آنی چاہیے، تمھارے رشتہ داروں کو آنی چاہیے کہ تمھارے ہاں تین روز سے کھانے کے لالے پڑے ہوئے ہیں اور وہ بے خبر ہیں۔"
"تمھاری پڑوسی اپنی زندگی جی رہے ہیں، کھا رہے پی رہے ہیں عیش کر رہے ہیں۔ کیا اُن کا فرض نہیں کہ اڑوس پڑوس کا بھی حال پوچھیں۔ کس پر کیا گزر رہی ہے۔ کس پر کیا مصیبت آن پڑی ہے" ذرا توقف کے بعد وہ پھر شروع ہوا۔
"شرم تو تمھارے رشتہ داروں کو آنی چاہیے ۔ کوئی تمھیں پوچھنے نہیں آیا" اُس نے زور سے سر کو جھٹکا دیا۔
"کیسی رشتہ داری ہے آج کل کی۔ وقت اچھا ہو تو صبح شام چکر لگائیں اور جہاں بُرے دنوں نے رستہ دیکھاوہیں گدھے کے سر سے سینگ کی طرح غائب ہو جائیں گے۔"
"لعنت ہے ایسی رشتہ داری پر اور لعنت ہےایسے پڑوسیوں پر۔" اُس نے زور سے چائے کا کپ تخت پر پٹخا اور اُٹھ کھڑا ہوا۔
اُس نے ہوٹل کے مالک سے کہہ کر کچھ کھانا لڑکے کے گھر والوں کے لئے بھی پیک کروایا اور بل ادا کرنے کے بعد کچھ پیسے لڑکے کی جیب میں بھی ٹھونس دیے۔

"میں اسی ہوٹل پر بیٹھتا ہوں شام کے بعد ، کبھی بھی کوئی مسئلہ ہو تو میرے پاس آ جانا۔ اور ویسے بھی ملتے رہنا " اُس نے لڑکے کو رخصت کرتے ہوئے کہا۔ " میں ویسے بھی چھڑا چھانٹ ہوں، میرا گزارا جیسے تیسے چل ہی جاتا ہے"۔ اب اُس کے چہرے پر مُسکراہٹ نے جگہ بنا لی تھی۔

*****

عصر کی نماز اُس نے ایک اور مسجد میں پڑھی ۔ یہ مسجد بازار کے بیچ و بیچ تھی اور اس میں نمازیوں کی تعداد کہیں زیادہ تھی۔ نماز ختم ہوئی تو اُس نے اپنی درد ناک آواز میں فریاد شروع کر دی۔ آج اُس کی آواز میں الگ ہی کرب تھا۔ اُس کی آنکھوں سے بے تحاشا آنسو بہہ رہے تھے اور اُس کے رٹے رٹے جملے آج تاثیر میں گُندھے ہوئے تھے ۔ اُس کے پیروں میں بچھے رومال پر چھوٹے بڑے نوٹ جمع ہو رہے تھے۔ وہ مستقل رو رہا تھا اور اندر سے ایک اطمینان اُ س کے اندر اُتر رہا تھا کہ رومال پر جمع ہونے والے نوٹ اب اُس کے لئے پہلے سے کہیں زیادہ اہم تھے ۔ اُس کی آنکھوں کے آنسو خوشی سے چمک رہے تھے اور اُس کا پھٹا ہوا دامن ہوا میں لہرا لہرا کر مسرت کا اظہار کر رہا تھا۔

*****

غزل : تو اور ترے ارادے

غزل 

تو اور ترے ارادے
چل چھوڑ مسکرا دے

دل کون دیکھتا ہے
پھولوں سے گھر سجا دے

میں خود کو ڈھونڈتا ہوں
مجھ سے مجھے چھپا دے

سُن اے فریبِ منزل
رستہ نیا سُجھا دے

سوچوں نہ  پھر وفا کا
ایسی کڑی سزا دے

مرتا ہوں پیاس سے میں
تو زہر ہی پلا دے

منظر یہ ہو گیا بس
پردے کو اب گر ادے

نامہ فراق کا ہے
لا! وصل کا پتہ دے

پھر مائلِ یقیں ہوں
پھر سے مجھے دغا دے

احمدؔ غزل کہی ہے
جا بزم میں سنا دے

محمد احمدؔ