غزل
حوصلے دیدہ ٴ بیدار کے سو جاتے ہیں
نیند کب آتی ہے تھک ہار کے سو جاتے ہیں
چاہتے ہیں رہیں بیدار غمِ یار کے ساتھ
اور پہلو میں غمِ یار کے سو جاتے ہیں
روز کا قصہ ہے یہ معرکہ ٴ یاس و اُمید
جیت کر ہارتے ہیں، ہار کے سو جاتے ہیں
ڈھیرہوجاتی ہے وحشت کسی آغوش کے پاس
سلسلے سب رم و رفتار کے سو جاتے ہیں
سونے دیتے ہیں کہاں شہر کے حالات مگر
ہم بھی سفاک ہیں جی مار کے سو جاتے ہیں
لیاقت علی عاصمؔ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں