غزل
تو اور ترے ارادے
چل چھوڑ مسکرا دے
دل کون دیکھتا ہے
پھولوں سے گھر سجا دے
میں خود کو ڈھونڈتا ہوں
مجھ سے مجھے چھپا دے
سُن اے فریبِ منزل
رستہ نیا سُجھا دے
سوچوں نہ پھر وفا کا
ایسی کڑی سزا دے
مرتا ہوں پیاس سے میں
تو زہر ہی پلا دے
منظر یہ ہو گیا بس
پردے کو اب گر ادے
نامہ فراق کا ہے
لا! وصل کا پتہ دے
پھر مائلِ یقیں ہوں
پھر سے مجھے دغا دے
احمدؔ غزل کہی ہے
جا بزم میں سنا دے