ہمسفر بن کے ہم ساتھ ہیں آج بھی ۔۔۔

 
رعنائیِ خیال پر   گنتی کے دو چار گیت ہی موجود ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ رعنائیِ خیال کا مزاج  ایسا ہے کہ اس میں عامیانہ گیتوں کی شاعری  جچتی نہیں ہے ۔ سو بس کچھ گیت جو اپنی شاعری کی وجہ سے انتہائی ممتاز ہیں اور خاکسار کو خاص طور پر پسند ہیں وہ میں  بلاگ میں شامل کیے دیتا ہوں۔ 


آج جو گیت میں بلاگ پر شامل کر رہا ہوں یہ  بھی مجھے بے حد پسند ہے۔ گیت کی شاعری مدن پال کی ہے اور اسے جگجیت سنگھ نے بہت خوب گایا ہے۔ آئیے آپ بھی اس گیت کی شاعری سے لطف اندوز ہوں

ہمسفر بن کے ہم ساتھ ہیں آج بھی، پھر بھی ہے یہ سفر اجنبی اجنبی​
راہ بھی اجنبی، موڑ بھی اجنبی، جائیں گے ہم کدھر اجنبی اجنبی​

زندگی ہو گئی ہے سلگتا سفر، دور تک آ رہا ہے دھواں سا نظر​
جانے کس موڑ پر کھو گئی ہر خوشی، دے کے دردِ جگر اجنبی اجنبی​

ہم نے چن چن کے تنکے بنایا تھا جو، آشیاں حسرتوں سے سجایا تھا جو​
ہے چمن میں وہی آشیاں آج بھی، لگ رہا ہے مگر اجنبی اجنبی​

کس کو معلوم تھا دن یہ بھی آئیں گے، موسموں کی طرح دل بدل جائیں گے​
دن ہوا اجنبی، رات بھی اجنبی، ہر گھڑی، ہر پہر اجنبی اجنبی​
شاعر : مدن لال

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں