گر تو می خواہی کہ باشی خوش نویس
ایک فارسی شعر ہے
گر تو می خواہی کہ باشی خوش نویس
می نویس و می نویس و می نویس
(اگر تو چاہتا ہے کہ اچھا لکھنے والا بن جائے تو لکھتا رہ، لکھتا رہ لکھتا رہ)
یہ شعر اگرچہ خطاطی کی مشق کے زمرے میں نقل کیا جاتا ہے مگر آج میں اس کے ایک اور پہلو پر لکھنے کی جسارت کروں گا۔میں اس شعر میں خوش نویس کو خطاط کے معنوں میں نہیں بلکہ مصنف کے معنوں میں لیتا ہوں اور اسی نسبت سے چند گزارشات پیش کروں گا۔
آج کے انٹرنیٹ کے دور میں آپ کوئی بھی کام کرنا چاہتے ہیں تو گوگل پر جائیں اور اپنا مطلوبہ کام لکھیں۔اس کے لیے آپ کو مواد مطالعہ، ٹیٹوریل اور یہاں تک کہ قدم بہ قدم رہنمائی کی دستاویزات کی ایک لمبی فہرست مل جائے گی۔ اور اگر آپ لگن اور محنت کا حوصلہ رکھتے ہیں تو آپ چاہے اس کام میں مہارت حاصل نہ بھی کر سکیں بہت حد تک آپ اس کے بنیادی اصولوں سے شناسائی حاصل کر لیں گے۔کبھی آپ نے سوچا ہے یہ کیونکر ممکن ہوا۔اکثر لوگ اس کی وجہ انٹرنیٹ اور ٹیکنالوجی قرار دیں گے۔مگر انٹرنیٹ نے تو صرف اس کی فراہمی آسان بنائی ہے۔ اس کا اصل سبب لکھنے کی عادت ہے۔
ہمارے ہاں بڑے بڑے حکیم گزرے ہیں جن کی حکمت کی داستانیں جی ہاں داستانیں نہ کہ واقعات سن کر عقل دنگ رہ جاتی ہے۔حکمت کے یہ کمالات اور مجرب نسخے وہ اپنے ساتھ لے گئے۔اور ان میں سے چند ایک نسخے جب انگریز کے ہاتھ لگے تو اس نے ان کو میڈیکل سائنس بنا دیا اور ایلو پیتھی کی بنیاد رکھی۔آج ہم اس علم کے لیے ان کے دست نگر ہیں۔
آج ہم یہ سنتے ہیں کہ ہمارے موسیقار گھرانے دم توڑ رہے ہیں اور میڈیا بھی آئے دن ایسے ہی کسی گھرانے کی کسمپرسی کا رونا رو رہا ہوتا ہے۔مگر کبھی ان موسیقاروں نے اپنے گھرانے سے آگے بھی سوچا ہے۔ کبھی انہوں نے اپنے اس علم کو لکھ کر محفوظ کیا ہے۔ یہی علم جب انگریز کے ہاتھ لگا تو اس نے موسیقی پر کتابیں لکھیں، موسیقی سکھانے کے ادارے بنا ڈالے اور آج کسی غیر ملک سے حاصل کردہ ڈگری ہمارے میڈیا میں موسیقار ہونے کے لیے شرط اول ہے۔
آپ کسی بھی ممکنہ علم کا نام لکھ کر گوگل پر سرچ کریں اور جو فہرست ملتی ہے اس کا جائزہ لیں۔99 فیصد نتائج آپ کو انگریز کی کاوش نظر آئے گی کیونکہ وہ کوئی بھی کام کرتا ہے اس کو لکھ لیتا ہے۔لکھنے کے لیے اس کا عالم یا بہت پڑھا لکھا ہونا بھی ضروری نہیں۔انگریزی میں ایک اصطلاح (DIY(Do it yourself استعمال ہوتی ہے۔تجربے کے طور پر آپ گوگل میں یہ اصطلاح لکھ کر سرچ کریں۔دنیا کا شاید ہی کوئی ایسا کام ہو جو اس زمرے میں شامل نہ ملے۔اس زمرے میں لکھنے والے کوئی ماہر کاریگر نہیں بلکہ عام لوگ ہیں جو اگر کسی کام کو خود سے مکمل کرتے ہیں تو "آپ خود کریں" کے زمرے میں اس کو لکھ دیتے ہیں۔اور اگر آپ اس کو پڑھیں تو معلوم ہو گا اس میں سے بیشتر چیزیں آپ خود کرتے ہیں مگر کبھی آپ کو لکھنے کا خیال نہیں آیا۔
یہ لکھنے کی عادت کا ہی ثمر ہے کہ آج معمولی سے معمولی کام کے لیے ہم انگریز مصنف کے محتاج ہیں۔ اس لیے میری آپ سب سے درخواست ہے کہ چاہے غلط سلط، ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں لکھیں مگر لکھیں ضرور۔کیونکہ اگر آپ اچھا لکھاری بننا چاہتے ہیں تو:
می نویس و می نویس ومی نویس
واصف حسین
اصل تحریر کا ربط
ایک فارسی شعر ہے
گر تو می خواہی کہ باشی خوش نویس
می نویس و می نویس و می نویس
(اگر تو چاہتا ہے کہ اچھا لکھنے والا بن جائے تو لکھتا رہ، لکھتا رہ لکھتا رہ)
یہ شعر اگرچہ خطاطی کی مشق کے زمرے میں نقل کیا جاتا ہے مگر آج میں اس کے ایک اور پہلو پر لکھنے کی جسارت کروں گا۔میں اس شعر میں خوش نویس کو خطاط کے معنوں میں نہیں بلکہ مصنف کے معنوں میں لیتا ہوں اور اسی نسبت سے چند گزارشات پیش کروں گا۔
آج کے انٹرنیٹ کے دور میں آپ کوئی بھی کام کرنا چاہتے ہیں تو گوگل پر جائیں اور اپنا مطلوبہ کام لکھیں۔اس کے لیے آپ کو مواد مطالعہ، ٹیٹوریل اور یہاں تک کہ قدم بہ قدم رہنمائی کی دستاویزات کی ایک لمبی فہرست مل جائے گی۔ اور اگر آپ لگن اور محنت کا حوصلہ رکھتے ہیں تو آپ چاہے اس کام میں مہارت حاصل نہ بھی کر سکیں بہت حد تک آپ اس کے بنیادی اصولوں سے شناسائی حاصل کر لیں گے۔کبھی آپ نے سوچا ہے یہ کیونکر ممکن ہوا۔اکثر لوگ اس کی وجہ انٹرنیٹ اور ٹیکنالوجی قرار دیں گے۔مگر انٹرنیٹ نے تو صرف اس کی فراہمی آسان بنائی ہے۔ اس کا اصل سبب لکھنے کی عادت ہے۔
ہمارے ہاں بڑے بڑے حکیم گزرے ہیں جن کی حکمت کی داستانیں جی ہاں داستانیں نہ کہ واقعات سن کر عقل دنگ رہ جاتی ہے۔حکمت کے یہ کمالات اور مجرب نسخے وہ اپنے ساتھ لے گئے۔اور ان میں سے چند ایک نسخے جب انگریز کے ہاتھ لگے تو اس نے ان کو میڈیکل سائنس بنا دیا اور ایلو پیتھی کی بنیاد رکھی۔آج ہم اس علم کے لیے ان کے دست نگر ہیں۔
آج ہم یہ سنتے ہیں کہ ہمارے موسیقار گھرانے دم توڑ رہے ہیں اور میڈیا بھی آئے دن ایسے ہی کسی گھرانے کی کسمپرسی کا رونا رو رہا ہوتا ہے۔مگر کبھی ان موسیقاروں نے اپنے گھرانے سے آگے بھی سوچا ہے۔ کبھی انہوں نے اپنے اس علم کو لکھ کر محفوظ کیا ہے۔ یہی علم جب انگریز کے ہاتھ لگا تو اس نے موسیقی پر کتابیں لکھیں، موسیقی سکھانے کے ادارے بنا ڈالے اور آج کسی غیر ملک سے حاصل کردہ ڈگری ہمارے میڈیا میں موسیقار ہونے کے لیے شرط اول ہے۔
آپ کسی بھی ممکنہ علم کا نام لکھ کر گوگل پر سرچ کریں اور جو فہرست ملتی ہے اس کا جائزہ لیں۔99 فیصد نتائج آپ کو انگریز کی کاوش نظر آئے گی کیونکہ وہ کوئی بھی کام کرتا ہے اس کو لکھ لیتا ہے۔لکھنے کے لیے اس کا عالم یا بہت پڑھا لکھا ہونا بھی ضروری نہیں۔انگریزی میں ایک اصطلاح (DIY(Do it yourself استعمال ہوتی ہے۔تجربے کے طور پر آپ گوگل میں یہ اصطلاح لکھ کر سرچ کریں۔دنیا کا شاید ہی کوئی ایسا کام ہو جو اس زمرے میں شامل نہ ملے۔اس زمرے میں لکھنے والے کوئی ماہر کاریگر نہیں بلکہ عام لوگ ہیں جو اگر کسی کام کو خود سے مکمل کرتے ہیں تو "آپ خود کریں" کے زمرے میں اس کو لکھ دیتے ہیں۔اور اگر آپ اس کو پڑھیں تو معلوم ہو گا اس میں سے بیشتر چیزیں آپ خود کرتے ہیں مگر کبھی آپ کو لکھنے کا خیال نہیں آیا۔
یہ لکھنے کی عادت کا ہی ثمر ہے کہ آج معمولی سے معمولی کام کے لیے ہم انگریز مصنف کے محتاج ہیں۔ اس لیے میری آپ سب سے درخواست ہے کہ چاہے غلط سلط، ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں لکھیں مگر لکھیں ضرور۔کیونکہ اگر آپ اچھا لکھاری بننا چاہتے ہیں تو:
می نویس و می نویس ومی نویس
واصف حسین
اصل تحریر کا ربط