اسٹیفن کوی کہتے ہیں :
I am not a product of my circumstances. I am a product of my decisions.اسٹیفن کوی معروف امریکی مصنف ہیں جنہوں نے مشہورِ زمانہ کتاب "The 7 Habits of Highly Effective People " تحریر کی ہے۔
–Stephen Covey
بظاہر دیکھنے پر اسٹیفن کا یہ قول ایک شیخی کی طرح کا لگتا ہے تاہم اس کے پیچھے ایک پورا فلسفہ چھپا ہوا ہے۔
اگر ہم اپنے ارد گرد نظر ڈالیں تو ہمیں بیشتر لوگ ایسے نظر آئیں گے کہ جنہیں حالات جس طرف ہانک کر لے لئے گئے ،وہ وہیں کے ہو گئے۔ جنہیں جیسا ماحول ملا وہ ویسے ہی ڈھل گئے۔ یعنی اُن کی شخصیت سازی اُنہوں نے خود نہیں کی بلکہ مخصوص و حالات و واقعات جس طرح اُن کی پرورش و پراداخت کرتے رہے وہ ویسے ہی ہو رہے اور اُن کے اپنے ارادے کا اُس میں کوئی خاص دخل نہیں رہا۔اسٹیفن نے دراصل اسی سوچ پر ضرب لگائی ہے کہ انسان خود کو بالکل ہی حالات کے دھارے پر نہ چھوڑ دے بلکہ وہ خود اپنے بارے میں سوچے کہ وہ کیا کر رہا ہے اور وہ کیا کر سکتا ہے اور اُسے کیا کرنا چاہیے۔ پھر اپنے کچھ اہداف طے کرے اور اُن کے حصول کے لئے منصوبہ بندی اور عملی اقدامات کرے۔
"کسی راستے پر آپ کو اُمید کی ذرا سی بھی کرن نظر آئے تو فوراً تدبر اور مناسب منصوبہ بندی کے ساتھ اُس راستے پر چلنے کی عملی کوشش کریں۔"میں یہ نہیں کہہ رہا ہے کہ حالات و واقعات کو بالکل ہی نظر انداز کر دیا جائے یا جو فیصلے تقدیر کرے اُن کی طرف سے آنکھ بند کر لی جائے بلکہ صرف یہ کہ انسان اپنے راستے میں در آنے والی ان دیواروں سے کمر ٹِکا کر نہ بیٹھ جائے بلکہ ان دیواروں میں در تلاش کرتا رہے ۔ بعید نہیں کہ اس سعی کے طفیل وہ اس صورتحال سے نکلنے میں کامیاب ہو جائے۔
دیکھ یوں وقت کی دہلیز سے ٹکرا کے نہ گر
راستے بند نہیں سوچنے والوں کے لئے
اسٹیفن کی اسی بات کو ایک شاعر نے اس طرح سے کہا ہے:
ہم خود تراشتے ہیں منازل کے راہ و سنگ
ہم وہ نہیں ہیں جن کو زمانہ بنا گیا
"When life gives you lemons, make lemonade"
جواب دیںحذف کریںبہت ہی عمدہ تحریر ہے، احمد بھائی۔ :)
ہر کسی کو ایسی ہی سوچ رکھنی چاہئے، پر بدقسمتی سے نا ہی ہر کوئی ایسی سوچ رکھتا ہے اور نا ہی کچھ حاصل کرنے کے لئے جستجو کرتا ہے۔ پہلے خود ہی اپنے ہاتھوں سے سب کچھ برباد کرتا ہے اور پھر سر پکڑ کر روتا نظر آتا ہے اور الزام اس پر ڈالتا ہے جس کے ساتھ خود اس نے زیادتی کی ہو۔ :) جانے کیوں ایسے لوگوں کو خود ساختہ "victim" بننے کا اتنا شوق کیوں ہوتا ہے۔ شائد ایسے لوگوں کو زندگی نے زیادہ دکھ نہیں دئیے ہوتے۔ اسی لئے شائد وہ اپنے لئے ایک مصنوعی ظلم کی فضا بنا کر اس درد کو محسوس کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو ان کو خوش قسمتی سے کبھی نصیب نہیں ہوا۔ اب بھلا ایسے لوگوں کا کیا علاج ہو؟؟؟ :)
سائرہ
بہت شکریہ سائرہ!
جواب دیںحذف کریںسب سے پہلی چیز سوچ ہی ہے۔ سوچ بدلتی ہے تو دنیا بدلنا شروع ہو جاتی ہے۔
بجا فرمایا احمد بھائی! آپ بہترین لکھتے ہیں۔ میری گزارش ہے کہ آپ مثبت سوچ پر زیادہ سے زیادہ لکھیں۔ ہو سکتا ہے کہ جس بات کا اثر ہمارے کہنے سے نہ ہوتا ہو، وہ آپ کے کہنے سے اثر کر جائے۔ :)
جواب دیںحذف کریںسائرہ
باقی تو تمام مضمون سے متفق ہوں مگر یہ "سب سے اچھی رفیق" والے معاملے پر ذرا اختلاف ہے۔ بلکہ ذرا نہیں کافی اختلاف ہے۔
جواب دیںحذف کریںخیر، اب بلاگ پر جھگڑا تو کرنے سے رہے۔ اگلی بار کراچی آمد پر یاد سے یہ قضیہ فیصل کریں گے۔ انشاءاللہ!
یہ اچھا ہے۔
جواب دیںحذف کریںاس بہانے آپ کراچی تشریف لے آئیں گے اور ملاقات بھی ہو جائے گی۔ :)