میرا دل بدل دے

جنید جمشید کا پڑھا ہوا یہ کلام مجھے بہت اچھا لگا۔ یہ دعائیہ کلام ہے اور اس کی شاعری بھی بہت خوب ہے۔ میں یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ یہ شاعری جنید جمشید صاحب کی ہی ہے یا کسی اور کی ہے۔ تاہم یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ اسلام میں دعا کو منظوم کرنا پسند نہیں کیا جاتا۔

میرا دل بدل دے

میرا غفلت میں ڈوبا دل بدل دے​
ہوا و حرص والا دل بدل دے​
الٰہی فضل فرما ،دل بدل دے​
بدل دے دل کی دنیا ،دل بدل دے​
گناہ گاری میں کب تک عمر کاٹوں؟؟​
بدل دے میرا رستہ، دل بدل دے​
ہٹا لوں آنکھ اپنی ماسواسے​
جیوں میں تیری خاطر، دل بدل دے​
کروں قربان اپنی ساری خوشیاں​
تو اپنا غم عطا کر، دل بدل دے​
سہل فرما مسلسل یاد اپنی​
الٰہی رحم فرما،دل بدل دے​
پڑا ہوں تیرے در پر دل شکستہ​
رہوں کیوںدل شکستہ، دل بدل دے​
تیرا ہو جاؤں اتنی آرزو ہے​
بس اتنی ہے تمنا ،دل بدل دے​
میری فریاد سن لے میرے مولا​
بنا لے اپنا بندہ ،دل بدل دے​
دلِ مغموم کو مسرور کر دے​
دلِ بے نور کو پر نور کر دے​
میرا ظاہر سنور جائے الٰہی​
میرے باطن کی ظلمت دور کر دے​


تحریف در غزلِ شکیب جلالی :)

شکیب جلالی کی معروف غزل "یہ جو دیوانے سے دو چار نظر آتے ہیں" اور ہماری مشقِ ستم، آپ احباب کے ذوقِ سلیم کی نذر: 

یہ جو دیوانے سے چھ آٹھ نظر آتے ہیں
ان میں کچھ صاحبِ بمباٹ1 نظر آتے ہیں

تیری محفل کا بھرم رکھتے ہیں سو جاتے ہیں
ورنہ یہ لوگ تو فِٹ فاٹ نظر آتے ہیں

دور تک کوئی ستارہ ہے نہ کوئی جگنو
ان دنوں آپ بھی کچھ شارٹ2 نظر آتے ہیں

ان سموسوں میں حراروں کے سوا کچھ بھی نہیں
آپ کھا کھا کے بھی اسمارٹ3 نظر آتے ہیں

جب سے اسپاٹ کی فکسکنگ کا سنا ہے شہرہ
اب تو ہرمیچ میں اسپاٹ4 نظر آتے ہیں

ہو گئے وہ بھی سگِ عاملِ تطہیرِ لباس
اب کبھی گھر تو کبھی گھاٹ نظر آتے ہیں

کچے دھاگے سے کھنچے آتے ہیں اب بھی لیکن
کچے دھاگے میں کئی ناٹ5 نظر آتے ہیں

اُن سے کہتا تھا کہ مت اتنی مٹھائی کھائیں
دیکھیے اب وہ شوگر پاٹ6 نظر آتے ہیں

محمد احمد


فرہنگ
1۔ بمباٹ : ایک قسم کی دیسی شراب 
2- short
3- smart
4- spot
5- knot
6- sugar pot

باقی صدیقی کی سدا بہار غزل

غزل

داغ دل ہم کو یاد آنے لگے 
لوگ اپنے دیئے جلانے لگے 

کچھ نہ پا کر بھی مطمئن ہیں ہم 
عشق میں ہاتھ کیا خزانے لگے 

یہی رستہ ہے اب یہی منزل 
اب یہیں دل کسی بہانے لگے 

خود فریبی سی خود فریبی ہے 
پاس کے ڈھول بھی سہانے لگے 

اب تو ہوتا ہے ہر قدم پہ گماں 
ہم یہ کیسا قدم اٹھانے لگے 

اس بدلتے ہوئے زمانے میں 
تیرے قصے بھی کچھ پرانے لگے 

رخ بدلنے لگا فسانے کا 
لوگ محفل سے اٹھ کے جانے لگے 

ایک پل میں وہاں سے ہم اٹھے 
بیٹھنے میں جہاں زمانے لگے 

اپنی قسمت سے ہے مفر کس کو 
تیر پر اڑ کے بھی نشانے لگے 

ہم تک آئے نہ آئے موسم گل 
کچھ پرندے تو چہچہانے لگے 

شام کا وقت ہو گیا باقیؔ 
بستیوں سے شرار آنے لگے 

باقیؔ صدیقی

لوگ جیسے بھی ہوں رکھیے حسنِ ظن، حُسنِ سُلُوک

غزل

زندگانی کا بنا لیجے چلن حُسنِ سُلُوک
لوگ جیسے بھی ہوں رکھیے حسنِ ظن، حُسنِ سُلُوک

سعیِ پیہم ہو کہ ہر دن زندگی کا خوب ہو
ہر عمل حسنِ عمل ہو ہر جتن حُسنِ سُلُوک

رہبرو! فتنہ گرو! غارت گرانِ دیں سُنو
الحذر! اب چاہتا ہے یہ وطن، حُسنِ سُلُوک

دھوپ ہے تو کیسا شکوہ، آپ خود سایہ بنیں 
بے غرض کرتے ہیں سب سرو و سمن حُسنِ سُلُوک

مسکرائیں، رنج بانٹیں، اور شجر کاری کریں
چاہتے ہیں آپ سے کوہ و دمن حُسنِ سُلُوک

ہم بُرائی کو بُرائی سے بدل سکتے نہیں
راہرو ہو یا ہو کوئی راہزن حُسنِ سُلوک

آپ بھی احمدؔ فقط ناصح نہ بنیے، کیجے کچھ!
ہر ادا حُسنِ ادا ہو، ہر سخن حُسنِ سُلُوک

محمد احمدؔ


بھرتی کا لفظ


بھرتی کا لفظ
محمد احمد

اُستاد ِ محترم نے کاغذ پر لکھے اکلوتے شعر پر نظر ڈالی اور عینک (جوبا مشکل ناک پر ٹکی ہوئی تھی) کے اوپر سےہمیں عجیب طرح سے دیکھا۔ ہم ابھی سٹپٹانے یا نہ سٹپٹانے کا فیصلہ کر ہی رہے تھے کہ یکایک اُن کے چہرے پر مُسکراہٹ نمودار ہوگئی۔ کہنے لگے۔ برخوردار شعر تو بہت اچھا ہے لیکن یہ ایک لفظ بھرتی کا ہے۔ اُستادِ محترم کی اُنگلی تلے دبا ہوا بھرتی کا لفظ ناقدانہ جبر و استبداد کی تاب نہ لاتے ہوئے، بہ صد ندامت ہم سے نظریں نہیں ملا پا رہا تھا۔ ایک لمحے کو خیال آیا کہ اُستادِ محترم کی انگشت مبارک کو زحمتِ شاقہ دے کر نادم لفظ سے آنکھیں چار کر لی جائیں لیکن پھر پاسِ ادب مانع ہوااور ہم نے دل ہی دل میں شعر کو دُہرا کر اُس بھرتی کے لفظ کو مجازاً ہی سہی گُدّی سے پکڑ لیا۔

بات استادِ محترم کی دل کو لگی۔ واقعی اگر وہ لفظ نہ بھی ہوتا تو بھی شعر کا مفہوم مکمل تھا۔ لیکن ہائے وہ شعر کا سانچہ کہ جو ایک حرف کے کم یا زیادہ ہونے پر بھی بانکا ہو جاتا ہےاور سجیلا ہونے سے انکار کر دیتا ہے۔ جبکہ یہاں تو معاملہ حرف کا نہیں بلکہ پورے لفظ کا تھا۔

آپ نے شاید بھرتی کے لفظ کے بارے میں سنا ہو۔ نہیں سُنا تو ہم بتا دیتے ہیں۔ شعری اصطلاح میں شعر میں محض وزن پورا کرنے کی خاطر ایسے لفظ شامل کرنا کہ جن کے نہ ہونے پر بھی شعر کے مفہوم پر کوئی فرق نہ پڑے وہ بھرتی کے لفظ یا حشو کہلاتے ہیں۔ اور جن کی عدم موجودگی کے باعث مصرع کی بندش چست قرار دی جاتی ہے۔

شاید آپ کو حیرت ہو لیکن امر واقع یہ ہے کہ بھرتی کے لفظ شاعری کے علاوہ نثر میں بھی کافی استعمال ہوتے ہیں ۔ یہ بات الگ ہے کہ نثر میں ان لفظوں کو کان سے پکڑ کر نکالنے والے ناقد میسر نہیں آتے۔ اور میسر آ بھی جائیں تو عموماً ناقد کو ہی کان سے پکڑ کر نکال دیا جاتا ہے۔

نثر میں بھرتی کے الفاظ کی مثالوں میں سب سے پہلے وہ لفظ ہیں جو بے چارے شوہر اپنی بیویوں کے نام کے ساتھ لگاتے ہیں۔ جیسے جان ، جانِ من وغیرہ۔ یا جب بیگمات اپنے شوہر سے کہتی ہیں کہ رات کو جلدی آئیے گا مجھے تھوڑی شاپنگ کرنی ہے تو اس قسم کے جملوں میں لفظ "تھوڑی" عموماً بھرتی کا ہوا کرتا ہے۔

ایسے ہی آپ نے اُن پیروں فقیروں، گدی نشینوں کے بڑے بڑے نام سُنے ہوں گے کہ جو شرو ع ہوجائیں تو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتے۔ ایسے ناموں میں ایک آدھ لفظ واقعی نام کی ادائیگی کے لئے ناگزیر ہوتا ہے لیکن باقی ماندہ زیادہ تر لفظ بھرتی کے ہوتے ہیں اور عموماً مُریدوں کی عقیدت مندی کا شاخسانہ ہوتے ہیں یا پھر نئے عقیدت مند گھیرنے کی پروموشن۔ یعنی حضرت علامہ، مولانا سے لے کر، پیرِطریقت، رہبرِ شریعت تک اور آخر میں لیاری شریف والے یا کیو ٹی وی والے سب کے سب کو آپ ہاتھ پاؤں بچا کر بھرتی کےلفظوں میں شمار کر سکتے ہیں۔

یوں تونثر میں بھرتی کے لفظوں کی کئی ایک مثالیں مزید دی جا سکتی ہیں۔ لیکن ہم مزید مثالیں آپ کی صوابدید پر چھوڑتے ہیں کہ بہ شرطِ دلچسپی اپنے ارد گرد بکھرے بھرتی کے الفاظ  آپ خود تلاش کر سکتے ہیں۔ 

رہا قصہ مذکورہ شعر اور اُس میں موجود بھرتی کے لفظ کا۔ تو جناب اُستادِ محترم سے اجازت لے کر جب ہم گھر کو چلے تو راستے میں ہی کئی ایک الفاظ اس سانچے میں بٹھانے کی سعی کرتے رہے، تاہم سانچے میں پورے بیٹھنے والے سب لفظ اُستادِ محترم کے بتائے گئے اصول کے مطابق بھرتی کے ہی لگے۔ گھر پہنچ کر بھی کچھ دیر یہی اُدھیڑ بُن رہی لیکن پھر ہمیں ایک خیال سُوجھا اور ہم سکون کی سانس لے کر سوگئے۔

اگلے روز جب ہم نے استادِ محترم کے سامنے ترمیم شدہ شعر رکھا تو اُستادِ محترم نے ہمیں ایک دم سے گھور کر دیکھا اور پھر مُسکراتے ہوئے بولے۔ تم بہت فنکار ہو گئے ہو۔ بھرتی کے لفظ کی جگہ تخلص ڈال دیا۔ اُستادِ محترم کی جانب سے اپنے 'فن' کے اعتراف پر ہم پھولے نہیں سمائے اور مسکراتے ہوئے سوچنے لگے۔ چلو مقطع تو ہو ہی گیا اب کبھی نہ کبھی غزل بھی ہو ہی جائے گی۔

خواب مرتے نہیں ۔ احمد فراز

خواب مرتے نہیں

خواب مرتے نہیں
خواب دل ہیں نہ آنکھیں نہ سانسیں کہ جو
ریزہ ریزہ ہوئے تو بکھر جائیں گے
جسم کی موت سے یہ بھی مر جائیں گے
خواب مرتے نہیں

خواب تو روشنی ہیں
نوا ہیں
ہوا ہیں
جو کالے پہاڑوں سے رکتے نہیں
ظُلم کے دوزخوں سے بھی پُھکتے نہیں
روشنی اور نوا اور ہوا کے علم
مقتلوں میں پہنچ کر بھی جُھکتے نہیں

خواب تو حرف ہیں
خواب تو نُور ہیں
خواب سُقراط ہیں
خواب منصور ہیں

احمد فراز


غزل ۔ مجھی سے کرتا نہ تھا کوئی مشورہ مِرا دل ۔ محمد احمدؔ

خاکسار کی ایک پرانی غزل قارئینِ بلاگ کی نذر:

غزل

مجھی سے کرتا نہ تھا کوئی مشورہ مِرا دل
سراب و خواب کے صحرا میں جل بجھا مِرا دل

نہ دیکھے طَور طریقے، نہ عادتیں دیکھیں
کسی کی شکل پہ اِک روز مر مِٹا مرا دل

وفا تو خیر ہوئی اس جہان میں عنقا
جو وہ ملے تو یہ پُوچھوں کہ کیا ہوا مرا دل؟

مآلِ دیدہ وری پُوچھتے ہو، دیکھ لو خود
بُجھی ہوئی مِری آنکھیں، بُجھا ہوا مرا دل

خلوص، مہر و مروّت بجز خسارہ نہیں
کہ دیکھتا ہی نہیں میرا فائدہ مرا دل

میں صاف دل ہوں، ہر اِک بات صاف کہتا ہوں
میں آئنہ ہوں تو ہے مثلِ آئنہ مرا دل

یہ اس کو دیکھ دھڑکنا ہی بُھول ہی جاتا ہے
غنیمِ جاں ہے،اُسی کا ہے، بے وفا! مرا دل

بچھڑ گئے، تھا بچھڑنا نوشتۂِ قسمت
ہے واقعہ جو بناتا ہے سانحہ مرا دل

نہیں تو کوئی نہیں، کوئی مسئلہ ہی نہیں
ذرا سی بات پہ ٹوٹے گا کون سا مرا دل؟

کسی کی یاد میں کھوئی سی ہیں مری آنکھیں
کسی کا دیکھتا رہتا ہے راستا مرا دل

سنا ہے قلب ہے سب تیری انگلیوں کے بیچ
تو اپنی سمت پلٹ لے مرے خدا مرا دل

میں آ گیا ہوں یہاں پر وہاں نہ جاؤں گا
پر اس کا پوچھ رہا ہے اتا پتا مرا دل

گرا دیا ہے قدر نا شناس ہاتھوں نے
ارے سنبھلنا! ذرا بچنا! دیکھنا! مِرا دل

میں اس گلی سے گزرتا ہوں سر جھکائے ہوئے
بنا ہوا ہے عجب موجۂِ صبا مرا دل

میں احمدؔ اپنی ہی دنیا میں شاد رہتا ہوں
یہ میرے خواب ہیں، یہ میں ہوں، یہ رہا مرا دل!

محمداحمدؔ