[ہفتہ ٴ غزل] ۔ آئینہ اندھیروں کو دکھا کیوں نہیں دیتے ۔ مقبول نقشؔ

غزل

آئینہ اندھیروں کو دکھا کیوں نہیں دیتے
اک شمع سرِ دار جَلا کیوں نہیں دیتے 

پتھر بھی چٹختے ہیں تو دے جاتے ہیں آواز
دل ٹوٹ رہے ہیں تو صَدا کیوں نہیں دیتے

کب تک پسِ دیوار سِسکتے رہے انساں
شہروں کی فصیلوں کو گرا کیوں نہیں دیتے

پابندیء اظہار سے بات اور بڑھے گی
احساس کو سولی پہ چڑھا کیوں نہیں دیتے 

کیا میری طرح خانماں برباد ہو تم بھی 
کیا بات ہے، تُم گھر کا پتا کیوں نہیں دیتے

ہم کو تو نہیں یاد کبھی دل بھی دُکھا تھا
رنجش کا سبب تم بھی بُھلا کیوں نہیں دیتے 

ساحل پہ کھڑے ہیں جو غمِ دل کے سفینے 
یادوں کے سمندر میں بَہا کیوں نہیں دیتے

معلوم تو ہو شہر ہے یا شہرِ خموشاں
تم نقشؔ کسی در پہ صدا کیوں نہیں دیتے

مقبول نقشؔ

[ہفتہ ٴ غزل] ۔ ہم اپنے آپ سے بیگانے تھوڑی ہوتے ہیں ۔ انور شعورؔ

غزل

ہم اپنے آپ سے بیگانے تھوڑی ہوتے ہیں
سرور  و کیف میں دیوانے تھوڑی ہوتے ہیں

گنا کرو نہ پیالے ہمیں پلاتے وقت
ظروف ظرف کے پیمانے تھوڑی ہوتے ہیں

براہِ راست اثر ڈالتے ہیں سچے لوگ
کسی دلیل سے منوانے تھوڑی ہوتے ہیں

جو لوگ آتے ہیں ملنے ترے حوالے سے
نئے تو ہوتے ہیں، انجانے تھوڑی ہوتے ہیں

ہمیشہ ہاتھ میں رہتے ہیں پھول اُن کے لئے
کسی کو بھیج کے منگوانے تھوڑی ہوتے ہیں

کسی غریب کو زخمی کرے کہ قتل کرے
نگاہِ ناز کو جُرمانے تھوڑی ہوتے ہیں

شعورؔ تم نے خدا جانے کیا کیا ہوگا
ذرا سی بات کے افسانے تھوڑی ہوتے ہیں

انور شعورؔ

[ہفتہ ٴ غزل] ۔ پھر اِس سے قبل کہ بارِ دگر بنایا جائے ۔ طارق نعیم

غزل 

پھر اِس سے قبل کہ بارِ دگر بنایا جائے
یہ آئینہ ہے اسے دیکھ کر بنایا جائے

میں سوچتا ہوں ترے لامکاں  کی اس جانب
مکان کیسا بنے گا اگر بنایا جائے

ذرا ذرا سے کئی نقص ہیں ابھی مجھ میں 
نئے سرے سے مجھے گوندھ کر بنایا جائے

بہت سے لفظ پڑے حاشیوں میں سوچتے ہیں
کسی طرح سے عبارت میں در بنایا جائے

زمین اتنی نہیں ہے کہ پاؤں رکھ پائیں
دلِ خراب کی ضد ہے کہ گھر بنایا جائے

وہ جا رہا ہے تو جاتے ہوئے کو روکنا کیا
ذرا سی بات کو کیوں دردِ سر بنایا جائے

کہیں رُکیں گے تو طارق نعیم دیکھیں گے
سفر میں کیا کوئی زادِ سفر بنایا جائے

طارق نعیم

[ہفتہ ٴ غزل] ۔ ہوا نے باندھ دیا رات سلسلہ ایسے

آج کی معروف غزل

ہوا نے باندھ دیا رات سلسلہ ایسے
بلا رہا ہے کوئی دور سے لگا ایسے

جہاں بھی دیکھو وہاں پھول کھلنے لگتے ہیں
زمیں پہ چھوڑ گیا کوئی نقشِ  پا ایسے

ہمیں لگا کہ کوئی شعر کہہ لیا ہم  نے
ذرا سی دیر کہیں کوئی مل گیا ایسے

سکوت ایسا کہ اب خاک تک نہیں اڑتی
ہوائیں بھول بھی سکتی ہیں راستہ ایسے

- نامعلوم -

[ہفتہ ٴ غزل] ۔ یہ نہیں ہے کہ تجھے میں نے پکارا کم ہے۔ باصرؔ کاظمی

غزل

یہ نہیں ہے کہ تجھے میں نے پکارا کم ہے
میرے نالوں کو ہواؤں کا سہارا کم ہے

اس قدر ہجر میں کی نجم شماری ہم نے
جان لیتے ہیں کہاں کوئی ستارہ کم ہے

دوستی میں تو کوئی شک نہیں اُس کی پر وہ
دوست دشمن کا زیادہ ہے ہمارا کم ہے

صاف اظہار ہو اور وہ بھی کم از کم دو بار
ہم وہ عاقل ہیں جنہیں ایک اشارہ کم ہے

اتنی جلدی نہ بنا رائے مرے بارے میں
ہم نے ہمراہ ابھی وقت گزارا کم ہے

باغ اک ہم کو ملا تھا مگر اس کو افسوس 
ہم نے جی بھر کے بگاڑا ہے سنوارا کم ہے

آج تک اپنی سمجھ میں نہیں آیا باصرؔ
کون سا کام ہے وہ جس میں خسارہ کم ہے

باصرؔ کاظمی

[ہفتہ ٴ غزل] ۔ سفر کے ساتھ مسافر کی دل لگی بھی گئی ۔ عبید الرحمٰن عبیدؔ

غزل

سفر کے ساتھ مسافر کی دل لگی بھی گئی 
جو شام آ گئی ، صحرا کی دل کشی بھی گئی

وہ جس پہ تکیہ کیا  سر کشیدہ موجوں  میں 
سو اب تو ہاتھ سے وہ ناؤ کاغذی بھی گئی

وہ خامشی کہ فقط میں ہی سُن رہا تھا جسے
دُروں کا شور بڑھا اور وہ خامُشی بھی گئی

ابھی سفینہ ٴ جاں ڈوبنے ہی والا تھا
کہ سر کشیدہ سی موجوں کی سرکشی بھی گئی

ہوا بھی تِیرہ شبی کی حلیف ہی ٹھیری
سحر سے پہلے چراغوں کی روشنی بھی گئی

اگرچہ دعوے بہت تھے کہ دوست ہیں ہم بھی 
پڑا جو اُن سے کبھی کام ،  دوستی بھی گئی

وہ تِیرہ شب سے اکیلے ہی لڑ رہا تھا عبیدؔ
دیا بُجھا تو ہواؤں کی برہمی بھی گئی

عبید الرحمٰن عبیدؔ

[ہفتہ ٴ غزل] ۔ وہ کج کلہ جو کبھی سنگ بار گزرا تھا ۔ محمد یعقوب آسیؔ

غزل

وہ کج  کلہ جو کبھی سنگ بار گزرا تھا
کل اس گلی سے وہی سوگوار گزرا تھا

کوئی چراغ جلا تھا نہ کوئی در وا تھا
سنا رات گئے شہریار گزرا تھا

گہر جب آنکھ سے ٹپکا زمیں میں جذب ہوا
وہ ایک لمحہ بڑا باوقار گزرا تھا

جو تیرے شہر کو گلگوں بہار بخش گیا
قدم قدم بہ سرِ نوکِ خار گزرا تھا

وہ جس کے چہرے پہ لپٹا ہوا تبسم تھا
چھپائے حسرتیں دل میں ہزار گزرا تھا

جسے میں اپنی صدا کا جواب سمجھا تھا
وہ اک فقیر تھا، کرکے پکار گزرا تھا

ترے بغیر بڑے بے قرار ہیں، آسیؔ
ترا وجود جنہیں ناگوار گزرا تھا

محمد یعقوب آسی