غزل
آئینہ اندھیروں کو دکھا کیوں نہیں دیتے
اک شمع سرِ دار جَلا کیوں نہیں دیتے
پتھر بھی چٹختے ہیں تو دے جاتے ہیں آواز
دل ٹوٹ رہے ہیں تو صَدا کیوں نہیں دیتے
کب تک پسِ دیوار سِسکتے رہے انساں
شہروں کی فصیلوں کو گرا کیوں نہیں دیتے
پابندیء اظہار سے بات اور بڑھے گی
احساس کو سولی پہ چڑھا کیوں نہیں دیتے
کیا میری طرح خانماں برباد ہو تم بھی
کیا بات ہے، تُم گھر کا پتا کیوں نہیں دیتے
ہم کو تو نہیں یاد کبھی دل بھی دُکھا تھا
رنجش کا سبب تم بھی بُھلا کیوں نہیں دیتے
ساحل پہ کھڑے ہیں جو غمِ دل کے سفینے
یادوں کے سمندر میں بَہا کیوں نہیں دیتے
معلوم تو ہو شہر ہے یا شہرِ خموشاں
تم نقشؔ کسی در پہ صدا کیوں نہیں دیتے
مقبول نقشؔ