[ہفتہ ٴ غزل] ۔ دیوار پر لکھ دیا گیا ہے ۔ نوید صادق

غزل

دیوار پر لکھ دیا گیا ہے
یہ شہر، شکست آشنا ہے

تصویر میں جو دِکھا رہے ہو
کیا واقعی ایسا ہو چکا ہے

دنیا، گھر۔۔۔ مسئلے بہت ہیں
انسان پناہ مانگتا ہے

بس چار دِشائیں خالی کردو
جنگل نے مطالبہ کیا ہے

تم بھی شاید بھٹک گئے ہو
یہ اور کہیں کا راستہ ہے

کچھ رنگ کُھلے ہیں پیرہن کے
کچھ شام کی سیر کا نشہ ہے

بہتر ہے کہ ہم کہیں چلے جائیں
اس شہر میں یوں بھی اپنا کیا ہے

وہ شام، وہ ہم، وہ تم۔۔۔ زمانہ
دورانیہ مختصر رہا ہے

کچھ ٹھیک سے گفتگو نہیں کی
کچھ عجلت نے پھنسا دیا ہے

خاموش کیوں ہو نوید صادق؟
پھر کوئی کہیں چلا گیا ہے!

نوید صادق

[ہفتہ ٴ غزل] ۔ اگر ناکامیِ دل پر کوئی الزام آجائے ۔ ادب دوست

غزل

اگر ناکامیِ دل پر کوئی الزام آجائے
میری خوئے ملامت کو ذرا آرام آجائے

جنوں زادوں کا صحرا سے اگر پیغام آجائے
لبِ دریا سے بھی واپس یہ تشنہ کام آجائے

سبھی کردار بوجھل ہو گئے میری کہانی کے
الہٰی جتنی جلدی ہو سکے انجام آجائے

مگر تم دیکھ لو ! حالت ہمارے جیسی ہوتی ہے
جب اپنی آئی پر یہ گردشِ ایام آجائے

کہ پھر تو داد دینی چائیے محرومیِ دل کی 
اگر مقتل سے بھی ، عاشق کوئی ناکام آجائے

گواہی آخری ہچکی پہ دے دوں ؟ تم نہیں قاتل
یہ جاں ویسے بھی جانی ہے ، کسی کے کام آجائے

ادب دوست

[ہفتہ ٴ غزل] ۔ سات رنگوں کے شامیانے ہیں ۔ بشیر بدر

غزل 

سات رنگوں کے شامیانے ہیں
دل کے موسم بڑے سُہانے ہیں

کوئی تدبیر بھولنے کی نہیں
یاد آنے کے سو بہانے ہیں

دل کی بستی ابھی کہاں بدلی
یہ محلے بہت پرانے ہیں

حق ہمارا نہیں درختوں پر
یہ پرندوں کے آشیانے ہیں

علم و حکمت سیاست و مذہب
اپنے اپنے شراب خانے ہیں

دھوپ کا پیار خوبصورت ہے
آگ کے پھول بھی سُہانے ہیں

بشیر بدر

[ہفتہ ٴ غزل] ۔ تُو نہیں تو زندگی میں اور کیا رہ جائے گا ۔ افتخار امام صدیقی

آج کی معروف غزل 

تُو نہیں تو زندگی میں اور کیا رہ جائے گا
دور تک تنہائیوں کا سِلسلہ رہ جائے گا

درد کی ساری تہیں، اور سارے گزرے حادثے
سب دھواں ہو جائیں گے، اک واقعہ رہ جائے گا

یُوں بھی  ہو گا، وہ مجھے دل سے بُھلا دے گا مگر
یہ بھی ہو گا خود اُسی میں اِک خلا رہ جائے گا

دائرے اِنکار کے ، اِقرار کی سرگوشیاں
یہ اگر ٹوٹیں کبھی تو فاصلہ رہ جائے گا

افتخار امام صدیقی

[ہفتہ ٴ غزل] ۔ ہر اک سیلِ بلا، ایک اک شناور سامنے ہے ۔ افتخار عارف

غزل 

ہر اک سیلِ بلا، ایک اک شناور سامنے ہے
کنارے ہوں مگر سارا سمندر سامنے ہے

اک آئینہ اور اتنے مسخ چہرے اور بہ یک وقت
بجھی جاتی ہیں آنکھیں اب وہ منظر سامنے ہے

نہیں معلوم اب اس خواب کی تعبیر کیا ہو
میں نرغے میں ہوں اور جلتا ہوا گھر سامنے ہے

سوالِ حرمتِ میزانِ بے توقیر کے بعد 
جو زیرِ آستیں تھا اب وہ خنجر سامنے ہے

ابھی جو اہتمامِ جشنِ فردا میں مگن تھی
وہی خلقِ خدا حیران و ششدر سامنے ہے

افتخار عارف


[ہفتہ ٴ غزل] ۔ گلِ خورشید کھلاؤں گا، چلا جاؤں گا ۔ اشرف جاوید

غزل 

گلِ خورشید کھلاؤں گا، چلا جاؤں گا
صبح سے ہاتھ ملاؤں گا، چلا جاؤں گا

اب تو چلنا ہے کسی اور ہی رفتار کے ساتھ!
جسم بستر پہ گراؤں گا، چلا جاؤں گا

آبلہ پائی ہے، رسوائی ہے، رات آئی ہے
دامن اک اک سے چھڑاؤں گا، چلا جاؤں گا

ہجر صدیوں کے تحیّر کی گِرہ کھولے گا
اک زمانے کو رُلاؤں گا، چلا جاؤں گا

بس! تجھے دیکھوں گا آتے ہوئے اپنی جانب
پھول قدموں میں بچھاؤں گا، چلا جاؤں گا

آسماں پھیل گیا دشتِ جنوں کی صورت
اب وہاں خاک اُڑاؤں گا، چلا جاؤں گا
عشق بھی حسن بھی ضم ہوتا دکھاؤں گا تجھے
جب دیا رقص میں لاؤں گا، چلا جاؤں گا

زندگی بھر کوئی حیرانی بسے گی اس میں 
گھر ترے دل میں بناؤں گا، چلا جاؤں گا

جس طرف بھول کے بھی دیکھا نہیں آج تلک
قدم اس سمت بڑھاؤں گا، چلا جاؤں گا

اشرف جاوید

[ہفتہ ٴ غزل] ۔ کیا ملال اب کے دھریں سینۂ پُر خار کے پاس ۔ فاتح الدین بشیر

غزل

کیا ملال اب کے دھریں سینۂ پُر خار کے پاس
گُلِ آزار کھِلے خرمَنِ پِندار کے پاس

ایک ویرانی ہے تعمیرِ مسلسل کی اَساس
حسرتیں آن بَسیں مرقدِ مِعمار کے پاس

مَوت اَنگُشت بدنداں ہے یہ کس کا ہے نصیب
اُستُخواں دار پہ، سر زانُوئے دِلدار کے پاس

باس تھی جن میں بَدَن کی ترے، ہم آبلہ پا
رِہن رکھ آئے ہیں وہ سانس بھی گلزار کے پاس

اَصلِ آئینہ فقط ریگ مگر صُورت کَش
نُور کس آنکھ کا ہے دیدۂ زنگار کے پاس

عُذر طُرفہ سا ہے اک لغزشِ پیہم کا بشیرؔ
کار آموزیِ عصیاں کا، سیہ کار کے پاس

فاتح الدین بشیرؔ