[ہفتہ ٴ غزل] ۔ اب نہ بہل سکے گا دل اب نہ دیے جلائیے ۔ احمد مشتاقؔ

غزل 

اب نہ بہل سکے گا دل اب نہ دیے جلائیے
عشق و ہوس ہیں سب فریب آپ سے کیا چھپائیے

اس نے کہا کہ یاد ہیں رنگ طلوع عشق کے
میں نے کہا کہ چھوڑیئے اب انہیں بھول جائیے

کیسے نفیس تھے مکاں ،صاف تھا کتنا آسماں
میں نے کہا کہ وہ سماں آج کہاں سے لائیے

کچھ تو سراغ مل سکے موسم درد ہجر کا
سنگ جمال یار پر نقش کوئی بنائیے

کوئی شرر نہیں بچا پچھلے برس کی راکھ میں
ہم نفسان شعلہ خو آگ نئی جلائیے

احمد مشتاق

[ہفتہ ٴ غزل] ۔ عرصۂ خواب کے پردے میں چھپا لگتا ہے . محمد بلال اعظم

غزل

عرصۂ خواب کے پردے میں چھپا لگتا ہے
وقت درویش کے حجرے کا دیا لگتا ہے

میری ہر بات مکمل ہے ترے ہونے سے
تیرا ہر لفظ مجھے مثلِ ثنا لگتا ہے

یہ زمانہ تو نہیں میرے لئے ربِ سحر!
اِس زمانے میں تو ہر شخص خدا لگتا ہے

اس قدر تیز ہوئی تیز ہوئی عمرِ رواں
اے خدا! وقت مجھے ٹھہرا ہوا لگتا ہے

ہاں محبت ہے، مگر مجھ کو انا بھی ہے عزیز
تجھ کو جانا ہے تو جا، تُو مرا کیا لگتا ہے

شاید اک اور بھی دنیا ہے مرے پہلو میں
مجھے کچھ کچھ یہ جہاں سمٹا ہوا لگتا ہے

اک ہیولیٰ ہے کہ رہتا ہے ہر اک پل مرے ساتھ
ایک منظر ہے، مجھے خود سے جدا لگتا ہے

محمد بلال اعظم

[ہفتہ ٴ غزل] ۔ نام اُسی کا نام سویرے شام لکھا ۔ بشیر بدر

غزل

نام اُسی کا نام سویرے شام لکھا
شعر لکھا یا خط اُس کو گمنام لکھا

اُس د ن پہلا پھول کھلا جب پت جھڑ نے
پتّی پتّی جوڑ کے تیرا نا لکھا

اُس بچے کی کاپی اکثر پڑھتا ہوں
سورج کے ماتھے پر جس نے شام لکھا

کیسے دونوں وقت گلے ملتے ہیں روز
یہ منظر میں نے دشمن کے نام لکھا

سات زمینیں ایک ستارہ، نیا نیا
صدیوں بعد غزل نے کوئی نام لکھا

میرؔ ، کبیرؔ، بشیرؔ اسی مکتب کے ہیں
آ، دل کے مکتب میں اپنا نام لکھا

بشیر بدر

[ہفتہ ٴ غزل] ۔ کچھ دن تو بسو مِری آنکھوں میں ۔ عبید اللہ علیم

آج کی معروف غزل

کچھ دن تو بسو مِری آنکھوں میں
پھر خواب اگر ہو جاؤ تو کیا

کوئی رنگ تو دو مِرے چہرے کو
پھر زخم اگر مہکاؤ تو کیا

جب ہم ہی نہ مہکے پھر صاحب
تم بادِ صبا کہلاؤ تو کیا

اِک آئینہ تھا سو ٹوٹ گیا
اب خود سے اگر  شرماؤ تو کیا

تم آس بندھانے والے تھے
اب تم بھی ہمیں ٹھکراؤ تو کیا

دنیا بھی وہی اور تم بھی وہی
پھر تم سے آس لگاؤ تو کیا

میں تنہا تھا میں تنہا ہوں
تم آؤ تو کیا نہ آؤ تو کیا

جب دیکھنے والا کوئی نہیں
بجھ جاؤ تو کیا گہناؤ تو کیا

اِک وہم ہے یہ دُنیا اس  میں
کچھ کھوؤ تو کیا اور پاؤ تو کیا

ہے یوں بھی زیاں اور یوں بھی زیاں
جی جاؤ تو کیا مر جاؤ تو کیا

عبید اللہ علیم

[ہفتہ ٴ غزل] ۔ ہم جو محفل میں تری سینہ فگار آتے ہیں ۔ سردار جعفری

غزل 

ہم جو محفل میں تری سینہ فگار آتے ہیں
رنگ بردوش، گلستاں بہ کنار آتے ہیں

چاک دل، چاک جگر، چاک گریباں والے
مثلِ گُل آتے ہیں، مانندِ بہار آتے ہیں

کوئی معشوق سزاوارِ غزل  ہے شاید
ہم غزل لے کے سوئے شہرِ نگار آتے ہیں

کیا وہاں کوئی دل و جاں کا طلب گار نہیں
جا کے ہم کوچہ ٴ قاتل میں پکار آتے ہیں

قافلے شوق کے رُکتے نہیں دیواروں سے 
سینکڑوں محبس  و زنداں کے دیار آتے ہیں

منزلیں دوڑ کے روہرو کے قدم لیتی ہیں
بوسہ ٴ پا کے لئے رہ گزار آتے ہیں

خود کبھی موج و تلاطم سے نہ نکلے باہر
پار جو سارے زمانے کو اتار آتے ہیں

کم ہو کیوں ابروئے قاتل  کی کمانوں کا کھنچاؤ
جب سرِ تیرِ ستم آپ شکار آتے ہیں

سردار جعفری

[ہفتہ ٴ غزل] ۔ تصویر ہے یا کوئی پری ہے ۔ احمد صغیر صدیقی

غزل 

تصویر ہے یا کوئی پری ہے 
کیا سلسلہ ٴ خوش نظری ہے

ہونٹوں پہ ہیں کچھ برف زدہ لفظ 
سینے میں عجب آگ بھری ہے

کچھ بھی نہیں یہ نیند یہ بستر
جو کچھ بھی سب خواب گری ہے

جینے کے لئے پاس ہمارے 
تقدیر ہے اور رنج وری ہے

دل ہے تو بہت درد کے امکاں
سر ہے تو بہت دردِ سری ہے

انجامِ سفر ایک تھکن بس
رودادِ خبر بے خبری ہے

مل جائے تو کچھ بھی نہیں دنیا
کھو جائے تو جادو نگری ہے

احمد صغیر صدیقی

[ہفتہ ٴ غزل] ۔ تیرگی سرِ مژگاں جگنوؤں کی آسانی ۔ م م مغل

غزل

تیرگی سرِ مژگاں جگنوؤں کی آسانی
مشکلوں سے ملتی ہے مشکلوں کی آسانی

انتظار کی شب میں صبح جاگ اٹھی ہے
شام سے خفا سی ہے دستکوں کی آسانی

ہر نفس سلگتی ہے چہرگی کو روتی ہے
آئنوں کے جنگل میں حیرتوں کی آسانی

دل سراب زار ایسا عشق میں نہیں ہوتا
تشنگی سلامت اور بارشوں کی آسانی

وصل ایک اندیشہ بُن رہا ہے مدت سے
ہجر میں یقیں کا دکھ واہموں کی آسانی

دھڑکنیں ملامت سی سانس تازیانہ سی
ایسے میں غنیمت ہے آنسوؤں کی آسانی

مطمعن نہ ہوجانا یہ سخن کا صحرا ہے
اس میں کم ہی ملتی ہے آہوؤں کی آسانی

شعر گوئی بھی محمود یار سے عبارت ہے
گر تجھے میسر ہو رتجگوں کی آسانی

محمد محمود مغل