رمضان اور خریداری


رمضان شروع ہونے سے کچھ دن پہلے ہمارے ہاں بازاروں میں رش بڑھ جاتا ہے۔ بازاروں اور سپر اسٹورز میں خریدار ی اتنی زیادہ بڑھ جاتی ہے کہ چلنے پھرنے تک کی جگہ نہیں ہوتی۔ ہر شخص اپنی ضرورت سے کہیں زیادہ خریداری کرتا نظر آتا ہے۔ کچھ لوگوں کا تو یہی خیال ہوتا ہے کہ بس ابھی جو خریدنا ہے خرید لیں اور پورا رمضان کوئی خریدار ی نہ کریں۔ حالانکہ ایسا بھی نہیں ہوتا۔ کچھ لوگ اس خوف سے خریداری میں لگ جاتے ہیں کہ رمضان میں اشیاء کی قیمتیں بہت بڑھ جائیں گی سو سب کچھ پہلے سے خرید کر رکھ لیں۔

بہر کیف اس کثرتِ خریداری کی وجہ کچھ بھی ہو اس سے ہوتا یہ ہے کہ بازار میں اشیاء خورد و نوش کی طلب ایک دم سے بڑ ھ جاتی ہے۔ اشیاء کی طلب بڑھنے سے طلب اور رسد کا توازن بگڑ جاتا ہے اور نتیجتاً قیمتیں آسمان پر پہنچ جاتی ہیں۔ اس طرح افرات کے ساتھ خریداری کرنے والے مہنگائی میں اضافے کا بلواسطہ سبب بن جاتے ہیں اورغریب لوگ جو تھوڑی بہت خریداری کی ہی سکت رکھتے ہیں اُس سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔

یہ جانتے ہوئے بھی کہ رمضان ایسا مہینہ ہے کہ جس میں ہم غریب مسکین لوگوں کی تکالیف کا احساس کرنا سیکھ سکتے ہیں جانے انجانے میں ہم خود ہی اُن کی تکلیف میں اضافے کا سبب بن جاتے ہیں۔ سو یہ بات اہم ہے کہ ہم خریداری میں اعتدال سے کام لیں اور بے جا اشیاء خرید کر بازار میں قیمتوں کا توازن خراب ہونے سے بچائیں۔

آپ کی ذرا سی توجہ ماحول میں بہتری کا سبب بن سکتی ہے۔ 

رمضان مبارک



ان شاءاللہ کچھ ہی دنوں میں رمضان المبارک کا بابرکت مہینہ شروع ہونے والا ہے ۔ سو آج سے اس ماہ کے بارے میں کچھ بات کرتے ہیں۔ اسلامی مہینوں میں رمضان المبارک بڑی شان و عظمت والا مہینہ ہے۔ یہ ماہِ مبارک بے انتہا با برکت ہے اور اسے طرح طرح کی دنیاوی اور اُخروی نعمتوں سے مزیّن کیا گیا ہے۔

جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ اس ماہِ مبارک میں اللہ رب العزت نے مسلمانوں پر روزے رکھنا فرض کیے ہیں۔ روزے رکھنے کی غرض و غایت یہ ہےکہ انسان میں تقویٰ اور پرہیزگاری پیدا ہو جائے۔ پرہیزگاری سے مراد یہ ہے کہ انسان اپنی زندگی کو اللہ رب العزت کی مرضی کے تابع کر دے اور ہر ہر معاملے میں اپنی مرضی پر اللہ کی مرضی کو فوقیت دینا شروع کر دے۔ رمضان کی ایک ماہ کی یہ تربیت مسلمانوں کو باقی تمام مہینوں میں بھی پرہیزگاری اور اطاعت اخیتار کرنے میں مدد دیتی ہے۔

روزے کا دوسرا اہم مقصد یہ ہے کہ انسا ن بھوک پیاس میں رہ کر اُن لوگوں کا احساس کرسکے جو اشیائے خوردو نوش کی کمی کا شکار رہتے ہیں۔ ہم جو ہمہ وقت اللہ کی نعمتوں سے فیضیاب ہوتے رہتے ہیں اور اُس کا شکر تک ادا نہیں کرتے ، ہمیں روزہ یہ احساس دلا تا ہے کہ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جنہیں لذتِ کام و دہن تو کُجا پیٹ بھرنے کے لئے معمولی غذا بھی میسر نہیں ہے۔ اگر ہمارا روزہ ہمیں یہ احساس دلانے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو پھر تو ہمارا روزہ ٹھیک ہے اگر ایسا نہیں ہے تو پھر ہمیں فکر کرنے کی ضرورت ہے۔

علاوہ ازیں رمضان المبارک وہ بابرکت مہینہ ہے جس میں قرانِ کریم نازل ہوا ۔ سو قرانِ کریم کے تعلق سے بھی یہ مہینہ بے حد اہم ہے۔ اس ماہ میں مسلمانوں کو قیام اللیل کا حکم دیا گیا یعنی راتوں کو کھڑے ہو کر قرانِ کریم پڑھنے اور سننے کا اہتمام کا کیا جائے۔ سو ہمیں چاہیے کہ اس ماہ میں قرانِ کریم سے اپنا رشتہ مضبوط کریں اور قیام اللیل کے علاوہ بھی قران کریم کی تلاوت و تفہیم کا اہتمام کریں تاکہ ہم یہ جان سکیں کہ اللہ رب العزت ہم سے کیا چاہتا ہے اور ہم قرانِ کریم کے پیغام کو سمجھ کر اس کے مطابق اپنی زندگی بسر کرنے کی کوشش کریں۔

رمضان کے روزوں کااجر بے تحاشا ہے جو روزے داروں کا آخرت میں ملے گا لیکن اخروی اجر کے علاوہ دنیا میں بھی رمضان کا ماہ ختم ہونے پر مسلمانوں کو عید الفطر یعنی خوشی کا تہوار عطا کیا ہے۔ ہم عید الفطر میں خوشیاں منانے کے صحیح مستحق کس طرح ہو سکتے ہیں یہ جاننے کہ لئے آ پ یہ مختصر تحریر بھی پڑھ سکتے ہیں۔

دعا ہے اللہ رب العزت ہمیں یہ بابرکت مہینہ دیکھنے ، اور اس سے کما حقہ فیضیاب ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

غزل ۔ اک تعلق کہ گلِ تازہ پہ ہنستی خوشبو ۔ محمد احمدؔ

غزل

اک تعلق کہ گلِ تازہ پہ ہنستی خوشبو
اک تصور کہ شب و روز برستی خوشبو

تھام کر دستِ صبا خوابِ عدم ہوتی ہے
گُلفروشوں کے بدن میں نہیں بستی خوشبو

میں دکھاوے کی محبت کا نہیں ہوں قائل
میں لگاتا نہیں اظہار کی سستی خوشبو

میں کہ پر شوق پرندہ ہے تخیّل میرا
تو ورا الماورا ہے، تری ہستی خوشبو

وہی اطوار ہیں دنیا ترے اُس شوخ کے سے
وہی پھولوں سا بدن ہے وہی ڈستی خوشبو

محمد احمدؔ

جو گزری مجھ پہ مت اُس سے کہو، ہوا سو ہوا

غزل

جو گزری مجھ پہ مت اُس سے کہو، ہوا سو ہوا
بلاکشانِ محبت پہ جو، ہوا سو ہوا

مبادا ہو کوئی ظالم ترا گریباں گیر
مرے لہو کو تو دامن سے دھو، ہوا سو ہوا

پہنچ چکا ہے سرِ زخم دل تلک یارو
کوئی سیو، کوئی مرہم رکھو، ہوا سو ہوا

کہے ہے سن کے مری سرگزشت وہ بے رحم
یہ کون ذکر ہے جانے بھی دو، ہوا سو ہوا

خدا کے واسطے آ، درگرز گنہ سے مرے
نہ ہوگا پھر کبھو اے تندخو، ہوا سو ہوا

یہ کون حال ہے، احوالِ دل پہ اے آنکھو!
نہ پھوٹ پھوٹ کے اتنا بہو، ہوا سو ہوا

دیا اُسے دل و دیں اب یہ جان ہے سودا
پھر آگے دیکھیے جو ہو سو ہو، ہوا سو ہوا

مرزا رفیع سودا

کھانے کے رسیّا بدتمیز پردیسی کا منظوم تعارف

کھانے کے رسیّا بدتمیز پردیسی کا منظوم تعارف
(بچپن کی ایک یاد)​
از محمد احمد
بچپن میں جب ہماری اشعار سے کچھ مُڈ بھیڑ ہوئی تو اُن میں زیادہ تر ظریفانہ کلام ہی تھا اور چونکہ انسان ، حیوانِ ظریف واقع ہوا ہے سو ہم نے بھی خوب خوب اپنی حیوانی ظرافت سے حظ اُٹھایا۔ خیال رہے کہ ظریفانہ کلام سے آپ کا دھیان انور مسعود اور عنایت علی خان ٹونکی وغیرہ پر نہ جائے کہ بچپن میں پڑھا اور سُنا جانے والا یہ کلام بچوں کی ظرافت کے لئے تھا جو عمومی تک بندیء حیوانِ ظریف میرا مطلب ہے کہ عام مزاحیہ شاعر ی کے بس کی بات نہیں تھی ۔ چونکہ مذکورہ ظریفانہ کلام کی نشر و اشاعت کے لئے میسر واحد میڈیا 'سینہ گزٹ' ہی تھا سو ہم یہ کلام ہم عمر دوستوں سے سُنا کرتے اور وہ یہ شاعری خود سے دو چار سال بڑے کسی شرارتی رشتے دار یا محلے والے سے سُن کر آتے جو خود تو بڑے ہو جاتے مگر اُن کی حرکتیں نہیں جاتیں۔ یہ اشعار کچھ اس قسم کے ہوتے:

دور سے دیکھا تو سکینہ بال سُکھا رہی تھی
پاس جا کے دیکھا تو بھینس دُم ہلا رہی تھی​
یا
دور سے دیکھا تو انڈے اُبل رہے تھے
قریب جا کے دیکھا تو گنجے اُچھل رہے تھے
کہتے ہیں کہ بڑا شاعر اپنی شاعری کو سب سے زیادہ جانتا ہے (اکثر معقول ناقد ایسے بڑے شعراء کو معنی فی بطن الشاعر کا نامعقول طعنہ بھی دیتے ہیں لیکن ناقدوں کو سُننے بیٹھیں تو پھر شاعری تو بس ہو ہی گئی۔) سو مذکورہ شعراء بھی اپنی شاعری کو بخوبی جانتے تھے سو اُنہوں نے فساد خلق سے بچنے کے لئے کبھی بھی شعر کے ساتھ اپنا نام روانہ نہیں کیا ورنہ ہمیں بخوبی اندازہ ہے کہ یہ شعراء بھی غالب کے ہم پایہ نہیں تو ہم سایہ ضرور ہوں گے۔

اسی ضمن میں ایک شعر یا اشعاری سلسلہ کہ جو تذکرہ ء ہٰذا کا وجہء نزول ثابت ہوا کچھ یوں تھا :

آیا ہوں بڑی دور سے کھاتا ہوں پراٹھے
نکال اپنے باپ کو لڑتا ہوں کراٹے​

باوجود اس کے کہ یہ شعر بدتمیزی کو ہوا دیتا تھا اور بات اسلاف تک جا پہنچتی تھی ، اِسے حلقہء اربابِ اطفال میں بہت پذیرائی ملی اور اُن دنوں اس شعر کے باعث سینہ گزٹ کے روزانہ کے چھ آٹھ ایڈیشن نکلنے لگے۔ ہم نے اس شعر کی پذیرائی کو دیکھتے ہوئے اس پر تھوڑی بہت تحقیق کا بیڑا بھی اُٹھایا لیکن جلد ہی باز بھی آ گئے ، باز کے ساتھ چیل کوئے بھی آگئے ہوں تو ہمیں یاد نہیں۔

بہرکیف ، یہ شعر ایک ایسے شخص کا تعارف ہے جو میلوں کی مسافت طے کرکے پہنچا ہے اور راستے کی کٹھنائیوں اور طعام و قیام کے نامناسب بندوبست کے باعث اب کچھ کھانے پینے کو بے چین ہے اور اتنا عرصہ لذتِ کام و دہن سے محرومی کے باعث ایک ضد سی ہو گئی ہے کہ اب کچھ کھائیں تو بس پراٹھے ہی کھائے جائیں۔ دوسرا مصرعہ گو بظاہر بدتمیزی پر مبنی ہے تاہم یہ بھی اپنے اندر ایک جہانِ معنی رکھتا ہے۔ اس سوال کا جواب کہ کھانے کے رسیّا بدتمیز پردیسی نے براہِ راست باپ سے ہی دو دو ہاتھ کرنے کا فیصلہ کیوں کیا ، یہ ہوسکتا ہے کہ شاعر چاہے کتنا ہی بھوکا کیوں نہ ہو اُسے اپنے سامع بہت عزیز ہوتے ہیں کہ فی زمانہ اور اُس زمانے میں بھی شاعروں کے لئے سامعین کا میسر آ جانا کسی نعمتِ غیر مترقبہ سے کم نہیں ہوتا تھا۔ سو براہِ راست سامع کو دعوتِ مبارزت دینا ایک نایاب سامع کو کھودینے کے مترادف تھا کہ سامع اگر شعر سنتے سنتے دعوتِ مبارزت کو قبول کرلیتا تو قحط زدہ شاعر کو لینے کے دینے بھی پڑ سکتے تھے۔ دوسرا اہم پہلو یہ تھا کہ اگر سامع کے اسلاف تک یہ بات پہنچ ہی جاتی اور وہ وفورِ جذبات و اشتعال میں کھانا آدھا چھوڑ کر یا ہاتھ میں پراٹھا لیے ہی باہر آجا تے تو کیا ہی بات ہوتی کہ بدتمیز پردیسی کیا چاہے، ایک پراٹھا۔  :)

ویسے کراٹے کے کھیل سے ہمیں اور بھی بہت کچھ یاد آ رہا ہے ابھی حال ہی میں ہمیں اس حوالے سے ایک پیشکش بھی ہوئی ہے جس کی بابت ہم ابھی غور فرما رہے ہیں ۔ بلکہ زیادہ غور اس بات پر ہے کہ اگر ہم یہ ہنر سیکھ گئے تو سب سے پہلے کس پر اُسے آزمائیں گے۔ اصولاً تو یہ ہمارے ایک بھائی کا ہی حق ہے کہ اُن کی کرم نوازی کے جواب میں ہمیں بھی تو کچھ نہ کچھ کرنے کی ضرورت ہے لیکن چونکہ ابھی یہ پیشکش اور دیگر معاملات ابتدائی درجے میں ہیں سو اس موضوع پر زیادہ موشگافیاں ہمارے اور کراٹے کے مستقبل پر اثر انداز ہو سکتی ہیں سو اس موضوع کو فی الحال ملتوی کرتے ہیں ۔

بہر کیف یہ شعر اس قدر زبانِ زدِ اطفالِ سادہ و رنگیں ہوا کہ مت پوچھیے اور دیکھتے ہی دیکھتے اس شہرہ آفاق نمونے کی بنیاد پر اس کے وہ وہ نسخے سامنے آنے لگے کہ اللہ دے اور بندہ لے۔ کچھ مثالیں دیکھیے:

آیا ہوں بڑی دور سے کھاتا ہوں ملائی
نکال اپنے باپ کو کرتا ہوں پٹائی

آیا ہوں بڑی دور سے کھاتا ہوں ٹماٹر
نکال اپنے باپ کو لگاتا ہوں جھانپڑ

آیا ہوں بڑی دور سے کھاتا ہوں سموسے 
نکال اپنے باپ کو لگاتا ہوں گھونسے
بچے خوش نصیب ہوتے ہیں کہ اُن کا واسطہ کسی عروض دان یا ناقد سے نہیں پڑتا ورنہ بچوں کی شاعری میں بھی وہ گھمسان کا رن پڑے کہ خدا کی پناہ ۔ سو یہاں بے بحرے اور بے وزن شعر بھی کمالِ محبت سے سماعت کیے جاتے ہیں اورخوب خوب دادِ شجاعت (اس طرح کے اشعار کے لئے دادِ شجاعت ہی بنتی ہے) کے حقدار قرار پاتے ہیں۔ اسی ضمن میں ڈھیروں اشعار شامل کیے جا سکتے ہیں لیکن دوسرا مصرعہ لکھتے ہوئے ہماری طبع ِ نازک و لطیف پراگندہ ہوتی ہے ، تہذیب و تمیز کے پرانے اسباق ہمیں ملامت کرتے ہیں اور دل میں گرہ سی پڑ کر رہ جاتی ہے سو تین اشعار پر ہی بس کرتے ہیں۔

اسی شعر سے ملتا جلتا ایک شعر معروف سیاح ابنِ بطوطہ سے بھی منسوب کیا جاتا ہے۔ 

آیا ہوں بڑی دور سے گِھستا ہوا جوتا
میں ابنِ بطوطہ ارے میں ابنِ بطوطہ​

یہ بات البتہ ابھی تک تحقیق طلب ہے کہ آیا ابنِ بطوطہ نے یہ شعر بذریعہ سرقہ اپنا بنایا یا دیگر متقدمین و معاصرین نے ابنِ بطوطہ کے تھیلے سے پار کر لیا۔ سو:

ع ۔ صلائے عام ہے یارانِ نکتہ داں کے لئے​

بچوں کے ہاں اِس قبیل اور اُس قبیل کے اور بھی کئی اشعار پائے جاتے تھے جن کا تذکرہ اس تحریر میں ہوسکتا ہے لیکن اُنہیں کسی اور نشست کے لئے اُٹھا رکھتے ہیں کہ بچپن کی یادیں تو آتی ہی رہتی ہیں اور جب بچپن کی کوئی یاد آ جائے تو انسان بیٹھے بٹھائے دنیا بھر کے جھمیلوں سے نکل کر یادوں کے میلوں میں کھو جاتا ہے، ایسے ہی کسی میلے سے واپسی پر ممکن ہوا تو ایک تحریر اور لکھ ماریں گے۔

٭٭٭٭٭٭٭

غزل ۔ نگاہ یار جسے آشنائے راز کرے ۔ حسرت موہانی

غزل

نگاہ یار جسے آشنائے راز کرے
وہ اپنی خوبی قسمت پہ کیوں نہ ناز کرے

دلوں کو فکر دوعالم سے کر دیا آزاد
ترے جنوں کا خدا سلسلہ دراز کرے

خرد کا نام جنوں پڑ گیا جنوں کا خرد
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے

ترے ستم سے میں خوش ہوں کہ غالباً یوں بھی
مجھے وہ شامل ارباب امتیاز کرے

غم جہاں سے جسے ہو فراغ کی خواہش
وہ ان کے درد محبت سے ساز باز کرے

امیدوار ہیں ہر سمت عاشقوں کے گروہ
تری نگاہ کو اللہ دل نواز کرے

ترے کرم کا سزاوار تو نہیں حسرتؔ
اب آگے تیری خوشی ہے جو سرفراز کرے

حسرت موہانی

سلیمانِ سخن تو خیر کیا ہوں ۔ انور شعور

غزل

سلیمانِ سخن تو خیر کیا ہوں
یکے از شہرِ یارانِ سبا ہوں

وہ جب کہتے ہیں، فردا ہے خوش آئند
عجب حسرت سے مُڑ کر دیکھتا ہوں

فراق اے ماں کہ میں زینہ بہ زینہ
کلی ہوں، گل ہوں، خوشبو ہوں، صبا ہوں

سحر اور دوپہر اور شام اور شب
میں ان لفظوں کے معنی سوچتا ہوں

کہاں تک کاہلی کے طعن سنتا
تھکن سے چور ہو کر گر پڑا ہوں

ترقی پر مبارک باد مت دو
رفیقو! میں اکیلا رہ گیا ہوں

کبھی روتا تھا اُس کو یاد کرکے
اب اکثر بے سبب رونے لگا ہوں

سُنے وہ اور پھر کرلے یقیں بھی
بڑی ترکیب سے سچ بولتا ہوں

انور شعورؔ​