غزل
اک تعلق کہ گلِ تازہ پہ ہنستی خوشبو
اک تصور کہ شب و روز برستی خوشبو
تھام کر دستِ صبا خوابِ عدم ہوتی ہے
گُلفروشوں کے بدن میں نہیں بستی خوشبو
میں دکھاوے کی محبت کا نہیں ہوں قائل
میں لگاتا نہیں اظہار کی سستی خوشبو
میں کہ پر شوق پرندہ ہے تخیّل میرا
تو ورا الماورا ہے، تری ہستی خوشبو
وہی اطوار ہیں دنیا ترے اُس شوخ کے سے
وہی پھولوں سا بدن ہے وہی ڈستی خوشبو
محمد احمدؔ
واہ۔۔۔۔ ماشاءاللہ۔۔۔ کیا ہی خوبصورت غزل ہے۔۔۔۔ اللہ کرے زور سخن اور زیادہ
جواب دیںحذف کریںشکریہ نیرنگ خیال بھائی!
جواب دیںحذف کریںآپ کی حوصلہ افزائی میرے لئے ہمیشہ مشعلِ راہ رہی ہے۔
شاد آباد رہیے۔